الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجودصحت کے شعبے میں اصلاحات پر یکطرفہ روک کے لیے اتر پردیش حکومت سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ کئی ہفتوں سے اترپردیش حکومت الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک حکم پر روک لگانے کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوپی حکومت کی یہ کوشش الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف ہے، جس میں کورٹ نے ریاست کے پبلک ہیلتھ سسٹم میں اصلاح کرنے اور اس کی آڈیٹنگ کرانے کے لئے کہا تھا۔حالانکہ یہ عرضی ابھی تک منظور نہیں کی گئی ہے، لیکن اس کو 3 بار سپریم کورٹ کے سامنے غور کرنے کے لئے لایا جا چکا ہے۔ دی وائر نے اس عرضی کی کاپی اور یوپی کی آدتیہ ناتھ حکومت کے ذریعے داخل کیے گئے دوسرے حلف نامہ کا مطالعہ کیا ہے۔
ریاستی حکومت الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے مارچ کے مہینے میں دئے گئے ایک اہم فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہ فیصلہ اپنے وسیع ہدایات اور چھوٹی سی چھوٹی تفصیلات کے متعلق برتی گئی احتیاط کو دیکھتے ہوئے قابل ذکر تھی۔ کورٹ کے فیصلے میں ریاست کی صحت پر خرچوں اور مریضوں اور ان کے ہوسٹ کو مفت کھانے کے انتظام کی آڈٹ کروانے اور ایمبولینس کو کھلا راستہ ملنے کو یقینی بنانے کی بات شامل تھی۔ کورٹ نے اپنی ہدایت میں یہ بھی کہا کہ سرکاری ملازمین کو پبلک ہیلتھ سہولیات کا استعمال کرنا چاہئے اور حکومت کو ذاتی ہسپتالوں میں ان کے ذریعے کئے گئے خرچوں کی ادائیگی نہیں کرنی چاہئے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اشوک بھوشن نے پہلی سماعت کے دوران خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا تھا۔ تب سے یوپی حکومت اس معاملے میں سپریم کورٹ سے روک لگانے کا حکم لینے میں ناکام رہی ہے۔ریاستی حکومت اس معاملے میں یکطرفہ روک چاہتی ہے۔ یعنی اس کی خواہش ہے کہ ہائی کورٹ میں صحت خدمات میں اصلاح کے لئے عرضی دائر کرنے والوں کی بات سنے بغیر ہی سپریم کورٹ حکم پر روک لگا دے۔
اس فیصلے کو لےکر اترپردیش حکومت کی بےچینی کا سبب شاید یہ فیکٹ ہے کہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرتے ہوئے یہ بتانے کی مانگ کی تھی کہ آخر میڈیکل ایجوکیشن کے چیف سکریٹری رجنیش دوبے اور الٰہ آباد کے موتی لال نہرو (ایم ایل این) میڈیکل کالج کے پرنسپل کے خلاف جھوٹا حلف نامہ دینے کے لئے Criminal Contempt کا معاملہ کیوں نہیں دائر کیا جانا چاہئے۔
پالیسیوں اور فنڈز کے خراب مینجمنٹ کے لئے ہائی کورٹ کے ذریعے اعلیٰ افسروں کی اس طرح سے کھنچائی عام بات نہیں ہے۔ کورٹ کے تفصیلی حکم (جس میں 21 ہدایات ہیں) کو نافذ کرانے میں تو حکومت کا پسینہ چھوٹےگا ہی، جھوٹھا حلف نامہ دائر کرنے کے معاملے میں بھی اس کی کرکری ہونا طے ہے۔ اس لئے اپنے ایک افسر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والے ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگانے کی کوشش میں اترپردیش حکومت نے دلیل دی ہے کہ ہائی کورٹ نے رجنیش دوبے کو ‘ نوٹس دینے کے معاملے میں غلطی کی ہے۔ ‘
حکومت نے کہا ہے کہ صحت نظام میں پچھلے دس سالوں کی مالی لین دین کی آڈٹ کرنا ‘ ممکن نہیں ‘ ہے۔ حکومت نے بار بار یہ بھی کہا کہ کورٹ نے جس طرح کے وسیع عوامی اصلاحات اور جوابدہی لانے کی بات کی ہے، اس کی مانگ تو خود درخواست گزار نے بھی نہیں کی تھی اور اس طرح سے ہائی کورٹ کو ‘ عرضی میں کی گئی مانگوں ‘ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
دلچسپ یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو ذاتی طور پر کوئی راحت نہ دےکر ان وسیع عوامی اصلاحات کا حکم دیا ہے۔ یہ دھیان رکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ ہائی کورٹ کے حکم میں ریاستی حکومت کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے، لیکن ریاستی حکومت نے اس تجویز میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے جس میں کہا گیا تھا، ‘ جب بھی ریاستی حکومت کے کسی افسر کو ضرورت محسوس ہو، وہ ایک درخواست داخل کرکے اس حکم کی وضاحت / تبدیلی کے لئے کورٹ کے پاس آ سکتاہے ‘
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مارچ 2018 میں یہ حکم اسنہلتا سنگھ نام کی خاتون کی عرضی پر دیا تھا۔ اسنہلتا سنگھ اتر پردیش کی غریب فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔اس نے فروری 2007 میں اپنے ساتویں بچے کو جنم دیا تھا۔تولید کے بعد وہ کئی مہینوں تک لگاتار پیشاب کے بہاؤ (یورن ڈسچارج) کے مسئلہ سے متاثر رہی اور ا س کے علاج کے لئے انہوں نے کم سے کم 10 ہسپتالوں، جس میں سرکاری ہسپتال بھی شامل تھے، کے چکر لگائے۔ وہ کلکٹر اور ریاست کے چیف ہیلتھ آفیسرکے پاس بھی گئیں۔ان کی فیملی ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے بڑے قرض لے رہی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ڈھائی سو روپے جیسی چھوٹی رقم بھی قرض کے طور پر لی۔ لیکن ان کے اس مشکل دور میں سرکاری افسروں نے ان کے ساتھ مبینہ طور پر اچھا سلوک نہیں کیا۔
اکتوبر، 2007 میں لکھنؤ کے مشہور کنگ جارج میڈیکل کالج (کے جی ایم یو) میں آخرکار ان کی بیماری کی وجہ پتہ چلی، لیکن ان سے کہا گیا کہ آپریشن کے لئے بھرتی کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی بستر خالی نہیں ہے۔5 مہینے بعد، فروری 2008 میں کنگ جارج میڈیکل کالج میں ان کے لئے ایک بستر دستیاب ہوا۔ اس وقت تک ان کی تولید اور لگاتار پیشاب ڈسچارج کے مسئلہ کو شروع ہوئے ایک سال کا وقت ہو گیا تھا۔ سرجری کے دو مہینے بعد کے جی ایم یو کو ان کے جسم میں لگے کیتھیٹر(Catheter) کو ہٹانے کا وقت مل پایا۔
اسنہلتا نے نجی راحت کی مانگ کرتے ہوئے (خرچکی ادائیگی کے طور پر 50000 روپے اور معاوضے کے طور پر 5 لاکھ روپے) ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کی تھی۔ اس عرضی میں خاص طور پر ریاست کے عوامی صحت کے ڈھانچے میں اصلاح کی مانگ کی گئی تھی۔ کورٹ میں ان کی ایک مانگ تھی، ‘ یہ یقینی بنائیے کہ مادری صحت کو لےکر علاج کے لئے آنے والی تمام غریب خواتین کا ریاست کے ذریعے پوری طرح سے خیال رکھا جائے، بنا اس بات کی پرواہ کئے کہ ان کے علاج سے متعلق ضروریات کیسی ہیں۔ ‘
انہوں نے تولید سے پہلے، عمل تولید اور تولید کے بعد دیکھ بھال کے لئے نیشنل رورل ہیلتھ سروس گارنٹی کو سختی سے نافذ کرنے کی بھی مانگ کی۔ انہوں نے یہ مانگ بھی کی تھی کہ تمام پرائمری ہیلتھ سینٹر اور ضلع ہسپتالوں میں خواتین کو ان کے علاج کے سارے ریکارڈ دستیاب کرائے جائیں۔ آخر میں ان کی یہ مانگ بھی تھی کہ شکایتوں کے حل کے لئے ایک نظام بنایا جائے اور ماں بننے کے دوران ہوئی اموات کی آڈٹ کروائی جائے۔
سدھیر اگروال اور اجیت کمار کی رکنیت والی ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے اس معاملے میں ایک 96 صفحے کا حکم دیا۔ان میں سے 7 صفحات میں صرف اترپردیش حکومت کو ہدایات دئے گئے ہیں۔ ان میں 21 ہدایات اور کئی ذیلی علاقے ہیں۔ 96 صفحات کے اس حکم کا ایک بڑا حصہ سرکاری ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں ویکنسی سے لےکر دوسری تمام چیزوں اور یوپی کے صحت نظام میں فنڈ کے استعمال کو لےکر اعداد و شمار پر ہے۔
