علم کی جب بھی بات ہوتی ہے تو بہار کے تاریخی نالندہ اور وکرم شلا یونیورسٹی کا ذکر کئے بغیر پوری نہیں ہوتی ، لیکن اسی بہار میں آج تعلیمی نظام کا حال یہ ہے کہ آدھا درجن یونیورسٹیوں میں مختلف سیشن کے امتحان کئی سالوں سے التوا میں ہیں۔
گزشتہ مہینے کی 22 تاریخ کو اڑیسہ میں منعقد پروگرام میں ایک عوامی منچ سے اڑیسہ کا ایڈیشنل چارج سنبھال رہے بہار کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا تھا، ‘ مجھے یہ شیئر کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اڑیسہ کی یونیورسٹی بہار کی یونیورسٹیوں سے بہتر کام کر رہی ہے ۔ بہار میں تعلیمی نظام میں مافیا راج ہے۔ امتحان مناسب طریقے سے نہیں ہوتے ہیں اور اکادمی کلینڈر بھی نہیں ہے۔ اڑیسہ میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ‘ اس سے پہلے 3 مئی کو پٹنہ کے اے این کالج میں منعقد یووا مہوتسو میں انہوں نے منچ سے تقریباً غصہ سے بھرے لہجے میں کہا تھا، ‘ بہار میں شاید ہی کوئی رہنما ہو، جس نے بی ایڈ کالج نہ کھول رکھا ہو۔ وہ غیر قانونی طریقے سے طلبا کا ایڈمیشن لے لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں مجبوراً ان کالجوں کو منظوری دینی پڑتی ہے کیونکہ منظوری نہیں دینے سے طلبہ و طالبات کا مستقبل خطرے میں آ جاتا ہے۔ کالج کھولنے کے لئے نہ تو مجھ سے اور نہ ہی وزیراعلیٰ سے ہی اجازت لی جاتی ہے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا تھا، ‘ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ مجھے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سے حمایت ملی ہوئی ہے۔ میرے پاس رول بک ہے اور میں اصولوں پر سختی سے عمل کروںگا۔ ‘ ملک ا ور دنیا میں تعلیم کی تاریخ کو لےکر کسی بھی طرح کی بات چیت بہار کے تاریخی نالندہ اور وکرم شلا یونیورسٹی کا ذکر کئے بغیر پوری نہیں ہوتی ہے، لیکن اسی بہار میں تعلیمی نظام روزانہ بد سے بدتر حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گورنر ستیہ پال ملک کے دو تلخ تبصرے اس کے گواہ ہیں۔
مظفّرپور میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسٹی (جس کو بہار یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے)، مدھے پورا میں بھوپیندر نارائن (بی این) منڈل یونیورسٹی، بھاگل پور میں بہار اگریکلچر یونیورسٹی، چھپرا میں جے پرکاش یونیورسٹی، کامیشور سنگھ دربھنگہ سنسکرت یونیورسٹی، دربھنگہ میں للت نارائن متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ میں ہی مگدھ یونیورسٹی، پٹنہ میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، سمستی پور میں راجیندراگریکلچر یونیورسٹی، آرا میں تلکا مانجھی (بھاگل پور) یونیورسٹی، بھاگل پور میں ویر کنور سنگھ یونیورسٹی سمیت ایک درجن یونیورسٹیوں (کچھ پرائیویٹ یونیورسٹی بھی شامل) میں سے آدھا درجن یونیورسٹی ایسی ہیں جہاں امتحان ایک دو سال سے ہوا ہی نہیں ہے ۔
کچھ معاملوں میں تو 3 سال سے کسی سیمسٹر کا امتحان ہوا ہی نہیں ہے۔ لہذا 3 سال کا گریجویشن 5 سے 6 سال میں پورا ہو رہا ہے۔ طالب علم یا تو ہاتھ پر ہاتھرکھے ڈگری کا انتظار کر رہے ہیں یا پھر نوکری کی تلاش میں دوسری ریاستوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ موتیہاری ضلع کے پپرا تھانہ کے تحت مہارانی گاؤں کے رہنے والے نیرنجن کمار نے بہار یونیورسٹی کے تحت آنے والے آر ڈی ایس کالج میں سال 2016 میں بی اے میں داخلہ لیا تھا۔ اس کے بعد سے ابھی تک ایک بھی سیمسٹر کا امتحان نہیں ہوا، جبکہ ابتک 2 سیمسٹر کا امتحان پورا ہو جانا چاہیے تھا۔ نرنجن کہتے ہیں، ‘ میرے اباجان کسان ہیں۔ گھر میں تین بہن ہیں۔ دو کی شادی ہو چکی ہے اور ایک کی ہونی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ 2019 تک بی اے کی ڈگری لےکر افسر گریڈ کی نوکری کی تیاری کروںگا لیکن لگتا ہے کہ بی اے کرنے میں ہی 6 سال لگ جائیںگے۔ ‘
