خبریں

سول سروس : پی ایم او کی تجویز کے پیچھے وفادار نوکرشاہی تیار کرنے کی منشا ہے

وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کی نئی پہل کامیاب ہوتی ہے تو یونین پبلک سروس کمیشن(یوپی ایس سی) کے ذریعے کرایا جانے والا سول سروس اگزام میں اچھا مظاہرہ کرنا ہی آپ کی پسند کی آل انڈیا  سروس میں داخل ہونے کے لئے کافی نہیں رہ جائے‌گا۔

لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں زیرتربیت افسروں کو خطاب کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں زیرتربیت افسروں کو خطاب کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کی نئی پہل کامیاب ہوتی ہے، تو یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی)کےذریعے کرائے جانے والے سول سروس اگزام  میں اچھا مظاہرہ کرنا ہی آپ کی پسند کی آل انڈیا  سروس میں داخل ہونے کے لئے کافی نہیں رہ جائے‌گا۔پروبیشن پر کام کر رہے کامیاب امیدوار آخرکار کس سروس میں جائیں‌گے اور ان کو کون سا کیڈر ملے‌گا، اس پر فیصلہ لینے کے لئے الگ سے تجزیہ کرنے پر غور  کیا جا رہا ہے، جو ایک ضروری ‘ فاؤنڈیشن کورس  ‘ میں ان کے مظاہرے پر مبنی ہوگا۔

اگر وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کی تازہ ترین تجویز کو قبول‌کر لیا جاتا ہے، تو نظریاتی طور پر کسی امیدوار کے لئے کم رینک آنے کے باوجود اوپر کے رینک  سے ملنے والی سروس میں پہنچنا ممکن ہو جائے‌گا۔فرض کر لیجئے کہ سول سروس اگزام میں کسی امیدوار کے رینک  کے مطابق اس کو صرف انڈین ڈفینس اکاؤنٹس سروس مل سکتی ہے،لیکن اس تجویز کے بعد وہ لال بہادر شاستری نیشنل  اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن، مسوری یا سردار ولبھ بھائی پٹیل پولیس  اکیڈمی یاپبلک سروس  کے لئے دوسری اکادمیوں میں فاؤنڈیشن کورس  میں مظاہرہ کی بنیاد پر انڈین ایڈمنسٹریشن سروس میں چھلانگ لگا سکتا ہے۔

مرکز کے محکمہ ڈی او پی ٹی نے وزیر اعظم دفتر کے اس تجویز پر مختلف وزارتوں سے مشورہ مانگا ہے، مگر اس نے پہلے ہی سبکدوش، نوکری والے اور مستقبل کی  پبلک سروس  کو بھڑکا دیا ہے۔  ڈی او پی ٹی اسی سال سے اس نئے نظام کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔

DoPT-letter

ڈی او پی ٹی کے خط میں کہا گیا ہے کہ پی ایم او نے ‘ نیچے دئے گئے مشورہ پر مشورہ  مانگا ہے اور اس کو اسی سال سے نافذ کرنے کے لئے ضروری قدم اٹھانے کی خواہش جتائی ہے:مرکزی حکومت کی وزارت ‘اس بات کی جانچ کریں کہ کیا سول سروس اگزام کی بنیاد پر منتخب زیرتربیت افسروں کو سروس پرووائیڈ/ کیڈر پرووائیڈ  فاؤنڈیشن کورس  کے بعد کیا جا سکتا ہے؟  فاؤنڈیشن کورس  میں مظاہرہ کو مناسب اہمیت کس طرح سے دی جا سکتی ہے؟  اس بات کی گنجائش کی بھی جانچ کی جائے کہ کیا آل انڈیا  سروس کے افسروں کو سروس اور کیڈر دینے کے معاملے میں  سول سروس اگزام اور فاؤنڈیشن کورس  دونوں کے مجموعی نمبرات کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے؟ ‘

مختلف وزارتوں میں ڈی او پی ٹی کے اس خط کے پہنچنے کے دو دن بعد، نوکرشاہوں کے وہاٹس ایپ گروپوں میں یہ بحث کا اہم مدعا بن گیا ہے۔ان کے رد عمل کی تین پرتیں ہیں: پہلی، کسی زیرتربیت کو مختص کی جانے والی سروس پر فیصلہ کرنے کے لئے فاؤنڈیشن کورس  میں اس کے مظاہرہ کا استعمال کرنے سے یو پی ایس سی اگزام کی معروضیت کو نقصان پہنچے‌گا اور زیرتربیت کو اپنے ممتحن کے شخصی بنیاد پرکیے گئے تجزیے پر منحصر ہونا پڑے‌گا۔

