وزیر اعظم درجنوں بار کشمیر جا چکے ہیں۔ وہ جب بھی گئے اسکیموں اور وکاس پر بات کرتے رہے جیسے کشمیر کا مسئلہ سڑک اور فلائی اوور کا ہے۔ کشمیر مسئلے کو انہوں نے سولر پاور پلانٹ اور ہائیڈرو پلانٹ کی سنگ بنیاد تک محدود کر دیا۔ ان کی کشمیر پالیسی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
کشمیر کے کئی بڑے اخباروں نے صحافی شجاعت بخاری کے قتل کی مخالفت میں منگل کو اپنے اداریہ کونے کو خالی چھوڑ دیا ہے۔ عید کی دو دنوں کی چھٹیوں کے بعد جب اخبار شائع ہو کر آئے تو اداریہ حصہ خالی تھا۔ گریٹر کشمیر، کشمیر ریڈر، کشمیر آبزرور، رائزنگ کشمیر کے علاوہ اردو اخبار روزانہ تعمیل ارشاد نے بھی اداریہ خالی چھوڑ دیا۔ دفعہ 370 ہٹانے کے نام پر سیاست کرتے رہنے والی بی جے پی اس رجحان سے مڑ گئی۔ پی ڈی پی کے ساتھ 3 سال تک حکومت چلائی۔ کئی چیلنجز آئے مگر اتحاد چلتا رہا۔ وزیر اعظم کی کشمیر پالیسی کی اعلانیہ صورت نہیں دکھتی ہے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی حکمت عملی کو ہی آخری مان لیا گیا اور حالات اب اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں کہ بی جے پی کو پھر سے مڑنا پڑ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اب وہ پھر سے دفعہ 370 کا جاپ کرےگی۔ دہشت گردی کم نہیں ہوئی۔ دہشت گرد حملے کم نہیں ہوئے۔ یہ بی جے پی کے رام مادھو ہی کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ صرف محبوبہ کی ناکامی ہے، پھر 3 سال تک بی جے پی کے 10 وزیر حکومت میں بیٹھکر اندر سے کیا دیکھ رہے تھے؟ فوج کے جوانوں سے لےکر افسروں کی شہادت سب کے سامنے ہیں۔
میجر گگوئی کا قصہ آپ کو یاد ہوگا۔ جیپ پر فاروق ڈار کو باندھ لے آئے تھے۔ اس تصویر سے کتنا بوال مچا۔ میجر صاحب پر مبینہ طور پر نابالغ لڑکی کے ساتھ پکڑے جانے کا الزام لگا اور ان پر کورٹ آف انکوائری کے آرڈر ہیں۔ سنکرشن ٹھاکر نے لکھا ہے کہ محبوبہ مفتی میجر آدتیہ کمار کا نام بھی ایف آئی آر میں درج کرانا چاہتی تھیں۔ ان کے فوجی والد سپریم کورٹ چلے گئے۔ بی جے پی نے دباؤ بڑھایا تو محبوبہ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کا مطلب جب بی جے پی چاہتی تھی تب اس کے حساب سے ہو جاتا تھا۔
یاد کیجئے 2016 کے سال میں چینلوں میں کیا ہو رہا تھا۔ گھاٹی سے بھی آواز آ رہی تھی کہ یہ چینل آگ سلگا رہے ہیں۔ عدم اعتماد بڑھا رہے ہیں۔ مگر ان کا مقصد صاف تھا۔ کشمیر کے بہانے ہندی ریاستوں کی سیاست کو سیٹ کیا جائے۔ پتھربازی کے واقعہ کو لےکر چینلوں کے ذریعے خوب تماشہ کیا گیا۔ آئی اے ایس ٹاپر فیصل کو بھی چینلوں نے گھسیٹ لیا تب انہوں نے لکھا تھا کہ بکواس بند ہو ورنہ وہ استعفیٰ دے دیںگے۔ اس سال فروری میں 11000 پتھربازوں سے مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ کہا گیا کہ نوجوانوں کو مین اسٹریم میں واپس لانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ اس بیچ نہ جانے کتنے لوگوں کو ان پتھربازوں کا حمایتی بتاکر چپ کرا دیا گیا۔
آپ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور رام مادھو کے بیان ہیں کہ محبوبہ کا مقدمہ لینے کا فیصلہ اکیلے کا نہیں تھا۔ وزارت داخلہ سے صلاح مشورہ کے بعد لیا گیا تھا۔ رام مادھو بتا سکتے ہیں کہ کشمیر میں تب حالات کیا سدھر گئے تھے جو مقدمہ واپس لئے گئے، اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ رام مادھو کہہ رہے ہیں کہ سیزفائر کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا لیکن حالات تو سیزفائر سے پہلے بھی اتنے ہی خراب تھے۔ تو کس حساب سے کہا جا رہا ہے کہ سیزفائر کا عمل نہیں ہوا؟
