سینٹرل ٹورزم منسٹر کے جے الپھونس نے کہا کہ یو پی اے حکومت نے بھی ہمایوں کا مقبرہ، تاج محل اور جنتر منتر سمیت پانچ یادگاروں کو رکھ رکھاؤ کے لئےنجی اکائیوں کو سونپا تھا۔
نئی دہلی : لال قلعہ کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری ایک نجی کمپنی کے ہاتھوں میں دینے کے فیصلے کو لےکر ہو رہی حکومت کی تنقیدوں سے بے پرواہ مرکزی وزیرسیاحت کے جے الپھونس نے بدھ کو کہا کہ ان کی وزارت اور بھی میموریل کو نجی رکھ رکھاؤ کے دائرے میں لانے کے لئے ‘ اڈاپٹ اے ہیریٹیج ‘ (ہیریٹیج مقامات گود لینے) کی اسکیم کی توسیع کرےگی۔ وہیں مؤرخوں، محافظوں اور فنکاروں نے سیمنٹ کمپنی ڈالمیا بھارت گروپ کو لال قلعہ کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری سونپنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کے پاس فن تعمیر سے متعلق تحفظ یا ہیریٹیج کے انتظام وانصرام کے کام کو لےکر کوئی تجربہ اور کریڈٹ نہیں ہے۔
الپھونس نے ساتھ ہی اس پہل کی مخالفت کرنے کے لئے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب مخالف کی یادداشت کمزور ہے اور وہ بھول رہے ہیں کہ ہمایوں کے مقبرے کے رکھ رکھاؤ کے لیے انہوں نے بھی ایک نجی اکائی کی خدمت لی تھی۔ وزیرسیاحت نے کہا کہ وہ ڈالمیا بھارت گروپ کے ذریعے لال قلعہ کو گود لینے سے جڑے تنازعے کو لےکر فکرمند نہیں ہیں اور ان خبروں کو خارج کر دیا کہ 17ویں صدی کی میموریل اسکیم کے تحت کارپوریٹ گھرانے کو 25 کروڑ روپے میں سونپا جا رہا ہے۔ الپھونس نے کہا، ‘ رضامندی میمورنڈم پر دستخط کرنے کے لئے حکومت کے ذریعے لیا گیا یہ ایک انتظامی فیصلہ ہے۔ موجودہ پروجیکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔ ہم اور بھی مقامات اور میموریل کو شامل کرنے کے لئے پروجیکٹ کی توسیع کریںگے۔ ‘
الپھونس نے ‘ اڈاپٹ ا ے ہیریٹیج ‘ پروجیکٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد سیاحوں کی سہولیات کی ترقی کے لئے ذاتی شعبے کی کمپنیوں، عوامی شعبے کی کمپنیوں اور لوگوں کو ہیریٹیج مقامات اور یادگاروں اور دوسرے سیاحت کے مقامات سونپنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے دور میں ہمایوں کا مقبرہ رکھ رکھاؤ اور جاری عمل کے لئے آغا خان فاؤنڈیشن کو دیا گیا تھا جبکہ حکومت کے این سی ایف کے ذریعے سی ایس آر کے تحت انڈین ہوٹلس کمپنی (آئی ٹی سی) کو تاج محل اور اے پی جے گروپ آف ہوٹلس کو جنتر منتر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
الپھونس نے کہا، ‘ کانگریس کی یاد داشت کمزور ہے اور یو پی اے حکومت نے نجی اکائیوں کو پانچ میموریل دئے تھے۔ وہ ایک شاندار تجربہ تھا لیکن اس میں کچھ مسائل تھے۔ ہم نے نئے سرے سے پہل کی ہے اور یقینی بنارہے ہیں کہ یہ کامیاب ہو۔ ‘ انہوں نے کہا کہ نئی اسکیم کے تحت کارپوریٹ گھرانوں کو پیسے خرچ کرنے ہوںگے اور حکومت کوئی رقم مہیا نہیں کرائےگی۔ وزیر نے کہا، ‘ ان کو صرف برانڈنگ کا فائدہ مل رہا ہے اور اس کے لئے بھی ان کو ہماری منظوری کی ضرورت ہوگی۔ ‘
اسی بیچ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیامان ڈیریک او برائن نے ان خبروں کو خارج کر دیا کہ ان کی قیادت والی پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے لال قلعہ کارپوریٹ گھرانے کو گود دینے سے جڑے وزارت سیاحت کی تجویز کو منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی حکومت کے فیصلہ کو فوراً منسوخ کرنے کی مانگ کرتی ہے۔وزارت سیاحت کے افسروں کے مطابق، پروجیکٹ کی شروعات ان 93 میموریل سے ہوگی جہاں اے ایس آئی ٹکٹ وغیرہ کا کام دیکھتا ہے اور ملک کے دوسرے قدرتی اور ثقافتی مقامات کو بھی ا س کے دائرے میں لایا جائےگا۔
