ٹل طلاق ڈو اَس پارٹ :مسلمان ‘ عقیدہ کو ٹھیس ‘ لگنے والی زبان سے دوری بناکر اب شہریت کے حقوق کی زبان بولنا سیکھ رہے ہیں، تو لازمی ہے کہ ان کو انصاف اور مساوت کے معیار کو ان مدعوں پر بھی نافذ کرنا ہوگا جن کو لمبے وقت سے قوم کا اندرونی معاملہ کہہکرخاموشی اختیار کر لی جاتی رہی ہے۔
اگر چہ اسلام سے قبل سماج اورمعاشرے کی بہ نسبت اسلام نے خواتین کو بہتر حقوق دیے اور مردوں کے فرائض کو صاف طور پر بیان کیا۔ لیکن ان باتوں کا ڈھانچہ کافی حد تک پدری نظام (patriarchy) کا ہی رہا اور طلاق صرف مردوں کاہتھیاررہا ہے۔ ایک عورت کو علیحدگی کا مطالبہ کرنا پڑتا ہے اور اس کا شوہر چاہے تو دے یا پھر انکار کر دے۔ یہاں تک کہ عورت کی منظوری کے بغیر بھی شوہر اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ اسلام کے ایسے طریقے جو خواتین کے ساتھ بہتر رویے اپنانے کی راہ فراہم کرتے ہیں ان کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ اس حد تک ہوا کہ اس کے برعکس کوئی بھی چیز ایک عام جنوب ایشیائی مسلمان کو عجوبہ معلوم ہوتے تھے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان میں طلاق کے مسئلے پر بہت زیادہ لوگ تعصب کے شکار ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی لبرل (جو مسلمان خواتین کی فلاح و بہبودی کے لئے فکرمند ہیں) کے اسلاموفوبیا اور ہندوتواوادی کے اسلاموفوبیا میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک خاص قسم کا اقلیتی ردعمل بھی مسلمانوں پر غالب ہے۔ میں یہاں تفصیل میں نہیں جاؤںگی۔ حالانکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس کے نتیجےمیں مسلمانوں نے طلاق بدعت اور اس سے جڑی ہوئی روایتوں کو جو کہ پیغمبر محمدکو شدید ناپسند تھیں، بال کی کھال نکالکر technical points پر بچاؤ کیا ہے۔
عام طور پر اس موضوع پر انگریزی میں جو کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ زیادہ تر مسلمانوں کے بارے میں یا اسلام کے دفاع میں، غیرمسلم قارئین کو خطاب کرتی ہیں۔ ضیاء السلام کی لکھی ہوئی کتاب ” ٹل طلاق ڈو اَس پارٹ ” (Till Talaq Do Us Part)کا نقطہ نظر اس لئے بھی خاص ہے کہ یہ مسلمان قارئین کو بھی خطاب کرتا ہے۔ اس کتاب کو طلاق سے جڑی ہوئی قسم قسم کی میراث کی سچائی کو حل کرنے اور اسلام کے اندر سے جینڈر جسٹس کے امکان کے لئے ایک مضبوط معاملہ بنانے کے مدعے پر ایک پرائمر کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کتاب کے باب 1 سے 10 میں سلام نے بےحد آسانی سے پڑھے جا سکنے والے اور بےحد تجدیدی طریقے سے اس مدعے پر اب تک کے تذکرے اور پریشانی کی بنیادوں کو ظاہر کیا ہے۔
ایک لحاظ سے، پیش نظر کتاب اب تک کی ساری اکیڈمک کتابوں کے مقابلے سب سے الگ ہے ۔یہ کتاب قارئین کو سائرہ بانو معاملے تک اپ ٹو ڈیٹ کرتی ہے۔ مصنف کا صحافیانہ پس منظر میں کتاب کے 11 سے 14 ابواب میں نمایا ں ہے، جہاں انہوں نے ‘ ٹرپل طلاق ‘ تنازعہ کی سیاسی تاریخ میں حالیہ واقعات کو جمع کر دیا ہے۔ حلالہ، پالیگامی اور خلا جیسے مدعوں پر قرآن اور مختلف نظریاتی اسکولوں کی ہدایات کے تجزیے اور تفہیم کے بعد، ان کی تحریر میں موجودہ جوڈیشل ایکٹوزم کی بےحد سطحی نمائندگی عجیب لگتی ہے اور پریشان کرتی ہے۔ جس طرح سے وہ بیان کرتے ہیں، اس کہانی میں دو مرکزی کردار ہیں ، ہندوستانی مسلم خواتین تحریک(BMMA)بی ایم ایم اے) اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB اے آئی ایم پی ایل بی ہیں۔ شریعت کے مطابق اور طلاق بدعت کو جرم کا درجہ دینے پر بحث میں شامل کئی اور آوازیں ان کے سنائے اس قصے میں پوری طرح خاموش ہیں۔ مجلس لیگل سینٹر کی فلیویا ایگنیس، اور بےباک کلیکٹو کی حسینہ خان جیسی آوازوں کو چھوڑ دینا اس کتاب کی ایک بڑی خامی ہے۔
