راہل کا اپنی سیاسی مہم میں مذہب کی آمیزش کرنا دقتیں پیدا کرنے جیسا اور نہرو کے سیکولرزم کے تصور کے خلاف ہے۔ جواہر لعل نہرو کا سیکولرزم کے متعلق پختہ اور واضح عقیدہ تھا کہ مذہب کو سیاست، معیشت، سماجی اور تہذیبی عوامل سے الگ رکھا جائے۔
پچھلے ہفتے راہل گاندھی کی 48ویں سالگرہ(19جون) تھی۔ سالگرہ یا برتھ ڈے ایسا موقعہ ہوتا ہے جب کسی کی زندگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ اب تک اس نے کیا کیا اور کیا کیا جانا باقی ہے۔کوئی 34 سال پہلے، تب وزیرِ اعظم اور قد آور شخصیت کی مالک اندرا گاندھی، اپنے پوتے راہل گاندھی کا بچپن اور اس عمر میں ہی ان کے پختہ عزائم دیکھ کر خوش ہوتیں اور ان کی قدر کرتی تھیں۔ اکتوبر 1984 میں جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا، راہل گاندھی مشکل سے 14 سال کے ہوں گے، مگر دادی اندرا گاندھی ان کے ساتھ وہ باتیں بھی کر جاتیں، جن کا اظہار وہ راجیو و سونیا کے سامنے کرنے سے بچتی تھیں۔ مثلاً 2-3 جون 1984 کو انجام دیے گئے ‘آپریشن بلو اسٹار’کے بعد انہیں اپنی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا تھا اور وہ راہل گاندھی کو سمجھایا کرتی تھیں کہ ایسے کبھی اچانک ان کی موت ہو جائے تو رونا نہیں بلکہ میری جگہ سنبھالنا۔
جون کے اوائل میں آپریشن بلو اسٹار کے دوران مسلح افواج کے ذریعے خونخوار دہشت گردوں کو امرتسر (پنجاب) کے گولڈن ٹیمپل سے نکالتے سب نے دیکھا۔ اس کے بعد سے ہی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو گویا اپنی موت کا احساس ہو چلا تھا۔ شاید انہیں یہ بھی احساس تھا کہ ان کا قتل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے بہت رازداری سے راہل گاندھی کو بتائی، جو اس وقت نوعمر، محض 14 سال سے کچھ زیادہ کی عمر میں چل رہے تھے۔ اندرا گاندھی نے راہل کو نہ صرف اپنی آخری رسومات کے بارے میں بتایا بلکہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ ان کے بعد باقی بچے کام انہیں پورے کرنے ہیں۔ یہ باتیں سمجھنے کے لیے راہل کی عمر واقعی کم تھی لیکن اندرا جیسی جہاندیدہ خاتون کو ان میں ایک ساتھی نظر آتا تھا، ایسا رازدار جس سے وہ اپنے خیالات شیئر کر سکتی تھیں اور اپنے فیصلے بھی۔
بطور کانگریس صدر راہل گاندھی اس وقت ایک عظیم اور تاریخ ساز پارٹی کو منظم و منضبط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لے لیے وہ منادر پہنچے اور افطار پارٹی کا انعقاد بھی کیا، لیکن آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے چیف کو اپنی دادی اندرا گاندھی کا طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں واقعی ‘دادی ماں کے نسخے’ چاہیے جن سے وہ خود میں اندرا گاندھی کی طرح قیادت کا ہنر پیدا کر سکیں اور انہیں کی طرح ایک مضبوط ٹیم تشکیل دے سکیں۔
حالانکہ اندرا کے برخلاف راہل میں فطری تحریک و جدوجہد کے مادے کی کمی ہے، جیسا کہ راقم الحروف کی تحریر میں پہلے بھی آ چکا ہے کہ راہل کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی والدہ سونیا گاندھی کی طرح خود کو ٹرسٹی کی طرح دیکھتے ہیں نہ کہ اقتدار کی خواہش رکھنے والے ایک جری جہدکار کی طرح۔ دیگر سیاست دانوں، یہاں تک کہ علاقائی پارٹی کے نیتاؤں کے برعکس وہ وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کی جلدی میں قطعی نظر نہیں آتے۔ اقتدار حاصل کرنے کا عزم مصمم اور خود کو ایک فقیر منش ٹرسٹی کی طرح پیش کرنے سے کانگریس کا نقصان ہو رہا ہے؛
