جموں میں تو اب کئی سالوں سے مسلم اکثریت کے سینوں میں میخ گاڑنے کے لیے گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کے یوم پیدائش تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔
تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور قبائلی حملہ کے حوالے سے تاریخ دانوں اورو قائع نگاروں میں خاصا اختلاف ہے۔ اگست اور اکتوبر 1947کے نہایت اہم فیصلہ کن تین ماہ کے دوران پیش آئے واقعات پر کئی ابہام ہیں۔ پچھلے 70سالوں سے اب اکثر مورخین بشمول کشمیری راہنماؤں نے بھی کسی حد تک اس تھیوری کو تسلیم کیا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کی ایما پرآئے قبائلی حملہ آوروں کے ذریعے برپا کی گئی غارت گری کی وجہ سے ہندوستان سے فوجی مدد مانگی ۔ جس کے جواب میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے د ستاویز الحاق پر دستخط کرنے کی شرط رکھی ۔ اور اس کے نتیجے میں نظم و نسق کو بحال کرنے کی خاطر 27اکتوبر 1947کو ہندوستانی فوج سرینگر میں وارد ہوئی۔
اس بیانیہ کے مطابق اگر قبائلی حملہ نہ کرتے تو مہاراجہ ریاست کو آزاد مملکت کے بطور تسلیم کروانے پر تلے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ کی خود نوشت سوانح حیات’ آتش چنار‘ ہو یاان کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ کی کتاب ’خاک ارجمند ‘یا سابق وزیر اعلیٰ سید میر قاسم کی ’داستان حیات‘…سبھی لیڈروں نے ا س تھیوری کو مستعار لے کر کشمیر کی موجودہ صورت حال کو پاکستانی حکمرانوں کی بے صبری اور ان کی کشمیر کو جلد از جلد نئی مملکت میں ضم کرنے کے ساتھ منسلک کیا ہے۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور پاکستان میں بھی اکثر دانشور اسی تھیور ی کو قبول کرتے ہیں۔ مگر حا ل ہی میں جواہر لال اور اندارا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب نے اس تھیوری کی ہوا نکال دی ہے۔
کتاب کو ان کے صاحبزادے اشوک پارتھا سارتھی نے ترتیب دیا ہے، جو خود بھی ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ 1971میں وہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سائنسی مشیر تھے۔ جی پارتھا سارتھی کے والد گوپال سوامی آئینگر تھے ، جو 1937سے 1943تک کشمیر کے وزیر اعظم یا دیوان تھے۔ بعد میں وہ نہرو کی ایما پر ہندوستان کی نو ممبری آئین ساز کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ خود جی پارتھا سارتھی بھی کشمیر کے معاملوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ 1973میں اندراگاندھی کی ایما پر انہوں نے محبوس شیخ محمد عبداللہ اور انکے معتمد افضل بیگ کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، جو 1975میں اندرا۔عبداللہ اکارڈ کی صورت میں منتج ہوا۔ جس کی ر و سے شیخ صاحب نے رائے شماری کا نعرہ ترک کرکے کشمیری تشخص کو برقرار رکھنے اور چنددیگر یقین دہانیوں کے بدلے وزارت اعلیٰ کی گدی سنبھالی ۔
جی پارتھا سارتھی کی یاداشتوں پر مشتمل کتابGP:1915-1995 کے مطابق قبائلی حملہ سے ایک ماہ قبل یعنی 23ستمبر 1947 کو ہی کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ مہاراجہ کے تذبذب کو ختم کرنے کے لیے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر کو ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا۔ پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا او راس دوران وہ مہاراجہ کو قائل کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجہ کے ان کا مستقبل ہندوستان میں ہی محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیر اعظم نے برجستہ کہا؛
’’مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لیکر ہی آؤ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے۔‘‘
اس بیک چینل کے نتیجے میں جب سردار پٹیل نے 26اکتوبر کو وی پی مینن کو دستاویز الحاق کے ساتھ سرینگر بھیجا، تو مہاراجہ نے بْغیر کسی لیت و لیل کے اس پر دستخط کئے۔ گو کہ کئی وقائع نگاروں کے بقول جو وقت اس دستاویز پر دستخط کرنے کادرج ہے، اس وقت مہاراجہ اور ان کا قافلہ قبائلیوں کے خوف سے سرینگر چھوڑ کر پیر پنچال پہاڑوں کے پیچ در پیچ راستو ں سے جموں کی طرف فرار ہو رہا تھا۔ اس کی فوج 22 اکتوبر کو اوڑی میں شکست سے دوچار ہوگئی تھی۔ اس کا کمانڈر ان چیف بریگیڈیر راجندر سنگھ ہلاک ہوچکا تھا۔ یہ سچ ہے کہ 1946 میں آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے سے مہاراجہ نے دونوں مملکتوں کو تذبذب میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ ستم ظریفی ہے کہ کشمیر کو آزاد مملکت قرار دینے پر کشمیری مسلمانوں کے بجائے ہندو مہا سبھا مصر تھی۔
مئی 1947کو ہندو مہا سبھا کی ورکنگ کمیٹی کے جموں ہیں ہوئے اجلاس میں باضابط ایک قرار داد پاس کی گئی، جس میں مہاراجہ کو بتایا گیا کہ ایک ہندو اسٹیٹ اور ایک ہندو مہاراجہ ہونے کے ناطے اسکو سیکولر انڈیا میں اپنی شناخت ضم نہیں کرنی چاہئے۔قرار داد میں مہاراجہ پر مکمل اعتمادظاہر کرتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ ریاست کے مستقبل کے تئیں ہندو مہا سبھا مہاراجہ کے فیصلہ کو تسلیم کرے گی۔ہری سنگھ کے اس تذبذب کوبل آخر گو پال سوامی آئینگر نے ختم کردیا اور قبائلی حملہ سے پہلے ہی ہندوستان کے ساتھ الحاق پر اسکو آمادہ کردیا۔ جی پارتھا سارتھی کے بیانیہ نے آسٹریلین محقق کرسٹوفر سنیڈن کی تحقیق کو بھی تقویت بخشی ہے۔سنیڈن نے بھی قبائلی تھیوری کو مسترد کرکے یہ انکشاف کیا تھا کہ مہاراجہ، نہرو اور سردار پٹیل کے درمیان خفیہ روابط تھے۔ آسٹریلین مصنف کے مطابق وہ خود حیران ہیں کہ آخر ہندو پاک میں محقیقین، مورخین اور سیاسی رہنماؤں نے آنکھیں بند کرکے کس طرح اس قبائلی حملہ کی تھیوری کو تسلیم کیا ہوا ہے؟
