خبریں

اتر پردیش : سابق وزیراعلیٰ کو سرکاری رہائش گاہ دینے والا قانون سپریم کورٹ نے رد کیا  

اکھلیش حکومت نے اتر پردیش منسٹر ایکٹ، 1981 میں ترمیم کی تھی ۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ قانون میں ترمیم آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہے کیونکہ یہ مساوات کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : سپریم کورٹ  نے اتر پردیش میں سابق وزیراعلیٰ کو عہدہ چھوڑنے کے باوجود سرکاری رہائش گاہ میں بنے رہنے کی اجازت دینے والی  قانونی ترمیم کو سوموار کو رد کر دیا۔ جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ قانون میں ترمیم آئینی دائرہ اختیار سے باہر کی بات ہے کیونکہ یہ آئین کے تحت پیش کردہ مساوات کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ یہ ترمیم من مانی ، امتیازکرنے والی اور مساوات کے اصول کی خلاف ورزی کرنے والی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایک بار کوئی آدمی عوامی عہدہ چھوڑ دیتا ہے تو اس میں اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

سپریم کورٹ  نے سابق وزیراعلیٰ کو سرکاری رہائش گاہ میں بنے رہنے کی اجازت دینے کے لئے اتر پردیش حکومت کے ذریعے قانون میں کی گئی ترمیم کو چیلنج دینے والی غیر سرکاری تنظیم کی عرضی پر اپنا فیصلہ 19 اپریل تک کے لئی محفوظ رکھ لیا تھا۔ عدالت نے پہلے کہا تھا کہ این جی او لوک پرہری نے جس اہتمام کو چیلنج کیا ہے، اگر اس کو غیر قانونی قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسری  ریاستوں میں موجود قانون بھی چیلنج کی حد میں آ جائیں‌گے۔

این جی او نے سابق اکھلیش یادو حکومت کے ذریعے Uttar Pradesh Ministers (Salaries, Allowances and Miscellaneous Provisions) Act, 1981میں کی گئی ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔ عرضی میں ٹرسٹ، صحافیوں، سیاسی جماعتوں، اسمبلی صدر اور نائب صدر، عدالتی افسروں اور سرکاری افسروں کو رہائش گاہ دینے  والے قانون کو بھی چیلنج کیا ہے۔