اس کتاب میں خاموش آوازوں نے دوسری جگہوں پر اپنے کام، بیانات اور تحریر میں دکھایا ہے کہ کس طرح مسلم سماج میں پدری نظام کے خلاف عورتوں کی جدو جہد پر عوامی بحث و مباحثہ اور میڈیا ڈسکورس، بےحد مضبوطی سے مسلم خواتین کی سماجی اقتصادی جدو جہد پر حاوی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مسلم عورتیں پہلے ہی سے سول قوانین کا سہارا لےکرعدالتوں سے طلاق سے متعلق معاملوں پر دعویٰ کرتی رہی ہیں اور راحت بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔
حالانکہ یہ سچ ہے کہ مسلم عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں ہندوستان میں عورتوں کے حقوق کے لئے وسیع تحریک کے اندر اب اہمیت اور آواز حاصل کر رہی ہیں، لیکن بد قسمتی سے میں اسٹریم میڈیا اور زیادہ تر پاپولر مبصرین نے انہی آوازوں کو بدستور ترجیح دینا جاری رکھا ہے جو مسلم خواتین کے مذہبی روایتوں کی مظلوم ہونے کی تھکی ہوئی لغت اور زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
یہ ماننا ہوگا، اور ضیاءالسلام کی کتاب اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ شادی اور طلاق کے بارے میں عموماً مذہبی سوچ سے الگ اسلامی نقطہ نظر غیر معمولی طور پر کافی حقیقت پسند اور غیر جذباتی ہے۔ جیسا کہ اکثر دوہرایا جاتا ہے، اسلام میں شادی کوئی مقدس روایت (sacrament) نہیں ہے۔ اس نقطہ نظر میں اس حقیقت کو قبول کیا گیا ہے کے افسوسناک شادیاں بھی ممکن ہیں، اور دین کا مومن سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں ہے کے بدنما رشتوں کو زندگی بھر ڈھوتے رہیں۔
اور اگر سچ مچ اسلام میں معاملہ یہی ہے تو یہ پوچھنا لازمی ہے کے جنوب ایشیائی مسلم سماج میں طلاق اور علیحدگی کو خواتین کے لئے تباہ کن بات کیوں سمجھی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ طلاق اور جدائی ضروری طور پر پرتشدد اور ظالمانہ عمل یا واقعہ ہے۔ کیا وجوہات ہیں جو طلاق کو اس طرح کا ناگزیر واقعہ بناتے ہیں؟ پہلی تو یہ کہ پدری نظام سماج میں خواتین کو عام طور پر خودمختارنہیں مانتی، پھر غیر شادی شدہ خواتین کا معاشرے میں کوئی سماجی درجہ نہیں ہوتا، اور طلاق شدہ خواتین صرف مظلوم اور زیادتی کا شکار ہی ہو سکتی ہیں۔
اس طرح کی کتابوں میں اس قسم کا تضاد اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مصنف اس صورتحال کی وضاحت کرنے کے لئے پریشان ہوتے ہیں کہ اسلام خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا ہے اور خواتین کے خدشات کا خیال رکھتا ہے، لیکن پھر یہ مصنف جلد ہی اس دلیل کے جال میں پھنس جاتے ہیں کہ مسلمانوں کا مذہبی عمل ہی ان کے دکھوں کی واحد وجہ ہے۔ ہندوستانی مسلمان خواتین کے سوالات کے اظہار کی یہ دشواری اس قسم کی ہے کہ سلام بھی اس سے بچنے میں پوری طرح کامیاب نہیں رہے۔ شاید ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ باب 11 اور 12 میں سلام خود کو ایک ایسے ڈومین میں پاتے ہیں جس سے وہ ناواقف تھے۔ یا پھر ہندوستان میں مسلمان خواتین کی تحریک کی پیچیدگیوں سے دوچار ہونے کے لئے ان کے پاس وافر وقت نہیں تھا۔
