کہانی بال نریندر کی :گڈکری نے اس پر ہنستے ہوئے جواب دیا شاہنواز، آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ مودی جی وہ آدمی ہیں جو اپنی ماں سے دو سال کے بعد ملے ہیں۔
منگل کو کرناٹک میں صحافیوں کے پوچھے جانے کے بعد راہل گاندھی نے جواب دیا کہ ہاں، اگر ان کی پارٹی کو اکثریت ملتی ہے تو وہ وزیر اعظم بننے کو تیار ہیں۔ اس بات سے سب سے زیادہ تکلیف ‘ غریبی کے لال ‘ ہمارے اپنے وزیراعظم نریندر دامودار بھائی مودی کو ہوئی ہے۔ وکٹم وزیر اعظم نے راہل پر حملہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کو ‘مغرور’ کہا ہے بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کی پارٹی کانگریس میں اتنے سینئر رہنماوں کے رہتےہوئے وہ ایسی گھٹیا باتیں کیسے کر سکتا ہے! راہل کو دھمکاتے ہوئے وزیر اعظم نے ان کو اس بارے میں سوچنے کی صلاح دی! مودی جی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ 40یا اس سے زیادہ سالوں سے پارٹی کی خدمت کر رہے ہیں، کم سے کم ان کی عزت کا تو راہل کو خیال رکھنا چاہئے تھا۔
سچ مچ ہمارے وزیر اعظم فراخدلی کا مجسمہ ہیں! اس لئے تو ‘ غریبی کے لال ‘ کو بقول نائب صدر وینکیا نائیڈو کے ذریعے خدا کا اوتار بتایا گیاہے! اور جن میں خود اتنا بڑپن ہو ان کو کون کیا یاد دلا سکتا ہے یا کہہ سکتا ہے؟ ان کو یہ کیسے بتایا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ بات اگر ‘ لوہپرش ‘ لال کرشن اڈوانی نے سنی ہوگی تو ان کو کیسا لگا ہوگا؟ یا پھر اپنے ڈاکٹر صاحب مرلی منوہر جوشی یا راج ناتھ سنگھ یا نتن گڈکری یا پھر سشما سوراج نے سنی ہوں گی تو وہ کیسا محسوسکررہے ہوں گے؟
ایسا لگتا ہے وہ سب لوگ مطمئن ہوں گے کہ وزیر اعظم ان سب کی کتنی قدر کرتے ہیں! اور ایسا سوچنا فطری بھی ہے۔ اڈوانی جیکے دماغ میں خالی بیٹھے بیٹھے یہ بات تو آتی ہی ہوگی کہ جب وہ رام مندر کے بہانے رتھ یاترا لےکر ملک کی سماجی ہم آہنگی کو تارتار کرنے نکلے تھے تو یہی وہ ‘ بال نریندر ‘ تھا جس نے ‘ رتھ بان ‘ کا کام کیا تھا۔اتناہی نہیں، ان کو یہ بھی یاد آ رہا ہوگا کہ رتھ یاترا کے دوران جب ان کو پیاس لگتی تھی تو کیسے دوڑکر وہ ‘ بال نریندر ‘ ہی پانی لےکر آتا تھا، اور اگر پسینہ آ جاتا تھا تو کندھے پر رکھی اپنی بھگوا گمچھی تک دے دیتا تھا۔ اڈوانی جی تو یہ یاد کرکے ابھی مسرور ہو رہے ہوں گےکہ کیسے ان کا اپنا ‘ بال نریندر ‘ کبھی کبھی پیار سے اسی گمچھی یا تولیہ سے سر پر بلبلا آئے پسینہ کو بھی پیار سے پوچھ دیتا تھا! میں اڈوانی جی کی اس خوشی میں اپنے کو شامل کرنا چاہتا ہوں جس سے وہ کل دوپہر سے مسرور ہوں گے!
