فکر و نظر

ہم نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ، مگر آخر میں وہ اکیلا چلا گیا…

شجاعت کے ساتھ میری دوستی کا سفر غالباً 1988 میں گورنمنٹ کالج سوپور سے شروع ہوا۔ جرنلزم اور سماجی سرگرمیاں تو انکی روح میں تھیں۔کالج میں ہی اسنے ایک’پیرراڈایز رائٹرز فورم ‘تشکیل دی تھی جس کی نشستیں کالج کے سبزہ زار میں چنار کے پیڑوں کے تلے ہوتی تھیں۔

shujaat-bukhari

29رمضان المبارک کی شام، دفتر میں بس روزہ کھولنے ہی والا تھا کہ سرینگر سے قریبی دوست کا فون آیا کہ معروف کشمیر ی صحافی اور دی رائزنگ کشمیر گروپ کے ایڈیٹر ان چیف شجاعت بخاری نے جام شہاد ت نوش کیا ہے۔ چند ساعتوں کے بعد بریکنگ نیوز آنا شروع ہوگئی۔ یقین کرنا مشکل تھا۔ شجاعت کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرز رہا ہے۔ گورنمنٹ کالج سوپوراور بعد میں صحافتی سفرمیں پچھلے 30سالوں سے جو شخص ہم سفر و ہم رکاب رہا ہو، اس کا یوں اچانک جدا ہونا ، کلیجہ چھلنی ہورہا ہے۔ اس دیرینہ رفاقت میں کم از کم دوبار موت ہمیں چھو کر گزری ہے۔

 غالباً 1994کا سال تھا کہ ضلع کپواڑہ کے ایک دور افتادہ علاقہ میں کسی فوجی آپریشن میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ ریاست جموں وکشمیر میں صحافت کے امام وید بھسین کی معیت میں کام کرتے ہوئے یہ ادراک ہوگیا تھا، کہ ذرائع کتنے ہی مستند کیوں نہ ہوں، گراونڈ رپورٹنگ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

 کشمیر ٹائمز بیورو میں کام کرتے ہوئے یہ معمول بن گیا تھا۔ خیر اس واقعہ کی رپورٹنگ اور تحقیق کیلئے شجاعت نے مجھے بھی کپواڑہ ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ ایک دوست سے سوزکی ماروتی800 مستعار لیکر اور کرفیو پاس وغیرہ حاصل کرکے سرینگر سے روانہ ہوگئے۔ راستے میں کئی جگہوں پر سخت چیکنگ ہورہی تھی۔ مگر کرفیو پاس اور پریس کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ہمیں راہداری مل جاتی تھی۔

 تقریباً 60کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سوپور کے نواح میں ایگریکلچر کالج کے پاس ایک لیفٹنٹ کرنل کی قیادت میں فوج کی ایک ٹکڑی نے ہمیں گاڑی سے نیچے اترنے کے لیے کہا۔مذکورہ افسر شدید غصے میں تھا۔ معلوم ہوا کہ چندگھنٹے قبل ہی یہاں ایک جھڑپ ہوئی تھی اور اس یونٹ کے کئی سپاہی ہلاک یا زخمی ہوگئے تھے۔ گاڑی سے نیچے اترتے ہی افسر نے کرفیو پاس پھاڑ ڈالا اور شناختی کارڈدور اچھال دئے۔

 فوجیوں نے بندوقیں تانیں ہوئی تھیں۔ حکم ہوا کہ آرمی کی ون ٹن گاڑی کے نیچے سزا کے طور پر مرغا بن جائیں۔ دیہاتی اسکولوں میں ٹیچر بچوں کو اس طرح کی سزائیں دیتے تھے۔ ٹرک کے نیچے کمر جھکا نا اور پیٹھ اوپر کرکے کانوں کو ہاتھ لگانا تکلیف دہ صورت حال تھی۔ شجاعت چونکہ قد آور تھا، اسکے لئے یہ اور بھی مشکل تھا۔ جب بھی اسکی پیٹھ نیچے ہوجاتی تھی، سپاہی بندوقوں کے بٹ سے اس کو پیٹتے تھے۔