دوسری، کچھ افسر اسی سال سے اس نئے نظام کو نافذ کرنے کی خواہش کے پیچھے گہری چال دیکھ رہے ہیں۔  تیسرا، یہ تجویز کئی سارے تکنیکی سوالوں کو جنم دینے والی ہے اور سروس مختص اور ٹریننگ کے موجودہ نظام کو دیکھتے ہوئے، ان کو آسانی سے سلجھایا جانا ممکن نہیں ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے اس بات کا ڈر پیدا ہوتا ہے کہ آسانی سے قبضے میں کی جا سکنے والی اکادمیاں، جن کے پاس غیر معمولی اختیارات ہیں، سب سے زیادہ مانگ میں رہنے والی سروسوں کا دروازہ ان لوگوں کے لئے کھول دیں‌گی، جن کا نظریہ موجودہ حکومت کے مطابق ہوگا، اور یہ آہستہ آہستہ ایک وفادار نوکرشاہی کی روایت کو جنم دے گا۔اس وقت  نوکری کر رہے ایک افسر نے بتایا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے قریبی طور پر جڑے سنکلپ کوچنگ سینٹر پورے ملک میں کھل گئے ہیں اور کئی نوکری کرنے والے   اور ریٹائر نوکرشاہ ان میں باقاعدہ طور پر لکچر دینے کے لئے جاتے ہیں۔

کچھ نوکرشاہوں کا یہ سوال ہے کہ کیا اکادمیاں زیرتربیت لوگوں کی صلاحیت کا اندازہ لگانے اور ان کے لئے سروس  مختص کرنے کا فیصلہ کرنے کے لائق ہیں؟مسوری کی اکادمی میں کام کر چکے ایک جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کا کہنا ہے، ‘ کیا ان کو ضرورت سے زیادہ طاقت نہیں دی جا رہی ہے؟  ایک ایسے نظام کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کے پیچھے ضرور کوئی گہری چال ہوگی، جس کی غیر جانبداری کو دنیا بھر میں منظور کیا جاتا ہے۔  اب تعصبات کی بنیاد پر چیزوں کو طے کیا جائے‌گا۔  ‘

ایک ریٹائر سکریٹری کا کہنا ہے کہ ایل بی ایس این اے اےکے فاؤنڈیشن کورس  کے نتیجے سبجیکٹو ہوتے ہیں۔  ‘ کئی زیرتربیت لوگ اپنے علم کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ فاؤنڈیشن کورس  میں ہمیشہ اچھا کرتے ہیں۔  جبکہ یوپی ایس سی کے نتیجے سیل بند، دستخطی اور چھیڑ چھاڑ سے آزاد ہوتے ہیں۔  ‘نوکری کرنے والے آئی ای ایس کی بڑی تعداد والی ایک بڑے وزارت میں کام کر چکے اس ٹاپ نوکرشاہ کو یہ بھی لگتا ہے کہ فاؤنڈیشن کورس  کے بعد سروس کا فیصلہ کرنے کا قدم نوکرشاہوں کے ذریعے ان کے کیریئر کی شروعات میں ہی بڑے پیمانے پر قانونی مقدموں کی وجہ بنے‌گا۔

پہلے ہی، زیرتربیت کا سروس کے  اندر کے رینک  کا فیصلہ فاؤنڈیشن کورس  میں مظاہرہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔  ایک نوکری کر رہے  جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کا کہنا ہے کہ ایل بی ایس این اے اے  اور دوسری اکادمیوں میں کیا جانے والاتجزیہ  تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔  وہ ایک مثال دیتے ہیں، جب پورے ہندوستان میں ٹاپ ٹین  میں آنے والے ایک زیرتربیت امیدوارمسوری میں فاؤنڈیشن کورس  کے بعد رینکنگ میں کافی نیچے چلا گیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت سارے سوال پوچھتا تھا اور ہمیشہ اساتذہ اور ڈائریکٹرس سے اتفاق نہیں رکھتا تھا۔  ‘ اب آپ تصور کیجئے کہ مختص کی جانے والی سروس بھی ان سول سروس اکادمیوں کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ بھی تمام طرح کی آل انڈیا  سروسیز کے لئے۔  ‘مسوری میں کام کر چکے ایک نوکرشاہ اس کو کہیں وسیع النظری سے دیکھتے ہیں۔  وہ بتاتے ہیں کہ وہاں پی ایس اپو اور این سی سکسینہ جیسے کچھ یادگار ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔  وہ یاد کرتے ہیں کہ سکسینہ  اس وقت کی حکومت کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو بھی لیکچر دینے کے لئے بلایا کرتے تھے اور اس طرح سے انہوں نے اکادمی کو ایک کھلے اعتدال پسند اسٹیج میں تبدیل کر دیا تھا۔  اسی طرح سے نائب ڈائریکٹر کے طور پر ہرش  مندر نے کچھ اہم  قدم اٹھائے، جن کے لئے ان کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

ان مثالوں کو چھوڑ دیں، تو وہاں کئی ایسے ڈائریکٹر رہے ہیں، جنہوں نے آئی اے ایس میں اپنے کیریئر کی دو تہائی ان اکادمیوں میں ہی گزاری اور جن کے پاس زیادہ زمینی تجربہ نہیں ہے۔مسوری میں انتظامی عہدے پر کام کر چکے ایک نوکرشاہ بتاتے ہیں کہ مسوری کی اکادمی گھٹیا پن اور بھائی بھتیجاواد کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔  وہ کہتے ہیں،اب ایسے لوگوں  سروس  مختص کرنے میں کردار ادا کریں گے۔  ‘ کچھ مثال اس کے خطرناک انجاموں کو نشان زد کرنے کے لئے کافی ہوں‌گے۔

مشکل سے ایک دہائی پہلے، دو زیرتربیت لوگوں کے ذریعے لکھے گئے مضامین پر ایک استاد کی نظر گئی۔  انہوں نے ان مضامین کی جانچ گوگل سرچ پر کی اور پایا کہ ان میں سے ایک مضمون لیو ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس‌کے ایک باب سے اٹھایا گیا تھا اور دوسرا دلائی لاما کی ایک تقریر سے سیدھے طور پر مار لیا گیا تھا۔ان دونوں کو زیرو نمبر دئے گئے۔  لیکن، اس وقت کی اکادمی کے ڈائریکٹر نے ان دونوں کے بچاؤ میں اترتے ہوئے، اس استاد سے ان کو پاس کر دینے کے لئے کہا۔  ان کی دلیل سیدھی سی تھی : ‘ آپ کسی مضمون میں زیرو نہیں دے سکتے ہیں۔  بھلےہی وہ کسی کلاسیکی شاہکار سے چرایا گیا ہو گا یا سیدھے سیدھے کسی مضمون کی باز تخلیق ہی کیوں نہ ہو۔  ‘

ایک دوسری مثال میں، ایک زیرتربیت کو سنگاپور میں ایک سرکاری دورے کے دوران دکان سے چوری کرتے ہوئے پایا گیا۔  لیکن، سخت کارروائی کا سامنا کرنے کی جگہ وہ ایک بچاؤ کرنے والے ڈائریکٹر کی مدد سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔  بعد میں وزارت داخلہ کے سینئر افسروں کو اس بات کا پتا چلنے پر، اس کو دو سال کے لئے اکادمی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، مگر اب وہ پھر سے سروس میں لوٹ آیا ہے۔تیسرے واقعے میں ایک نے شراب پی‌کر گاڑی چلائی اور اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، جس میں اس کے ایک بیچ میٹ کی موت ہو گئی۔  لیکن ڈائریکٹر کے فضل سے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

پی ایم او کے اس نئی تجویز کی سب سے سخت تنقید کی ہے جواہر سرکار نے جو مرکزی حکومت میں سکریٹری کے طور پر سبکدوش ہوئے اور پرسار بھارتی کے چیئرپرسن بھی رہ چکے ہیں۔  ان کو ڈر ہے کہ یہ قدم نوکرشاہوں کے نئی نسل کا دم گھونٹ دے‌گا۔ اب کوئی بھی زیرتربیت فاؤنڈیشن کورس  کے دوران خراب تجزیہ  اور خراب سروس میں بھیج دئے جانے کے ڈر سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کرے‌گا۔جن کو یہ لگتا ہے کہ مجوزہ نیا نظام ایک اچھا خیال  ہے، وہ بھی اس بات کو لےکر ایک رائے ہیں کہ اس کو کافی تیاری کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہئے۔  ڈی او پی ٹی کے سابق سکریٹری ستیانند مشرا ان میں سے ایک ہیں۔  وہ اس تجویز کو ایک ‘ بڑا قدم، ایک اچھا قدم ‘ مانتے ہیں۔  لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اکادمیوں میں تجزیے کے موجودہ نظام کو ختم کیا جائے۔ان کا کہنا ہے، جانچ اور تجزیے کے نظام میں سبجیکٹویٹی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے اور اس کو زیادہ عملی  پیمانے پر کیا جانا چاہئے۔  ‘

لال بہادر شاستری نیشنل  اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن کیمپس، مسوری۔  (فوٹو بشکریہ ؛ایل بی ایس این اے اے)

لال بہادر شاستری نیشنل  اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن کیمپس، مسوری۔  (فوٹو بشکریہ ؛ایل بی ایس این اے اے)

