افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کی نئی نسل میں جاسوسی ادب میں اب کوئ بڑا نام نہیں ہے، اور خاص طور پر ہندوستان میں تو ڈٹیکٹو فکشن کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
Mazhar Kaleem, the famous novelist in the genre of spy fiction in #Urdu, is no more. Though dozens of writers tried to imitate the legendary Ibn-e-Safi, no one was as successful as Kaleem who had developed a style of his own in detective novels. Last rites performed in Multan. pic.twitter.com/3cwGjNmLy0
— Shams Ur Rehman Alavi (@indscribe) May 26, 2018
جاسوسی فکشن یا سری ادب کے شایئقین کے لئے مظہر کلیم کے انتقال کی خبر ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ پانچ سو سے زیادہ ناولز کے مصنف مظہر کلیم کا ایک منفرد انداز تحریر تھا اور وہ کئ نسلوں کے محبوب رایٹر تھے-ان کا سنیچر (26 مئی) کے روز ملتان میں انتقال ہو گیا-وہ طویل عرصےسے بیمار تھے ، ان کی عمر 75 برس تھی۔
ایک عرصہ تک انگنت اردومصنفین نے ابن صفی کے تخلیق کردہ زندہ جاوید کرداروں—فریدی، حمید اور عمران، پر مبنی ناولز لکھے۔ان میں بہت کم ایسے تھے جو اس کوشش میں کامیاب ہوۓ ۔ مگر مظہر کلیم کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے نہ صرف ڈٹیکٹو فکشن میں ابن صفی کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ ان کے ناولز کو حیرت انگیز مقبولیت بھی ملی۔
سچ یہ ہے کہ ابن صفی کے ‘ڈاے ہارڈ’ پرستاروں نے ہر نیے لکھنے والے کو ابن صفی کی کسوٹی پر ہی پرکھنا چاہا ، پھر وہ زبان و بیان ہو ، پلاٹ یا مزاح – ویسے بھی ابن صفی کے قائم کئے سحر سے باہر آنا اس جنریشن کے لئے آسان نہیں تھا۔ خصوصاً تب، جب کہ قاری نئے کرداروں کو بھی قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔بہر حال مظہر کلیم نے اپنی راہ چن لی تھی۔ وہ لکھتے رہے، تسلسل سے لکھا، خوب لکھا، نئے کردار جیسے کیپٹین شکیل اور ٹایئگر کو متعارف کیا۔ اور ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ ‘عمران سیریز’ کو پاکستان میں نئی نسل کے لوگ، ‘مظہر کلیم’ سے ہی منسوب کرنے لگے۔
ہندوستان میں ایچ اقبال اور مشتاق احمد قریشی کی اپنی مقبولیت تھی ۔ مگر یہاں اردو جاسوسی ادب میں لکھنے والوں کے قلم تھک چکے تھے-سرحد پار چھپنے والے کسی بھی ناول کی آمد ایک خوش گوار جھونکے کی طرح ہوتی تھی۔ گو مظہر کلیم کے ناول یہاں ڈایجسٹس میں شایع نہیں ہوتے تھے، انکے کچھ مشہور ناول کبھی کبھار پڑھنے کو مل جاتے۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے ہندوستان میں بھی انکے ناول پڑھے جانے لگے۔
گزشتہ15-10 برسوں میں اردو ڈسکشن بورڈز ، بلاگز اور آن لایئن فارمز پر ان ناولز کے لئے قاریئن کا اشتیاق دیکھ کر انکی مقبولیت کا اندازہ ہوتا تھا۔ ہمارے لئے یہ احساس طمانیت کم نہیں تھا کہ اردو میں جاسوسی ادب کی روایت زندہ اور تازہ دم رہی۔ اس لحاظ سے وہ ابن صفی کے وارث اور انکی روایت کے امین تھے۔مظہر کلیم پیشہ سے وکیل تھے۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کہانیاں لکھیں، مگر شہرت انہیں ناولز سے ہی ملی۔
مظہر کلیم کی پیدایئش ملتان میں سن 1942 میں ہوئ تھی۔ وہیں ابتدائ تعلیم حاصل کی۔ پیشہ ور وکالت کے ساتھ، ناول نگاری آسان کام نہیں تھا۔ روز عدالت سے آنے کے بعد وہ لکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ انہوں بچوں کے لیے بھی سیکڑوں کہانیاں لکھیں۔ وہ جاسوسی ادب کے شایئقین کے لئے اپنی ناولوں کی شکل میں ایک بڑا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں-
افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کی نئی نسل میں جاسوسی ادب میں اب کوئ بڑا نام نہیں ہے، اور خاص طور پر ہندوستان میں تو ڈٹیکٹو فکشن کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
Categories: ادبستان