عرب نامہ :ایرانی نیوکلیر معاہدہ سے امریکہ کے الگ ہوجانے اور اقتصادی پابندی بحالی کے بعد یورپی ممالک معاہد ہ کو بچانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔
روزنامہ القبس نے مبارک فہد الدویلہ کا ایک کالم شائع کیا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کیا امریکہ اور ایران کی درمیان جنگ متوقع ہے؟ یا امریکہ کی طرف سے یہ جنگ اسرائیل لڑے گا؟ کیا خلیجی ممالک اس جنگ کا حصہ بنیں گے یا ایران کی دشمنی خلیجی ممالک کو اس جنگ کا حصہ بننے کےلیے مجبور کرے گی؟ ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی میڈیا میں کافی کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے اورتقریبا ًاسی طرح کی کشیدگی خلیجی میڈیا میں ایران کے خلاف نظرآرہی ہے اور ایران کو ایک دشمن کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔
ایرانی نیوکلیر معاہدہ سے امریکہ کے الگ ہوجانے اور اقتصادی پابندی بحالی کے بعد یورپی ممالک معاہد ہ کو بچانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ اجلاس اور سفارت کاری کا ایک طویل سلسلہ امریکہ کے معاہدہ سے الگ ہونے کے بعد سے شروع ہوا ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔اسی سلسلہ کی ایک میٹنگ ویانا میں 26 مئی کو ہوئی جس میں ایران نے یورپی ممالک کو چھ دنوں کا وقت دیا تاکہ وہ عملی حل اور اقتصادی پیکیج پیش کرسکیں جو امریکہ کے نکلنے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی ہوسکے۔
ویانا کی یہ میٹنگ ایران نے نیوکلیر ڈیل کو بچانے کے طریقوں پر غوروفکر کے لیے بلائی تھی، اس میٹنگ میں چین، روس، فرانس، برطانیہ ، جرمنی اور انٹرنیشل اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ نے شرکت کی جب کہ امریکہ اس میٹنگ سے غیر حاضر رہا۔
روزنامہ “الحیاۃ” کے مطابق سینٹ پیٹرز برگ میں روسی صدر ولادیمیر پتن نے معاہد ہ سے امریکی علاحدگی کے بعد کے نتائج سے خبردارکرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ایران پر یک طرفہ پابندیوں میں شریک نہیں ہوگا، روسی صدرنے بین الاقوامی بحرانوں کو حل کرنے کےلیے مکالمہ پر زوردیا تاکہ علاقہ کو اشتعال انگیزی سے بچایا جاسکے، انہوں نے کہا کہ ایران نے وسیع پیشکش کی اور کیے گئے وعدوں کو نافذ کیا ، اس کے باوجود امریکہ معاہدہ سے الگ ہوگیا ہے ، یہ پتہ نہیں چل رہاہے کہ اسے کیوں سزا دی جارہی ہے ، ، ان کا کہنا تھا ہر امریکی انتخاب کے ساتھ معاہدوں کا جائزہ ناقابل قبول ہے ، اس سے دنیا میں عدم اعتماد کا ماحول بڑھے گا۔
ہندوستانی وزیر اعظم اور روسی صدر ولادیمیر پتن کے درمیان سوتشی میں ہونے والی غیررسمی ملاقات پر” الشرق الاوسط” نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا جائزہ بدلتے جیوپولیٹکل (geopolitical) کےپس منظر میں پیش کیا ہے ، روسی حکام کے جانب سے یہ کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے ایشیا پیسفک خطے میں غیر جانبدرانہ سیکورٹی فریم ورک پر عمل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا، جب کہ ہندوستانی وزارت خارجہ کی جانب سے ریلیز میں کہا گیا ہے کہ “دونوں رہنماؤں نے ایک کثیرپولر دنیا کی تعمیر کی اہمیت پر اتفاق کیا اور ہندوستان اورپیسفک کے علاقے کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت اور تعاون کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔
پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا میں مصری حکومت اور تنظیم “الاخوان المسلمون” کے درمیان مفاہمت کی بات گردش کررہی تھی، اس پر لگام لگاتے ہوئے مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے کہا کہ”الاخوان المسلمون” کے ساتھ کسی کی طرح کی مصالحت کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے جنہوں نے مصریوں کا خون بہایا اور ہتھیار اٹھایا، سامح شکری نے ایک مصری ٹیلی ویژن سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم نے قوم کی مرضی کو سلب کرنے اور بیشتر مصریوں کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی ، روزنامہ الرأي کے مطابق انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ اس قانون سے خارج تنظیم کےلیے مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ صدر عبدالفتاح سیسی اس بات کی ہمیشہ تاکید کرتے ہیں مصر تمام مصریوں کا ہے جب تک وہ قانون اور ضابطوں پر عمل پیرا ہیں جو ہم تمام لوگوں کے لیے نقطہ اتحاد ہے، ہم لوگ اس طریقہ پر چل رہے ہیں۔
کویتی روزنامہ “القبس” کی خبر کے مطابق قطر کے اقتصادی امور کی وزارت نے تمام سوپر اسٹورز اور ہائپر مارکیٹ کو حکم دیا کہ وہ اپنے شیلف سے سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر سے درآمد شدہ اشیا فوری طور پر نکال دیں ۔ وزارت کے مطابق اس حکم کا اطلاق علی الفور ہوگا ، اس کے بعد وزارت کے محکمہ صارفین کے انسپکٹرس مذکورہ ممالک سے درآمد شدہ اشیاء کے ہٹایے جانے پر تاکید کےلیے تمام اسٹورزکا دورہ کریں گے ۔ دوسری طرف قطری حکام کا کہنا ہے کہ تیسرے فریق کے ذریعہ سعودی ڈیری مصنوعات کی درآمد پر پابندی کا کام زیر عمل ہے ، یہ صارفین کے تحفظ اور ان کی سلامتی کے پیش نظر کیا جارہا ہے۔، واضح رہے کہ سعودی عربیہ، امارات، بحرین اور مصر نے 5 جون 2017 کو قطر پر دہشت گردتنظیموں کی معاونت کا الزام لگاکر بائیکاٹ کیا تھا اور بائیکاٹ کے وجوہات میں سے ایران سے قربت بھی ایک وجہ تھی ۔
ترکش لیرہ کی گھٹتی قیمت سے فکرمند ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اپنے ہم وطنوں سے ذخیرہ شدہ ڈالر اور یوروز کو لیرہ میں تحویل کرنے کو کہا روزنامہ “الحیاۃ” کے مطابق سال کے شروعات سے اب تک 20فیصدی لیرہ میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ مشرقی ترکی کے شہر ارضروم میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا میرے جن بھائیوں نے ڈالر اور یوروز تکیوں کے نیچے محفوظ کر رکھا ہے ، جائیں اور اپنا محفوظ کردہ مال کو لیرہ میں تبدیل کرائیں تاکہ ہم سب مل کر اس کھیل کو ناکام کردیں۔ حکومت کے اطمینان دلانے کے باوجود 24 جون کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی الیکشن سے قبل ترک باشندے ملک کے اقتصادی صورت حال کے سلسلہ میں فکرمند ہیں ۔ کچھ وقت کےلیے ایک ڈالر کے بالمقابل 4٫92 لیرہ ہوگیا تھا۔
Categories: خبریں