آج جن لوگوں کو ارون جیٹلی “Institution disrupters”بتا رہے ہیں، ان کو یو پی اے-IIکے دورحکومت کے وقت بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے پر بی جے پی نے سرآنکھوں پر بٹھایا تھا۔
گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نے مفاد عامہ میں کام کر رہے کچھ وکیلوں اور کچھ ریٹائر ججوں کو “Institution disrupters”اور سازش کرنے والا بتایا، جن سے عدلیہ کو خطرہ ہے۔ لیکن مودی حکومت کے اندر بیٹھے ان لوگوں کا کیا، جن پر ملک کے سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے عدلیہ پر ‘ لگاتار حملے ‘ کا الزام لگاتے ہوئے اس کا کام روکنے کی بات کہی تھی؟اس وقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشترکہ سپریم کورٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے، تب سی جے آئی ٹھاکر نے اکتوبر 2016 میں کہا تھا، ‘ آپ کسی ادارہ کو بند نہیں کر سکتے۔ ملک کے زیادہ تر ہائی کورٹ اپنی صلاحیت کے 60فیصد سے کم پر کام کر رہے ہیں۔ کیوں حکومت نے 8 مہینے سے تقرری کی سفارشوں کو لٹکا رکھا ہے؟ ‘ اتفاق سے جب انہوں نے یہ کہا تھا، تب جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ان کے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔
If intimidatory tactics of “Institution Disruptors” and impeachment motion are threats to judicial independence, the single greatest threat is the divided court itself
— Arun Jaitley (@arunjaitley) April 20, 2018
ٹی ایس ٹھاکر کے اس بیان کو یاد کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ جیٹلی نے ان رکاوٹوں کے لئے حکمراں جماعت کے کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ایک جماعت یعنی حزب مخالف کو ہی ذمہ دار بتایا ہے۔ایک دوسرے ٹوئٹ میں جیٹلی نے ‘ مفاد عامہ کے رہبَروں ‘ کو ‘ اداروں کے کام میں خلل ڈالنےوالا ‘ بتایا ہے۔حالانکہ جیٹلی اس بات کو چھپا گئے کہ ان لوگوں ،جن میں جیٹلی کے مطابق وکیل اور ریٹائر جج ہیں ؛ کو ایک وقت میں بی جے پی نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، جب انہوں نے یو پی اے 2 کے دورحکومت کی بد عنوانی کے خلاف پی آئی ایل کے ذریعے لڑائی لڑی تھی۔
Over the last few years one has witnessed the evolution of some public interest crusaders graduating into “Institution Disruptors”. They pick-up even false causes and pursue the falsehood with a sense of deep commitment, indulge in intimidating advocacy & justice dispensation.
— Arun Jaitley (@arunjaitley) April 20, 2018
کیسے بھول سکتے ہیں کہ ان ‘اداروں کی رکاوٹوں ‘ کی طاقت کی ہی لہر پر سوار نریندر مودی نے آزاد لوک پال کے وعدے کے ساتھ اقتدار کی باگ ڈور حاصل کی تھی! آج وہی لوگ حکمراں جماعت کے لئے مصیبت بن چکے ہیں کیونکہ انہوں نے مجلس عاملہ اور عدلیہ میں ہو رہی بد عنوانی اور غلط طور طریقوں کے خلاف اپنی لڑائی مسلسل جاری رکھی ہے۔اور سریم کورٹ اس لئے اتنی منقسم ہے کیونکہ سپریم کورٹ اس طرح سے رد عمل دیتا نہیں دکھتا جیسے اس نے یو پی اے 2 کے وقت زیادہ صاف اور شفاف اداروں کے لئے ابھرے مہم کے وقت دیا تھا۔ یہی بی جے پی کے دوہرے معیار سامنے آتے ہیں۔
بی جے پی چاہتی ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ ‘اداروں میں آ رہی یہ رکاوٹ ‘ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے مقصد سے سیاسی طور پر ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ ہلچل کافی لمبے وقت سے تقریباً ڈیڑھ دہائی سے ہو رہی تھی اور اس کی وجہ جمہوری تبدیلی ہے، جس کی وجہ عوام انتظامیہ اور عدالتی نظام میں اور زیادہ شفافیت کی مانگکر رہی ہے۔واضح ہے کہ مودی حکومت میں اس کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا۔ مودی حکومت میں ابتک پچھلے حالات کے مقابلے میں زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی اور یہ ہر غلطی کے باقی تمام خاص کر حزب مخالف کو ذمہ دار ٹھہراکر خوش ہے۔