 اس حالت میں بھی جب یہ معلوم تھا کہ زندگی کی بس چند ساعتیں بچی ہیں، شجاعت کی بذلہ سنجی اور ظرافت کا عالم تھا، کہ دھان کے کھیتوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کل جب ان کھیتوں سے گولیوں سے چھلنی ہماری لاشیں برآمد ہونگی اور یہ خبرسرینگر پہنچ جائے گی تو کون لیڈر کس طرح بیان دےگا ۔عسکری تنظیمیں ، سرکاری بندوق برار ، حکومت و فوج ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گیں۔

 لیڈروں کی آوازوں کی وہ اس طرح نقل کرتا تھا، کہ میں اکثر اس کو کہتا تھا کہ تم ایکٹنگ میں یا اسٹینڈ اپ کامیڈی میں قسمت آزمائی کرو۔ وہ سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق و دیگر لیڈران کی نقل کرکے بتا رہا تھا کہ کون کس طرح ہمارے قتل کی مذمت کرےگا۔ سرکار کا کیا رد عمل ہوگا اور پھر چند دنوں میں سب بھول جائیں گے۔ شام کا دھندلا پن اب نمودار ہو رہا تھا، کہ ہمیں ٹرک کے نیچے سے باہر آنے کیلئے کہا گیا۔

 ابھی ہم کمر سیدھی کر ہی رہے تھے کہ کرنل صاحب کا فرمان آیا کہ اگر زندگی چاہئے، تو دس منٹ میں فائرنگ رینج سے نکل جاوٗ۔ ‘پورے دس منٹ کے بعد ہم فائر کھول دیں گے۔ جان بچانی ہے تو دوڑ لگاو، ایک دو تینٗ’۔ ہم نے جوتے ہاتھوں میں لےکر دھان کے کھیتوں کو روندتے ہوئے ، کیچڑ اور پانی سے جنگ کرتے ہوئے واڈورہ گاؤں کے نواح میں ایک مکان کی طرف دوڑ لگائی۔ دستک دیکر معلوم ہواکہ گیٹ بند تھا۔ شجاعت نے قد کا فائدہ اٹھا کر دیوار پھاند دی۔ مجھے کئی بار کوشش کرنی پڑی۔

آخر دیوار پھاند کر جب میں دوسری طرف صحن میں زمین پر لینڈ کر رہا تھا کہ ٹھیک اسی جگہ جہاں سے میں کودا تھا، تڑ تڑ مشین گن کی گولیوں نے اینٹوں کو اکھاڑ دیا۔ مکین خوف زدہ نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھا۔ ان کو گمان تھا کہ ہم عسکری ہیں اور فوج ہمارے پیچھے آرہی ہے۔ وہ اب مکان پر فوج کے دھاوا بولنے سے پریشان تھے۔ہم نے ان کو تسلی دی کہ ہم صحافی ہیں۔ مگروہ تذبذب میں تھے۔ ان کی آنکھوں میں موت کا خوف صاف جھلک رہا تھا۔

 ایک بار پھر شجاعت نے حاضر دماغی کامظاہرہ کرکے گاؤں کے مقدم (نمبردار) کا پتہ پوچھا۔ معلوم ہوا کہ پاس کا ہی مکان ہے۔آواز دینے پر وہ باہر آئے اور ہماری روداد سننے کے بعد رات بھر گھر میں پناہ دی۔ اگلے روز دھان کے کھیتوں، سیبوں کے باغات، ندی ، نالوں کو عبور کرتے ہوئے، فورسز کو چکمہ دیتے ہوئے ہم سوپور پہنچے، جہاں تین دن قیام کے بعد کرفیومیں نرمی ہوتے ہی سرینگر روانہ ہوگئے۔

