سال 2018 کے شروعاتی 5مہینوں میں ہاسپٹل میں پیدا ہوئے یا پیدائش کے بعد بھرتی کرائے گئے 777 نوزائیدہ بچوں میں سے 111 کی موت ہو گئی تھی۔ حکومت نے ایک کمیٹی بناکر جانچکے حکم دئے تھے۔
نئی دہلی: گجرات کے کَچھ میں اڈانی فاؤنڈیشن کے ہسپتال جیکے جنرل ہسپتال میں ہوئی 111 نوزائیدہ بچوں کی موت کی جانچکررہی تین رکنی کمیٹی نے ہسپتال کے مینجمنٹ کی طرف سے کسی طرح کی چوک نہیں پائی ہے۔ افسروں نے بتایا کہ سوموار کو ریاستی حکومت کو سونپی اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے کہا ہے کہ ان اموات کے پیچھے اہم وجہ غذائی قلت اور نوزائیدہ بچوں کو بھرتی کرانے میں ہوئی دیری ہے۔ یہ ہسپتال کَچھ ضلع کے بھج میں واقع ہے اور اس کا مینجمنٹ اڈانی فاؤنڈیشن کرتا ہے۔
ریاست کے ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر جینتی روی نے کہا، ‘ کمیٹی نے پایا کہ ہسپتال میں کافی سہولیات، سازوسامان اور دوائیاں دستیاب تھیں۔ ان اموات کے پیچھے اہم وجہ انتہائی غذائی قلت اور بچوں کو اس ہسپتال میں ریفر کرنے میں دیری تھی۔ ‘ ہسپتال کے ذریعے 25 مئی کو شیئر کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 1 جنوری سے 20 مئی کے دوران ہسپتال میں پیدا ہوئے اور باہر سے یہاں بھرتی کئے گئے کل 777 بچوں میں سے 111 کی موت ہو گئی۔ گجرات اڈانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز(جی اے آئی ایم ایس)نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ جانچ کمیٹی نے ہسپتال کو کلین چٹ دی ہے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ ہفتے ایسی میڈیا رپورٹس آنے کے بعد کہ جی اے آئی ایم ایس میں سال کی شروعات سے ابتک 111 نوزائیدہ بچوں کی موت ہو گئی ہے، گجرات حکومت نے 3 رکنی جانچ کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کمیٹی نے سنیچر کو جی اے آئی ایم ایس کا دورہ کیا تھا اور سوموار کو ریاست کے محکمہ صحت کو اپنی رپورٹ سونپ دی تھی۔ منگل کو جی اے آئی ایم ایس نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے دعویٰ کیا کہ 3 رکنی کمیٹی نے ہسپتال کو کلین چٹ دے دی ہے۔
جی اے آئی ایم ایس ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر گیانیشور راؤ نے کہا، ‘ ہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ہمارے رخ کو صحیح ثابت کیا ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ کام کرنا اور ڈاکٹروں کو اس ہسپتال کی طرف متوجہ کرنا جاری رکھیںگے۔ ہمارا مقصد کَچھ کے دیہی حصے میں رہ رہے لوگوں کو معیاری طبی خدمات دستیاب کرانا ہے۔ ‘
جینتی روی نے کہا، ‘ کمیٹی نے صلاح دیتے ہوئے کہا ہے کہ نرس اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو معاف کیا جانا چاہئے جو ہمیں لگتا ہے کہ ریاست کے دوسرے ہسپتالوں میں بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر ایک بچہ بہت ہی بری حالت میں بھی آتا ہے تو کبھی کبھی اگر نرس اور پیرامیڈیکل کے اسٹاف ماہر ہوتے ہیں، تو وہ بچے کو بچانے کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی مرتبہ بچا بھی لیتے ہیں۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں