سارا کھیل اشتہار نکالکر ہیڈلائن حاصل کرنے کا ہے۔ جب آپ جوائننگ لیٹر ملنے اور جوائننگ ہو جانے کا رکارڈ دیکھیںگے تو پتا چلےگا کہ یہ تقرریاں نوجوانوں کو ٹھگنے کے لئے نکالی جا رہی ہیں، نوکری دینے کے لئے نہیں۔
اسٹاف سلیکشن کمیشن میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ طالب علم جب مانگکر رہے ہیں تو ان کی باتوں کو سنا جانا چاہئے۔ ایس ایس سی کے امتحان دینے والے طالب علموں کی تعداد کروڑ وں میں تو ہوگی ہی۔ ان کا کوئی رہنما نہیں ہے۔ تنظیم بھی نہیں ہے۔نہ ہی یونیورسٹیوں میں انتخاب جیتنے والی این ایس یو آئی یا اے بی وی پی ان کے مدعوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ پھر بھی یہ ہر بار ہزاروں کی تعداد میں دلی آکر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی بےچینیوں کی کئی وجہیں ہیں۔ ایس ایس سی کی تقرریاں کم ہونے لگی ہیں۔ تقرری کا امتحان ہوتا ہے تو بنا چوری اور دھاندلی کے الزامات کے پورا نہیں ہوتا ہے۔ایس ایس سی امتحان کرانے اور نتیجہ نکالنے میں کافی وقت لیتی ہے۔ رزلٹ آنے کے بعد جوائننگ کرانے میں بھی لمبا وقت لگ جاتا ہے۔ ایس ایس سی کے مارے لاکھوں طالب علموں کو پولیس لاٹھی سے بھگا تو سکتی ہے مگر جب تک وہ مسائل کو لےکر گھر لوٹتے رہیںگے، ان کے اندر وہ مسئلہ ابلتا رہےگا۔
میڈیا کے تمام فورم نے ایس ایس سی کی تحریک کو روٹین کی طرح کور کیا۔ ان کے کور کرنے سے نہ تو تحریکیں بنتی ہیں اور نہ ہی مٹ جاتی ہیں۔ ایسا ہوتا تو نہ کور کئے جانے کے بعد بھی ایس ایس سی کے طالب علم ہزاروں کی تعداد میں پٹنہ، جئے پور، شملہ اور ممبئی سے دلی نہیں آتے۔اسی طرح ریلوے ایپرینٹس والے نوجوان ملک بھر سے جمع ہو کر ممبئی میں سینٹرل ریلوے لائن کو تین چار گھنٹے کے لئے جام نہیں کر دیتے۔ یہ تمام کمیشن طالب علموں کو کچل رہے ہیں۔اگر کلاس کی وجہ سے صرف سی بی ایس ای کو کوریج ملےگا اور ایس ایس سی کو نہیں تو میڈیا اس عوام کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے جو اس سنگین بےروزگاری میں بھی اخبار خرید کر پڑھتا ہے اور کیبل کے پیسے دیتا ہے۔ ان طالب علموں کو سنجیدگی سے سنا جانا چاہئے نہ کہ لاٹھیوں سے بھگایا جانا چاہئے۔
سی بی ایس ای کو لےکر حکومت اپنی امیج کی ہی فکر کر رہی ہے۔ میڈیا کا وہ حصہ جس کو تعلیم کے سوال بیکار لگتے ہیں، اسی بہانے اپنی امیج چمکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی دلّی میں تعلیم کو لےکر اتنی ریلیاں ہوتی ہیں، کور سب کرتے ہیں مگر گفتگو کرنے کے وقت میڈیا غائب ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی جلدبازی دیکھئے۔تعلیمی محکمہ کے سکریٹری نے آکر اعلان کر دیا کہ دلی اور ہریانہ علاقے کے لئے ریاضی کا امتحان دوبارہ ہوگا۔ اگلے دن اخبار خبروں سے بھرے پڑے ہیں کہ بہار، جھارکھنڈ سے لوگ گرفتار ہوئے ہیں یا پھر سوال نامہ لیک ہونے کے تار ملے ہیں۔ کوئی ستیش پانڈے گرفتار ہوا ہے جس کے بارے میں اخباروں نے لکھا ہے کہ وہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)کا ممبر ہے۔ جو بھی ہے جب چھاپے بہار اور جھارکھنڈ میں پڑ رہے ہوں تو پھر کس بنیاد پر تعلیم کے سکریٹری کہہ گئے کہ صرف دلّی این سی آر اور ہریانہ میں ہی دوبارہ امتحان ہوگا۔ سارا معاملہ امیج بنانے اور بچانے تک سمٹکر رہ گیا ہے۔
اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کا 2016 کا امتحان ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ وجہ اس کے Preliminaryامتحان میں کئی متنازع سوال پوچھے گئے تھے۔ جس کو کورٹ میں چیلنج کیاگیا۔ تقریباً ساڑھے چار لاکھ نوجوانوں نے 633 عہدوں کے لئے امتحان دیا تھا۔ ابتدائی کے بعد مینس کا امتحان ہوا مگر کورٹ میں مقدمہ کی وجہ سے مینس امتحان کی کاپی چیک کرنے کا کام ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔
سپریم کورٹ نے کاپی جانچنے کے حکم دئے ہیں لیکن ڈیڑھ سال سے کچھ نہیں ہوا ہے۔ اس طرح کی کہانی آپ کو ہر ریاست میں ملےگی۔ مدھیہ پردیش میں پٹواری کا امتحان دینے والے طالب علم بار بار میسج کر رہے ہیں کہ جن کے کم نمبر ہیں وہ میرٹ لسٹ میں ہیں، جن کے زیادہ ہیں وہ میرٹ لسٹ سے باہر ہیں۔نوجوانوں کے درمیان کتنی ناامیدی ہوگی، پھر بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بھڑکانے کے لئے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہرجگہ وہی دکھ رہے ہیں۔وزارت ریل بڑے بڑے حروف میں اشتہار نکال رہی ہے کہ 1 لاکھ سے زیادہ نوکریوں کے اشتہار نکلے ہیں۔ کاش اس طرح کے اشتہار چار سال نکلتے رہتے تو اس دوران بھی بہت نوجوانوں کو نوکریاں مل جاتیں۔ اب انتخاب آ رہے ہیں تو ایسے اشتہار خوب نکلیںگے۔
وزیر ریل نے ابھی تک یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ کب تک امتحان ہو جائیںگے اور کب تک لوگوں کے ہاتھ میں تقرری نامہ ہوگا۔ ریلوے میں 2 لاکھ 20 ہزار عہدہ خالی ہیں پھر 1 لاکھ 20 ہزار اشتہار نکالنے کا کیا مطلب ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زیادہ نوجوانوں نے 90ہزارعہدوں کے لئے درخواست دی ہے۔ عمر کی وجہ سے نہ جانے کتنے نوجوان اس امتحان سے باہر ہو گئے ہیں تب بھی ڈھائی کروڑ نوجوانوں نے فارم بھرا ہے۔مدھیہ پردیش سے ایک نوجوان نے بتایا ہے کہ ریاستی بجلی محکمہ کی بھرتی نکلی تھی۔ 28 فروری 2017 تک جسمانی امتحان سے لےکر دستاویزوں کے جانچنے تک کا کام ہو چکا ہے۔ مگر ابھی تک جوائننگ لیٹر کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔
ہریانہ اسٹاف سلیکشن کمیشن نے 12 نومبر 2017 کو ڈرافٹس مین کا امتحان لیا تھا۔ 15 دسمبر کو جواب نامہ آ گیا تھا۔ اس امتحان کا اشتہار 2015 میں نکلا تھا۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ اسی ویکینسی کے لئے ہڈّا حکومت نے بھی اشتہار نکالا تھا، جس کے لئے انٹرویو جون 2014 میں ہو گیا تھا۔ مگر حکومت بدلنے کے بعد پھر سے اشتہار نکلا تاکہ لگے کہ نئی حکومت نئی بھرتیاں کر رہی ہیں۔سارا کھیل اشتہار نکالکر ہیڈلائن حاصل کرنے کا ہے۔ جب آپ جوائننگ لیٹر ملنے اور جوائننگ ہو جانے کا رکارڈ دیکھیںگے تو پتا چلےگا کہ یہ بھرتیاں نوجوانوں کو ٹھگنے کے لئے نکالی جا رہی ہیں، نوکری دینے کے لئے نہیں۔بہتر ہے کہ میڈیا اور سماج تمام امتحان کے انتظامات کو مکمل طور پر دیکھے۔ ان کی کمیوں پر بات کریں اور اس پر بات کریں کہ کس طرح نوکریوں کے اشتہار نکالکر حکومتیں نوجوانوں کو الو بنا رہی ہیں۔سی بی ایس ای والے طالب علم جب کالج سے نکلیںگے تو انہیں کمیشن سے سابقہ پڑنے والا ہے۔
(رویش کمار کے فیس بک پیج سے شکریہ کے ساتھ)
Categories: فکر و نظر