دلتوں کے مسئلے پر بی جے پی میں بغاوتی لہجہ اختیار کرنے والی اتر پردیش کے بہرائچ سے ایم پی ساوتری بائی پھولے سے امت سنگھ کی بات چیت۔
بی جے پی لیڈرساوتری بائی پھولے پچھلے کچھ دنوں سے پارٹی کے خلاف بغاوتی تیورمیں ہیں۔ دلتوں، پچھڑوں، آئین اور جناح جیسے تمام معاملوں پر وہ پارٹی کے رخ سے الگ لگاتار بیان دے رہی ہیں۔ ساوتری بائی پھولے اتر پردیش کے بہرائچ سے رکن پارلیامان ہیں۔ اپریل مہینے میں انہوں نے لکھنؤ میں کانشی رام اسمرتی اپون میں ‘بھارتیہ سمویدھان بچاؤ ریلی ‘ بھی بلائی تھی۔
اس وقت پھولے نے آئین کو خطرے میں بتاتے ہوئے کہا تھا، ‘ کبھی کہا جا رہا ہے کہ آئین بدلنے کے لئے آئے ہیں، کبھی کہا جا رہا ہے کہ ریزرویشن کو ختم کریںگے۔ بابا صاحب کا آئین محفوظ نہیں ہے۔ ‘
اسی طرح علی گڑھ میں جناح تنازعہ پر بھی ان کا بیان سرخیوں میں رہا۔ بی جے پی رکن پارلیامان نے کہا کہ محمد علی جناح عظیم شخصیت تھے اور ہمیشہ رہیںگے۔ آزادی کی لڑائی میں ان کی اہم خدمات تھیں۔ ایسی عظیم شخصیت کی تصویر جہاں ضرورت ہو، اس جگہ پر لگائی جانی چاہئے۔
دی وائر نے حال ہی میں دہلی میں ساوتری بائی پھولے سے بات چیت کی۔ اس دوران انہوں نے تمام سوالوں کے بڑے بیباکی سے جواب دئے لیکن بہت سارے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
پہلے وہ سوال جن کا جواب دینے سے ساوتری بائی پھولے نے انکارکردیا۔
- مودی حکومت کے چار سال کے میعاد عہد کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟
- آپ پہلے بسپا میں تھیں، بعد میں آپ بی جے پی میں شامل ہو گئیں، اس کی کیا وجہ تھی؟
- آپ نے جناح کو عظیم شخصیت بتایا تھا اور کہا تھا کہ ان کی تصویر ہرجگہ لگائی جانی چاہئے۔ کیا آپ ابھی بھی اپنے بیان پر قائم ہیں؟
- وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کے بارے میں آپ کیا سوچتی ہیں؟
اب دی وائر کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کے جواب پڑھیے۔ جن کا پھولے نے بڑی بیباکی سے جواب دیا۔ حالانکہ اس دوران ان کے ایک سینئر معاون لگاتار ان کو ہدایات دیتے رہے کہ بس اتنا بولنا ہے۔ اب رک جاؤ یا اس کا جواب مت دو۔
ایک اپریل کو آپ نے لکھنؤ میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ آئین خطرے میں ہے۔ مرکز اور ریاست میں آپ کی پارٹی کی حکومت ہے ایسے میں آئین کو خطرہ کس سے ہے؟
آپ سبھی لوگوں کو ٹی وی، ریڈیو، اخبار کے ذریعے پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ملا ہوگا کہ کبھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ہندوستان کے آئین کو بدلنے کے لئے آئے ہیں، کبھی کہا جا رہا ہے کہ ہم آئین کا تجزیہ کریںگے اور کبھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ریزرویشن کو ختم کریںگے۔ سبرامنیم سوامی کا بھی بیان تھا کہ ہندوستانی آئین اور ریزرویشن کو ہم ایسے ختم کریںگے کہ رہنا، نہ رہنا برابر ہو جائےگا۔ ایسے میں اگر ہندوستانی آئین اور ریزرویشن ختم ہو جائےگا تو بہوجن سماج کے لوگوں کا حق ختم ہو جائےگا۔