اسی طرح میں ڈاکٹر صاحب مرلی منوہر جوشی کی کشمیر سے کنیاکماری تک نکالی گئی ایکتا یاترا کو بھی یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس میں پھر سے رتھ بان کا کردار بال نریندر کو نبھانا پڑا تھا۔ اس وقت کے بی جے پی صدر جوشی جی کو بھی وہ وقت یاد آ رہا ہوگا کہ اڈوانی جی کے ‘ خاص آدمی ‘ نریندر بھائی نے ان کی کتنی خدمت کی تھی! جب لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی اور ‘ ویربالک ‘ نریندر مودی کے ساتھ ان کو انڈین ایئر فورس کے خاص ہوائی جہاز اے این 32 شرینگر کے لال چوک پر 26 جنوری 1992 کو ترنگا پھہرانے کے لئے لے جایا جا رہا تھا تو نریندر بھائی نے کپکپاتی ٹھنڈ میں کس طرح اپنا بند گلے کا کالا اونی نہرو کوٹ جوشی جی کو آفر کر دیا تھا۔شاید ڈاکٹر صاحب مودی جی کی ‘ بھارت ماتا کی جے’ کے اس نعرے کو بھلےہی بھول گئے ہوں گے، جو مودی جی کے ساتھ ساتھ چل رہے 67 بی جے پی کارکن لگا رہے تھے۔
لیکن اس بات کو ضرور یاد کر رہے ہوں گے جب سکیورٹی فورس سے گھرے ہونے کے باوجود جوشی جی سمیت سبھی لوگ ڈر سے ہکلان ہو رہے تھے اور مودی جی نے آہستہ سے ان کے کان میں کہا تھا ‘ یہ لوگ بہت خطرناک ہیں، پھر بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے اپنی جان سے آپ کی جان زیادہ پیاری ہے، اس لئے جلدی سے جلدی جھنڈا پھہراکر کشمیر سے نکل لینا ہے۔ ‘ کیا مرلی منوہر جوشی مودی جی کی اس احسان مندی کو بھول پائے ہوں گے؟ کیا وہ آج بھی احسان مند نہیں ہوں گے وزیر اعظم جی کی فراخدلی سے۔
یہ سب بھی چھوڑیے! جب وزیر اعظم جی نے اپنے اور راج ناتھ سنگھ کے ساتھ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو ڈائریکٹر بورڈ میں شامل کیا تھا تو یہ لمحہ ان سب کے لئے خوش قسمت لمحہ نہیں رہا ہوگا کیا۔اتنی فراخدلی کس ہندوستانی سیاست داں میں ہم نے دیکھی ہے؟گزشتہ مہینے پروین دھونتی نے مشہور میگزین کارواں میں نتن گڈکری پر کور اسٹوری لکھی ہے۔ اس میں پروین بی جے پی رہنما شاہنواز حسین اور نتن گڈکری کی آپسی بات چیت کو مختصراًکچھ ان الفاظ میں بتاتے ہیں؛
بات 2015 کے آخری مہینوں کی ہے۔ شاہنواز، گڈکری سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ لوگ کس طرح کی سرکار چلا رہے ہیں۔ میں نے مسلمان ہوتے ہوئے اپنی پوری زندگی اس پارٹی میں کھپا دی۔ پچھلے کئی ہفتے سے میں مودی جی سے ملنے کا وقت مانگ رہا ہوں، لیکن ملنے کا وقت ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔ گڈکری نے اس پر ہنستے ہوئے جواب دیا شاہنواز، آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ مودی جی وہ آدمی ہیں جو اپنی ماں سے دو سال کے بعد ملے ہیں۔
ویسے مجھے ‘ بدتمیز’ راہل گاندھی کا وہ کارنامہ یاد ہے جب ان کے والد راجیو گاندھی کی لاش پارٹی دفتر میں خراج کےلئے رکھی گئی تھی۔ ایک انجان ضعیف ،راجیو گاندھی کو خراج تحسین دے کر لوٹ رہا ہے لیکن اپنے قد وقامت کی وجہ سے جھک کر جوتے نہیں پہن پا رہا ہے اور وہ ‘ شرارتی ‘ راہل گاندھی اپنے گھٹنے کے بل بیٹھکر اس انجان ضعیف کو جوتے پہنا رہا ہے۔ یہ تصویر ہندوستان اخبار نے اپنے پہلے پیج پر چھاپی تھی۔ یاد رکھئے، اس ‘ بدتمیز ‘ راہل گاندھی کا والد وزیر اعظم تھا، دادی وزیر اعظم تھی اور ان کا نانا بھی وزیر اعظم رہا تھا، پھر بھی وہ ‘گستاخی ‘راہل گاندھی نےکی تھی۔
ہمارے دماغ میں یقینی طور پر یہ بات بھی آتی ہی رہتی ہے کہ راہل گاندھی سے زیادہ احسان فراموش آدمی اس دنیا میں کون ہے اور نریندر بھائی سے زیادہ احسان مند انسان اس دھرتی پر کون ہے۔
Categories: فکر و نظر