وزیر سیاحت نے کہا، ‘ مسئلہ یہ ہے کہ حزب مخالف جماعت کچھ پڑھتے نہیں ہے۔ ان کو غلط اطلاع ملی ہے۔اگریمنٹ میمورنڈم سے پوری طرح صاف ہے کہ کارپوریٹ گھرانے میموریل کو ہاتھ نہیں لگائیںگے۔ وہ مقام کے آس پاس بنیادی سہولیات مہیا کرائیںگے اور ان کا رکھ رکھاؤ کریںگے تاکہ ہم زائرین کی تعداد بڑھا سکیں۔ ‘ اسی بیچ مؤرخوں، محافظوں اور فنکاروں نے معاہدے کی مخالفت کی ہے۔ مؤرخ عرفان حبیب نے کہا کہ نئی اسکیم میں خامیاں ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ سب سے پہلے اگر آپ کو ہیریٹیج میموریل کو گود دینے کی اسکیم نافذ کرنی تھی تو کم مشہور ڈھانچے کے ساتھ یہ استعمال کرنا چاہئے تھا۔ نہ کہ لال قلعہ کے ساتھ۔ یہ اسکیم کی بنیادی خامی ہے۔ ‘
حبیب نے کہا کہ یہ فیصلہ لال قلعہ کو کسی نجی کمپنی کو بیچنے کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ میری فکر سیاحوں کو آڈیو بک اور دیگر کے ذریعے مہیا کرائی جانے والی وضاحت کے طریقے کو لےکر ہے۔ ‘ فنکار ویوان سندرم، مؤرخ مشیرالحسن اور اسٹیج کارکن ایم کے رینا سمیت دوسروں کے دستخط والے رضامندی خط کے ایک بیان میں سبھی نے اپنی فکرکو ظاہر کرتے ہوئے بابری مسجد تباہی کا ذکر کیا ۔ انہوں نے معاہدہ منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ بیان میں کہا گیا، ‘ اس وقت اقتدار میں بنے ہوئے لوگوں کی ہماری وراثت کو لےکر ایک ناپسندیدہ ماضی رہا ہے۔ ان کو تب کوئی افسوس نہیں ہوا جب ان کے حامیوں نے محض ایک مسجد ہونے کی وجہ سے فن تعمیر کے لحاظ سے اہم 450 سال پرانے ایک میموریل کو تباہ کر دیا تھا۔ ‘
اس میں کہا گیا، ‘ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ سمیت عہد وسطی کے اہم میموریل کو ہندو ڈھانچے اعلان کرنے کے مدعے کو بڑھاوا دیتا رہا ہے۔ ‘ پیشہ ور ہندوستانی مؤرخوں کی سب سے بڑی تنظیم آئی ایچ سی( Indian History Congress) نے معاہدے کی شرطوں کو لےکر فکر جتائی۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ کمپنی کے پاس میموریل کے رکھ رکھاؤ، تحفظ، سمجھ وغیرہ کو لےکر کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا، ‘ اس بات کو لےکر خدشہ کی کافی گنجائش ہے کہ سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لئے اس احاطے میں کسی مخصوص ڈھانچے کو لےکر یہ کسی غلط یا غیر تصدیق شدہ وضاحت کو رائج کر سکتا ہے۔ اگر اس طرح کے دعوے ایک بار چل نکلے، خاص کر جب کہ وہ فرقہ وارانہ شکل کے ہوں تو، اس سے نجات پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ‘
وہیں، گووا کی بی جے پی حکومت نے بھی اپنے کچھ میموریل کو مقامی اتھارٹیوں سے مشورہ کئے بغیر مرکز کے ذریعے گود دئے جانے کے قدم پر اعتراض جتایا ہے۔ریاست کے وزرا نے مرکزی ثقافتی وزارت کی اس اسکیم پر اعتراض کیا ہے۔ ریاست کے آثارقدیمہ کے وزیر وجے سردیسائی، وزیرسیاحت منوہر اجگانوکر اور انرجی منسٹر پانڈورنگ مڈکیکر نے اعتراض کیا ہے۔ سردیسائی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اسکیم کے تحت گووا میں 6میموریل کو گود دینے کے لئے فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گووا حکومت کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
وہیں، اجگانوکر نے دعویٰ کیا کہ ان کا محکمہ سیاحت کو بڑھاوا دیتا ہے لیکن اس کو اس مدعے پر پوری طرح سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ ساتھ ہی، مڈکیکر نے کہا کہ اس سلسلے میں تجویز لانے سے پہلے مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ مہینے میں مرکزی حکومت نے دہلی واقع تاریخی میموریل لال قلعہ کے رکھ رکھاؤ کے لئے ڈالمیا بھارت گروپ کو گود دیا تھا۔
Categories: خبریں