فکر و نظر

آن لائن میڈیا پر مودی حکومت کے حملے سے اٹھتے سوال

عام انتخابات نزدیک ہیں اور یہ صاف ہے کہ مرکز کی مودی حکومت آن لائن میڈیا پر لگام لگانا چاہ رہی ہے جس نے گزشتہ کچھ سالوں میں حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

اطلاعات و نشریات کی وزیر اسمرتی ایرانی نے آن لائن میڈیا کے پیش نظر نئے قاعدے قانون بنانے کے لئے جس کمیٹی کی تشکیل کی ہے، اس کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے 9ممبروں میں سے پانچ مرکزی حکومت کی الگ الگ وزارتوں یا محکمہ جات کے سکریٹری ہیں۔ان میں وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت داخلہ، وزارت انفارمیشن اور ٹکنالوجی، Department of Industrial Policy and Promotion اور محکمہ قانون شامل ہیں۔اس میں آن لائن میڈیا کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں ٹی وی چینلوں کے ریگولیٹری اداروں؛ نیشنل براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن (این بی اے)اور انڈین براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن کا ایک ایک نمائندہ ہے۔ اس میں پریس کاؤنسل آف انڈیا سے بھی ایک ممبر ہے۔

اس کمیٹی کی تشکیل صاف دکھاتی ہے کہ وہ نوکر شاہ جو یہاں اکثریت میں ہیں، وہی قانون بنائیں‌گے۔ اس سے یہ بھی واضح ہے کہ مودی حکومت کو لگتا ہے کہ ان نوکر شاہوں میں کاروبار سے جڑے مختلف اصولوں جیسے غیر ملکی سرمایہ کاری پالیسی بنانے کے ساتھ آن لائن میڈیا کے لئے لائسینسنگ اور مواد کے انتخاب جیسے معاملوں میں فیصلہ لینے کی بھی صلاحیت ہے۔اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مودی حکومت ان آن لائن میڈیا اداروں پر قدغن لگانا چاہتی ہے، جس نے گزشتہ  کچھ سالوں میں حکومت سے سوال پوچھنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی حکومت کو فیس بک اور گوگل آن لائن میڈیا نشریات کے ذرائع کی طاقت کا اندازہ بھی ہو گیا ہے، جو چھوٹے آن لائن میڈیا فورم کے لئے ایک بڑے ڈسٹریبیوٹر چینل کی طرح کام کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنا کنٹینٹ  بڑے صارفین  تک پہنچا پاتے ہیں۔فیس بک کے عالمی سطح پر تقریباً دو کروڑ یوزر ہیں۔ وہیں ایک تخمینہ کے مطابق جلدہی گوگل کے پاس ہندوستان کی  مقامی زبانوں کے تقریباً 50 کروڑ یوزر ہوں گے۔ان میڈیا نشریات کے ذرائع نے چھوٹے آن لائن میڈیا چینلوں کو اس طرح مضبوط کیا ہے کہ حکومت پر سوال کھڑے کرتی اہم ریسرچ  رپورٹ کو روایتی میڈیا ذرائع کی توقع سے زیادہ قارئین/ ناظرین / سامعین ملتے ہیں۔ مختصر اً سمجھیں تو خبروں اور خیالات کی نشریات پہلے کے مقابلے میں کافی جمہوری‎ ہو گئی ہے۔

یہ بھی صاف دکھتا ہے کہ موجودہ اقتدار ان میڈیا نشریات کے ذرائع کی کسی رپورٹ کے وائرل ہونے میں اس کے کردار کو لےکر کافی محتاط ہے۔ اور بی جے پی حکومت کے آخری سال میں یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حکومت، جس نے ملک کی عوام کو چاند تارے لانے جیسے وعدے کئے تھے، زیادہ سے زیادہ سوال کئے جائیں‌گے۔وزارت کی اس کمیٹی کے ذریعے گوگل اور فیس بک جیسے میڈیا ذرائع کے ضابطہ کے لئے خاص شرطیں بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا ذرا مشکل ہوگا۔ حکومت ٹی وی نیوز چینلوں کو ان کی اَپ لنکنگ اور ڈاؤن لنکنگ کو کنٹرول کرکے منضبط کرتی ہے۔ ملک میں 847چینل کے پاس لائسنس  ہیں، جن کے کنٹینٹ پر حکومت کی سیدھی نظر رہتی ہے اور وہ اگر کسی اصول کے خلاف جاتے ہیں، تو حکومت ان کو سزا دے سکتی ہے۔

لیکن آپ کیسے ہزاروں چھوٹے آن لائن میڈیا اداروں اور دیگر آدمیوں کی نگرانی کریں‌گے یا ان پر قابو رکھیں‌گے جو لگاتار فیس بک پر ٹیکسٹ اور ویڈیو اَپ لوڈ کرتے ہیں؟ یہ طے نہیں ہے کہ کمیٹی کے پانچ بیوروکریٹ  نے اس بارے میں سوچا ہے یا نہیں۔خیر، ہندوستان اس طرح کی پالیسی بناکر چین کے راستے پر جا سکتا ہے جہاں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کئے گئے گھریلو سامان قومی حدود کے اندر واقع سرور سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ ایسی پالیسی ان آن لائن میڈیا اداروں کو سب سے زیادہ متاثر کرے‌گی جن کے سرور موجودہ وقت میں  بیرون ملک میں واقع ہیں۔

عالمی سطح پر اور مختلف الرائے فورم پر ہندوستان اس وقت  کھلے انٹرنیٹ سسٹم کی حمایت کرتا ہے، یہ چین اور روس کے اس نظام کے خلاف ہے جس میں ٹریفک اور سامان کی زیادہ نیشنل لیول کی نگرانی کے لئے دلیل دی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا آن لائن اسپیس کو لےکر گھریلو سطح پر ریگولیشن ہندوستان کےعالمی سطح پر اظہارہونے والےاپنے لبرل  نقطہ نظر کو دکھاتا ہے؟ تضاد تب زیادہ بڑھ جاتا ہے جب آن لائن میڈیا اسپیس کو لےکر ریگولیشن کی بات ہوتی ہے۔ کنٹیٹ (مواد) اور تقسیم (ڈسٹری بیوشن) کا ریگولیشن تو ایک طرف ہے۔ حکومت اس کو لےکر سخت غیر ملکی سرمایہ کاری نظام کے ساتھ آ سکتی ہے۔ وہ 100 فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ موجود پلیئرس کو غیر ملکی ایکوٹی کے ساتھ گھریلو شیئر سرمایہ کے لئے مجبور کر سکتی ہے۔

یہ افراتفری کی حالت ہوگی۔ ابتک آن لائن میڈیا صنعت بے ترتیب رہی ہے اور اس نے صنعت کا لامحدود اضافہ دیکھا ہے۔ نئے اصولوں کے ساتھ، چیزیں بہت الگ ہوں گی۔یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے مفت میڈیا اسپیس پر حملے سے کم نہیں ہے۔ اور روایتی اخبار اور ٹی وی چینلوں کے مالکوں کو اگر یہ لگتا ہے کہ یہ صرف نئے ابھرتے ہوئے آن لائن میڈیا کھلاڑیوں کے بارے میں ہے تو ایک بڑی غلطی ہوگی۔