فکر و نظر

کیا وزیر اعظم نے آدھار سےمتعلق جھوٹے اعداد و شمار پیش کیے تھے؟

ثبوت بتاتے ہیں کہ آدھار کے سہارےفرضی بتائے گئے راشن کارڈ کی تعدادوزیر اعظم کے  دعوے سے کئی گنا زیادہ تھی۔

Aadhar-Supreme-court-PTI-Reuters

ہندوستان میں جمہوریت کے سامنے آج جو سب سے بڑا مسئلہ منھ کھولے کھڑا ہے، وہ ہے سرکاری اعداد و شمار کے بھروسےکی کمی۔ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک کے لئے، جس کے کئی حصوں تک پہنچنا بھی مشکل ہے، سرکاری اسکیموں کے اطلاق اور مظاہرے کے بارے میں پختہ طریقے سے بات کرنے کے لئے سرکاری اعداد و شمار پر ہمارا انحصار بہت زیادہ ہے۔روایتی طور پر انتخابی تقریروں میں رہنماؤں کے ذریعے دئے گئے حقیقتوں کو تھوڑے شک کے ساتھ دیکھا جاتا تھا، مگر پارلیامنٹ کے فلورپر پیش کئے گئے اعداد و شمار سوالوں سے پرے مانے جاتے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارلیامنٹ میں غلط بیان دینا، پارلیامانی خصوصی اختیارات کی پامالی ہے اور ایسے بیان دینے والوں کے خلاف خصوصی اختیارات کی پامالی کے خلاف تجویز لائی جا سکتی ہے۔

تمام دولت مشترکہ ممالک میں ‘وقفہ سوال ‘کی روایت پائی جاتی ہے، جس کو ہم نے بھی اپنایا ہے۔یہ عوامی نمائندوں کو سرکاری کام کاج کو لےکر سوال پوچھنے کا موقع دیتا ہے، جو کسی بھی حکومت کی جوابدہی طے کرنے کے لئے ضروری ہے۔لیکن،اگر حکومت کے نمائندے عوام کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں صاف جھوٹ بول دیں، تو اس روایت کے پیچھے کا نظریہ ختم ہو جاتا ہے۔چلیے اس کاتجزیہ سماجی افادی اسکیموں کے تحت فائدوں کی تقسیم کے لئے آدھار کو ضروری بایومیٹرک مبنی نظام کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کو لےکر سرکاری بچاؤ کے تناظر میں کرتے ہیں۔

7 فروری، 2017 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں زیر ہدف عوامی تقسیم نظام کے مستفید کی پہچان کے لئے آدھار کے استعمال سے ہونے والے فی بچت پر ایک چونکانے والا اعداد و شمار دیا۔انہوں نے کہا؛تقریباً 4 کروڑ، یعنی 3 کروڑ 95 لاکھ فرضی راشن کارڈ کی پہچان آدھار سے ہوئی ہے اور ان کو رد دیا گیا ہے۔اس سے سرکاری خزانے میں 14000 کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔روایت کے مطابق ہی، اس تقریر کی تحریر ی کاپی  لوک سبھا کی ویب سائٹ پر ‘بلا رد و بدل’ کے تحت اپلوڈ کی گئی۔(ہم اسے ‘بنیادی متن’ کہیں‌گے۔)

پارلیامنٹ میں اس تقریر کو لےکر 7 مارچ، 2017 کو ‘رائٹ ٹو فوڈ ‘ کارکنان کے ذریعے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی گئی، جس میں وزیر اعظم دفتر سے وزیر اعظم کے ذریعے پارلیامنٹ میں دئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد بتانے اور صوبہ وار اعداد و شمار مہیا کرانے کے لئے کہا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ جب آر ٹی آئی درخواست سے جاگی حکومت نے اصل حقائق  کی تفتیش کی شروع کی، تب یہ پتا چلا کہ تقریباًدو ماہ پہلے، 22 نومبر، 2016 کو صارفین معاملوں اور اشیائےخوردنی اور عوامی تقسیم کے وزیر رام ولاس پاسوان نے پارلیامنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ 2013 سے 2016 کے درمیان آدھار کی مدد سے 2.3 کروڑ راشن کارڈ کو رد کیا گیا۔

