بہار میں انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کو لےکے ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ تمام طلبہ و طالبات کے رزلٹ میں گڑبڑی سامنے آئی ہیں۔ امتحان میں شامل ہونے کے بعد بھی کئی طالب علموں کو غیرحاضر کر دیا گیا، وہیں کچھ کو کل نمبر سے بھی زیادہ نمبر دے دئے گئے ہیں۔
پٹنہ کے بدھ مارگ پر واقع بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کے شاندار دفتر کے گیٹ پر دو درجن سے زیادہ لاٹھی دھاری پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ گیٹ کے باہر انٹرمیڈیٹ کے سیکڑوں طلبہ و طالبات کھڑے ہیں۔ ان کے چہرے پر ناامیدی اور اپنے مستقبل کو لےکر غیریقینی ہے۔
ان کو اگزامینیشن بورڈکے پاس اپنی شکایتں پہنچانی ہیں، لیکن پولیس جھڑککے گیٹ سے دور کر دے رہی ہے۔ اسی مہینے 6 جون کو بہار کا انٹرمیڈیٹ (12ویں) کا رزلٹ جاری ہوا ہے۔ امتحان میں قریب 12 لاکھ طلبہ و طالبات نے حصہ لیا تھا، جن میں سے 631246 طلبہ و طالبات (51.95 فیصد) کامیاب ہوئے۔
پچھلے سال 35.24 فیصد طلبہ و طالبات ہی پاس ہو پائے تھے۔ اس بار 16.71 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس ‘ کامیابی ‘پر ریاستی محکمہ تعلیم اپنی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے، لیکن رزلٹ میں آئی تمام طرح کی گڑبڑیوں نے لاکھوں طلبہ و طالبات کے کیریئر کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
رزلٹ آنے کے بعد طلبہ و طالبات کو مختلف کالجوں میں ایڈمیشن کے لئے دوڑ لگانی چاہیے تھی، لیکن وہ رزلٹ میں گڑبڑی کو درست کرانے کے لئے کبھی متعلقہ ضلع ایجوکیشن آفس تو کبھی پٹنہ واقع بورڈ کا چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن ان کو راحت ملے، ایسی یقین دہانی کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔
وشال کمار روہتاس ضلع کی ڈیہری آن سون میں رہتے ہیں۔ انہوں نے تمام سبجیکٹ کا امتحان دیا تھا۔ ساتھ ہی پریکٹیکل امتحان بھی دیا تھا، لیکن ان کے رزلٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ امتحان میں غیرحاضر تھے۔رات 11 بجے ٹرین پکڑکر وشال پٹنہ آئے۔ رات اسٹیشن پر لیٹکر گزاری اور دن چڑھنے پر بورڈ پہنچے، تاکہ یہاں سے سکون دہ جواب انھیں مل جائے۔
وشال نے بتایا،میں نے سارے امتحان دیے تھے، لیکن رزلٹ میں بتا رہا ہے کہ میں نے امتحان ہی نہیں دیا۔ اپنی شکایت لےکر میں کئی بار دفتر کے افسروں سے ملنے کی کوشش کی، لیکن افسروں سے ملنا تو دور پولیس والے دفتر کے اندر گھسنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ ‘انہوں نے کہا، رزلٹ میں جب تک اصلاح نہیں ہو جاتی ہے، تب تک کچھ سوچ نہیں سکتا۔ ابھی بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ‘
روہتاس کے ہی نرنجن کمار کی شکایت ہے کہ ان کو فزکس اور کیمسٹری میں بہت کم نمبر ملے ہیں۔ نرنجن نے بتایا،میں نے دونوں پیپر جتنا بہترین لکھا ہے، ویسا رزلٹ نہیں آیا ہے۔ پانچ سبجیکٹ کو ملا کر میرے 296 نمبر آئے ہیں جبکہ رزلٹ 65 سے 70 فیصد آنا چاہیے تھا۔ میں کاپیوں کی دوبارہ جانچ کرانا چاہتا ہوں۔ ‘وشال اور نرنجن انڈین نیوی کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن رزلٹ نے ساری تیاریوں کو مٹی میں ملا دیا۔موتیہاری ضلع کے راجےپور کے رہنے والے سندیپ کمار آرٹ سائڈ سے انٹر کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی تمام سبجیکٹ کا امتحان دیا تھا، لیکن رزلٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ امتحان میں غیر حاضر تھے۔
سندیپ مظفرپور میں روم کرایے پر لےکر پڑھائی کرتے ہیں۔ رزلٹ میں اصلاح کے لئے وہ کالج سے لےکے ضلع ایجوکیشن آفس تک کی دوڑ لگا چکے ہیں۔ لیکن، کہیں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا، تو علی لصبح مظفرپور سے بس پکڑکر بورڈ کے دفتر کے سامنے پہنچ گئے۔
صبح 8:30 بجے سے ہی دفتر کھلنے کا انتظار کر رہے سندیپ نے اپنا رزلٹ دکھاتے ہوئے کہا، جب کالج گیا تو وہاں بتایا گیا کہ ضلع ایجوکیشن افسر سے ملوں۔ ضلع ایجوکیشن افسر کے پاس گیا تو انہوں نے پٹنہ جانے کو کہا۔ یہاں جب شکایت کی تو، انہوں نے ویب سائٹ پر جاکر آن لائن درخواست کرنے کو کہا۔ لیکن ویب سائٹ کھل ہی نہیں رہی ہے کہ درخواست دوں۔
سندیپ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور گریجویٹ کرنے کے بعد سرکاری نوکری کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے کہا، رزلٹ میں اصلاح ہو جانے تک میں کچھ سوچ ہی نہیں پا رہا ہوں۔سندیپ نے بتایا،انٹر کے امتحان کے لئے فارم بھرنے سے لےکر رجسٹریشن تک تین ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر رزلٹ میں اصلاح نہیں ہوا تو نہ صرف اضافی تین ہزار روپے خرچ کرنے ہوںگے بلکہ دو قیمتی سال بھی ضائع ہو جائیںگے۔
سندیپ کی طرح ہی رادھے شیام کمار کے رزلٹ میں بھی اس کو غیر حاضر بتایا گیا ہے، جبکہ انہوں نے بھی تمام سبجیکٹ کا امتحان دیا تھا۔انٹر کا امتحان طالب علموں کے لئے اہم ہوتا ہے۔ اس کے رزلٹ کی بنیاد پر ہی جوائنٹ انٹریس اگزام (جے ای ای) دیا جا سکتا ہے۔ اچھا رزلٹ ہونے پر طالب علم بہتر کالج میں رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ انٹر میں بہتر رزلٹ آنے پر طالب علم دہلی کی طرف بھی رخ کرتے ہیں۔
اس سال انٹر کا امتحان فروری کے بیچ میں ختم ہوا تھا۔ امتحان کا رزلٹ 7 جون کو آناتھا، لیکن دہلی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے آن لائن درخواست کی آخری تاریخ 7 جون ہونے سے 6کو ہی رزلٹ آیا۔ رزلٹ میں گڑبڑیوں کی وجہ سے طالب علم کالجوں میں داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں۔کئی طالب علم جے ای ای کی تیاری کر رہے تھے، اس امید میں کہ اچھا رزلٹ آئےگا تو جے ای ای پاس کر اعلیٰ تعلیم لے سکیںگے، لیکن نتائج نے ان کے خوابوں کو چور کر دیا ہے۔
گیا کے رہنے والے روہت روشن کو انٹر میں سیکنڈ ڈویزن ملا ہے، لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کاپیوں میں جتنا لکھا ہے، اس کے حساب سے اس کو کم سے کم 70 فیصد نمبر ملنے چاہیے تھے۔روہت نے کہا، جے ای ای (مین)کے امتحان کے لئے انٹر میں 292 نمبر ہونے چاہیے، لیکن مجھے 278 نمبر ہی ملے ہیں۔ میں پچھلے ایک سال سے جے ای ای کی تیاری کر رہا تھا۔ میں اپنے ادارے کے ٹاپ بیچ میں ہوں، لیکن رزلٹ نے بےحد مایوس کیا ہے۔ اب مجھے اپنے کیریئر کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ ‘
حالانکہ، کاپیوں کی دوبارہ جانچ کے لئے انہوں نے آن لائن درخواست دیا ہے، لیکن ان کو بہت امید نہیں ہے۔رزلٹ میں گڑبڑی کی شکایت کے بعد بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کی طرف سے کاپیوں کی دوبارہ جانچ کے لئے آن لائن درخواست کا نظام شروع کیا گیا ہے۔ دوبارہ کاپیوں کی جانچ کے لئے طالب علموں کو 70 روپے دینے ہوںگے۔
گزشتہ دنوں جب طالب علموں نے رزلٹ میں گڑبڑی کو لےکر بورڈ کے سامنے مظاہرہ کیا تھا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کر دیا تھا جس میں کئی طالب علم زخمی ہو گئے تھے۔پولیس کا الزام تھا کہ طالب علموں نے پتھر پھینکے تھے۔ اس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس معاملے میں کچھ طالب علموں کو حراست میں بھی لیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعہ کے بعد سے دفتر کے باہر بھاری تعداد میں پولیس کی تعیناتی کی گئی ہے۔دفتر کے اندر داخلے پر پوری طرح سے پابندی ہے ۔طلبہ و طالبات کی تمام شکایتوں کا جواب مائیک کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔طالب علموں کا کہنا ہے کہ مائیک کے ذریعے جو جواب مل رہا ہے، وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ ہر شکایت کا ایک ہی جواب دیا جا رہا ہے کہ سب کچھ آن لائن ہی کرنا ہوگا، دفتر میں کوئی شکایت نہیں لی جائےگی۔
