زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان چار پانچ دنوں میں یونیورسٹی کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔
علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو )کےطلبا باب سید پر گزشتہ بدھ سے بیٹھے ہوے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب تک ان ہندوتوا وادیوں کوگرفتارنہیں کیا جاتا، ان کا احتجا ج جاری رہے گا۔ گزشتہ سنیچرکو وہ ضلع انتظامیہ کے پاس بھی اپنی شکا یت لیکر گئے تھے۔ خبر یہ ہے کہ انتظامیہ نے صرف زبانی تسلی دیکر انہیں ٹرکا دیا۔ لہذا طلبا عدالت جانے کی بھی تیاری میں ہیں۔
آپ جانتے ہیں ہندو یو وا واہنی کے لوگ جبراً کیمپس میں داخل ہو گئے تھے۔ ہتھیاروں سے لیس وہ اس گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے تھے جہاں سابق نائب صد ر جمہوریہ حامد انصاری ٹھہرے ہوے تھے۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر نہ صرف قابل اعتراض نعرے لگائے بلکہ سیکوریٹی اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی۔ خیریونیورسٹی کے سیکوریٹی اہلکاروں نے ان کو دھر دبوچا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ جب ہندوتوا وادی جماعتوں کے یہ غنڈے کیمپس میں داخل ہو رہے تھے تب وہاں پولیس بھی موجود تھی۔ یہ بات سمجھ سے پرے ہے۔ کیا وہ ان کی حفاظت کے لئے پہلے سے براجمان تھی؟ اگر نہیں تو انہوں نے ان کو کیمپس میں داخل ہونے سے روکا کیوں نہیں؟ خیر شروعاتی ہاتھا پائی کے بعد پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی۔
لیکن جب علی گڑھ کے طلبہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ پولیس نے ان کو چھوڑ دیا ہے، تو وہ پولیس اسٹیشن کی طرف نکل پڑے۔ انکا یہ ارادہ تھا کہ وہ پولیس سے ان کی گرفتاری کی مانگ کریں گے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچتے، پولیس نے راستے میں ہی ان پر لاٹھی چارج کر دی۔ انہیں بے رحمی سے پیٹا۔
علی گڑھ کے طلبا چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ انکا احتجاج ہندوتوا وادی تنظیموں کے خلاف ہے، جو کیمپس میں گھس کر وہاں کے ماحول کو پراگندہ کرنا چاہتے تھے۔ طلبا یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا حملہ در اصل سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پر تھا۔ لہذا یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ طلبا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی مانگ بس اتنی ہے کہ ان غنڈوں کو گرفتار کیا جائےاور پورے معاملہ کی جوڈیشیل انکوائری ہو۔ مگرتشویش کی بات یہ ہے کہ آپ کے لاکھ چلانے کے باوجود کہ آپکا احتجاج ہندوتوا وادیوں کے خلاف ہے، آپکی کوئی نہیں سن رہا ہے۔ چینلوں اور اخباروں میں یہ چھپ رہا ہے اور دکھا یا جا رہا ہے کہ علی گڑھ کے طلبا جناح کی حمایت میں سڑک پر اتر آئے ہیں، وہ جناح جس نے دشمن ملک بنایا، وہ جناح جس نے بھارت کا بٹوارہ کیا، وہ جناح جو ہندو مخالف تھا۔ وہ جناح جو فرقہ پرست تھا۔ وہ جناح جو بٹوارے میں مارے گئے لاکھوں لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے۔
مانو ایک اکیلا آدمی ہندوستان کا بٹوارہ کر گیا، اور سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے منہ دیکھتے رہ گئے۔ مانو جناح واقعی ایک جن تھا۔سارے ٹی وی اینکرجناح کی تصویرکی آرتی اتار رہےہیں۔ ظاہر ہے زمانہ الیکشن کا ہو تو آرتی اتارنے کے لئے اس سے زیادہ اچھی تصویر اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایسا معلوم پڑتا ہےآرتی تب تک اتاری جائے گی جب تک تصویرنہیں اتر جاتی۔ دشمن ملک کے بانی کی تصویر ہندوستان میں آخر کر کیا رہی ہے؟ ممبئی میں اگر جناح ہاؤ س ہے تو کیا ہوا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کیسے لگائی جاسکتی ہے؟