ایک دیگر سابق سکریٹری وجاہت حبیب اللہ بھی اس خیال  کی حمایت کرنے والوں میں ہیں۔  لیکن وہ اکادمیوں کے موجودہ تنظیمی حیثیت اور فیکلٹی میں پوری تبدیلی چاہتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ معزز ہستیوں کو ڈائریکٹر بنایا جانا چاہئے اور ان کا انتخاب کافی احتیاط سے اور بنا کسی تعصب کے کیا جانا چاہئے۔لیکن حکومت کو ان کی صلاح ہے کہ اس کو اس خیال  کو آگے بڑھانے کے لئے وقت خرچ کرنا چاہئے اور اس کو نافذ کرنے میں جلدبازی کرنے سے بچنا چاہئے۔  حبیب اللہ یہ بھی چاہتے ہیں اس بارے میں تجویز  ایل بی ایس این اےے کی طرف سے حکومت کو دی جانی چاہئے، نہ کہ حکومت کی طرف سے اس کے پاس جانی چاہئے۔

صارفین معاملوں کے مرکزی سکریٹری کے طور پر سبکدوش ہوئے کیشو دیسی راجو کا کہنا ہے کہ  LBSNAA  کی فیکلٹی میں سروسوں پر فیصلہ کرنے کے لئے اضافی تجزیہ کرنے کے لائق تجربہ نہیں ہے۔  ان کو لگتا ہے کہ اپنا کام آزادی کے ساتھ یہ کام کرنے میں سب سے قابل یو پی ایس سی ہی ہے۔  ان کا ماننا ہے کہ اس کی جگہ تمام کامیاب امیدواروں کا ایک نفسیاتی ٹیسٹ لیا جانا چاہئے۔اس تجویز کو لےکر نوکرشاہوں کے ذریعے کئی تکنیکی مسائل کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔  پہلا سوال تو یہی ہے کہ آخر اس فاؤنڈیشن کورس  میں ہوگا کیا؟  فی الحال تمام سروسوں کے زیرتربیت افسر پہلے تین مہینے کا کورس  ساتھ کرتے ہیں اور اس کے بعد آگے کی ٹریننگ کے لئے ان کی سروسوں کے لئے مخصوص طور پر نشان زد اکادمیوں میں جاتے ہیں۔

مثال کے لئے زیرتربیت آئی اے ایس مسوری میں ہی رک جاتے ہیں۔  پہلے سال کے اختتام سے پہلے کیڈر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور وہ اپنے کیڈر ریاست کی زبان سیکھنا شروع کرتے ہیں۔  دوسرے سال میں تمام زیرتربیت افسر اپنے کیڈروں میں جاکر فیلڈ ٹریننگ لیتے ہیں۔حکومت اس جانب دھیان دلاتی ہے کہ نئی تجویز میں یہ صاف نہیں ہے کہ کیا سروس / کیڈر مختص پہلے تین چار مہینے کے بعد کیا جائے‌گا یا دو سال کے آخر میں۔  ‘ اگر ٹریننگ کے چار مہینے کے اندر ہی سروس  مختص کر دیا جاتا ہے، تو کیا یہ غیر جانبدارانہ ہوگا؟  کیا یہ فیصلہ لینے کے لئے کافی کم وقت نہیں ہے؟ ‘

اور اگر سروس / کیڈر مختص دو سالوں کے بعد کیا جاتا ہے، تو فیلڈ اور زبان کی ٹریننگ کا کیا ہوگا؟  اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کوئی زیرتربیت فیلڈ ٹریننگ کے لئے کسی ریاست میں جائے‌گا مگر اس کو کوئی دوسری ریاست مختص کر دی جائے‌گی۔جواہر سرکار کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام میں، جس لمحہ کیڈر مختص ہو جاتا ہے، زیرتربیت اس ریاست کے متعلق ایک وفاداری کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں، اس کی زبان اور تاریخ کو سیکھنا اور اس ریاست کے لوگوں سے بات چیت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔  اب یہ سب ختم ہو جائے‌گا۔ایک سبکدوش سکریٹری کا کہنا ہے کہ یہ تجویز مودی حکومت کے دوسرے سارے اقدامات کی طرح سے ادھ پکا اور خراب ارادوں سے بھرا ہے۔  وہ کہتے ہیں، ‘ یہ نظام کو اچھا تو نہیں بنائے‌گا، اس کو برباد بے شک کر دے‌گا۔  ‘

(اکشے مکل سینئر صحافی اور ‘گیتا پریس اینڈ دی میکنگ آف ہندو انڈیا ‘ کتاب کے مصنف ہیں۔)