تحریک آزادی میں آر ایس ایس کا کوئی رول نہیں رہا۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے اسی لئے وہ سوشلزم کی تاریخ کو بھی مٹانا چاہتے ہیں۔
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی نے قانون ساز کونسل میں بات چیت کے دوران (28/3/2018)سوشلزم کا مقابلہ جرمنی کے نازی ازم اور اٹلی کے فاشزم سےکر ڈالا۔ ان کی مانیں تو سوشلزم وہی نظریہ (برانڈ) ہےجس کو ہٹلر اور مسولینی نے اپنایا اور اپنی طرح سے نافذ کیا۔سوشلزم پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے سوشلزم کو دھوکہ، سراب، جھوٹ اور پوری طرح سے ختم نظریہ بتایا۔ حد تو تب ہو گئی جب انہوں نے سوشلزم اور راشٹرواد کے درمیان داخلی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل تاثر تھاسوشلزم بنام راشٹرواد۔ان کے مطابق جو سوشلسٹ ہیں وہ نیشنلسٹ نہیں ہیں اور جو نیشنلسٹ ہیں، وہ سوشلسٹ نہیں ہیں۔اپنے خطاب میں وہ یہ ثابت کرتے ہوئے نظر آئے کہ راشٹر وادی تو صرف بی جے پی میں ہیں اور دوسرے تمام (سوشلسٹ اور دوسرے) اپوزیشن میں۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کی کئی طرح سے وضاحت ہو سکتی ہے، کوئی کہہ سکتا کہ ان کے بیان میں کچھ نیا نہیں ہے، وہ تو جانے ہی جاتے ہیں اپنے متنازع بیانات کے لئے۔ متنازع بیان دینا اور تنازعہ پیدا کرنا ان کی سیاست کا حصہ ہے۔کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حملہ سوشلزم کے نظریہ پر نہیں سماجوادی پارٹی پر ہے۔ وہ بنا نام لئے حزب مخالف پر حملہ کر رہے تھے اس لئے ان کے بیان کو طول دینے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن میں ان دلیلوں سے متفق نہیں، یوگی جیکے بیان کو بڑی سنجیدگی سے سمجھتے ہوئے وضاحت کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہوں، جس میں وہ مجھے اپنے بیان کے ذریعے تاریخ کی غلط وضاحت کرکےملک میں سوشلزم بنام راشٹر واد کی کھائی کو گہری کرتے اور آنے والے عام انتخابات کا سیاسی ایجنڈا سیٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میرے عدم اتفاق کے کئی اسباب ہیں۔پہلا، سوشلزم محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک نظریہ اور مفروضہ ہے۔ یوگی جی کا حملہ ایک پارٹی پر نہیں بلکہ اس نظریہ اور مفروضہ پر ہے۔دوسرا، یوگی جی کا بیان اور بھی سنگین ہو جاتا ہے، جب سوشلزم لفظ ایک اہم مقصد کے طور پر ہندوستانی آئین کالازمی حصہ ہے۔ کہیں یہ حملہ اس نظریہ پر تو نہیں ہے؟ کہیں ان کا بیان غیر آئینی تو نہیں ہے؟تیسرا، یوگی جی نے نہ صرف آئین میں سوشلزم کے روپ میں درج اصل جذبہ کی بے عزتی کی بلکہ اس کی غلط اور بیہودہ تعریف دے کر، نہ صرف ایوان کو، بلکہ ملک کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔چوتھا، سوشلزم کے نظریہ کا مقابلہ فاشزم اور نازی ازم سے کرنا نہ صرف گمراہ کرنے والا ہے، بلکہ تاریخ کی غلط وضاحت بھی ہے۔ یہ وزیراعلیٰ کو زیب نہیں دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ سوشلزم کی پروقار تاریخ کا مذاق اڑانے جیسا ہے۔