 میں تو دہلی واپس آگیا۔بعد میں معلوم ہوا کہ 15ویں کور کے اس وقت کے کمانڈر جنرل سندر راجن پدمانابھن نے دو ہفتوں کے بعد گاڑی واپس دلوائی تھی۔ اسی طرح دو سال قبل دہلی کی بستی نظام الدین میں ڈنر کرنے کے بعد میں شجاعت کو گیسٹ ہاؤس چھوڑنے کیلے ڈرائیو کر رہا تھا، کہ زور دار بارش کے ساتھ تیز آندھی شروع ہوگئی۔ چند قد م دور دیکھنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ اسی دوران لودھی روڈ سے گزرتے ہوئے ایک تیز آواز کے ساتھ ایک بھاری درخت گاڑی کے بونٹ پر گرا۔ جس سے گاڑی کا اگلا حصہ ، ڈیش بورڈچکنا چور ہوگیا۔چھت بھی کسی حد تک بیٹھ گئی۔ آدھے گھنٹہ کے بعد ایک گشتی پولیس وین نے ہمیں گاڑی سے باہر نکال کر میٹرو اسٹیشن کے پاس چھوڑا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم کسی گزند کے بغیر زندہ ہیں۔

شجاعت کے ساتھ میری دوستی کا سفر غالباً 1988 میں گورنمنٹ کالج سوپور سے شروع ہوا۔ ایک سال قبل انتخابات میں بے حساب دھاندلیوں کی وجہ سے کشمیر کا ماحول تناؤ سے پر تھا۔ طوفان کی آمدسے پہلے کی خاموشی کا منظر تھا۔ شجاعت کالج میگزین ‘وولر’کے اردو سیکشن کے مدیر تھے۔ جرنلزم اور سماجی سرگرمیاں تو انکی روح میں تھیں۔کالج میں ہی اسنے ایک’پیرراڈایز رائٹرز فورم ‘تشکیل دی تھی جس کی نشستیں کالج کے سبزہ زار میں چنار کے پیڑوں کے تلے ہوتی تھیں۔

کبھی کبھی شجاعت کے والد پروفیسر رفیع الدین بخاری بھی اس میں شریک ہوتے تھے۔ مگر صحافت سے شجاعت کا رشتہ اس سے بھی پرانا تھا۔ 12سال کی عمر میں چھٹی جماعت کے اس طالب علم نے اپنے گاؤں میں اخباروں اور میگزین کی ایجنسی قائم کی تھی۔ جہاں سرینگر کے علاوہ دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل دستیاب ہوتے تھے۔ چونکہ لوگ اخبارات اور رسائل لیکر قیمت ادا نہیں کرتے تھے، پانچ سال بعد ان کی والدہ نے اپنا پراوڈنٹ فنڈ نکال کر ایجنسی کے قرضے ادا کرواکے اس کو بند کروایا۔

کالج میں پڑھائی کے دوران ہی شجاعت پوشکر ناتھ وکیل کی ادارت میں سرینگر سے شائع ہونے والے واحد انگریزی اخبار سماچار پوسٹ کیلئے سوپور سے رپورٹنگ کرنے لگے تھے۔ٹیلیفون اور فیکس کی عدم دستیابی کے سبب سوپور سے سرنگر کی طرف روانہ ہونے والی آخری بس کا ڈرائیور پیغام بر ہوتا تھا۔ سبھی نامہ نگاراپنی رپورٹ اسی کے حوالے کرتے تھے۔ آفس کا اسٹاف سرینگر بس اڈہ سے پیکٹ وصول کرتا تھا۔

کالج مکمل کرنے کے بعد میں دہلی آیا اور شجاعت کے ساتھ رابطہ ٹوٹ گیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے اکاؤٹنٹ جنرل کے دفتر میں سرکاری نوکری جوائن کی تھی۔ عسکریت کا آغاز ہوچکا تھا۔ اسی دوران منظورالحق بیگ نے’تکبیر نو‘ کو دوبارہ اجراٗ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مسعود حسین کی ادارت میں اس ہفتہ روزہ میگزین کیلئے شجاعت اور دیگر دوستوں نے نامساعد حالات میں زمینی رپورٹنگ کا زرین کام کیا۔

