بھیک مانگنے کو جرم کے زمرہ سے باہر کئے جانے سے جڑی پی آئی ایل کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ کی بنچ نے کیا تبصرہ۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ملک میں اگر حکومت کھانا یا نوکریاں دینے میں نااہل ہے تو بھیک مانگنا ایک جرم کیسے ہو سکتا ہے؟عدالت ان دو مفاد عامہ عرضی کی سماعت کر رہی تھی، جن میں بھیک مانگنے کو جرم کے زمرہ سے باہر کئے جانے کی گزارش کی گئی تھی۔کارگزار چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر کی ایک بنچ نے کہا کہ ایک آدمی صرف ‘ بھاری ضرورت ‘ کی وجہ سے ہی بھیک مانگتا ہے نہ کہ اپنی پسند کی وجہ سے۔
عدالت نے کہا، ‘ اگر ہمیں ایک کروڑ روپے کی پیشکش کی جاتی ہے تو آپ یا ہم بھی بھیک نہیں مانگیںگے۔ یہ بھاری ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ کھانے کے لئے بھیک مانگتے ہیں۔ ایک ملک میں جہاں آپ (حکومت) کھانا یا نوکریاں دینے میں نااہل ہیں تو بھیک مانگنا ایک جرم کیسے ہے؟ ‘مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ بامبے پریوینشن آف بیگنگ ایکٹ میں مناسب اہتمام ہے۔ اس قانون کے تحت بھیک مانگنے کو جرم بتایا گیا ہے۔
مرکزی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر غریبی کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے تو بھیک مانگنا جرم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا تھا کہ بھیک مانگنے کو جرم کے زمرہ سے باہر نہیں کیا جائےگا۔بامبے پریوینشن آف بیگنگ ایکٹ کو چیلنج دیتے ہوئے ہرش مندر اور کرنیکاساہنی کے ذریعے داخل پی آئی ایل میں بھیک مانگنے کو جرم کے زمرہ سے باہر کرنے کے علاوہ قومی راجدھانی میں فقیروں کو بنیادی انسانی حقوق دینے کی گزارش کی گئی تھی۔
مرکزی حکومت اور دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اکتوبر 2016 میں عدالت سے کہا تھا کہ منسٹری آف سوشل جسٹس بھیک مانگنے کو جرم کے زمرہ کے باہر کرنے اور ان کی بازآبادکاری کو لےکر مسودہ تیار کر رہی ہے، لیکن قانون میں تبدیلی کرنے کے فیصلے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔بامبے پریوینشن آف بیگنگ ایکٹ کے مطابق، اگر کوئی آدمی پہلی بار بھیک مانگتے ہوئے پکڑا جاتا ہے، تو اس کو 3 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اس قانون کے تحت 10 سال تک حراست میں رکھنے کا اہتمام ہے۔فی الحال بھیک مانگنے کے کام کو روکنے کے لئے مرکزی حکومتی سطح پر کوئی قانون نہیں ہے۔ جتنے بھی ریاستوں نے بھیک مانگنے کے پیشے کو جرم کے زمرہ میں رکھا ہے، وہ سبھی بامبے پریوینشن آف بیگنگ ایکٹ کی طرح قانون کو نافذ کیا ہے اور کچھ نے اس میں تھوڑی تبدیلی کر کے نافذ کیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں