فیک نیوز :مدرسے میں مسلم مدرس کے ذریعے ہندو مذہب کا مذاق،راہل گاندھی کی مذہبی پہچان اور یوگا کی تصویروں کے درمیان ہندوستانی ہائی کمیشن کے ٹوئٹ کا سچ۔
فیس بک پر بڑی تعداد میں بھگوا فکر کےایسے گروپ اور پیج موجود ہیں جن کا کام صرف یہ ہے کہ وہ دن رات مسلمانوں کو نشانہ بنائیں، ان کے تعلیمی اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں عام کریں اور سماج میں مسلمانوں کے متعلق بدگمانی کو فروغ دیں۔
گزشتہ ہفتے فیس بک پر ایک تصویر بہت عام کی گئی جس میں ایک داڑھی اور ٹوپی والا شخص کچھ خواتین کو کسی کلاس روم میں پڑھا رہا ہے۔تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ وہ شخص بلیک بورڈ پر ہندو مذہب اور اسلام کا موازنہ کر رہا ہے اور اس نے دونوں مذاہب کی خصوصیات کے مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ اسلام مذہب ہندو مذہب سے بہتر ہے کیونکہ اس شخص کے موازنے میں اسلام کو 3نمبر ملے ہیں اور ہندو مذہب کوصفر !
اس تصویر کو بھگوا گروپوں میں یہ کہہ کر عام کیا گیا کہ مسلمانوں کے مدارس میں ہندو مذہب کے خلاف نفرت عام کی جاتی ہے اور ہندوؤں سے امید کی جاتی ہے کہ وو مسلمانوں سے محبت اور امن کا معاملہ رکھیں! بقول الٹ نیوز اس تصویر کو ایسےفیس بک گروپوں میں عام کیاگیا جن میں ممبروں کی تعداد 18 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ٹوئٹر پر پوجا گوسوامی نامی اکاؤنٹ سے بھی اس تصویر کو شئیر کیا گیا جس کو صحافی جاگرتی شکلا نے بھی ری ٹوئٹ کیا !
حقیقت یہ ہے کہ یہ تصویر گورکھپور کے مدرسہ دارالعلوم حسینیہ کی ہے۔اپریل کے مہینے میں یہ تصویر تمام اخباروں اور چینلوں پر مرکز گفتگو تھی کیونکہ اس مدرسے میں اسلام کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سنسکرت بھی پڑھائی جاتی ہے اور سنسکرت پڑھانے والے استاد مسلمان ہیں۔بھگوا گروپوں میں جوتصویر عام کی گئی تھی وہ اسی سنسکرت کلاس کی تصویر تھی اور داڑھی ٹوپی والے شخص اس مدرسے کے سنسکرت مدرس ہیں جو بلیک بورڈ پربچیوں کو سنسکرت پڑھا رہے ہیں۔لیکن بھگوا گروپوں میں تصویر کو فوٹوشاپ سے تبدیل کر دیا گیا، بلیک بورڈ پر اسلام اور ہندو مذہب کے موازنہ والی تصویر لگا دی گئی! اسی تصویر کی اصل جن ستا اور NDTV پر موجود ہے۔
21 جون کو چوتھا یوم عالمی یوگا عالمی تھا۔ہندوستان میں تمام سرکاری دفتروں اور اداروں میں اس کے لئے کافی اہتمام کیے گئے تھے۔ایک خبر کے مطابق پرائم منسٹر نریندر مودی نے دہرادون کی وادیوں میں تقریباً پچاس ہزار افراد کے درمیان موجود رہ کر یوگ کے پروگرام میں شرکت کی۔21 جون کی شام کو سوشل میڈیا اس دن کی تصویروں سے بھرا پڑا تھا۔لیکن کینیا میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے اس وقت کمال کر دیا جب 18 جون کو ہی اپنے آفیشل ٹوئٹر سے ایک جعلی تصویر شئیر کر دی ! ہائی کمیشن کے ٹوئٹر سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ تصویر ماؤنٹ کینیا کی ہے جہاں ہندوستانی لوگ یوگ کا عالمی یوم منا رہے ہیں !