پانچواں، میرے خیال میں موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم ہے اپنی بیہودہ وضاحت کے ذریعے یوگی جی کی سوشلزم بنام راشٹر واد کی بحث کھڑی کرکے آئندہ لوک سبھا انتخابات کا ایجنڈا سیٹ کرنے کی کوشش۔ان کی کوشش ہے آر ایس ایس کے متعصب راشٹر واد کے بلڈوزر سے تمام سیاسی پارٹیوں اور غیر بی جے پی نظریات کو کچلنے کی کوشش۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ بیان صرف ‘ سیاسی ‘ تھا جس کے لئے ‘ جملےبازی ‘ اور جھوٹ بھی چلتا ہے، لیکن اگر یہ بیان ریاست کے سب سے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے وزیراعلیٰ کا ہو اور ایوان میں دیا گیا ہو توبھی کیا اس کو سنجیدگی کے دائرے سے باہر رکھا جا سکتا ہے؟اہم سوال یہ ہے، کیا سماجوادی پارٹی پر یا حزب مخالف پر حملے کے لئے سوشلزم کے نظریہ پر حملہ کرکے، مزاق اڑانا ضروری تھا، بالخصوص جب سوشلزم کا خیال، لفظ اور مفروضہ ہندوستان کے آئین کا لازمی حصہ ہے۔
سوشلزم محض ایک لفظ نہیں ہے، یہ ایک نظریہ ہے، مقصد ہے یا کہا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی اسٹینڈ،سیاسی مفروضہ ہے۔سوشلزم ایک ایسے نظام میں یقین رکھتا ہے، جس میں ملک کی اقتصادی سرگرمیوں پر حکومت یا ریاست کے ذریعے پورے سماج کا حق ہونے کو پہچان دی جاتی ہے اور سماجی عدم مساوات کو کم کرکےمحروموں کو مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوشلزم میں کسانوں، مزدوروں، خواتین اور ذات برادری کے اعتبارسے پسماندہ لوگوں کے مدعوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ ہندوستان میں سوشلسٹ رجحان کی لمبی اور شاندار تاریخ رہی ہے۔ اس نظریہ کے علمبردار راشٹر وادی اور مجاہد آزادی ڈاکٹر رام منوہر لوہیا، آچاریہ نریندر دیو، جے پرکاش نارائن وغیرہ رہے ہیں۔ان رہنماؤں نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھکر حصہ لیا اور کئی بار جیل بھی گئے۔ ہندوستان چھوڑو آندولن کے وقت جب گاندھی جی اور دوسرے بڑے کانگریس رہنما جیل میں تھے، تو جے پرکاش نارائن اور لوہیا جی نے زمین دوز ہو کر تحریک کی کمان سنبھالی، آخرکار وہ پکڑے گئے اور جیل کی سزا بھی کاٹی۔یہ شاندار تاریخ آر ایس ایس اور بی جے پی کو اپنے اندر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملےگی، جو دوسروں کے راشٹر واد پر انگلی اٹھاتے ہیں وہ یہ یاد کرنا اور بتانا بھول جاتے ہیں کہ آخر کتنی بار ہیڈگوار یا گولولکر آزادی کی لڑائی میں جیل گئے اور ساورکر کا آزادی کی تحریک میں کیا رول رہا۔
کیونکہ آزادی کی تحریک میں آر ایس ایس کا کوئی رول نہیں رہا، آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کی ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے، وہ سوشلزم کی تاریخ کو بھی مٹانا چاہتے ہیں۔ آزادی کے پہلے اور بعد میں سوشلسٹ نظریہ میں اعتماد رکھنے والی پارٹیوں نے ملک کی سیاست میں اہم کردار نبھایا ہے۔آزادی کے پہلے کانگریس پارٹی کے اندر 1934 میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی کی تشکیل ہوئی۔ مارکسزم ، جمہوریت اور سوشلزم سے متاثر کانگریس سوشلسٹ پارٹی نے مساوات اور انصاف کے نظریے کو اپنا سیاسی ایجنڈاا اور سماجی مقصد بناکر، سماجی،معاشی، سیاسی مساوات کے علمبردار بنے۔سوشلسٹ کا مقصد تھا، آزادی کے لئے، مضبوط عوامی تحریک کے لئے مزدوروں اور کسانوں کو منظم کرنا۔ سوشلسٹ نے کسانوں کے مفاد کے لئے زمینداری کی مخالفت کی اور سستے قرض اور قرض معافی کی مانگ کی۔