 شجاعت گھر سے تو اکاؤٹنٹ جنرل کے دفتر جانے کیلئے نکلتے تھے، مگر سیدھے تکبیر کے آفس پہنچ جاتے تھے، جہاں مسعود حسین ان کو رپورٹنگ کا کام تفویض کرتے تھے۔ آفس سے غیر حاضری کی شکایت جب گھر پہنچی تو برادر اکبر بشارت بخاری نے ان کو بلاکر ملازمت سے استعفیٰ دینے کی صلاح دی۔ بشارت نے گھر پر والدین کوبھی تیار کیا کہ شجاعت فائلیں کھنگالنے کیلئے نہیں بنا ہے۔ تکبیر اور دیگر اڈونچروں کے بعد مسعود حسین نے پوری ٹیم کے ساتھ کشمیر ٹائمز جوائن کیا، جو اس وقت ریاست کا انگریز ی کا سب سے بڑ ا اخبار اور مؤقرنام تھا۔

شجاعت کی حاضر دماغی کا یہ عالم تھا کہ 1995میں ایک سرکار نواز بندوق بردار گروپ نے جنوبی کشمیر میں 29صحافیوں کو اغوا کیا ۔ ان میں نو صحافیوں کو چن کر الگ نکال کر موت کی سزا سنائی گئی، جن میں شجاعت بھی شامل تھا۔جس کمرے میں ان کو قید کیا گیا، وہاں اتفاق سے ایک ٹیلیفون موجود تھا۔ شجاعت نے پہلے کشمیر ٹائمز بعد میں نیویارک کے کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس(سی پی جے) کے دفتر ڈائل کرکے روداد سنائی ۔

 سی پی جے فوراً حرکت میں آگئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ رات گئے آرمی نے آپریشن کرکے ان کو واگذار کرایا۔ 2004 میں سرینگر کے قلب میں احدوز ہوٹل میں ایک پروگرام میں شرکت کے بعد وہ باہر نکل رہے تھے کہ کسی نے ان کو پسٹل کی نوک پر ایک آٹو میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ اغوا کار نے ایک ہاتھ میں پستول تان رکھی تھی، دوسرے ہاتھ سے فون پر کسی سے ڈائریکشن لے رہا تھا۔اسی کا فائدہ اٹھا کر شجاعت نے ایک دوست کو ایس ایم ایس کرکے اغوا کی خبر دی۔

 جس نے فوراً پولیس اور میڈیا کو الرٹ کیا۔ فون پر اغوا کار کو متواتر ہدایات موصول ہو رہی تھیں۔ آٹو پہلے بٹہ مالو ، پھر عید گاہ اور اب آنچار جھیل کی طرف رواں تھا کہ ایک پل کے پاس پولیس کا ناکہ دیکھ کر اغوا کار نے آٹو روک کر شجاعت کو پہلے دھکا دیا اور پھر فائر کرنے کو کوشش کی۔ مگر پسٹل لاک ہو گیا تھا۔ دوبار کوشش کرنے کے بعد وہ فرار ہوگیا۔ صحافت کے ساتھ ساتھ وہ سماجی سرگرمیوں میں خاصے مصروف رہتے تھے۔

 2014میں سرینگر میں آئے سیلاب کے دوران ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور سرکاری امدادکا انتظار کئے بغیر حیدر آباد کے ممبر پارلیامان اسدالدین اویسی اور دیگر دوستوں کے تعاون سے انہوں نے بھاری کشتیاں ہوائی جہاز سے سری نگر پہنچا کر اپنے دفتر کے اسٹاف کے ذریعے سیلاب میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا کام کیا۔

تجزیہ کاروں کے بقول پچھلے سال دبئی میں منعقد ایک ٹریک ٹو کانفرنس کے حوالے سے شجاعت کے خلاف کئی افراد سرگرم ہوگئے تھے۔ پاکستان میں ایک جریدے کی سرخی تھی کہ ایر کنڈیشنڈ ہوٹلوں میں کشمیری لہو کا سودا کیا گیا۔ اعتراض تھا کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان یا آزادی پسند تنظیموں کا موقف مشترکہ اعلامیہ کا حصہ نہیں تھا۔ دانشور اور صحافی حضرات ، جو اس کانفرنس میں مدعو نہیں تھے ، کو تنقید کرنے اور شرکاء کا احتساب کرنے کا پورا حق اور آزادی حاصل تھی۔ مگر انصاف اور صحافت کے بنیادی اصولو ں کا کا تقاضا تھا کہ کسی کو تختہ دار پر لٹکانے سے قبل اس کے جرم کی تحقیق کی جاتی۔

