نچلی عدالتوں کا حا ل بے حال ہے ہی ، لیکن حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ جن ہنگامی حالات سے گزرا اس کے بعد خود بی جے پی حامی اور اٹل بہاری واجپئی حکومت کے اٹارنی جنرل سولی سوراب جی بھی چیخ اٹھے کہ ’’ہم کو سرکاری جج نہیں چاہیے‘‘۔
حیدر آباد کی مکہ مسجد بلاسٹ کے کلیدی ملزم اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے رکن سوامی اسیما نند اور گجرات میں 2002 کے مسلم کش فسادات میں ملوث حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی رکن مایا کوڈنانی کو جس طرح عدالتوں نے بری کردیا اس نے نظام عدل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دئے ہیں۔ جج کے رویندر ریڈی نے اسیما نند کو بری کرتے ہی اپنا استعفیٰ پیش کرکے معاملہ کو اور بھی سنگین بنا دیا۔ کچھ عرصہ سے ملک میں عدلیہ کے حوالے سے عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں، جو یقیناًلا ئق تشویش ہیں۔
ان واقعات کی شروعات 1 دسمبر 2014 کو ہوئی ، جب ممبئی کی ایک ٹرائل کورٹ کے جج برج گوپا ل ہرکشن لویا کی پر اسرار حالات میں ایک گیسٹ ہاؤس میں موت ہوئی۔ وہ گجرات پولیس کے انکاؤنٹر میں مارے گئے مبینہ گینگسٹر سہراب الدین اور تلسی پرجاپتی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے، جس میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ ملزمین کی فہرست میں تھے۔ ان کی موت کے ایک ماہ بعد متبادل جج ایم بی گوساوی نے تین الگ فیصلوں میں شاہ اور گجرات پولیس کے ڈی جی ونزارا اور دیگر افسران کو بری کردیا۔
جو قارئین عدالتی طریقہ کار سے واقف ہیں، ان کو معلوم ہوگا کہ کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد جج اپنے چیمبر میں عدالت کے اسٹینو کو فیصلہ ڈکٹیٹ کراتا ہے اور اسٹینو اپنے پیڈ پر ڈکٹیشن کی تاریخ اور وقت درج کرتا ہے۔ ٹرائل کورٹ میں اسٹینو کے یہ پیڈ بھی محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ چونکہ فیصلہ لکھتے وقت قوانین اور انکی تشریح کا حوالہ دینا ہوتا ہے اس لئے معمولی مقدموں میں بھی یہ کارروائی کئی نشستوں میں مکمل ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلہ میں اسٹینو اس ڈکٹیشن کو ٹائپ کرتا ہے اور اس وقت بھی تاریخ اور وقت کا اندراج ہوتا ہے۔تیسرے مرحلہ میں جج کاپی کی جانچ کرکے ہر صفحہ پر مہر اور دستخط تاریخ کے ساتھ ثبت کرتا ہے ۔
چوتھے اور آخری مرحلہ میں اس فیصلہ کو کورٹ میں مشتہر کرکے کورٹ کی سائٹ پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایک بار پھر اپ لوڈ کی تاریخ اور وقت درج کرایا جاتا ہے۔ یعنی اگر جج کو اور کوئی کام نہ ہو ، تو بھی 50 سے 100صفحات کے فیصلہ کی ڈکٹیشن سے لیکر اپ لوڈ میں کئی دن درکار ہوتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ جج لویا کی موت کے بعد متبادل جج نے جو تین فیصلہ سنائے، ان کی ڈکٹیش سے لیکر اپ لوڈ تک ایک ہی تاریخ درج ہے، جو طاقت بشری سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان واقعات میں پس منظر میں یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فیصلہ کہیں اور تیار ہوا ہے او ر عدالت میں صرف جج صاحب کی مہر اور دستخط ثبت ہوئے ہیں۔
عدالتوں کے ان فیصلوں نے تو اب 2007میں ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے کیس کی پیش رفت پر بھی سوالیہ نشان لگادئے ہیں۔مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بر سر اقتدار آتے ہی آثار و قرائن بتا رہے تھے ، کہ ”ہندو دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے سرکاری ایجنسیوں پر دباؤبنایا جارہا ہے، کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ تاکہ ملوث افراد کی رہائی ممکن ہو سکے۔
18فروری 2007کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔ابتدائی تفتیش میں ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008 میں ملٹری انٹیلیجنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔ نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔
اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ نے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیا ، کہ فروری 2006 میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں آر ایس ایس کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012میں این آئی اے نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کو گرفتار کیا گیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔ پروہت کو پچھلے سال اگست میں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی اس پر مہر لگائی۔