آج بہوجن سماج کے لوگوں کو چاہے وہ پردھان، چاہے بلاک صدر، ضلع پنچایت کے ممبر، ایم ایل اے، پروفیسر، ڈاکٹر، وزیراعلیٰ، وزیر اعظم یا پھر صدر بننے کا موقع ملا ہے تو یہ بابا صاحب بھیم راو آمبیڈکر کے ذریعے بنائے گئے آئین اور ریزرویشن کی بدولت ملا ہے۔ ایسے میں آئین اور ریزرویشن کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اگر ہمارا آئین اور ریزرویشن ختم ہو جائےگا تو ہمارے بہوجن سماج کے حقوق ختم ہو جائیںگے۔ اس کے بعد ہمارے بہوجن سماج کی حالت کیا ہوگی؟
ویسے یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت پر خطرہ ہے۔
آج ایس سی کی لڑکی پر پیٹرول ڈالکر پھونکا جا رہا ہے۔ بہوجن سماج کا آدمی اگر گھوڑی پر سوار ہوکر چلتا ہے تو اس کو گولیوں سے بھون دیا جا رہا ہے۔ گاؤں کے گاؤں پھونک دئے جا رہے ہیں۔ اجتماعی قتل ہو رہے ہیں۔ بابا صاحب بھیم راو آمبیڈکر کے مجسمے لگاتار توڑے جا رہے ہیں۔ مجسمہ توڑنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔ مجسمہ توڑنے والے کی گرفتاری کی مانگ کرنے والوں کو سنگین دھاراؤں میں پکڑ لیا جا رہا ہے۔
دو اپریل کو بہوجن سماج کے لوگوں نے بھارت بند کا اعلان کیا تھا۔ وہ لوگ پرامن طریقے سے اپنی مانگکر رہے تھے۔ اس دوران آئین مخالف، ریزرویشن مخالف اور بہوجن سماج مخالفین نے ان پر گولیاں چلائیں جس میں بہت سے بہوجن سماج کے لوگ شہید ہو گئے۔
ویڈیو:اب تو جج بھی بول رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے ؛ بی جے پی ایم پی
دنیا میں ہندوستان کا آئین بہت اچھا ہے۔ اس آئین سے ذات، مذہب، فرقہ اور خواتین کے ساتھ جانبداری سے پرے جاکر سب کو برابری سے جینے کا حق ملتا ہے۔ لیکن، ہندوستان کا آئین پوری طرح سے نافذ نہیں کیا گیا۔ اگر یہ پوری طرح سے نافذ ہو گیا تو غریبی پوری طرح سے مٹ جائےگی۔ لیکن، اس کے بجائے آئین کو ختم کرنے اور اس کے تجزیہ کی بات کہی جا رہی ہے۔
میری حکومت سے مانگ ہے کہ کاسٹ سینسس کرا لی جائے۔ تاکہ یہ پتا لگے کہ کاسٹ کی بنیاد پر اقتصادی حالت کیا ہے۔ آج بہوجن سماج کےلوگ اپنے دو وقت کی روٹی کے لئے دردر کی ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ ریلوے لائن کے کنارے، سڑک کے کنارے، تالاب کے کنارے، ندی کے کنارے وہ جھگی جھوپڑی ڈالکر اور دوسرے کی غلامی کرکے اپنی زندگی گزرا رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو نوکری ہے، نہ ہی زمین ہے، نہ مکان ہے۔
آپ حکمراں جماعت کی رہنما ہیں۔ آپ کی پارٹی مرکز اور ریاست دونوں جگہوں پر اقتدار میں ہے تو ایسے میں کیا آپ کی یہ لڑائی اپنی ہی حکومت اور پارٹی کے خلاف ہے؟
میں بابا صاحب بھیم راو آمبیڈکر کے ذریعے بنائے گئے آئین اور ریزرویشن کے تحت بہرائچ محفوظ لوک سبھا سیٹ سے ایم پی چنکر آئی ہوں۔ آج میں رکن پارلیامان ہوں۔ میں نے لوک سبھا میں بھی اپنی آواز اٹھائی ہے۔ 2014 سے لگاتار میں لوک سبھا میں بہوجن سماج کے ساتھ ہو رہی ناانصافی پر سوال اٹھاتی رہی ہوں۔ ابھی میں رکن پارلیامان ہوں، اگر بہوجن سماج کے ساتھ ہو ری ناانصافی پر ابھی آواز نہیں اٹھا پائی تو جب رکن پارلیامان نہیں رہوںگی تب آواز اٹھانے کا کوئی مطلب نہیں رہےگا۔ویسے بھی اگر ایم پی کے طور میں میری آواز سنی گئی ہوتی تو مجھے تحریک کا راستہ نہیں اپنانا پڑتا۔