پگواش اور دیگر درجن بھر غیر سرکاری تنظیمیں شاشوبھابھاروے، رادھا کمار، شیریں رحمان جرمنی اور یورپی یونین کے تعاون سے پچھلے کئی دہائیوں سے کشمیر پر دنیا بھر میں کانفرنسیں کرواتے رہتے ہیں جن پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ہے۔ اس کانفر نس میں غالباً پہلی بار جمو ں و کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے اطراف دونوں خطوں کی سبھی سیاسی پارٹیوں نیز حریت کی نمائندگی مو جو د تھی ۔اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان اور ہندوستانی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ موجود تھے۔ میں ، خرم پرویز اور گریٹر کشمیر کے ظہیرالدین بطور مشاہد مدعو تھے۔

 کا نفر نس میں تما م شرکاء نے اپنا موقف اور حا لا ت کا تجز یہ پیش کیا۔مگر کانفرنس کا کوئی اعلامیہ یا رسمی ڈیکلیریشن جاری نہیں کیا گیا۔ بس کاروائی کا خلاصہ جاری کیا گیا۔ایک خیالی ڈاکیومنٹ پر کئی احباب نے واویلا مچا دیا۔ کئی احباب کے تخیل کی اڑان اس قدر اونچی تھی، کہ انہوں نے امریکہ کی طرف سے کشمیر کی معروف عسکری تنظیم حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے اور بعد میں دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم آزادی کی تقریر میں کشمیر یوں کو گلے لگانے جیسے بیان کو بھی اسی کانفرنس سے جوڑا۔

ہونا یہ چاہئے تھا، کہ دہ ماہ قبل حزب کمانڈر محمد یوسف شاہ المعروف صلاح الدین کو جب امریکہ نے دہشت گرد ڈیکلیر کیا ،تو کم از کم مغربی ممالک میں کشمیر کے نام پر سفارتی روٹیاں سینکنے والی تنظیموں کا احتساب کیا جاتا، کہ وہ آخر ان حکومتوں کو کشمیر کی صورت حال باور کروانے میں ناکام کیوں ہوئیں۔تعجب کی بات ہے کہ حزب المجاہدین کے سربراہ صلاح الدین نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں دوبئی کانفرنس کے شرکاء کو ‘پے رول’پر بتایا۔

 جس کی تائید جہاد کونسل اور بعد میں لشکر طیبہ نے کی۔ سرینگر میں حریت (گیلانی) کے لیڈر غلام نبی سمجھی نے ایک اخبار کو بتایا کہ وہ دبئی کانفرنس اور اس کے شرکا ء کے رول کی تفتیش کریں گے۔ جب ہم نے ان سے رابطہ کرکے تفتیش کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا، تو وہ ایسے کسی بیان سے مکر گئے اور اخبار پر الزام لگایا کہ اسنے ان کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ گیلانی صاحب کی موجودگی میں ان کو بتایا گیا کہ وہ اخبار کو فون کرکے بیان غلط طریقے سے شائع کرنے پر احتجاج درج کروائیں۔

انہوں نے حامی تو بھر لی، مگر آنا کانی کرکے، کبھی فون بند کرکے اور کبھی ہمارا فون اٹینڈ نہ کرکے خاموشی اختیار کی۔ صلاح الدین صاحب نے ایک قریبی عزیز کو بتایاکہ ان کو مس لیڈ کیا گیا۔ ان کو شرکا ء کے بارے میں اور کانفرنس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ پچھلے سال ہی میرا موقف تھا کہ صلا ح الدین یا عسکری گروپ میں کوئی شاید ہمیں ٹارگٹ کرے یا نہ کرے ، مگر عداوت سے بھر پور اس باضابط منظم مہم کا فائدہ دشمن اٹھا کر اسکو عسکری گروپوں کے خاطے میں جوڑے گا ۔ اور تحریک کشمیر کو بدنام کرنے کیلئے اسکو ایک اور ہتھیار ملے گا۔ پچھلے سال اکتوبر میں یہ مہم بند ہوگئی تھی۔