اس کے فوراً بعد 7 فروری، 2017 کی تاریخ والی وزیر اعظم کی تقریر کی ترمیم شدہ ‘سرکاری ‘ نقل کو اپلوڈ کیا گیا۔اس ترمیم شدہ شکل میں اعداد و شمار کو بدل دیا گیا اور اس کو رام ولاس پاسوان کے اعداد و شمار کے موافق‌کر دیا گیا۔لیکن، اس ٹرانسکرپٹ کو بدلتے وقت شاید بعض تفصیلات کی طرف شاید اور بھی کم دھیان دیا گیا تھا اور اصلاح کے بعد اس میں وزیر اعظم کے حوالے سے کہا گیا، آدھار کی مدد سےتقریباً 4 کروڑ یعنی 2 کروڑ 33 لاکھ فرضی راشن کارڈ کی پہچان کی گئی ہے اور ان کو رد کر دیا گیا ہے (چلیے، اس کو پہلی ترمیم کہتے ہیں، کیونکہ یہ تقریر کبھی بھی آزاد نہیں تھی)۔  ‘

جب آدھار ایکٹ کو آئینی چیلنج دینے والے معاملے میں بحث کے دوران سپریم کورٹ کا دھیان ہمارےوزیر اعظم کے ذریعے ایجاد کئے گئے راؤنڈنگ آف کے اس انقلابی اصول کی طرف کھینچا گیا، تب لوک سبھا کی ویب سائٹ پر مباحث کی سرکاری تحریر شدہ کاپی کو، جس میں یہ غلطی تھی، ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور’تقریباً 4 کروڑ یعنی 2 کروڑ 33 لاکھ ‘کو ‘ تقریباً 2 کروڑ 33 لاکھ ‘سے بدل دیا گیا (چلیے، اس ترمیم شدہ شکل کو ‘وطن پرست تاریخ ‘ کہہ‌کر پکارتے ہیں)۔یہ تاریخ کو لےکر سرکاری رویے کی بس ایک اور مثال ہے اگر آپ ریکارڈ بدل سکتے ہیں، تو کسی بھی چیز کی تردید کی جا سکتی ہے۔لیکن، اچھی بات ہے کہ انٹرنیٹ کبھی بھی نہیں بھولتا ہے۔پارلیامنٹ میں وزیر اعظم کے ذریعے دئے گئے تقریر کا ویڈیو آج بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔سپریم کورٹ کے سامنے ‘بنیادی متن’اور ساتھ ہی ساتھ’پہلی ترمیم ‘ کی کاپیاں رکھی گئیں اور یہ کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔چلئے ہم اعداد و شمار سے تھوڑی اور تفریح کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اپنے جوابی حلف نامہ میں یوآئی ڈی اے آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ عوامی تقسیم نظام (پی ڈی ایس)، منریگا، ایل پی جی پہل،  پینشن، وظیفہ وغیرہ کے پروگراموں میں آدھار کی مدد سےنقلی اورجعلی کھاتوں کو ہٹاکر پچھلےدو سالوں میں سرکاری خزانے میں تقریباً 49000 کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔اسی حلف نامہ میں ایک دوسری جگہ پر 2014 کے بعد سے کل بچت 57029 کروڑ روپے دکھائی گئی، جس میں الگ الگ مد کے تحت دکھائی گئی رقم کچھ اس طرح تھی :پہل اسکیم کے تحت ایل پی جی سبسیڈی ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر :29769 کروڑ روپے،پی ڈی ایس : 14000 کروڑ روپے، منریگا :11741 کروڑ روپے، نیشنل سوشل اسسٹینس پروگرام: 399 کروڑ روپے اور دیگر اسکیم :1120 کروڑ روپے۔