خیر، اب ساری حب الوطنی جناح کی تصویر پر جا اٹکی ہے۔ اگر تصویر نہیں اتری تو پوری یونیورسٹی اینٹی نیشنل قرار دے دی جائے گی۔ نوٹ کر لیجئے، آئندہ جنرل الیکشن میں ہر دوسرے تیسرے دن اے ایم یو کا ذکرخیر ہوگا۔ اب سے لیکر 2019 تک ہندوتوا وادی چینلز کی ہر دوسری شام اے ایم یو کے نام ہو گی۔ وہ چیخیں گے اور کہیں گے کہ گزشتہ مئی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا جناح کی حمایت میں سڑک پر اتر آئے تھے۔
ویڈیو : اے ایم یو میں جناح تنازعہ اور میڈیا
جناح کی تصویر اے ایم یو میں اگر ہے تو اس کے پیچھے ایک سیاق ہے۔ جناح کو اے ایم یو اسٹوڈنٹ یونین کی مستقل ممبر شپ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اس اعزازسے گاندھی، مولانا آزاد اور دیگر کئی ممتاز شخصیتوں کوبھی نوازا جا چکا ہوا ہے۔ اور ان سب کی تصویریں اسی سیاق میں یونین ہال میں آویزاں ہیں۔ یہ وہ دلیلیں ہیں جنہیں آپ چیخ چیخ کرلوگوں کو بتا رہے ہیں۔ مگر آپ شاید اس بات پر توجہ نہیں دے رہے کہ آپ کی ان دلیلوں کو کو ئی نہیں سن رہا۔ یا پھر کسی کو ان دلیلوں سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ جناح کی تصویر اے ایم یو میں کیوں لگی ہے؟ اور وہ کب ہٹے گی؟
ان سب باتوں کے بیچ جو چیز زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ ہم شاید وہی کر رہے ہیں جو آر ایس ایس والے ہم سے کروانا چاہتے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں اے ایم یو میں چل رہے احتجاج کی سرے سے مخالفت نہیں کر رہا، مگر مجھے لگتا ہے، ہم شاید جذباتی ہو گئے۔ ہم نے معاملہ کو ہوشیاری سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ جب طلباکو یہ بات پتہ چلی کہ پولیس نے ہندوتوا وادیوں کو چھوڑ دیا ہے، تو انہیں فوراً پولیس اسٹیشن کی طرف جلوس لیکر نہیں جانا چاہئے تھا۔ انہیں تھوڑی دیر بیٹھ کر پورا لائحہ عمل تیار کرنا چا ہئے تھا، پھر کوئی قدم اٹھا تے۔ جب آپ کہہ رہے ہیں کہ سارا معاملہ ایک پلان اور سازش کے تحت عمل میں آیا، تو کیا اسکے مقابلے کے لئے آپ کو بھی پلان نہی کرنا چاہئے تھا؟ کیا خاموشی سےقانونی لڑائی لڑکر معاملے کا نپٹارا نہیں ہو سکتا تھا؟ آخر کار طلبا نے اب یہی فیصلہ لیا ہے کہ وہ سوموار کو کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے۔ فوراً سڑک پر اتر نے سے بہت کچھ گڈ مڈ نہیں ہو گیا؟
آپ دیکھ لیجئے ہفتہ ہونے کو ہے، ایک طرف طلبا کا مظاہرہ جاری ہے اور دوسری طرف ‘گودی میڈیا’ کا زہر۔ آپ سنگھ کے غنڈوں کے خلاف کھڑے ہیں اور میڈیا جناح کی تسبیح گنے جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اورمختلف ویب سائٹ پرطلبا کے ذریعے لگا ئے گئے نعروں کو لگا تارتوڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یعنی جے این یو دوہرا ئے جانے کی سازشیں زوروں پر ہے۔ ٹوئٹر پر یہ وائرل ہو گیا کہ اے ایم یو میں بھی ‘بھارت سے آزادی’ کے نعرے لگا ئے گئے۔الٹ نیوزکا بھلا ہو کہ اس نےحقیقت بتائی۔
زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان چار پانچ دنوں میں یونیورسٹی کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔ جے این یو کا وا قعہ یاد کیجئے اور پھر اندازہ لگائیے۔ہمیں اب یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون نہا یت خستہ حالت میں ہے۔ بلکہ یہ کہہ لیجیے کہ یہ قریب قریب ڈھہ چکا ہے۔ جمہوریت پر آنے والی کسی بھی ناگہانی سے نپٹنے کے لئے اس ستون کا مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کی حفاظت مشکل ہی نہیں قریب قریب نا ممکن ہے۔ لہذا کسی بھی عمل سے پیشتراس کی “مرمت” اب نا گزیر ہے۔
Categories: فکر و نظر