گوکہ یہ سچ ہے کہ 22اکتوبر کو ڈوگرہ فوج کو شکست دینے کے بعد قبائلی دستوں نے سرینگر کی طرف مارچ کرنے کے بجائے بارہمولہ اور سوپور میں پورا ایک ہفتہ لوٹ مار، غیر مسلموں خاص طور پر سکھوں کو سبق سکھانے میں ضائع کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ سرینگر ایئر پورٹ پر ہندوستانی ملٹری انٹلی جنس کے اہلکار پہلے ہی تعینات کئے گئے تھے۔ سنیڈن کے بقول قبائلی حملہ کا ماخذ اگست 1947کو مہاراجہ کے خلاف پونچھ کے مسلمانوں کی بغاوت تھی، جس کو ڈوگرہ فوج نے سختی سے کچل ڈالا تھا۔ جموں کے طول و عرض میں مہاراجہ اور مہارانی تارا دیوی کی ایما پر مسلمانوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ چونکہ پونچھ اور جموں کے مسلمانوں کی رشتہ داریاں سرحد اور پنجاب کے دیگر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی، ان فسادات کے رد عمل میں قبائلیوں نے ریاست کی سرحد عبور کی۔
حیر ت کا ایک اور مقام ہے کہ پاکستان اور پاکستانی کشمیر میں بھی چند افراد جو خود کو قوم پرست گردانتے ہیں ان ڈوگرہ حکمرانوں کو ریاست کے ہیرو اور وارث کے بطور درجہ دلوانے میں تلے ہوئے ہیں۔ان کی دلیل ہے کہ ریاست کی غیر منقسم شناخت مہاراجہ گلاب سنگھ نے عطا کی ہوئی ہے۔ جموں میں تو اب کئی سالوں سے مسلم اکثریتی طبقہ کی سینوں میں میخ گاڑنے کیلئے گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کے یوم پیدائش تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے تاکہ یہ باورکرایا جائے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمراں تھے۔ اکھنور میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشینوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔
اس خطے کے ایک مقتدر لیڈر اور قلم کار کرشن دیو سیٹھی نے اس روش کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جموں کے اصلی ہیروں کی یادیں لوگوں کے ذہن سے محو کردینے کے مترادف ہے۔ یہ کوشش ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر کرتے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے مرحوم راہنما اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم بھی دورہ دہلی کے دوران کرن سنگھ کو یوراج کے القاب سے نوازتے رہے ہیں ۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کا بت بھی جموں میں کھڑا کیا گیا ہے جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبر و تشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اورعوامی مفادات بیچ کر اقتدارحاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی ہے۔ انہوں نے اس ریاست میں راج کس طرح حاصل کیا، وہ تاریخ میں درج ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام اور لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔
جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبر دست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے۔ راجہ گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کرمیاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کیا۔جس کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ سکھ دربار کو خوش کرنے کے لئے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری،کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے گئے یا انہیں ملک بدرکیا گیا۔کھالوں میں بھوسہ بھر کردرختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے۔
اس خدمت خاص کے عوض اور 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ”بیع نامہ امرتسر‘‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ 1846ء سے 1947ء تک جموں کے ”ہیروؤں‘‘ کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ کرشن دیو سیٹھی کا کہنا ہے کہ جموں کے اصل ہیرو میاں ڈیڈو، کیسری سنگھ‘ پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آ زادی کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کردیں۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں دھنونتری بھاگ مل وغیرہ بے شمار مجاہدین آزادی ہیں جنہوں نے زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ جد و جہد آزادی میں سردار بدھ سنگھ، راجہ اکبر خان، چوہدری غلام عباس وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے راجواڑہ شاہی کے خلاف مجاہدانہ لڑائی لڑی۔ عوامی نکتہ نظر سے اس سے بھی پہلے باواجیتو کا نام آتا ہے جنہوں نے جاگیردارانہ ظلم و تشدد کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ یہی لوگ تاریخ جموں کے ہیرو ہیں‘ مگر ہندو انتہا پسندی کی آڑ میں خطے میں جاگیردارانہ نظریات کے احیائے نوکی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ تاکہ جموں میں بسے مسلمانوں اور کشمیر کے اکثریتی فرقے کو ایک بار پھر کمزور اور سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے۔
Categories: فکر و نظر