مزدوروں کے لئے کانگریس سوشلسٹ پارٹی نے مزدور یونین کی آزادی، کام کے کم گھنٹے اور مزدوروں کے لئے بیماری حادثہ بیمہ اور پنشن کی مانگ کی۔ سرمایہ دار کی مخالفت میں نیا آپشن قائم کرتے ہوئے کانگریس سوشلسٹ پارٹی نے اپنے اقتصادی ایجنڈے میں ملک کی بڑی صنعتوں پر ریاست کی اجارہ داری، اہم صنعتوں اور بینکوں کا سوشلائزیشن اور بنیادی ضروریات کے شعبے میں اصلاحی کام کا آغاز کرنے کی بات کہی۔سوشلسٹ مفکروں نے مغرب کی سوشلزم کی تقلید نہ کرکے، ہندوستانی سماج میں اس کی نئی وضاحت بھی کی۔ اس نئی وضاحت میں لوہیا جی کا اہم کردار رہا۔لوہیا نے ذات پات کی روایت کو ختم کرنے کو سوشلزم کے ایجنڈے کےلازمی حصہ کے روپ میں رکھا۔ ان کا ماننا تھا کہ ذات اور جنس کے عدم مساوات کو ختم کئےبغیر نہ سوشلزم اور نہ ہی جمہوریت کا قیام ہو سکتا ہے۔لوہیا جی اس بارے میں بےحد بےباک اور واضح تھے کہ ذات اور جنس کے عدم مساوات کو اقتصادی ایجنڈے سے الگ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق کوئی بھی جدید اقتصادی ترقی خودبخود ذات اور جنس کے عدم مساوات کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ اس لئے دوسرے سوشلسٹ لوگوں سے الگ انہوں نے پسماندہ ذاتوں اور خواتین کے لئے ریزرویشن کی بات کہی۔ساتھ ہی ساتھ سوویت یونین سے الگ، تشدد کی سیاست اور تشدد کے ذریعے سماجی تبدیلی کی لوہیا جی نے مخالفت کی۔ گاندھی جیکے مرید کے طور پر لوہیا، غیر متشدد طریقے سے سیاسی اور سماجی لڑائی کے مضبوط حامی رہے اور عدم تشدد کے ذریعے سوشلزم کی لڑائی کو آگے بڑھایا۔سوشلزم کی نئی وضاحت کرتے ہوئے لوہیا جی نے سیاسی اور اقتصادی طاقتوں کی مرکزیت کی مخالفت کی اورمساوات کی مکمل اقتصادی ترقی کے لئے سیاسی اقتصادی طاقتوں کی غیرمرکزیت کو ذریعہ مانا۔ وہ کسی بھی سرکاری سوشلزم کے مخالف تھے اور آزادی کے بعد کانگریس سے الگ اپنے سوشلسٹ نظریہ کو لےکر الگ سوشلسٹ پارٹی بناکر، اس نظریے کو آگے بڑھایا۔
یوگی جی کو شاید تاریخ کا کم علم ہے اس لئے ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے میں ان کو ہندوستانی اور سوشلزم کی تاریخ یاد دلانا چاہتی ہوں اور اس کو میں اپنی سیاسی اور سماجی ذمہ داری سمجھتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ سوشلزم پر جھوٹے اور بیہودہ الزام لگانے سے وہ مستقبل میں بچیں گے۔یوگی جی کا بیان تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ ہی نہیں، غیرقانونی بھی ہے۔ سوشلزم لفظ اور نظریہ ہندوستان کے آئین کی تمہید کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ آئین کے اصل ڈھانچے کا بھی لازمی جزو ہے۔معززسپریم کورٹ کے مطابق تمہید(Preamble)، آئین کا لازمی حصہ ہے اور مرکز ی اور ریاستی حکومتیں اس کی پابند ہیں۔
مطلب تمہید میں اعلان شدہ سوشلزم اور سیکولرزم جیسے نظریات کا سرکاری پالیسیوں اور طریقہ کار میں عمل ہونا ضروری ہے۔ کیشوانند بھارتی واد کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے واضح کہا ہے، ‘ کوئی بھی حکومت چاہے کتنی بھی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہو، وہ آئین کی اصل ساخت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتی ہے۔ ‘ اس لئے یوگی جی کا بیان ہندوستان کے آئین کی بنیادی ساخت (جس میں سوشلزم ہے) پر حملہ ہے۔سنگھ میں عقیدت رکھنے والے کچھ ‘ بھکت ‘ یا خود یوگی جی کہہ سکتے ہیں کہ سوشلزم لفظ آئین میں بعد میں لیا گیا اس لئے وہ کم اہم ہے۔ تو میں یاد دلانا چاہتی ہوں کہ بھلےہی سوشلسٹ لفظ آئین میں 1976 میں شامل کیا گیا لیکن اپنے اصل میں ہندوستانی آئین ہمیشہ سوشلزم کو سمیٹے ہوئے ہے۔