نرنجن بتاتے ہیں، ‘ گھر کا اکلوتا چراغ ہوں، اس لئے گھر والوں کی امیدیں مجھ سے ہی ہیں، لیکن امتحان میں مسلسل ہو رہی تاخیرسے زیادہ دباؤ میں آ گیا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کروں تو کیا کروں۔ ‘ نرنجن کی طرح ہی موتیہاری کے شری کرشن نگر میں رہنے والے رام ساگر کمار نے سوچا تھا کہ 2019 میںبی اے کرکے وہ اس سطح پر ہونے والے مقابلے کے امتحانوں میں بیٹھیںگے۔ انہوں نے 2016 میں بہار یونیورسٹی کے تحت آنے والے جواہر لال نہرو میموریل کالج میں داخلہ لیا تھا۔ ابتک دو سیمسٹر کا امتحان پورا ہو جانا چاہیے تھا، لیکن پہلےسیمسٹر کا امتحان بھی نہیں ہوا ہے۔
نرنجن نے کہا، ‘ سوچا تھا کہ گریجویشن کرکے کچھ کیا جائےگا، لیکن اب لگ رہا ہے کہ انٹر لیول کے مقابلہ کا امتحان ہی دینا ہوگا۔ یونیورسٹی کے بھروسے رہیںگے، تو کیریئر ہی تباہ ہو جائےگا۔ ‘ بہار یونیورسٹی میں تین درجن کے قریب کالج آتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں تقریباً تین لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں اور قریب قریب ہر کورس کا امتحان اپنے طےشدہ وقت سے لیٹ ہیں۔ امتحانوں کو لےکر کشمکش کی وجہ سے کئی طلبا نے اوپن یونیورسٹیوں میں ایڈمیشن کروا لیا ہے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ امتحان وقت پر کرائے جانے کو لےکر وہ جب بھی تحریک کرتے ہیں تو یونیورسٹی انتظامیہ کا رٹارٹایا جواب آتا ہے کہ پہلے کے اہلکاروں نے ہی پروسیس میں تاخیر کر رکھا تھا، اس لئے اس کو ٹھیک کرنے میں وقت لگےگا۔
مدھےپورا واقع بھوپیندر نارائن منڈل یونیورسٹی کا قیام 10 جنوری 1992 کو ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی کے تحت 27 Constituent کالج، 47 Affiliated کالج، 2 انجینئرنگ کالج، 13 بی ایڈ کالج،4 لاء کالج، دو میڈیکل کالج اور ایک گورمنٹ اسپانسرڈ بی ایڈ / ایم ایڈ کالج ہیں۔ اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس کے بارے میں جو اطلاع دی گئی ہے، اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہاں بنیادی سہولیات کا بہت فقدان ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں اساتذہ کی بھی کمی ہے۔ اس یونیورسٹی میں تمام سیشن طےشدہ وقت سے دو سال پیچھے چل رہے ہیں۔ گریجویشن کے لئے 2015 میں ایڈمیشن کروانے والے طلبا کو ڈگری مل جانی چاہیے تھی لیکن ابتک پہلے سیشن کا ہی امتحان ہو پایا ہے۔
2016، 2017 اور 2018 میں نامزدگی کرانے والے طالب علموں کے ایک سیشن کا بھی امتحان ابتک نہیں ہوا ہے۔ طالب علموں نے بتایا کہ سال 2016 میں نامزدگی کروانے والے طالب علموں کے پہلے سیشن کے امتحان کے لئے ابھی فارم بھرنے کی تاریخ کا اعلان ہوا ہے، لیکن امتحان کب ہوگا، اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہی حال پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا بھی ہے۔ سال 2015 میں داخلہ لینے والے طالب علم پہلے سیشن کا امتحان ہی دے پائے ہیں، جبکہ اس سال ان کو ڈگری مل جانی چاہیے تھی۔