جیسے ہی اس تصویر کو ہائی کمیشن کے ٹوئٹر پر اپلوڈ کیا گیا تو سوشل میڈیا میں اس کا مذاق بننے لگا اور لوگوں نے ہائی کمیشن کو آگاہ کیا کہ آپ نے جو تصویر اپنے ٹوئٹر سے جاری کی ہے وہ جھوٹی تصویر ہے جس کو فوٹوشاپ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ فوٹوشاپ کا استعمال بہت خراب طریقے سے ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ شناخت کرنا بیحد آسان ہے کہ یہ تصویر نقلی ہے۔
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں پایا کہ تصویر کے بیک گراؤنڈ میں موجود پہاڑ گوگل سرچ کی مدد سے لیا گیا ہے اور اس کو یوگا کرتے ہوئے چند افراد کے پیچھے بیک گراؤنڈ میں لگا دیا گیا ہے۔جب ہائی کمیشن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اس غلطی کی معافی مانگی اور تصویر کو ڈیلیٹ کر دیا۔
فیک نیوز کی دنیا میں راہل گاندھی اس ہفتے بھی نشانہ بنائے گئےاوراس دفعہ ایک جعلی خط سوشل میڈیا میں بہت عام ہوا۔یہ خط شری کرشن کلکرنی نےلکھاہےجوخودکومہاتماگاندھی کاپرپوتاکہتےہیں۔دراصل یہ خط کلکرنی نے 2014 میں لکھا تھا جب راہل گاندھی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مہاتما گاندھی کو آرایس ایس نے قتل کروایا تھا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان پر مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔شری کرشن کلکرنی کا یہ خط فیس بک پر آج بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے یہ خط اس وجہ سے مرکز گفتگو بنا کیوں کہ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ راہل گاندھی ہندو نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان اور عیسائی والدین کی اولاد ہیں۔راہل کو مخاطب کرتے ہوئے خط میں لکھا تھا:
فیروز گاندھی حقیقت میں فیروز خان تھے۔وہ ایک گجراتی پٹھان نواب خان کے فرزند تھے۔نواب خان کی بیوی پارسی تھیں جنہوں نے بعد میں مذہب تبدیل کر لیا تھا اور مسلمان ہو گئیں تھیں۔آپ کی دادی اندرا گاندھی بھی مسلمان تھیں جنہوں نے فیروز خان سے شادی کرنے کے لئے اپنا مذہب بدل لیا تھا۔آپ مسلمان اور عیسائی کا مکسچر ہیں۔ آپ کے اندر نہ کوئی راہل ہے اور نہ کوئی گاندھی!آپ ہندو شناخت کے بالکل بھی قریب نہیں ہیں بلکہ آپ مسلمان اور کیتھولک DNA سے بنے ہیں ۔
بوم لائیو نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا کہ یہ خط اکثر سرخیوں میں بنا رہتا ہے۔خط کے متعلق جب بوم لائیو نے شری کرشن کلکرنی سے رابطہ کیا تو کلکرنی نے بتایا کہ یہ خط ان کا ہی ہے جو انہوں نے 2014 میں لکھا تھا لیکن خط میں موجود یہ چار لائن ان کی نہیں ہیں جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ راہل گاندھی ہندو نہیں ہیں بلکہ مسلمان اور عیسائی والدین کی اولاد ہیں۔
فیک نیوز کی اشاعت میں سیاسی پارٹیوں کے آئی ٹی سیل کے بعد سیاسی لیڈران اور عہدے داران سب سے آگے رہتے ہیں۔اس کی مثالیں ہمارے پاس امت ملوئے اور دوسرے افراد کی شکل میں موجود ہیں۔راجستھان کانگریس کمیٹی کے سیکریٹری پون گودرا کو اس فہرست میں فی الحال نئی جگہ ملی ہے۔انہوں نے 17جون کو ایک ویڈیو اپنے ٹوئٹر پر شئیر کیا تھا جس میں پولیس کچھ نوجوانوں کو لاٹھیوں سے مار رہی ہے۔گودرا نے الزام لگایا تھا کہ صوبے کے نوجوان اپنا حق مانگ رہے ہیں لیکن ان کو لاٹھیاں مل رہی ہیں۔انہوں نے لکھا:
مہارانی کی راجستھان پولیس اور افسروں کا گندا چہرہ اس ویڈیو میں صاف ظاہر ہو رہا ہے، اپنا حق مانگنے آئے لوگوں پر ظلم کئے جا رہے ہیں۔نریندرا مودی جی!اب راجستھان کے نوجوان آپ کو چیلنج دیتے ہیں کہ آپ اس ویڈیو کو دیکھیں اور راجستھان پولیس پر ایکشن لیں۔ہے آپ میں یہ ہمت؟
پون گودرا کایہ ٹوئٹ اب ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔پون گودرا نے جو ویڈیو شئیر کیا تھا وہ علی گڑھ کا ویڈیو تھا جس میں پولیس بھگوا تنظیم ہندو جاگرتی منچ کے کارکنوں کو بھگا رہی تھی۔ہندو جاگرتی منچ (HJM) وشو ہندو پریشد (VHP) کی معاون تنظیم ہے اور شدت پسندی کی واردات کو انجام دینے میں بدنام ہے. علی گڑھ کی ویڈیو:
#WATCH: Police baton charge on members of Hindu Jagran Manch who were protesting outside the office of Aligarh Senior Superintent of Police (SSP), demanding the arrest of accused who had attacked one of their members. pic.twitter.com/vJkqoWxUkT
— ANI UP (@ANINewsUP) June 12, 2018
Categories: خبریں