حالانکہ، باب 13 ‘ فیصلے جنہوں نے راستہ ہموار کیا ہے ‘ میں انہوں نے پچھلے قانونی معاملات اور ان کے نتائج کا مختصر طور پر بیان کیا ہے ،لیکن کل ملاکر کتاب میں ماحول یہی بنتا معلوم ہوتا ہے کہ سائرہ بانو معاملے کے ساتھ مسلم خواتین کی طلاق سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا خاتمہ بس ہوا ہی جاتا ہے۔ بد قسمتی سے، سائرہ بانو مقدمہ کے فیصلے کی کمیاں ہمارے سامنے کتاب کے باب 12 میں ہی آ چکی ہیں، جب قارئین کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے میں اس مقدمہ کی فریادی خواتین نے اپنی پریشانیوں سے متعلق جو عرضی دی تھیں ان کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا اور ان کو ذاتی طور پر کوئی راحت نہیں ملی۔ باب 14، اس پورے معاملے میں (AIMPLB) اے آئی ایم پی ایل بی کو کچھ سانس لینے بھر کی جگہ فراہم کرانے کی نذرہے جو کہ زیادہ تر دوسرے خیالات میں یا تو ‘ محض ایک NGO ‘ بتایا گیا ہے جس کا اس تمام بحث میں کوئی مقام نہیں، یا پھر زن بیزار ملاؤں کی ایک تنظیم بتایا ہے۔
بعدکے ابواب میں ضیاءالسلام پھر سے طمانیت حاصل کر لیتے ہیں۔ باب 15 میں وہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں من مانی طلاق یا طلاق بدعت کے خلاف کئے گئے طریقوں کی ایک تفصیلی فہرست تیار کرتے ہیں۔ دنیا بھرکے مسلمان طلاق کے مدعے سے جڑے مسائل پر ان کو صحیح اسلامی طریقے مانتے ہیں۔ کتاب کا یہ باب ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان اصلاحات کی وکالت کے لئے بیش قیمتی ثابت ہو سکتا ہے۔ آخرکار، سلام موجودہ حال میں طلاق کے مسائل کی مقدار پر اور قاضی عدالتوں میں شادی سے جڑی تنازعات، اور طلاق اور خلا دونوں کے معاملوں سے نپٹنے کے رکارڈ پر تشخیصی نظر ڈالتے ہیں۔ آخرکار اس پورے ہنگامے کے بارے میں یہی کہنا پڑتا ہے کہ کپ میں طوفان کی طرح ہے۔ ضیاءالسلام اپنی اس کتاب میں یہ بات حالانکہ سیدھے طور پر کہتے نہیں پر یہ خودبخود ثابت ہو جاتی ہے۔
چونکہ مسلمان ‘ عقیدہ کو ٹھیس ‘ لگنے والی زبان سے دوری بناکر اب شہریت کے حقوق کی زبان بولنا سیکھ رہے ہیں، تو لازمی ہے کہ ان کو انصاف اور مساوت کے معیار کو ان مدعوں پر بھی نافذ کرنا ہوگا جن کو لمبے وقت سے قوم کا اندرونی معاملہ کہہکرخاموشی اختیار کر لی جاتی رہی ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے درمیان عوامی طور پر ان مدعوں پر بحث بےحد اہم ہے۔ یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس بحث کی ابتدا اور سہولت کے لئے صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی تنظیمیں یا مولوی لوگ ہی ذمہ دار نہیں ہیں۔ مسلم کارکن، دانشور، اور لاءایکسپرٹ اس سوال پر بحث کر رہے ہیں اور ان سوالوں سے نمٹنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
ضیاءالسلام کی کتاب ‘ ٹل طلاق ڈو اس پارٹ ‘ اس بحث میں ایک اہم پیشکش ہے، امید ہے کے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عام مسلمان اس بحث میں باخبر اور بہتر حصہ لیںگے۔
(غزالہ جمیل جے این یو کے سینٹر فاردی اسٹڈی آف لاء اینڈ گورننس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
Categories: ادبستان