پیرامل کے ذریعے ہتک عزت کی دھمکی پر دی وائر نے کہا، ‘ عوام کو وزرا کے کاروباری لین دین کے بارے میں جاننے کا پورا حق ہے، بالخصوص اگر اس میں مفادات کا ٹکراؤ ممکن ہو اور ایسے معاملوں پر رپورٹ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ ‘
نئی دہلی: ریل اور کوئلہ وزیر پیوش گوئل کے ارب پتی اجے پیرامل کے ساتھ سال 2014 میں کاروباری لین دین کے معاملے میں ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ پر سوال اٹھانے والی رپورٹ کی دی وائر پر اشاعت کے کچھ گھنٹوں کے اندر بی جے پی نے اپنے رہنما کے بچاؤ میں اترتے ہوئے کہا کہ ‘فیکٹ واضح طور سے دکھاتے ہیں کہ شری گوئل نے کسی قسم کا غلط کام نہیں کیا ہے، نہ ان پر کسی قسم کی بدانتظامی کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ ‘دی وائر کی خبر نے دکھایا تھا کہ ‘ گوئل نے اپنی اور اپنی بیوی کی ذاتی ملکیت والی کمپنی فلیش نیٹ انفو سالیوشنس پرائیویٹ لمیٹیڈ ‘ کی پوری حصےداری، اس کی درج قیمت (فیس ویلیو) سے قریب 1000 گنا قیمت پر بیچی۔ یہ فروخت گوئل کی مودی حکومت میں ریاستی وزیر(فری چارج)بننے کے چار مہینے بعد ہوئی۔اس وقت ان کے پاس Ministry of Power and Renewable Energyتھی۔ پیرامل گروپ کا بھی اس علاقے میں مفاد تھا۔
دی وائر کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد پریس کانفرنس اور بیان جاری کرکے پیوش گوئل کا استعفیٰ مانگنے والی کانگریس پارٹی پر حملہ بولتے ہوئے، بی جے پی نے کہا کہ گوئل ‘ جس دن وزیر بنے اس دن سے انہوں نے سارے پیشہ ور/کاروباری سرگرمیاں بند کر دیں، ڈائریکٹرشپ کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تمام سرمایہ کاری کو بیچنے کا عمل شروع کر دیا۔ ‘پارٹی نے اپنے بیان میں کہا، ‘ فلیش نیٹ شیئروں کی فروخت جولائی 2014 میں ہوئی، یعنی 25 جولائی، 2014 کو جائیدادوں اور دین داریوں کا اعلان کرنے سے پہلے۔ نہ کہ 29 ستمبر 2014 کو جیسا کہ کانگریس کی طرف سے جھوٹاالزام لگایا گیا ہے۔ یہ فروخت زیادہ سے زیادہ بازار قیمت پر، تھرڈ پارٹی کے ذریعے، آزاد طریقے سے ماہرین کے ذریعے طےشدہ قیمت کے مطابق ہوئی۔ اور اس فروخت کی پوری رقم جائیداد کے اعلان سے پہلے بینک میں جمع کی گئی اور جمع کی گئی جائیدادوں کی قیمت میں اس کو پوری طرح سے ظاہر کیا گیا ہے۔ ‘
گوئل کو ایک ‘ مشہور چارٹرڈاکاؤنٹینٹ ‘ بتاتے ہوئے بی جے پی نے یہ جوڑا کہ ‘ شری گوئل کے ذریعے وزیر اعظم دفتر کے سامنے دی گئی جائیدادوں اور دین داریوں کے اعلان سے جڑی تمام اطلاعات عوامی دائرے ہیں۔ ‘دی وائر کی خبر نے اس جانب دھیان دلایا تھا خود فلیش نیٹ کے ذریعے جمع کرائے گئے رٹرن میں گوئل کے ذریعے شیئروں کو منتقل کرنے کی تاریخ 29 ستمبر 2014 تھی۔ وزیر اعظم دفتر میں گوئل کے ذریعے 2014 اور 2015 کے لئے کئے گئے جائیداد کے اعلان میں فلیش نیٹ کمپنی کی ملکیت کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ہی اس میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ اس کو پیرامل اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ کو بیچا گیا۔
کانگریس نے اپنی پریس کانفرنس میں گوئل کے استعفیٰ کی مانگ کی تھی اور کہا تھا کہ کئی سوال ایسے ہیں جن کا جواب دیا جانا چاہئے۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر پیرامل گروپ نے فلیش نیٹ کو ‘ 48 کروڑ روپے کی بڑی رقم ‘ دےکر کیوں خریدا؟ اور یہ بھی کہ اس حصےداری کا انکشاف کیوں نہیں کیا گیا تھا۔جہاں کانگریس صدر نے وزیر اعظم سے سوال پوچھا کہ کیا وہ ‘ رنگے ہاتھ پکڑے گئے وزیر کے خلاف کارروائی کریںگے ‘، وہیں کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے اس کو ‘ مفادات کے ٹکراؤ اور کھلم کھلا سرمایہ دارنہ سانٹھ گانٹھ کا واضح معاملہ ‘ قرار دیا۔