Rahul sees himself as trustee and not wielders of power
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ان کی پارٹی کے بہت سے ساتھی اس موضوع سے روگردانی کرنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر کانگریسی گاندھی خاندان کی قیادت بنا کسی عذر کے قبول کرتے ہیں اور بدلے میں چناوی فتوحات کے ساتھ اقتدار کا سکھ چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جواہر لعل نہرو سے لے کر اندرا، راجیو اور سونیا گاندھی تک نہرو گاندھی خاندان کا کوئی فرد نہ تو سیاست میں ناکام ہوا اور نہ اس سے کنارہ کشی اختیار کی، گو کچھ موقعوں پر انہوں نے ایسا کرنے کا عندیہ ضرور دیا۔
راہل کا اپنی سیاسی مہم میں مذہب کی آمیزش کرنا دقتیں پیدا کرنے جیسا اور نہرو کے سیکولرزم کے تصور کے خلاف ہے۔ جواہر لعل نہرو کا سیکولرزم کے متعلق پختہ اور واضح عقیدہ تھا کہ مذہب کو سیاست، معیشت، سماجی اور تہذیبی عوامل سے الگ رکھا جائے۔ نہرو کی نظر میں مذہب کسی شخص کا ذاتی معاملہ ہے، جسے دوسرے معاملات سے کسی بھی قیمت پر الگ رکھا جانا چاہیے۔ سن 1953 میں اپنے وزیر داخلہ کیلاش ناتھ کاٹجو کو لکھے خط میں نہرو لکھتے ہیں؛
ہندوستان کا مقدر بڑی حد تک ہندو نقطہ نظر سے جُڑا ہوا ہے۔ اگر یہ ہندوانہ نقطہ نگاہ پوری طرح نہیں بدلا تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہندوستان ڈوب جائے گا۔
نہرو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اکثریتی طبقے کی فرقہ پرستی کو نیشنلزم کی آڑ میں چھپانے کا امکان بہت قوی ہے۔ لیکن مہاتما گاندھی کے لیے مذہب سیکولرزم کا لازمی جزو تھا۔ اپنے پیروکار نہرو سے کئی معاملات میں اتفاق رکھنے کے باوجود ان کا یقین تھا کہ نہرو کا سیکولرزم ہندوستان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ گاندھی جی کہتے رہتے تھے ؛
مذہب سے عاری سیاست پوری طرح غلاظت سے بھری ہے۔
سیکولرزم کی بابت گاندھی اور نہرو کے متضاد خیالات کے ساتھ کانگریس کی کشمکش برقرار ہے۔ 1980 میں جنتا پارٹی کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر اندرا گاندھی بر سرِ اقتدار آئی تو سیکولرِزم پر چلنے کا ان کا ارادہ غائب ہو چکا تھا۔ نوکر شاہ اور ادیب ایس ایس گِل نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے سماجی مسائل کی بابت 1980 کے بعد اندرا گاندھی کی توجہ میں کمی آئی ہے۔ اندرا گاندھی کے معتمد سی ایم اسٹیفن نے 1983 میں واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ؛
ہندو تہذیب اور کانگریسی تہذیب یکساں ہیں۔
اپنے قتل سے بمشکل چھہ ماہ پہلے وزیر اعظم اندرا نے ملک کی اکثریت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ؛
اگر ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوئی یا انہیں اپنے حقوق نہ ملے تو یہ ملک کے اتحاد کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔
راہل کو یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جنتا پارٹی کے دورِ اقتدار (1977-79) کا سامنا اندرا نے کس بے جگری سے کیا۔ آٹھ سال کی کچی عمر کے باوجود راہل 3 اکتوبر 1977 کی شام قریب پانچ بجے 12، ویلِنگٹن کِریسینٹ میں یقیناً موجود ہوں گے، جب سی بی آئی کے ایس پی این کے سنگھ نے ان کی دادی کی تلاش میں دروازہ کھٹکھٹایا۔
“مجھے ہتھکڑیاں لگاو!”اندرا گاندھی این کے سنگھ پر بپھر پڑیں۔ انہوں نے کہا “میں بالکل نہیں جاؤں گی، جب تک کہ مجھے ہتھکڑیاں نہ لگائی جائیں۔”سونیا خود پر ضبط کیے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ سنجے گاندھی کانگریس کے اپنے حمایتی کارکنان کو بے طرح فون لگائے جا رہے تھے، جبکہ دوسرے فون سے آر کے دھون نے مقامی میڈیا کو خبر کر دی۔ اس دور کے رپورٹرس کو خوب یاد ہے کہ تب سوریا میگزین سے جُڑی مینکا گاندھی نے کیسے فون کر کے کہا تھا کہ اگر وہ اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پہنچ جائیں تو انہیں ایک بڑی خبر مل سکتی ہے۔
جب تک وہاں میڈیا والوں کی ایک بڑی تعداد نہیں پہنچ گئی، تب تک اندرا حراست کی کارروائی میں رخنہ ڈالتی رہیں۔ انہوں نے این کے سنگھ سے پوچھا “وارنٹ آف اریسٹ اور ایف آئی آر رپورٹ کہا ںہیں؟”متعلقہ دستاویزات جٹانے کی جدوجہد میں لگے سی بی آئی آفیسر سے اندرا کے وکیل فرینک انتھونی نے پوچھا “کیا یہ چرن سنگھ (تب کے وزیرِ داخلہ) کا نیا قانون ہے؟”ادھر اندرا لگاتار دوہرائے جا رہی تھیں”میں ہلوں گی نہیں، جب تک کہ تم مجھے ہتھکڑیاں نہیں لگا دیتے۔”ان کا صاف کہنا تھا “ہتھکڑیاں لاؤ اور مجھے لے جاو۔”
بعد میں تکنیکی بنیادوں پر اندرا رہا کر دی گئیں۔ تب تک سیاست سے دوری بنا کر چل رہے راجیو گاندھی نے اس معاملے میں ایک غیرملکی میڈیا پرسن سے کہا تھا “ممی خود کوئی بہت اچھا عمل پیش نہ کر سکیں۔”اعلیٰ طبقے نے کہا، “ہندوستان میں عموماً سیاسی قیدیوں کو شہیدوں سا اعزاز دیا جاتا ہے۔ (مرارجی) دیسائی کی سرکار میں تو ایسے قیدیوں کے لیے جیل اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔”
دسمبر 1978 میں اندرا کو دوسری بار جیل جانا پڑا، تب وزیرِ اعظم مرارجی دیسائی نے ان پر اور بیٹے سنجے گاندھی پر کیس چلانے کے لیے خصوصی عدالت کے قیام کا قانون پاس کرا لیا۔ بری ہونے اور پارلیامنٹ سے نکلنے کے فوراً بعد اندرا کو حراست میں لے کر تہاڑ جیل لے جایا گیا۔ وہاں انہیں ایک مخصوص بیرک میں رکھا گیا۔ اسی سیل پر ایمرجنسی کے دور میں جارج فرنانڈیز نے قبضہ جمایا تھا۔ سونیا دن بھر میں تین بار اندرا کے لیے کھانا لے کر آتی تھیں۔
کانگریس کا ایک طبقہ سوچتا ہے کہ بھاجپا این ڈی اے کی حالیہ سرکار اگر راہل گاندھی کو نیشنل ہیرالڈ کیس میں پھنساتی ہے اور آر ایس ایس ہتک عزت کے اپنے مقدمے میں ان کو سزا دلائے جانے پر بضد رہتی ہے تو یہ عظیم و قدیم پارٹی کی واپسی کا موقعہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار راہل کو اندرا گاندھی کی طرح اپنی اہلیت دکھانے کا موقعہ دینے جا رہی ہے؟
(رشید قدوائی آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن [ORF]کے وزٹنگ فیلو ہیں اور ان کی تازہ ترین کتاب کا نام Ballot: Ten Episodes that Shaped India’s Democracyہے۔)
Categories: فکر و نظر