گو کہ سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کر کے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008 کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کر دیا۔ کرکرے نومبر 2008 کے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ‘ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔
بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ابتدا میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔ ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے پچھلی کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں ‘ نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول ” تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز ( وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟‘‘
مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر کانگریسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔اب 2014 سے متواتر ان مقدمات کو کمزور کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ سال مالیگاؤں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل (Special Public Prosecutor ) رو ہنی سالیان نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ، کہ ایک طرف سرکاری وکیلوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں اور دوسری طرف سرکاری گواہوں کو منحرف کیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ” ہندو دہشت گرد ‘‘ رہا ہوسکیں۔
روہنی سالیان نے بتایا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کا یہ ان کو پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں۔ اس انکشاف کے بعد این آئی اے نے یہ دعویٰ کیا کہ وکیل صاحبہ (سالیان) ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کیس میں بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔جس کی وجہ سے حکومت تشویش میں مبتلا ہوگئی تھی۔یہ وہی وکیل صاحبہ ہیں جنہوں نے داؤد ابراہیم گینگ کے کئی ارکان کو سزا دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔
نچلی عدالتوں کا حا ل بے حال ہے ہی ، لیکن حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ جن ہنگامی حالات سے گزرا اس کے بعد خود بی جے پی حامی اور اٹل بہاری واجپئی حکومت کے اٹارنی جنرل سولی سوراب جی بھی چیخ اٹھے کہ ’’ہم کو سرکاری جج نہیں چاہیے‘‘۔سپریم کورٹ میں ہنگامہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف Impeachment Motion سے شروع ہوا ۔ دیپک مشرا وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جن کے خلاف ایسی عرضی دی گئی۔ نائب صدر، جن کے پاس یہ عرضی ضوابط کے مطابق داخل کی گئی، انھوں نے اس کو رد کر دیا ۔ ملک کے نامور وکیل پرشانت بھوشن کے مطابق جسٹس دیپک مشرا کے خلاف بدعنوانی کے معاملات ہیں جن کی چھان بین سی بی آئی کر رہی ہے اور اسکے علاوہ کئی مقدمات میں چیف جسٹس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے دباؤمیں ہیں۔
ابھی یہ معاملہ ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ سپریم کورٹ میں جسٹس جوزف کی تقرری کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ کالیجئم(سینئر ججوں کی کمیٹی ) کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اگر وہ نام حکومت کو منظور نہیں تو وہ ان کو کالیجئم کو نظر ثانی کے لیے واپس بھیج سکتی ہے۔ لیکن اگر کالیجئم دوبارہ وہی نام حکومت کو لوٹا دے تو پھر حکومت کو ان کو منظوری دینا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی قاعدہ ہے کہ اگر کالجیم دو نام بھیجے گی تو حکومت یا تو دونوں نام کو نظرثانی کے لیے واپس بھیجے یا دونوں کو منظوری دے۔ چنانچہ جنوری میں سپریم کورٹ کالیجئم نے دو نام (اِندو ملہوترا اور جسٹس جوزف) سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے حکومت کو بھیجے۔ مودی حکومت نے اندو ملہوترا کو منظوری دے دی مگر جسٹس جوزف کا نام واپس بھیج دیا۔
جسٹس جوزف وہ جج ہیں جنھوں نے بطور چیف جسٹس اتراکھنڈ صوبہ میں مودی حکومت کے ذریعہ لگائے گئے کانگریسی حکومت کو معزول کرنے اور صدر راج کو منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جسٹس جوزف کی یہ بات بی جے پی کو گراں گزری اسی لیے ان کا نام مودی حکومت نے رد کر دیا۔ بقول معروف تجزیہ کار ظفر آغا ، ’’مودی حکومت میں پا رلیامنٹ بے معنی ہو چکی ہے، افسر شاہی پر حکومت کا شکنجہ ہے اور اب عدلیہ بھی سرکار کی جیب میں ہے۔ ہندوستانی میڈیا تو پہلے ہی حکومت کے گن گان کے علاوہ کچھ جانتی ہی نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب اسطرح کی حرکتیں پاکستان میں ہوتی تھیں، ہم ہنستے تھے۔ یہ کس کو پتہ تھا کہ ہندوستان میں بھی ایسا دن آئے گا۔ بھلا کون اس کو صحیح جمہوری نظام قرار دے سکتا ہے!‘‘
Categories: فکر و نظر