کہا جا رہا ہے کہ محبوبہ پاکستان سے بات چیت کی حمایتی تھیں۔ بات چیت کی بات یا اشارہ تو مودی حکومت بھی دیتی رہی۔ پاکستان محبوبہ نہیں، مودی گئے تھے۔ حال ہی میں راج ناتھ سنگھ نے تمام جماعتوں سے بات چیت کے لئے دنیشور شرما کی تقرری کی ہے۔ کیا تقرری میں دیری ہوئی، اس سے کیا نکلنا تھا اور اس کا انجام کیا کسی بات چیت کی میز پر پہنچنا تھا؟ کشمیر کی سیاست کا ایک اور محور ہے جس کو بی جے پی تھامے رہتی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی سیاست۔ اس پر آپ دی وائر میں چھپے مضمون کو پڑھ سکتے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کے درمیان اس مضمون کو لےکر الگ الگ رائے ہے۔ اتفاق میں اور عدم اتفاق میں، اس کو لکھا ہے عامر لون اور سہیل لون نے۔
کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی سیاست بی جے پی نے ہی کھلکر کی ہے مگر مرکز میں دو-دو حکومت چلانے کے بعد بھی وہ اس معاملے میں آگے نہیں بڑھ پائی۔ نہ اٹل جیکے وقت نہ مودی جیکے وقت۔ میں کشمیر معاملے کا جان کار نہیں ہوں۔ آپ خودہی اس مضمون کو پڑھیں اور سوچیں۔ کشمیری پنڈتوں کا نام لینے والی بی جے پی کی جب پہلی بار ریاست میں حکومت بنی تب کیا ہوا، کیا کیا، وہی بتا سکتی ہے۔
انٹرنیٹ سرچ کر رہا تھا۔ وزیر اعظم درجن بار کشمیر جا چکے ہیں۔ انتخابی ریلیوں میں بھی اور اسکیموں کے سنگ بنیاد اور افتتاح کے لئے۔ وہ جب بھی گئے اسکیموں اور وکاس پر بات کرتے رہے جیسے کشمیر کا مسئلہ سڑک اور فلائی اوور کا ہے۔ مگر انہوں نے اس مسئلہ کی پیچیدگی کو سولر پاور کے پلانٹ اور ہائیڈرو پلانٹ کے سنگ بنیاد تک محدود کر دیا۔ ان کی کشمیر پالیسی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
اننت ناگ میں ڈیڑھ سال سے رکن پارلیامان نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن وہاں انتخاب نہیں کرا پا رہا ہے۔ اگر آپ کشمیر سے نہیں ہیں تو اس کے بارے میں پڑھیے۔ سوچیے۔ جملوں اور نعروں کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے بچیے۔ ہمارے حصے میں سمجھ پیدا کرنا ہی ہے۔ جو لوگ جانتے ہیں زیادہ جانتے ہیں وہ بھی تو نہیں سلجھا پائے۔ جو نہیں جانتے ہیں انہوں نے اس آگ کو سلجھائے ضرور رکھا۔ قاعدے سے دونوں طرح کے لوگ فیل ہیں۔
یہاں سے کشمیر کو لےکر اب بیانیہ بدلےگا۔ آنے والے انتخابات میں ناکامی چھپانے کے لئے کشمیر، دہشت گردی سے لڑائی اور ہمارے من پسند جوانوں کی شہادت کا استعمال ہوگا۔ اب میڈیا آپ کو بتائےگا کہ دہشت گردی سے آرپار کی لڑائی ہونے والی ہے۔ یہ بھی دیکھ لیجئے۔ فی الحال وزیر اعظم مودی کو میڈیا فاتح بھلے اعلان کر دے مگر سچائی یہی ہے کہ وہ تین سال تک کشمیر کو لےکر جس راستے پر بھی چلے وہ فیل ہو چکے ہیں۔
ایک اینکر نے کہا کہ گورنر کے سہارے مودی کی چلےگی اور آتنک چلتا ہو جائےگا۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ آتنک چلتا ہو جائے مگر اینکر کے اس جوش و خروش سے ڈر لگتا ہے۔ کہاں سے لاتے ہیں وہ ایسی خوداعتمادی۔ پروپیگنڈہ کی بھی حد ہوتی ہے۔ اسی لئے میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ جب بھی دیکھتا ہوں ایسے حماقتوں والے جملے سے صدمہ لگ جاتا ہے۔ اینکر نے ایسے اعلان کر دیا جیسے مودی کا واٹس ایپ آیا ہو۔
ہندو مسلم سیاست ہی اس ملک کی سچائی ہے۔ یہی چلےگا۔ یہ چلتا رہے اسی کے آس پاس مدعا سیٹ کئے جائیںگے۔ آپ چاہے کسی بھی اکھاڑے میں ہوںگے، آپ بھی سیٹ ہو جائیںگے۔ میں کشمیر کے بارے میں خاص نہیں جانتا۔ کچھ نہیں جانتا۔ آج ہی سب پڑھا ہے، اس لئے کچھ غیر مناسب لگے تو معاف کیجئے۔ ویسے مودی حکومت کا دعویٰ تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ آج اسی دہشت گردی کی وجہ سے اتحاد کی کمر ٹوٹ گئی۔ نوٹ بندی ہندوستان کے ساتھ کیا گیا نیشنل فراڈ تھا۔ ہم کب اس کو قبول کریںگے؟
Categories: فکر و نظر