آپ لمبے وقت سے بی جے پی سے جڑی ہیں تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی پارٹی بہوجن کے مفاد کے لئے کام کرتی ہے؟
میں تو کہتی ہوں کہ اب ملک پر وہی حکومت کرےگا جو بہوجن کی بات کرےگا۔ جو بہوجن کے مفاد کی لڑائی لڑےگا، بہوجن کی آواز بلند کرےگا، بہوجن کے لئے روزی، روٹی، کپڑا، مکان دستیاب کرائےگا۔وہی ملک پر حکومت کرےگا۔
اترپردیش میں حزب مخالف مہاگٹھ بندھن بنا رہا ہے جو آپ کی پارٹی کے خلاف ہے۔ اس مہاگٹھ بندھن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اتحاد کے بارے میں بہتر ہوگا کہ آپ ان جماعتوں سے پوچھئے۔ لیکن،نظریہ ٹھیک ہونا چاہئے۔ملک کے بہوجن سماج کے مفاد کی بات تمام جماعتوں کو کرنی چاہئے۔میں چاہتی ہوں کہ ملک کے آئین کو نافذ کرانے کے لئے تمام جماعتوں کو ایک ہو جانا چاہئے۔
ساوتری بائی پھولے سیاست میں کیسے آئیں؟
کلاس آٹھ میں پڑھائی کے دوران مجھے وظیفہ ملا تھا۔ پہلے یہ وظیفہ پرنسپل کے کھاتے میں آتا تھا، لیکن مجھے یہ وظیفہ پرنسپل نے نہیں دیا۔ جب میں نے ان سے اس کی مانگ کی تو انہوں نے مجھے اسکول سے نکال دیا۔تین سال تک ٹی سی اور مارک شیٹ نہیں دی۔ اس کے بعد میں اس وقت کی وزیراعلیٰ مایاوتی کے جنتا دربار میں پیش ہوئی۔ان کی مداخلت سے میرا داخلہ ہوا۔اس بات سے مجھے سیاست میں آنے کی ترغیب ملی ہے۔
آج میں آمبیڈکر، کاشی رام، شاہو جی مہاراج، جیوتی با پھولے سے ترغیب لےکر بہوجن سماج کے لوگوں کی لڑائی لڑ رہی ہوں۔میں نے یہ طے کیا ہے کہ نہ میرے پاس کچھ تھا، نہ ہے اور نہ ہی آگے کچھ رہےگا۔میں تین بار ضلع پنچایت کی ممبر، ایک بار ایم ایل اے اور ایک بار رکن پارلیامان رہی ہوں لیکن آج بھی میرے پاس کہیں کوئی زمین نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بینک بیلنس ہے۔ویسے میں رکن پارلیامان رہوں یا نہ رہوں، مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔مجھے صرف بہوجن سماج کی پرواہ ہے۔
اتر پردیش میں دوسری بہت سی جماعت ہیں جو بہوجن کی سیاست کرتے ہیں۔کیا آنے والے دنوں میں بہوجن کے مفاد کے لئے ساوتری دوسری جماعتوں کے ساتھ جا سکتی ہیں؟
بہوجن سماج کی لڑائی لڑنے کے لئے جو بھی جماعت آگے آئیںگے ہم ان کی عزت کریںگے۔
آپ کے رہنما اور وزیر اعظم نریندر مودی آئین کی حفاظت کی بات کرتے ہیں تو آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ آئین خطرے میں ہے؟
یہ میں ہی نہیں کہہ رہی ہوں، ملک کے جج کہہ رہے ہے کہ جمہوریت پر خطرہ ہے۔ویسے بھی انتخاب جیتنے کے بعد رہنما آئین کا حلف لےکر کہتے ہیں کہ ہم کسی کے ساتھ کوئی جانبداری نہیں کریںگے اور جو بھی ہم کریںگے آئین کے تحت کریںگے لیکن جب اس بات پر آدمی کھرا نہیں اترتا ہے تو بہوجن سماج کے لوگ اور آئین کے ماننے والوں کو ایک بار سوچنا پڑتا ہے۔
آپ کے مخالفین کا الزام ہے کہ آپ 4 سال تک خاموش رہیں اور انتخابی سال میں بی جے پی کے خلاف بول رہی ہیں۔
میں مخالفین کی پرواہ نہیں کرتی۔میں 2012 میں ایم ایل اے تھی، تب بہوجن سماج پر ہو رہی ناانصافی اور استحصال کے خلاف بولتی تھی۔اب رکن پارلیامان بننے کے بعد بھی لگاتار ہم نے یہ آواز اٹھائی ہے۔
Categories: ویڈیو