آر ایس ایس کے پروگرام میں پرنب مکھرجی کا حاضر ہو جانا ہی’ سب کچھ‘ ہے۔انہوں نے کیا بولا اور کیا نہیں ، اسکا کوئی مطلب نہیں۔سنگھ کوبس ان کی حاضری سے سروکار تھا۔سنگھ کو جو چاہئے تھا، اس نے حاصل کر لیا۔
کل شام کو جب پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں تقریر کر رہے تھے، تب ہم میں سے بہتوں کو لگا ہوگا کہ دا دا ہیرو بن گئے۔کانگریس کو بھی ایسا ہی لگا ہوگا۔اور تو اور شاید پرنب مکھرجی کو بھی یہی گمان ہوا ہوگا کہ انہوں نے سب کا منہ بند کر دیا ،اور ہیرو بن گئے۔
Happy that Mr Pranab Mukherjee told the RSS what is right about Congress' ideology. It was his way of saying what is wrong about RSS' ideology
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) June 8, 2018
تقریر سنتے ہوئے مجھے بھی ایک لمحے کے لئے لگا کہ دادا نے کمال کردیا۔ شاید آپ کو بھی یہی لگا ہوگا کہ دادا نے آر ایس ایس کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔ اور وہ بھی ا س کے گھر میں گھس کر۔ مگر…،اس اگر مگر کی کہانی میں بھی شاید سوال ہی رہ گئے ہیں جن کو ٹٹول کر ہم کچھ سنجیدہ باتیں کر سکتے ہیں۔
لہذا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مکھرجی نے واقعی ہیرو والا کام کیا ہے؟ شاید نہیں،آر ایس ایس کی محفل میں جاکر نیشنلزم پر لیکچر دینا ایک چیلنجنگ کام ضرور ہو سکتا ہے، مگر ایسا کر کے کوئی ہیرو نہیں بن سکتا۔آر ایس ایس کے کل والے پروگرام میں پرنب مکھرجی کا حاضر ہو جانا ہی’ سب کچھ‘ ہے۔انہوں نے کیا بولا اور کیا نہیں ، اسکا کوئی مطلب نہیں۔سنگھ کوبس مکھرجی کی حاضری سے سروکار تھا۔سنگھ کو جو چاہئے تھا، اس نے حاصل کر لیا۔
دادا نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، وہ بلا شبہ سنگھ کی آئیڈیا لوجی سے میل نہیں کھاتی۔آپ انکی باتوں کا کچھ حصہ ملاحضہ کریں:
’’ہندوستان کی روح تکثیریت (pluralism) میں پنہاں ہے۔ رواداری ہماری طاقت ہے۔ ہم اپنی تکثیریت کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ ہمارے لئے یہ قابل احترام بھی ہے۔اگر ہم اپنی قومیت کومذہبی یا علاقائی پہچان کے چشمے سے دیکھتے ہیں، تو اسکا مطلب ہو ا ہم اپنی قومی شناخت کو مجروح کر رہے ہیں۔ اگر ہماری قومیت میں نفرت اورعدم رواداری کا ذرہ برابر بھی عنصر ہے، تو اسکا مطلب ہوا ہم اپنی قومی شناخت کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ہندوستانی نیشنلزم ایک زبان اور ایک مذہب کا نام نہیں ہے۔پورے ملک میں 122زبانیں اور1600بولیاں بولنے اور لکھنے پڑھنے والے لوگ رہتے ہیں۔یہاں سات بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔مگر سب ایک مجموعی شناخت کے دھاگے میں بندھے ہیں۔‘‘
پرنب مکھرجی کی یہ باتیں سننا سنگھ کے عہدہ داروں کے لئے کتنا مشکل رہا ہوگا، سمجھنا آسان ہے۔ مگر یہی بات غور کرنے کی ہےکہ کیا انہیں اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ مکھرجی انکے پروگرام میں ایسی باتیں بول سکتے ہیں، اور انہیں شرمندگی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ٹھہر کے سوچئے، سب سمجھ آ جا ئے گا۔مکھر جی کی مندرجہ بالا باتیں کتنی جلدی آئی گئی ہو جائیں گی آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ دادا نے سب کچھ بول کر بھی ہیڈگیوار کو ’بھارت کا مہان سپوت‘ کہہ دیا۔ اس سے زیادہ سنگھ کو اور کیا چاہئے تھا۔ دادا سنگھ کے گان اور جھنڈا تولن کے وقت با ادب کھڑے رہے۔وہ گیت جس میں ہندو راشٹرا کی بات ہے۔دادا نے اپنی شرکت سے ان سیکڑوں کارکنوں کی عزت افزائی بھی کی کی جنہوں نے اپنی ’ٹریننگ‘ پوری کی تھی۔
ایسی صورت میں سنگھ کے خلاف جو لڑائی ہے، اس میں ہمارے ’ہندو لبرلز ‘ کی ایمانداری پر شک کرنا اب لازمی ہوگیاہے۔ایسا معلوم پڑتا ہے، مذہب کہیں نہ کہیں بیچ میں آ ڑے آ رہا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ہندوتوا کا مقابلہ سیکولرزم سے نہیں سافٹ ہندوتوا سے کیا جا تا ہے۔ آ پ نے دیکھا ہی ہوگا، جب مودی مندر جاتے ہیں تو راہل گاندھی بھی پیچھے لگ جاتے ہیں۔ سیاسی لڑائی میں مذہب کا موہ ہمیں کھائے جا رہا ہے۔ پرنب دا بھی شاید اسی موہ کے شکار ہو گئے۔
Categories: فکر و نظر