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

ان اعداد و شمار کی الگ الگ تفتیش کرنے سے پتا چلے‌گا کہ اس حکومت میں قانونی کارروائیوں کے متعلق بھی اتنا ہی منفی احساس ہے، جتنا پارلیامانی کارروائیوں کےمتعلق۔یہ اس خوفناک غیرذمہ دارانہ رویے کو اجاگر کرتا ہے، جس کے ساتھ یہ اعداد و شمار اچھالے جاتے ہیں۔اوپر ‘رائٹ ٹو فوڈ ‘ کارکنان کے ذریعے دئے گئے جس درخواست کا ذکر کیا گیا، اس کو وزیر اعظم دفتر نے اشیائےخوردنی اور عوامی تقسیم کی وزارت (ڈی ایف پی ڈی) کو منتقل کر دیا۔ڈی ایف پی ڈی نے جواب میں کہا کہ صوبہ وار اعداد و شمار پہلے سے ہی ڈی ایف پی ڈی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ویب سائٹ پر دستیاب معلومات سے آگے کی معلومات کے لئے ڈی ایف پی ڈی نے آر ٹی آئی درخواست کو ریاست اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کی حکومتوں کو بھیج دیا۔

ڈی ایف پی ڈی کی ویب سائٹ پر اعداد و شمار کے نام پر بس ایکسل شیٹ ہے،جس میں ریاست اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کی حکومتوں کے ذریعے جولائی 2006 سے فروری، 2016 تک بند کئے گئے فرضی/نااہل راشن کارڈ کی تعداد دی گئی ہے۔یہ اعداد و شمار 6.26 کروڑ کا بنتا ہے۔اس ایکسل شیٹ میں دئے گئے اعداد و شمار کا کوئی تعلق آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوالوں سے نہیں ہے، کیونکہ اس میں جو اطلاع دی گئی ہے وہ آدھار کے تصور سے بھی کئی سال پہلے کی ہے۔

زبانی امتحان دے رہے کسی طالب علم کی طرح، ڈی ایف پی ڈی کی حکمت عملی غالباً یہ ہے کہ سوال چاہے جو بھی پوچھا جائے، جواب وہی دیا جائے‌گا، جس کی تیاری پچھلی رات کو کی گئی ہے۔شاید ڈی ایف پی ڈی وزیر اعظم کی عظیم کتاب اگزام واریئرس میں دئے گئے 16 ویں منتر کی تقلید کر رہی ہے،جس میں کہا گیا ہے، ‘امتحان آپ کا، طریقہ آپ کا،اپنا اسلوب خود چنیے’۔

مودی حکومت اعداد و شمار کی تصدیق میں جہاں کمزور پڑتی ہے وہاں تخلیقیت سے اس کی بھرپائی کرتی ہے۔رام ولاس پاسوان نے ہر ریاست / یونین ٹیریٹری ریاست کے ذریعے بند کئے گئے راشن کارڈ کی صوبہ وار فہرست پارلیامنٹ میں دئے گئے اپنے جواب کے ساتھ دستیاب کرائی تھی۔اس فہرست میں منتقلی، موت وغیرہ کی وجہ سے بند کئے گئے راشن کارڈ بھی شامل ہیں، جن کا کوئی واسطہ آدھار سے نہیں ہے۔

اسی بیچ اس آر ٹی آئی درخواست، جس کو آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے آرٹیکل 6 (3) کے تحت تمام ریاست/یونین ٹیریٹری ریاستوں کو بھیجا گیاتھا،لیکن مختلف ریاستی حکومتوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کے انتظامیہ کی طرف سے جو جواب ملے، وہ پاسوان کے ذریعے دئے گئے اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتے ہیں۔کچھ معاملوں میں تو، ریاست کی حکومتوں نے یہ کہا کہ ان کے پاس یہ اعداد و شمار نہیں ہے، جبکہ کچھ معاملوں میں دئے گئے  اعداد و شمار اور پاسوان کے ذریعے پیش کئے گئے اعداد و شمار میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

8 ستمبر، 2017 کو وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) میں انہی کارکنان نے پھر سے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی، جس میں پی ایم او سے آدھار کا استعمال کرکے 2.33 کروڑ فرضی راشن کارڈ کی پہچان اور ان کو بند کرنے کے ترمیم شدہ اعداد و شمار کا ماخذ بتانے کے لئے کہا گیا، جس کا ذکر وزیر اعظم کے ذریعے اپنی تقریر کے ‘وطن پرست تاریخ ‘والے ایڈیشن میں کیا گیا تھا۔