نمبر کم ملنے، امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کو بھی غیر حاضر بتانے کے علاوہ ایسی بھی چوک ہوئی ہے، جو مضحکہ خیز ہے اور امتحان بورڈ کے طریقہ کار اور ریاست کےتعلیمی نظام پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔مثال کے طور پر روہتاس کے ہی درگیش کمار کے رزلٹ کو لیا جا سکتا ہے۔ ان کو انگریزی میں 51 نمبر دیا گیا ہے، جبکہ انگریزی کا پیپر 50 نمبر کا ہی تھا۔ درگیش کی طرح اور بھی کئی طالب علم ہیں جن کے رزلٹ میں ایسی مضحکہ خیز چوک ہوئی ہے۔
اسی طرح مشرقی چمپارن کے سندیپ حکومت کو علم طبیعات کی تھیوری پیپر میں 38 نمبر دئے گئے جبکہ پیپر 35 نمبر کا ہی تھا۔ دربھنگہ کے راہل کمار کو ریاضی میں 40 نمبر دیا گیا جبکہ پیپر 35 نمبر ہی تھا۔اس تعلق سے بورڈ نے اپنے دفتر کے باہر نوٹس چپکاکریہ دلیل دی ہے کہ کسی بھی طالب علم کو زیادہ نمبر نہیں ملا ہے اور یہ الزام بے بنیاد ہیں۔
بہار کے سابق نائب وزیراعلی تیجسوی یادو نے انٹر کے رزلٹ میں گڑبڑی کے لئے سی ایم نتیش کمار کے ساتھ ہی بورڈ کے صدر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔تیجسوی یادو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹوئٹ میں لکھا، نتیش جی، ہرسال آپ کی ناک کے نیچے بہار بورڈ طرح-طرح کے گل کھلا رہا ہے۔ آپ نے اپنے ہوم ڈسٹرکٹ کے اپنی ہی کمیونٹی کے ایک دوست کو سالوں تک بہار بورڈ کاچیئرمین بناکر بہار کے تعلیمی نظام کا جو ملیامیٹ کروایا اس کے لئے آپ کو بہار کے طالب علموں سے معافی مانگنی ہی ہوگی۔
नीतीश जी, हर साल आपकी नाक के नीचे बिहार बोर्ड भाँति-भाँति के गुल खिला रहा है। आपने अपने गृह ज़िला के एक स्वजातीय मित्र को वर्षों तक बिहार बोर्ड का अध्यक्ष बनाकर बिहार की शिक्षा व्यवस्था का जो सत्यानाश करवाया उसके लिए आपको बिहार के कर्णधार छात्रों से माफ़ी माँगनी ही होगी।
— Tejashwi Yadav (@yadavtejashwi) June 12, 2018
بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کے چیئر مین آنند کشور ہیں۔ آنند کشور 1997 بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں۔ سال 2016 میں ٹاپر گھوٹالہ کے بعد نتیش کمار نے انھیں بہار اکزامنیشن بورڈ کا چیئرمین بنایا تھا۔بہر حال، رزلٹ میں گڑبڑیوں کو لےکر اساتذہ کا ماننا ہے کہ بارکوڈنگ نظام اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔بی بی کالیجیئٹ کے استاد پروین منڈل نے کہا، ‘جلدبازی میں بارکوڈنگ ان گڑبڑیوں کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے طالب علم کے بارکوڈس کسی اور طالب علم کی کاپی پر ڈال دئے گئے ہوں۔
انہوں نے کہا، میرے کالج کے طالب علموں کو بھی رزلٹ کو لےکر تمام شکایتں ہیں۔ ہم نے ان کو بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کے پاس شکایت کرنے کو کہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ انٹر میں بارکوڈنگ سسٹم گزشتہ سال سے شروع کیا گیا ہے۔ کاپیوں کی بارکوڈنگ بےحد خفیہ طریقے سے کی جاتی ہے اور اس میں اساتذہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔
نئے نظام میں کاپیوں پر رول نمبر اور امتحان مرکز نمبر کی جگہ بار کوڈ ڈالے جاتے ہیں، تاکہ پیسے لےدےکر کاپیوں کی جانچ متاثر کرنے سے روکا جا سکے۔ ساتھ ہی کسی طرح کی بھول بھی نہ رہے۔لیکن، گزشتہ سال کے ایک واقعہ نے یہ بتایا تھا کہ بارکوڈنگ سسٹم بھی فل پروف نہیں ہے۔سہرسہ کی رہنے والی 10ویں کی طالبہ پرینکا سنگھ نے 2017 میں میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ جب رزلٹ آیا تو ان کو سنسکرت میں 100 نمبر میں سے صرف 9 نمبر ملے تھے۔ سائنس میں 80 نمبر میں 29 نمبر ہی دئے گئے تھے۔
انہوں نے دونوں سبجیکٹ کی کاپیوں کی دوبارہ جانچ کے لئے درخواست کیا، ساتھ ہی پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کو لےکر ایک عرضی بھی دائر کی تھی۔عرضی پر سماعت کرتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کو جانچ کرنے کو کہا تھا۔ اس پر بورڈ نے ایک جانچ کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد پرینکا کو سنسکرت میں 80 اور سائنس میں 61 نمبر دئے گئے تھے۔
جانچ میں پتا چلا تھا کہ کمیٹی کے کسی ملازم نے پرینکا کے دونوں سبجیکٹ کے بار کوڈ کو دوسرے طالب علم کی کاپی سے بدل دیا تھا، اس وجہ سے گڑبڑ ہوئی تھی۔انٹر کالج کے ایک دیگر استاد نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘بارکوڈنگ کا ذمہ بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کے افسروں کے پاس ہوتا ہے، اس لئے گڑبڑی وہیں سے ہوئی ہوگی۔
سکینڈری ٹیچر ایسوسی ایشن کے پٹنہ کمشنری کے سکریٹری چندرکشور کمار مانتے ہیں کہ انٹر کے لئے فارم بھرنے سے لےکر امتحان اور پھر رزلٹ تیار کرنے تک میں کئی طرح کی تبدیلی کی گئی، لیکن اس کے لئے پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا،اگزامنیشن کی کارروائی آن لائن کی گئی اور بارکوڈنگ سسٹم لایا گیا۔ ان سب کے لئے ماہر ین کی ضرورت ہے، لیکن اگزامنیشن بورڈ نے ان کی ضرورت محسوس نہیں کی، جس وجہ سے یہ گڑبڑی ہوئی ہیں۔ ‘
استاد بالیشور شرما نے کہا، ‘بارکوڈنگ سمیت کئی طرح کےنئے اور مشکل نظام لائے گئے، لیکن امتحان سے پہلے ایک بار ہی اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی اور وہ بھی 10 فیصدی اساتذہ کو ہی۔ ایسے میں گڑبڑی تو ہونی ہی تھی۔ ‘اس پورے معاملے میں اب تک حکومت اور اگزامنیشن بورڈ کی طرف سے کارروائی کے نام پر بس اتنا ہوا ہے کہ طالب علموں کو کچھ ویب سائٹس کے لنک دے دئے گئے ہیں، جہاں وہ شکایت کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کسی بڑی کارروائی کے اشارے اب تک نہیں ملے ہیں اور نہ ہی رزلٹ میں گڑبڑیوں کی جڑیں تلاش کرنے کے لئے کوئی پختہ قدم اٹھائے جانے کی خبر ہے۔پورے معاملے کو لےکر وزیر تعلیم کرشن نندن پرساد ورما کو فون کیا گیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ ان کو میسیج بھی بھیجا گیا، لیکن اس میسیج کا بھی جواب اب تک نہیں آیا ہے۔
محکمہ برائے تعلیم کے سکریٹری کے لینڈلائن نمبر پر فون کیا گیا تو بتایا گیا کہ 12ویں کے رزلٹ سے جڑے سوالوں کا جواب بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ کے صدر آنند کشور ہی دیںگے۔آنند کشورکو جب فون کیا گیا، تو انہوں نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ رد عمل لینے کے لئے ان کے موبائل نمبر پر میسیج بھیجا گیا، لیکن اس میسیج کا بھی جواب اب تک نہیں آیا۔
بہار کی نتیش کمار حکومت تعلیمی نظام میں اصلاح کا دعویٰ کرنے کے لئے جو حقائق پیس کرتی ہے، اس میں ایک حقیقت یہ ہے کہ 2005 میں اسکولوں میں طلبہ و طالبات کی حاضری 88 فیصد تھی، جو سال 2015 میں 98.28 فیصد ہو گئی۔لیکن، سوال یہ ہے کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ میں گڑبڑی ان کے کیریئر کو آخرکار تباہ ہی کر رہی ہیں، تو وہ اسکول جاکر کریںگے بھی کیا؟
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