اس حکم میں معیاری میڈیکل علاج کو ‘ غریب لوگوں کے لئے بھی اسی طرح سے دستیاب کرانے کے لئے ‘ کہا گیا ہے، ‘ جس طرح سے یہ وسائل اعلیٰ افسروں اور امیر لوگوں کے لئے دستیاب ہے۔ ‘ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘ لوگوں کو ان کی غریبی، ناخواندگی اور دوسری مجبوریوں کی وجہ سے میڈیکل دیکھ بھال کے معاملے میں تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔ ‘
الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے دی گئی کچھ ہدایات اس طرح ہیں؛
1۔ ہائی کورٹ میں جھوٹا حلف نامہ دائر کرنے کے لئے میڈیکل ایجوکیشن کے چیف سکریٹری اور ایم ایل این میڈیکل کالج کے پرنسپل کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا جائے۔
2۔ سارے سرکاری افسر صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہی میڈیکل علاج حاصل کریں اور ان کے ساتھ کسی طرح کا ‘ وی آئی پی برتاؤ ‘ نہ کیا جائے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ان کے خرچوں کی ادائیگی حکومت نہ کرے۔
3۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ فنڈز کا پوری طرح سے استعمال ہو۔ فنڈ کا استعمال ہونے کے لئے ذمہ دار لوگوں پر انضباطی کارروائی کی جائے، کیونکہ پیسہ خرچ نہ کئے جانے کا مطلب ہے کہ اس حد تک ضروری خدمات سے لوگوں کو محروم کیا گیا ہے۔
4۔ ہندوستان کے Comptroller and Auditor General (سی اے جی) کے ذریعے میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کی دو مہینے کے اندر آڈٹ کی جائے۔ اس آڈٹ میں پچھلے 10سالوں میں آئے اور استعمال کئے گئے فنڈز کی تفتیش کی جانی چاہئے۔ مجرم پائے جانے والے افسروں پر دیوانی، فوجداری اور شعبہ جاتی کارروائی کی جائے۔
5۔ ضلع ہسپتالوں، کمیونٹی ہیلتھ سینٹر اور پرائمری ہیلتھ سینٹر کی بھی آڈٹ کی جانی چاہئے۔ تمام جانچوں کو ایک سال کے اندر پورا کرنا ہوگا۔
6۔ سرکاری ہسپتالوں کی تمام خالی جگہوں کو اس حکم کے7 مہینے کے اندر بھرا جائے۔
7۔ زچہ بچہ کی دیکھ بھال کے لئے لیڈی ڈاکٹروں اور معاون اسٹاف کی بھرتی کی جائے۔
8۔ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے سرکاری ڈاکٹروں اور سرکاری ڈاکٹروں کے ذریعے مریضوں کو ریڈیو جانچ اور پیتھولاجی جانچ کے لئے نجی اداروں میں بھیجنے کے رجحان کی بھی جانچ کی جانی چاہئے۔
9۔ میڈیکل افسروں کو اسقاط حمل پر نظر رکھنی چاہئے۔ نان رجسٹرڈ ہسپتالوں کو اسقاط حمل کرانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس ہدایات کو پورا کر پانے میں ناکامی اور کسی ملی بھگت کے لئے میڈیکل افسران ذمہ دار ہوںگے۔
10۔ معیاری دوائیوں، اوزاروں اور آپریشن تھیئٹروں کا انتظام اور ان کا رکھ رکھاؤ ہونا چاہئے۔
11۔ ٹریفک مینجمنٹ کی اصلاح کی جانی چاہئے، تاکہ ایمبولینس کو کھلا راستہ مل سکے۔ غیر متعینہ پارکنگ اور غیر قانونی قبضے کو ختم کیا جانا چاہئے۔ نئی گاڑی خرید رہے لوگوں کے گھر میں اگر منظم پارکنگ نہیں ہے، تو ان کو نئی گاڑی خریدنے سے روکا جانا چاہئے۔
12۔ مریضوں اور ان کے ہوسٹ کو مفت کھانا دیا جانا چاہئے۔
13۔ میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کے لان کا استعمال شادی جیسی تقریبات کے لئے نہیں کیا جانا چاہئے۔ 10 بجے رات کے بعد شور شرابے والے پروگرام کا انعقاد نہیں کیا جانا چاہئے۔
14۔ اس پورے عمل کی دیکھ ریکھ اتر پردیش کے چیف سکریٹری کریںگے اور 6 مہینے کے اندر پروگریس رپورٹ دیںگے۔
Categories: فکر و نظر