پی ایم او نے اس درخواست کو صارفین معاملوں، اشیائےخوردنی اور عوامی تقسیم کی وزارت کے پاس بھیج دیا۔اس وزارت نے 27 اکتوبر، 2017 کی اپنے ایک خط کے ذریعے،’ ڈجیٹلائزیشن، نقلی راشن کارڈ کے خلاف کارروائی اور این ایف ایس اے کو نافذ کرنے کے لئےآدھار سے جوڑنے کے سلسلے میں فرضی / نقلی / نااہل / منتقلی / موت، اقتصادی حیثیت میں تبدیلی ‘وغیرہ وجہوں سے بند کئے گئے راشن کارڈ کا صوبہ وار اعداد و شمار مہیا کرایا۔

یہ بھی کہا گیا کہ یہ اعداد و شمار ریاستوں / یونین ٹیریٹری ریاستوں سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔لیکن اس جواب میں دئے گئے اعداد و شمار اس سے پہلے دئے گئے کسی بھی اعداد و شمار سے میل نہیں کھا رہے تھے۔پہل (ایل پی جی کا ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر)اسکیم پر ہندوستان کےسی اے جی نے مرکزی حکومت کے ذریعے کئے گئے دعووں کی تفتیش کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایل پی جی سبسیڈی کی مد میں خرچ میں کمی خاص طور پر کچے تیلوں کی قیمت میں کمی کی وجہ سے ہوئی تھی۔

یہ ایک سیدھا سا ریاضی کا معاملہ ہے اگر آپ ایک طےشدہ قیمت پر کوئی سامان بیچتے رہیں‌گے اور اس کی لاگت قیمت لگاتار کم ہوتی جائے‌گی، تو آپ کو پیسے کی بچت ہوگی۔سی اے جی رپورٹ کا نتیجہ تھا کہ کچے تیل کی قیمت کو مستحکم رکھ‌کر(اور اس طرح سے سبسیڈی کی شرح کو بھی)پہل (ایل پی جی کا ڈائریکٹ نقد ٹرانسفر) کی وجہ سے خرچ میں کمی 1763 کروڑ روپے (جبکہ حکومت کا دعویٰ 29769 کروڑ روپے کا تھا) کی ہی بیٹھتی ہے۔

اسپیکٹرم اور کوئلے کے بلاک کی نیلامی ہونے یا نہ ہونے سے ہوئے نقصان کو لےکر سی اے جی کے ذریعے لگایا گیا تخمینہ ایک طرح سے پچھلی یو پی اے حکومت کے زوال کا سب سے بڑا سبب ثابت ہوا تھا۔پھر بھی پہل سے ہوئی بچت پر اس حکومت کے ذریعے بولے جا رہے سفیدجھوٹ کا سی اے جی کے ذریعے پردہ فاش کئے جانے پر کسی نیوز اینکر نے توجہ نہیں دی۔

اصل میں اس حکومت کو یہ پتا چل گیا ہے کہ اگر وہ کسی خبر کو پرائم ٹائم نیوز سے دور رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا جھانسا دے سکتی ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔یو آئی ڈی اے آئی کے ذریعے کئے گئے اس دعوے کہ آدھار کا استعمال کرکے منریگا کے تحت 94 لاکھ فرضی جاب کارڈ کی پہچان کی گئی اور ان کو رد کر دیا گیا، کی تفتیش کرنے کے لئے 2016-17 میں منریگا کے تحت رد کئے گئے جاب کارڈ کی صوبہ وار تفصیل مہیا کرانے کے لئے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی گئی۔