مگر اس سال اپریل سے دوبارہ جعلی ناموں اور نقلی انٹرنیٹ ایڈریسوں سے شروع ہوئی اور اسکا ٹارگٹ سرینگر تھا۔ 24 مئی کو جب شجاعت اسد درانی اور امر جیت سنگھ دلت کی کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں دہلی میں تھے، وہ خاصے فکرمند تھے۔ تقریب ختم ہونے کے بعد آفس جاتے ہوئے میں نے ان کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر ڈراپ کیا ۔ وہ خطرے کی بو سونگھ چکے تھے۔ راستے میں وہ خاصے جذباتی ہوکر اپنے بچوں کے بار ے میں بتانے لگے کہ وہ کیسے ان کے بغیر زندگی گذاریں گے۔

وہ بار بار وہی جملہ دہرا رہے تھے کہ اس مہم کی آڑ میں ان کو ایجنسیوں کے گماشتے راستے سے ہٹائیں گے۔ ہلاکت سے صرف کچھ منٹ قبل وہ فون پر مجھ سے ہم کلام تھے۔ ایک روز قبل آبزرو ریسرچ فاؤنڈیشن کے ایک پروگرام میں آنند رنگاناتھن نے ان کے خلاف خوب زہر افشانی کی تھی وہ اس کی تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے۔ اور ایک بار پھر اس مہم کا تذکرہ کیا۔

 پھر مجھے متنبہ کیا کہ عید پر کشمیر نہ آؤں اور اپنا خیا ل رکھوں۔آواز ٹھیک طرح نہیں آرہی تھی اور افطار کا وقت بھی قریب آرہا تھا۔ دہلی میں افطار سری نگر سے بیس منٹ پہلے ہوتا ہے۔ اس نے خود ہی کہا کہ گھر پہنچ کر دوبارہ فون کریگا۔ میں نے کہا رات دس بجے کے بعد فون کرنا تاکہ تفصیل سے گفتگو ہو۔ مگر چند منٹوں کے اندر ہی کشمیری صحافت کا یہ آفتاب ہلال عید کے طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب ہوگیا۔ شجاعت تو اب نہ رہا، مگر جن افراد نے ان کے قتل کا ماحول بنایا ، جعلی اکاؤنٹس سے چاہے لندن، اسلام آباد ، کراچی، برسلز، سرینگر یا دہلی سے مہم چلائی۔

 ان کے خلاف بھر پور تحقیق ہونی چاہئے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل شروع کیا جائے۔ان میں سے چند افراد اعلی پوسٹس پر برا جمان ہیں۔ چاہے براہ راست قتل میں ان کا ہاتھ ہو یا نہ ہو، ان کے ہاتھ بھی شجاعت کے خون سے رنگے ہیں۔جے پور انٹرنیشنل لٹریری فیسٹول کے ایک سیشن میں مزاحمتی ادب پر گفتگو کرتے ہوئے چند سال قبل میں نے کہا تھا ، کسی بھی تحریک کیلئے فکری رہنمائی لازمی ہوتی ہے ، اسکی عدم موجودگی میں یہ انارکی کا شکل اختیار کرتی ہے اور ہدف حاصل کرنے سے پہلے ہی ناکام ہوجاتی ہے۔

شجاعت کے خلاف ان پوسٹس میں الزام تھا کہ ان کے سوتیلے چچا عاشق بخاری کشمیر پولیس کی بد نام اسپیشل آپریشن گروپ کے سربراہ تھے اور ان کے برادر بشارت محبوبہ مفتی حکومت میں وزیر تھے۔ جس سے ثابت کرنا مقصود تھا کہ شجاعت اور ان کا اخبار تحریک دشمن تھا۔ مگر شاید ان کو یہ نہیں معلوم کہ شجاعت کریری گاؤں کے اس بخاری خانوادہ کے تیسرے شہید ہیں۔ شجاعت کے کزن سید اشتیاق بخاری جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک سرکردہ رکن تھے ، جن کو دسمبر 1993میں شہید کردیا گیا تھا۔

