خبریں

جج لویا معاملے پر بہت ہی غلط فیصلہ، سپریم کورٹ کے لئے کالا  دن : پرشانت بھوشن

سہراب الدین انکاؤنٹر کیس  سے منسلک جج بی ایچ لویا کی مشتبہ حالت میں موت کے معاملے میں آزاد تفتیش کی مانگ کو سپریم کورٹ کے ذریعے ٹھکرائے جانے کے بعد وکیل پرشانت بھوشن کا بیان۔

پرشانت بھوشن۔ (فوٹو : رائٹرس)

پرشانت بھوشن۔ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی  : سپریم کورٹ نے اسپیشل  سی بی آئی جج برج گوپال ہرکشن لویا کی موت کی آزاد تفتیش کرانے کی مانگ کرنے والی عرضیاں خارج کر دی ہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی رہنمائی والی تین رکنی عدالتی بنچ نے کہا کہ بی ایچ لویا کی موت قدرتی وجہوں سے ہوئی تھی۔ اس معاملے پر وکیل پرشانت بھوشن کا بیان …

سپریم کورٹ نے جج لویا کے معاملے میں فیصلہ سنایا ہے۔ انہوں نے ان ساری عرضیوں کو جس میں جج لویا کی موت کی آزاد تفتیش کی مانگ کی گئی تھی، خارج کر دیا ہے اور یہ بولا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس ان چار نچلی عدالت کے ججوں کی بات پر اعتماد نہیں کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جو اسٹیٹمنٹ ان ججوں نے ، کہا جاتا ہے کہ مہاراشٹر کے ایک پولیس افسر کو دئے اور انہوں نے کہا کہ ان ججوں نے یہ بولا تھا کہ جج لویا ان کے ساتھ رات میں گیسٹ ہاؤس میں رکے تھے۔ اس کے بعد ان کو چیسٹ میں درد ہوا تھا تو ہسپتال لے گئے تھے۔ پھر دوسرے ہسپتال لے گئے تھے۔ جہاں ان کی موت ہو گئی تھی۔

اس لئے ان چار ججوں کے اسٹیٹمنٹ کے حساب سے کوئی وجہ نہیں ہے  اس پر شک کرنے کی ۔ اس بنیاد پر سپریم کورٹ نے آزاد تفتیش کی مانگ کو ٹھکرا دیا ہے۔ بدقسمتی سے چار جج جن کا کوئی affidavit پر اسٹیٹمنٹ سپریم کورٹ کے سامنے نہیں آیا اور اس پولیس افسر کا بھی کوئی affidavit پر اسٹیٹمنٹ نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے کوئی یہ یقینی طور پر کہہ بھی نہیں سکتا کہ بھائی ان ججوں نے یہ اسٹیٹمنٹ دیا۔

اگر ان ججوں کا اسٹیٹمنٹ مان بھی لیا جائے تو جسٹس کو ل نے جج لویا کی ای سی جی اور ہسٹرو پیتھولاجی رپورٹ کی بنیاد پر یہ بولا تھا کہ اس میں ذرا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔ ہارٹ اٹیک کا کوئی ثبوت اس ای سی جی میں نہیں ہے جس ای سی جی کے بارے میں تھوڑا شک تھا لیکن بعد میں حکومت نے کہا تھا کہ بھئی اس ہسپتال میں ان کا یہی ای جی سی لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس ای سی جی میں ہارٹ اٹیک کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔ ہسٹرو پیتھولاجی کی رپورٹ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پھر بھی ان ججوں کے اسٹیٹمنٹ کی بنیاد پر جو affidavit پر بھی نہیں آئے تھے، سپریم کورٹ نے آزاد تفتیش کی مانگ کو ٹھکرا دی۔ جبکہ اتنے سارے شکوک پیدا ہوئے تھے۔ ان کی فیملی نے کہا تھا کہ جج لویا کو وہاں کے چیف جسٹس نے رشوت  کی پیشکش کی تھی۔ اس پر بھی کوئی تفتیش نہیں کرائی گئی۔ ان کی فیملی نے کہا تھا کہ ان کے کپڑوں پر خون کے نشان تھے لیکن اس کی بھی کوئی تفتیش نہیں کرائی گئی۔ یہ سوال بھی اٹھا تھا کہ تین جج، دو بستر کے ایک کمرے میں رات میں کیسے سوئے اور کیوں سوئے جبکہ اس گیسٹ ہاؤس میں کئی اور کمرے تھے جو کہ خالی تھے۔

تو یہ کہانی جو بنائی گئی کہ تینوں جج ایک ہی کمرے میں سو رہے تھے۔ اس کہانی کی بھی تفتیش ہونی چاہیے  لیکن سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر یہ بھی بول دیا کہ جو ایک سوال میں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ آپ جو جج اس کی سماعت کر رہے ہیں وہ جج کیونکہ ان مہاراشٹر کے ججوں کو جانتے ہیں، کیونکہ دو جج مہاراشٹر سے تھے اور آپ اپنی  نالج کی بنیاد پر اس کیس  کو ڈیسائڈ کر دیں کہ آپ ان ججوں کو جانتے ہیں جبکہ ان کا اسٹیٹمنٹ affidavit پر بھی نہیں آیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس بنیاد پر انہوں نے بول دیا کہ نہیں نہیں یہ تو بالکل غلط بات ہے یہ کہنا کہ ہمیں اس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے ۔ وغیرہ وغیرہ …

میری رائے میں یہ ایک بہت ہی غلط فیصلہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے لئے میری رائے میں ایک کالا  دن ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے بجائے اس کے کہ بھائی ایک آزاد تفتیش ہو جائے جب اتنے سارے شکوک ہو گئے تھے۔ جج لویا کی موت کے اوپر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