بھوپیندر نارائن منڈل یونیورسٹی کے تحت آر ڈی ایس کالج (کٹیہار) میں گریجویشن کے طالب علم اشوک کمار نے سال 2014 میں ہی داخلہ لیا تھا، لیکن پہلے سیشن کا امتحان گزشتہ سال ستمبر میں لیا گیا۔ اشوک کٹیہار گوال ٹولی گاؤں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘ سال 2016 میں دوسرے سیشن کا امتحان ہونا چاہیے تھا لیکن دوسرے سیشن میں داخلہ اس سال لینا پڑا، کیونکہ پہلے سیشن کا امتحان ہی گزشتہ سال ہوا۔ ‘ اشوک کی عمر ابھی 25 سال ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘ میں نے سوچا تھا کہ 24 سال کی عمر تک گریجویشن کر لوںگا اور پھر ڈی ایل ٹی ای کرکے ٹیچر بنوںگا، لیکن لگتا ہے کہ 28 سال کی عمر میں بی اے کی ڈگری مل پائےگی۔ ‘
وہ غصے میں کہتے ہیں، ‘ آپ ہی بتائیے کہ ایک ہی سیشن کی کتابیں کوئی کتنے سال تک پڑھتا رہےگا؟ امتحان اتنی تاخیر سے ہو رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ پڑھنے کی خواہش ہی مرتی جا رہی ہے۔ ‘ اشوک کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آخر اس حالت سے وہ کیسے نمٹے۔ انہوں نے کہا، ‘ حکومت اتنی نکمی ہو چکی ہے کہ کیا کہیں! ہم جو سوچتے ہیں، حکومت وہ ہونے ہی نہیں دیتی ہے۔ ہمارا جو3 اہم سال برباد ہوگا، کیا اس کی بھرپائی حکومت کرےگی؟ ‘ اشوک اکیلے نہیں ہیں۔ اس یونیورسٹی کے تحت آنے والے کالجوں میں ہزاروں طالب علم پڑھتے ہیں اور سبھی کا درد کم وبیش ایک سا ہے۔
ویر کنور سنگھ یونیورسٹی کے تحت بکسر، بھوج پور، آرا، روہتاس اور کیمور کے 17 Constituent کالج اور 83 Affiliated کالج آتے ہیں۔ یہاں بھی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویشن کے سیشن دیرسے چل رہے ہیں۔ 2015 میں بی اے میں ایڈمیشن لینے والے طلبا کا ابتک آخری سیشن کا امتحان نہیں ہوا ہے، جبکہ ان کے ہاتھوں میں ڈگری ہونی چاہیے تھی۔ 2016 میں بی اے میں داخلہ لینے والے طلبا کے دو سیشن کا امتحان ختم ہونا تھا، لیکن ابھی تک ایک سیشن کا ہی امتحان ہو سکا ہے۔ 2017 میںداخلہ کرانے والے طالب علموں کے ایک سیمسٹر کا بھی امتحان ابتک نہیں ہوا ہے۔
2016 میں پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لینے والے طلبا کا اس سال آخری امتحان ہونا تھا، لیکن ابتک امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ طالب علموں کو پتہ نہیں ہے کہ آخر امتحان کب ہوگا۔ بی اے اور ایم اے ملاکر اس یونیورسٹی میں قریب ایک لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں۔ یونیورسٹی کےاسٹوڈینٹ لیڈر شیو پرکاش کہتے ہیں، ‘ یہاں بی ایڈ کا امتحان بھی دیر سے چل رہا تھا، لیکن ہم لوگوں نے لگاتار آندولن کر کے اس کو ٹھیک کرایا ہے۔ ‘
جے پرکاش یونیورسٹی میں بھی امتحان تاخیر سے کرائے جا رہے ہیں۔ یہاں 2013 میں بی اے میں داخلہ لینے والے طلبا کو 2016 میں ڈگری مل جانی چاہیے تھی، لیکن آخری سیشن کا امتحان اس سال لیا گیا۔ 2014 میں بی اے میں داخلہ لینے والے طالب علم ابتک دو سیمسٹر کا امتحان ہی دے پائے ہیں، جبکہ 2015 میں داخلہ کرانے والے طلبا کے ایک سیمسٹر کا امتحان بھی نہیں ہو پایا ہے۔ یہی حال 2016 اور 2017 میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا بھی ہے۔