5 مئی، 2017 کو دیہی ترقی کی وزارت کے ذریعے آر ٹی آئی درخواست کے تحت پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں بتایا گیا کہ اس دوران رد کئے گئے کئی جاب کارڈ عام طریقے سے فیملی کا دوسری جگہ چلے جانے، جاب کارڈ ہولڈرس کے ذریعے رضاکارانہ طریقے سے اپنا جاب کارڈ سرینڈر کرنے اور جاب کارڈ میں گڑبڑی اور دوسری وجہوں کی وجہ سے رد کئے گئے۔اس کے علاوہ،اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی کہ آخر ‘فرضی ‘ یا ‘نقلی ‘ یا کارڈ ہولڈر کا ‘پنچایت میں نام اور پتا نہ ہونے ‘کی وجہ سے رد کئے گئے جاب کارڈ کی پہچان ہوئی کیسے؟اس بارے میں بھی کوئی جانکاری نہیں دی گئی کہ اصل مستفید کی چھنٹنی نہ ہو، یہ متعین کرنے کے لئے کیا اقدام کئے گئے ہیں؟

جیسا کہ واضح ہے، اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سارے ‘ فرضی ‘ اور ‘ نقلی ‘ جاب کارڈ کی پہچان آدھار کے سہارے ہی کیا گیا(جس دعوے کی  اپنی کوئی بنیادنہیں ہے)، توبھی یہ حکومت کے آدھار کی مدد سے 94 لاکھ فرضی جاب کارڈ رد کرنے کے دعویٰ کا صرف 12.6 فیصد ہی ہے۔اس لئے یہاں بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا اعداد و شمار کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش لگتی ہے۔مذکورہ ثبوتوں سے پتا لگتا ہے کہ آدھار کی وجہ سے ہونے والی بچت، یو آئی ڈی اے آئی کے ذریعے کئے جا رہے دعووں سے کئی گنا کم ہے۔جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے بچت کا حساب اپنے آپ میں بھاری غلطیوں سے بھرا ہے۔

اس کے علاوہ، بین الاقوامی محققین کے ذریعے مرتب کی گئی ‘اسٹیٹ آف آدھار رپورٹ ‘ کے مطابق،بڑھاچڑھاکر کئے گئے دعووں اور جھوٹوں کو نکال‌کر ‘بچت ‘ کا جو بھی فیصد بچتا ہے، اس میں لائق لوگوں کو باہر کر دینے سے بچا پیسہ بھی شامل ہے، جن کو غلط طریقے سے مختلف سماجی اسکیموں کے تحت فائدہ پانے سے محروم کر دیا گیا ہے۔حکومت کے ذریعے پیش کئے جا رہے اعداد و شمار کو صحیح ٹھہرانے والا کوئی بھی اعداد و شمار خود حکومت کے پاس نہیں ہے۔حالانکہ،حکومت نے مفاد عامہ کے درخواست گزاروں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کا ایک موقع تھا، لیکن حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اٹرنی جنرل اور سالسیٹر جنرل نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔یو آئی ڈی اے آئی کے ایک افسر سے جب غیر رسمی طریقے سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے گئے اعداد و شمار کا ماخذ پوچھا گیا، تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ان عداد و شمار کو بس ذائقہ بڑھانے کے لئے چاٹ مسالے کی طرح حلف نامہ کے اوپر چھڑکا گیا ہے۔

(فوٹو :رائٹرس)

(فوٹو :رائٹرس)

ایسا لگتا ہے کہ اس بات کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ حلف نامہ میں غلط اطلاع دینے کے لئے آئی پی سی کے تحت 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے اور اس کو آئینی کورٹ کے سامنے پیش کرنا، کورٹ کی ہتک کا بھی معاملہ بنتا ہے۔اعداد و شمار کو جس بےتکلفی سے پارلیامنٹ میں اچھالا جا رہا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے اس کو حلف نامہ پر جس طرح سے چھڑکا جا رہا ہے، وہ ہمارے قومی نشان میں کندہ کیا’ ستیہ ‘کے متعلق تیزی سے کم ہوتی وابستگی کو دکھاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی شاستر میں حقائق کا مقام غیر ذمہ داری نے لے لی ہے اور شعلے فلم میں امیتابھ بچن یعنی جے کی ہی طرح حکومت یہ مانتی ہے،’پارٹنر اب بول دیا ہے تو دیکھ لیں‌گے۔ ‘

(نظام پاشا سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔آدھار سے جڑے   پی آئی ایل معاملے میں انہوں نے پیروی کی ہے۔)