آئین میں موجودDirective Principles اگر سوشلزم نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بات سپریم کورٹ نے 1983 میں کہی ہے ۔بھلےہی لفظ بعد میں آیا لیکنDirective Principles میں ہمیشہ سے سوشلزم کے خیال کو اپنایا گیاتھا۔ان سب باتوں پر کوئی بھی حکومت اور خود وزیراعلیٰ یوگی جی نے عہدہ سنبھالتے وقت آئین پر عمل اور حفاظت کرنے کا حلف لیا ہے اور اسی آئین کا حلف لیا ہے جس میں سوشلزم لفظ اور نظریہ موجود ہے۔آئین میں عقیدت رکھنا اوراس کی عزت کرنا ان کا فرض اور مجبوری ہے، چاہے ان کو سوشلزم سے کتنی بھی نفرت اور اختلاف ہو لیکن اس پر عمل اوراس کی عزت تو ان کو کرنی پڑےگی۔ یہ میں نہیں، ہمارے ملک کا آئین کہتا ہے۔
ہو سکتا ہے یوگی جی نے سوشلزم کے خلاف اپنا بیان، وزیر اعظم مودی اور ان سے خاص لگاؤ والے طبقہ یعنی سرمایہ داروں اور صنعتی گھرانوں کو خوش کرنے کے لئے دیا ہو، لیکن اس چاپلوسی میں وہ آئین کے بنیادی جذبے کی بے عزتی تو نہیں کر سکتے ہیں۔ کیا سرمایہ دارانہ راشٹر واد کی گھوڑ سواری کرتے ہوئے آئین سے کھلواڑ کیا جا سکتا ہے؟یوگی جی نے ایوان میں اپنی تقریر میں سوشلزم کا مقابلہ فاشزم اور نازی ازم سےکر دیا۔ لیکن وہ بھول گئے کہ تاریخ میں آر ایس ایس، ہٹلر کے فاشزم کی مداح رہی ہے۔ گولولکر نے 1938 میں اپنی کتاب، We or Our Nationhood Defined میں ہٹلر کے نسل وادی راشٹر واد کی تعریف کی۔انہوں نے لکھا کہ اگر ہندوستان کو عظیم بننا ہے تو ان کو بھی عظیم ہٹلر کے نسل وادی راشٹرواد کی تقلید کرنی پڑےگی۔ اس کے برعکس اسی وقت سوشلسٹ لوہیا جی نے نہ صرف فاشزم اور نازی ازم بلکہ سامراجیت کی پرزور مذمت کی۔
سوشلزم کا مقابلہ فاشزم اور نازی ازم سےکرکے شاید یوگی جی آر ایس ایس کے گناہوں سے اپنے کو الگ کرنا چاہتے ہیں یا ‘ وہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘ کہاوت کو سچ کر رہے ہیں۔یہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئےایک سوچی سمجھی چال بھی ہو سکتی ہے، جس کے تحت متعصب راشٹرواد بنام سوشلزم کی بحث کا ایجنڈا سیٹ کر کے، ایک بار پھر سے ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش ہو۔لیکن بی جے پی کی یہ انتخابی چال اور جھوٹا پروپیگنڈا سوشلسٹ کے ساتھ نہیں چلےگا۔ کیونکہ ایک طرف سوشلسٹ کی پرانی راشٹر وادی تاریخ رہی ہے جس کو ہمارے آئین، اور عوام کے دلوں سے مٹانا یوگی جی کے لئے ممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ سوشلسٹ کا راشٹر وادسب کو ساتھ لےکر چلنے والا ہے، تو دوسری طرف بی جے پی کا راشٹر واد ایک خاص طبقے کی بات کرنے والا ہے اور اس لئے ادھوراہے۔
سوشلسٹ راشٹرواد دلت، مسلمان، پسماندہ اور خواتین کے خلاف نہیں بلکہ ان کو ساتھ لےکر چلنے والا ہے۔ یہ وہ راشٹر واد ہے جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف ہمیشہ ایک بڑا چیلنج بن کرکھڑارہا ہے۔ 90کی دہائی میں سوشلسٹ نے ہی لال کرشن اڈوانی کےمتعصب راشٹرواد کا رتھ اترپردیش اور بہار میں روکا تھا اور ایک بار پھر سے سوشلسٹ ، بی جے پی کی تعصب نظری اور ملک کو بانٹنے والےراشٹر واد کو روکنے کے لئے تیار ہیں۔اس کی جھلک ابھی گورکھ پور اور پھول پور لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں دیکھنے کو ملی ہے۔ گورکھ پور میں تو خود وزیراعلیٰ جی اپنی سابقہ لوک سبھا سیٹ نہیں بچا سکے۔شاید وزیراعلیٰ جی کا بیان ضمنی انتخاب کے ہار کی تکلیف کو دکھاتا ہے، جس میں وہ سوشلزم پر حملہ کرتے وقت آئین کے اصل جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بھی نہیں کتراتے اور نہ ہی اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔
(ریچا سنگھ الہ آباد یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کی سابق صدر اور سماجوادی پارٹی کی رہنما ہیں۔)
Categories: فکر و نظر