ملک کے چیف جسٹس کے خلاف Impeachment motion لانے کے قدم پر فلی نریمن اور سولی سورابجی جیسے مشہور قانون داں نے سخت مخالفت ظاہر کی۔ لیکن یاد ہونا چاہئے کہ نریمن خود مودی حکومت میں جمہوری اداروں میں آ رہی گراوٹ کے بارے میں شکایت کر چکے ہیں۔ یعنی کہ Impeachment motion لانے کا قدم یقیناً اس انتظامی گراوٹ کی اصل وجہ نہیں ہے لیکن لگتا ہے کہ اس گراوٹ کی وجہ کینسر کی طرح اندر سے سڑ رہا انتظام ہے، جس کو ٹھیک کرنے کے بجائے رہنماؤں نے اس کا صرف استحصال کیا۔
جیٹلی کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ سب سے بڑا خطرہ ‘ منقسم کورٹ ‘ ہے۔ تو کیوں سپریم کورٹ پہلے کے مقابلے میں اتنا بٹا ہوا ہے؟ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کا میڈیا کے سامنے آکر ‘ جمہوریت خطرے میں ہے ‘ کہنے کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ موجودہ حکومت بھلےہی اس بات سے منھ موڑنے کی کوشش کرے، لیکن وہ یہ دکھاوا نہیں کر سکتے کہ اس کا ان کے سرکاری طورطریقوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہاں یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت کے دورخی داؤ پیچ ہی چیف جسٹس اور ان چار ججوں کے درمیان کھائی کو گہرا کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ اور یہ داؤ پیچ دیپک مشرا کے چیف جسٹس بننے سے شروع نہیں ہوئے۔ سابق سی جے آئی ٹی ایس ٹھاکر کے بیان دکھاتے ہیں کہ ایسا پہلے سے ہو رہا تھا۔
دراصل یہ بھی یاد کرنا چاہئے کہ جب سے بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، تب ہی سے سپریم کورٹ کے کام میں، جیٹلی کے الفاظ میں کہا جائے تو رکاوٹیں آنی شروع ہوئی ہیں۔ مرکزی حکومت کا پہلا قدم سینئر وکیل گوپال سبرمنیم کے سپریم کورٹ کے بطور جج نامزدگی کو نامنظور کرنا تھا، وہ بھی ایسے میڈیا میں پلانٹ کی گئی ایسی رپورٹس کی بنیاد پر جن کا ماخذ انٹیلی جنس بیورو کو بتایا گیا تھا۔یاد ہو کہ سبرمنیم کو سی جے آئی آر ایس لوڑھا نے جج بننے کے لئے خاص طورپر مدعو کیا تھا کیونکہ اس سے پہلے کے چیف جسٹسوں کے ذریعے ان کے قانونی کام کی کافی تعریف کی گئی تھی۔
لیکن مرکز نے ان کی نامزدگی کی مخالفت کی کیونکہ سپریم کورٹ کے ذریعے سبرمنیم کو سہراب الدین شیخ، کوثر بی اور تلسی رام پرجاپتی کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعے سی بی آئی تفتیش اور استغاثہ کی نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ 2014 میں یہ مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان کا پہلا ٹکراؤ تھا۔تب سے ججوں کی تقرری کا عمل اور خراب ہوتا گیا کیونکہ مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان تقرری کے لئے کیا اہتمام اپنایا جائے، اس پر اتفاق نہیں بن سکا۔ اصل میں اس کے پیچھے ایک زہریلا سیاسی پس منظر ہے، جس کی وجہ سے ہی سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کو عوام کے سامنے آکر میڈیا سے مخاطب ہونا پڑا۔
یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ مرکز اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ کے کئی واقعات میں بی جے پی کے صدر ڈرامائی طورپر کہیں نہ کہیں موجود ہیں، جو جج لویا معاملے کے فیصلے میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یاد کیجئے کہ سہراب الدین شیخ،تلسی پرجاپتی معاملے کی سی بی آئی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔سی بی آئی کی تاریخ میں ایسا ہونا غیر متوقع ہے جہاں اس نے کسی معاملے میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں اپنی ہی دائر کی گئی کسی چارج شیٹ کو مسترد کر دیا۔ یہاں سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس کو “Institution disrupters” نہیں کہا جانا چاہئے۔
Categories: فکر و نظر