تلکا مانجھی (بھاگل پور) یونیورسٹی میں 2013 میں بی اے میں داخلہ لینے والے طلبا کی پڑھائی 2016 میں ہی پوری ہو جانی چاہیے تھی، لیکن ابتک وہ کالج میں ہیں کیونکہ سیمسٹر لیٹ ہے۔ اسی طرح دوسرے سیشن میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا بھی سیمسٹر لیٹ چل رہا ہے۔ طلبہ و طالبات کا الزام ہے کہ امتحان شعبہ کی لاپرواہی کی وجہ سے طالب علموں کا کیریئر قربان ہو رہا ہے۔ مگدھ یونیورسٹی کے تحت سب سے زیادہ کالج آتے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں ریاستی حکومت نے مگدھ یونیورسٹی کے 61 ڈگری کالجوں کا Affiliation اس بنیاد پر رد کر دیا تھا کہ ان کالجوں میں بنیادی سہولیات کی سنگین کمی تھی۔ Affiliation رد کئے جانے کے ساتھ ہی ان کالجوں میں داخلہ بھی روک دیاگیا تھا۔ اصول کے مطابق کالجوں کے Affiliation کے لئے یونیورسٹی کالج کا جائزہ لے کرپورٹ بناتی ہے اور منظوری کے لئے سیمیٹ اور سنڈکیٹ سے منظوری لی جاتی ہے۔ اس کے بعد Affiliation کے لئے ریاستی حکومت کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
اس پورے معاملے میں یونیورسٹی سے جڑے کئی افسروں پر ملی بھگت کے الزام بھی لگے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کالجوں کا Affiliationرد کرنے سے جڑا خط ریاستی حکومت نے یونیورسٹی کو بہت پہلے بھیج دیا تھا، لیکن کئی افسروں نے تعلیم مافیا کی مدد کرتے ہوئے اس خط کو دبا دیا۔ اس یونیورسٹی میں بھی مختلف سیمسٹر کے امتحان تاخیرسے ہو رہے ہیں۔ 2015 میں پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا ایک بھی امتحان ابتک نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح 2016 اور 2017 میں پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا بھی امتحان نہیں ہوا ہے۔
گریجویشن کی بات کریں تو 2015 میں داخلہ لینے والے طالب علموں کے دوسرے سیمسٹر کا امتحان اس سال ہوا ہے جبکہ اس سال ان کی پڑھائی پوری ہو جانی چاہیے تھی۔ اسی طرح 2016 میں بی اے میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا امتحان بھی ایک سال تاخیرسے ہو رہا ہے۔ طالب علموں نے بتایا کہ 2016 میں طلبا کے پہلے سیمسٹر کے امتحان کے لئے اس سال رجسٹریشن ہوا ہے۔ امتحان ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ سال 2015 میں مگدھ یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لینے والے طالب علم جینت نے بتایا کہ ابھی تک تیسرے سیمسٹر کا امتحان نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ بہت سارے طالب علم جولائی میں ہونے والے کمبائنڈ گریجویشن لیول کا امتحان دینا چاہتے ہیں۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے پر انکم ٹیکس افسر کی سطح کی نوکری ملتی ہے۔ لیکن طالب علموں کو ڈر ہے کہ اگر مقابلہ جاتی امتحان پاس بھی کر گئے تو طےشدہ وقت پر بی اے کا ریزلٹ ہی نہیں نکل پائےگا۔ نتیجہ نہیں نکلےگا، تو وہ یہ ثابت نہیں کر پائیںگے کہ انہوں نے گریجویشن کیا ہے اور اس طرح ان کے ہاتھ سے نوکری نکل جائےگی۔ ‘ مگدھ یونیورسٹی میں بی ایڈ کا امتحان بھی تاخیرسے ہو رہاہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ بی ایڈ میں 2015 میں داخلہ لانے والے طالب علموں کا فائنل امتحان اس سال ہوا ہے جبکہ 2016 میں داخلہ لینے والے طالب علموں کا پہلے سیمسٹر کا امتحان ابھی تک ہو پائی ہے۔