 اس طرح ایک اور کزن سید قیصر بخاری جو 11ویں جماعت کے طالب علم تھے اور حزب کے ساتھ وابستگی رکھتے تھے کو اگست 1993میں اغوا کیا گیا تھا۔ کافی عرصے سے وہ لاپتہ تھے۔ نومبر 1995کو پتہ چلا کہ ایک سیب کے باغ میں ان کو زندہ گاڑ کر دردناک موت سے ہمکنار کردیا گیا تھا۔ جب ان کی نعش نکالی گئی تو وہ عمودی دفن تھی۔ 2010 میں حکومت دہلی نے ان کے اخبار کو اشتہارا ت کی ترسیل بند کردی ۔ اب ریاستی حکومت پر بھی دباؤ تھا کہ وہ را ئزنگ کشمیر کے اشتہارات میں کٹوتی یااسکے ریٹ کم کرے۔

سری نگر میں جہاں کسی کارپوریٹ ادارہ یا بڑے بزنس کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری اشتہارات ہی اخبارات کیلئے آکسیجن کا کام کرتے ہیں ،ان کا ادارہ خاصی مالی دشواریوں کا سامنا کر رہا تھا۔ ان حالات کے باوجود 100افراد کی کفالت کرنا ان کو وقت پر تنخواہ دینا ان کا خاصہ تھا۔ پہاڑی زبان کے صف اول کے مصنف مقبول ساحل کے انتقال کے بعد انہوں نے ان کی خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔ شجاعت کے جنازہ پر ساحل کا فرزند دہائی دے رہا تھا کہ وہ دوبارہ یتیم ہوگیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے حال ہی میں جو رپورٹ کشمیر پر جاری کی، وہ دو افراد کی ان تھک محنت کے سبب تیار ہوئی۔ شجاعت کے مخالفین اور ان کے خلاف مہم کے روح رواں افراد بھی اس رپورٹ کی حمایت اور اسکی افادیت جتانے کیلئے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں۔ ان افراد کیلئے عرض ہے کہ اس رپورٹ کا 80فیصد سہرا کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز اور 20فیصد شجاعت بخاری کے سر ہے۔

اس کی ڈاکیومینٹیشن کا سارا کام خرم کی دین ہے اور پھر جینوا اور نیویارک میں لابنگ کا کام شجاعت نے کیا۔ جو کام لندن، امریکہ یا دیگر ممالک میں کشمیر کی آگ پر روٹیاں سینکنے والے تنخواہ دار ملازم پچھلی کئی دہائیوں سے نہیں کر پائے، وہ خرم نے کر کے دکھایا۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ قاتلوں اور بدنیتی پر مبنی کیمپین سے بچنے کیلئے انسانی حقوق کا یہ کارکن اس وقت کشمیر سے باہر پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل شجاعت کو بتایا گیا تھا کہ وہ ، افتخار ور خرم ہٹ لسٹ پر ہیں۔ شجاعت کے قتل تک ہم اس خطرہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔

 مگر اب مجھے بھی قاتل کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔بس قاتل سے یہی گزارش ہے کہ جب سانس اکھاڑنی ہو تو سینے پر گولی چلانا، پیٹھ پر گولی کھانے کا شاید میں متحمل نہ ہوسکوں گا۔ شجاعت اور میں نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ہے ، مگر آخر میں وہ اکیلا چلا گیا۔ اس کے جنازہ میں شرکت کے بعد میں دہلی واپس آرہا تھا تو یاد آریا تھا کہ جب بھی میں کشمیر آتا تھا تو واپسی پر ایر پورٹ کے پاس فرینڈز کالونی میں اس کی رہائش گاہ میرا آخری پڑاؤ ہوتی تھی۔ وہ خود ایر پورٹ چھوڑنے آتا تھا۔ اس بار بھی غیر ارادی طورپر میں اس کی رہائش گاہ کے گیٹ پر رک گیا۔ شاید اس امید میں کہ شجاعت روایتی ظریفانہ انداز میں دروازہ کھول کر دہلی والے دوست کو وداع کرےگا ۔مگر مکان مقفل تھا۔گھریلو نوکر بشیر بھی غم سے بے حال آبائی گاؤں چلا گیا تھا۔چند لمحے آنسو بہا کر 1994کا واقعہ اور شجاعت کے وہ الفاظ یاد آرہے تھے کہ ؛پھر سب بھول جائیں گے۔