سنیچر کی دیر رات کو دی وائر کو میل سے بھیجے گئے اپنے بیان میں پیرامل گروپ نے، جس نے کئی بار یاد دلانے کے بعد بھی رپورٹ کی اشاعت سے چار دن پہلے بھیجے گئے سوال نامہ کا جواب نہیں دیا تھا کہا کہ فلیش نیٹ کو چکائی گئی رقم ایک ‘ آزاد چارٹرڈاکاؤنٹینٹ ‘ کے ذریعے کی گئی قیمتوں کی تشخیص پر مبنی تھی۔کمپنی کی طرف سے دئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ، ‘ پیرامل اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ (پی ای پی ایل) نے شری پیوش گوئل اور سیما گوئل کی ملکیت والی فلیش نیٹ انفو سالیوشنس (فلیش نیٹ) کو جولائی 2014 میں خریدا۔ اس کے لئے چکائی گئی رقم متعلقہ انویسٹمنٹ (منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں) کی مناسب قیمت تھی اور اس کی ادائگی جولائی 2014 میں ہی کر دی گئی تھی۔ یہ ایک آزاد چارٹرڈاکاؤنٹینٹ کے ذریعے کئے گئے قیمتوں کی تشخیص پر مبنی تھی۔ ‘
ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے مسئلے پر،فروخت کے وقت گوئل Ministry of Power and Renewable Energyمیں وزیر مملکت (فری چارج) تھے اور پیرامل گروپ کا انہی علاقوں میں مفاد تھا۔کمپنی نے کہا کہ اس کے ‘ کاروبار کی موجودہ فطرت ‘ ایسی ہے کہ وزارت بجلی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑتا۔اس نے کہا، ‘ پیرامل گروپ نے اے پی جی کے ساتھ سمجھوتہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ دونوں ملکر بنیادی ڈھانچے کے علاقے میں قرض دار کو قرض دے سکیں۔ پیرامل گروپ کے کاروباروں کی حالیہ فطرت ایسی ہے کہ اس کا براہ راست یا بلاواسطہ طریقے سے وزارت بجلی یا اس کی کسی ایجنسی سے واسطہ نہیں پڑتا، کیونکہ پیرامل گروپ بنیادی طور پر کمپنیوں (اس میں بنیادی ڈھانچے کی کمپنیاں بھی شامل ہیں) کو قرض دینے کے کاروبار میں لگا ہوا ہے۔ ‘
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے ‘ بجلی محکمہ کے کسی انٹرپرائز میں آج تک ‘ انویسٹمنٹ نہیں کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ 2016 کی شروعات میں یہ خبر آئی تھی کہ پی ای ایل اور اے پی جی کے ذریعے Essel Infraprojects (ایسیل گرین انرجی) کی سولر اکائی میں 132 ملین امریکی ڈالر کا انویسٹمنٹ کیا جائےگا۔ ان دونوں کے ذریعے یہ سرمایہ کاری ان کے اسٹرکچرڈ انویسٹمنٹ گروپ کی معرفت کی جانی تھی۔اس وقت پیرامل انٹر پرائزز کے اسٹرکچرڈ انویسٹ منٹس گروپ کے چیف جیش(Jayesh) دیسائی کے حوالے سے یہ بیان آیا تھا کہ پیرامل ‘ ایک علاقہ کے طور پر گرین انرجی میں بڑا امکان ‘ دیکھتا ہے۔
دیسائی کے حوالے سے شائع ہوا بیان تھا، ‘ غیر روایتی توانائی علاقہ کی طرف سرکاری توجہ اور ایسیل انفرا سے پہلے کے مضبوط ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، ہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ یہ سرمایہ کاری اچھا نتیجہ دےگی۔سنیچر کو پیرامل گروپ کے ذریعے بھیجے گئے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ای پی ایل (فلیش نیٹ کا حصول کرنے والی کمپنی) نے بھی اس معاہدے کے دوران مناسب اصولوں پر عمل کیا تھا اور اس کی طرف سے تمام ضروری دستاویزوں کو بھی جمع کرایا گیا تھا۔ اس نے یہ بھی جوڑا، ‘یہ الزام کہ یہ لین دین پیرامل گروپ کو غیراخلاقی فائدہ پہنچانے کے مقصد سے کیا گیا تھا، پوری طرح سے بےبنیاد اور فیکٹ سے پرے ہے۔ روہنی سنگھ کی یہ رپورٹ قابل مذمت ہے اور پیرامل گروپ کی شہرت پر چوٹ پہنچانے والی ہے۔ گروپ دی وائر اور خاص کر روہنی سنگھ کے خلاف ہتک عزت سمیت مناسب اور فوری قانونی کارروائی کرنے پر غورکر رہا ہے۔ ‘
پیرامل گروپ کے جواب پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے کہا، ‘ دی وائر کا مضمون کمپنی کے ذریعے جمع کرائے گئے دستاویزوں کی بنیاد پر پیوش گوئل اور پی ای پی ایل کے درمیان ہوئے لین دین کا ٹرانزیکشن کا factual recitation ہے۔ یہ مضمون گوئل کے وزیر ہونے کی وجہ سے اس لین دین کے اخلاقی مناسبت پر سوال کھڑا کرتا ہے اور پیرامل گروپ پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں لگاتا۔ ‘
سدھارتھ نے ساتھ میں یہ بھی جوڑا کہ ‘ عوام کے پاس وزرا کے کاروباری لین دین کے بارے میں جاننے کا حق ہے، خاص کر تب جب مفادات کے ٹکراؤ کا امکان بنتا ہو۔ اور ایسے معاملوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ 24 اپریل 2018 سے روہنی سنگھ اور دی وائر نے پیرامل گروپ سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، تاکہ وہ اپنی بات رکھ سکیں اور اس لین دین کی وضاحت دے سکیں۔ افسوس کی بات ہے کہ کمپنی نے جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ‘
Categories: خبریں