مگدھ یونیورسٹی میں گریجویشن میں قریب 5لاکھ، پوسٹ گریجویشن میں 20 ہزار اور بی ایڈ میں 10 ہزار طلبہ و طالبات پڑھتے ہیں۔ امتحان میں دیری کے ساتھ ہی اس یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے سامنے ایک اور نیا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے۔ دراصل ریاستی حکومت نے حال ہی میں پاٹلی پتر یونیورسٹی نام سی نئی یونیورسٹی کا قیام کیا ہے۔ مگدھ یونیورسٹی سے Constituent اور Affiliated جو کالج پٹنہ اور نالندہ میں ہیں، ان کو پاٹلی پتر یونیورسٹی کے تحت کر دیا جائےگا۔ لیکن اس بارے میں طالب علموں کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔
پاٹلی پتر یونیورسٹی کے تحت اے این کالج کے اسٹوڈنٹ لیڈر للت کمار نے کہا، ‘ مگدھ یونیورسٹی چاہتا ہے کہ پٹنہ اور نالندہ کے جتنے بھی کالج پاٹلی پتر یونیورسٹی کے تحت جائیںگے، ان تمام کالجوں کے تمام سیشن کے طالب علموں کی ذمہ داری پاٹلی پتر یونیورسٹی انتظامیہ لے، لیکن پاٹلی پتر یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ 2017 کے بعد جن طلبہ و طالبات نے داخلہ کرایا ہے، ان کی ذمہ داری ہی وہ لےگا۔ انتظامیہ کی اس کھینچ تان سے 3 لاکھ طلبہ و طالبات متاثر ہوںگے۔ ‘ ریاست کے محکمہ تعلیم کے افسروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ 18 جون سے پاٹلی پتر یونیورسٹی شروع ہو جائے گی اور طلبا و طالبات کی ساری کشمکش دور ہو جائے گی۔
آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے ) کے اسٹیٹ پریزیڈنٹ مختار عالم نے کہا کہ آدھا درجن یونیورسٹیوں میں امتحان تاخیرسے ہو رہے ہیں، جس سے لاکھوں طالب علموں کا کیریئر برباد ہو رہا ہے۔ اس کو لےکر کئی بار محکمہ تعلیم اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن سے ملاقاتیں کی گئیں، لیکن اس سمت میں ابتک کوئی اصلاح نہیں دکھ رہی ہے۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈر سوربھ کمار نے بھی امتحان میں تاخیر کو لےکر بہار حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حکومت طلبا و طالبات کے دکھ درد کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی ہے۔
ماہر تعلیم اور مگدھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر محمد اشتیاق کا کہنا ہے، ‘ یونیورسٹی میں تمام طرح کا مسئلہ ضرور ہیں، لیکن وائس چانسلر چاہے ، تو امتحان وقت پر لیے جا سکتے ہیں۔ ‘ انہوں نے وائس چانسلر رہتے ہوئے امتحان باقاعدہ وقت پر لینے کے لئے اٹھائے گئے قدموں کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے کہا، ‘ میں جب مگدھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنکر آیا تھا، تو امتحان متعینہ وقت سے تاخیرسے چل رہے تھے۔ میں نے تمام افسروں، کالج کے اساتذہ اور دوسرے اہلکاروں کو بلا کر میٹنگ کی اور سیدھے طور پر یہ کہہ دیا کہ امتحان طے وقت کے اندر ہی لینا ہوگا۔ ‘
محمد اشتیاق نے بتایا، ‘ میں نے طلبہ یونین سے بھی صاف کہہ دیا کہ امتحان کی تاریخ کسی بھی صورت میں نہیں بڑھےگی۔ امتحان کے دوران نگرانی چست کی گئی اور جوابی کاپی متعینہ سینٹروں میں جمع کرواکر ڈیڑھ مہینے کے اندر ان کی تفتیش کراکر نتیجہ جاری کر دیا۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ یہ سچ ہے کہ بہار کے کالجوں میں ٹیچر کی قلت ہے، لیکن اس کے باوجود اگر وائس چانسلر چاہے ، تو وقت پر امتحان ہو سکتا ہے۔ بہت کچھ اپنی قوت ارادی پر بھی منحصر کرتا ہے۔ ‘ آدھا درجن یونیورسٹیوں میں امتحان دیر سے ہونے کو لےکر بہار کے وزیر تعلیم کرشن نندن پرساد ورما کے موبائل نمبر پر فون کیا گیا، لیکن کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہے۔ )
Categories: گراؤنڈ رپورٹ