خود کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لوک سبھا حلقہ بنارس میں انتخابی مہم سے جڑا لیڈر بتانے والے ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ کو ٹوئٹر پر مرکزی وزیر پیوش گوئل کا دفتر اور پنجاب بی جے پی صدر وجئے سانپلا بھی فالو کرتے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سمیت بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کے ساتھ ان کی تصویریں ہیں۔ سنگھ کے پتھ سنچلن پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے بھی ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اتر پردیش کے مافیا سرغنہ پریم پرکاش عرف منا بجرنگی کےگزشتہ 9 جولائی کو باغپت جیل میں قتل کے بعد خود کو بنارس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا رہنما بتانے والے ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ نے ٹوئٹ کر کے دعویٰ کیا ہے کہ جس طرح منا بجرنگی کو مارا گیا ہے اسی طرح سے مئو سے بہوجن سماج پارٹی ایم ایل اے اور مافیا مختار انصاری کو بھی مارکر کرشنانند رائے کی موت کا بدلہ پورا کیا جائےگا۔90 کی دہائی میں مافیا مختار انصاری سے منا بجرنگی جڑا تھا۔ بجرنگی کو مختار انصاری کا دایاں ہاتھ بھی کہا جاتا تھا۔ الزام ہے کہ انصاری کے کہنے پر ہی بجرنگی نے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے کرشنانند رائے کا قتل کیا تھا۔
منّا بجرنگی کے قتل کے بعد خود کو بی جے پی رہنما بتانے والے ڈاکٹر آدتیہ نے سوموار کو ٹوئٹ کرکے لکھا، ‘ آج کرشنانند رائے جیکی موت کا جزوی بدلہ سیاسی اقتدار کے ذریعے لے لیا گیا۔ بہت جلدہی ٹھیک اسی طرح کے چکرویوہ کے ذریعے مختار انصاری جی کو قبر میں دفن کرکے یہ بدلہ پورا کر لیا جائےگا۔ جئے ہو غازی پور، جئے ہو منوج سنہا جی۔ ‘
منّا بجرنگی اتر پردیش کے پوروانچل کا بدنام گینگسٹر تھا۔ سال 2005 میں بجرنگی اور اس کی گینگ نے غازی پور کے محمد آباد سے بی جے پی ایم ایل اے کرشنانند رائے سمیت 6لوگوں کا دن دہاڑے قتل کر دیا تھا۔لکھنؤ ہائی وے پر کرشنانند رائے کی دو گاڑیوں پر اے کے-47 سے سینکڑوں گولیاں برسائی گئی تھیں۔ پوسٹ مارٹم کے دوران مرنے والوں کے جسم سے 60 سے 100 گولیاں بر آمد ہوئی تھیں۔ منا بجرنگی کو 2009 میں ممبئی کے ملاڈ علاقہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں تھا۔
ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر خود کو بی جے پی کے کاشی علاقہ کا یوتھ اور سوشل میڈیا وار روم چیف، وزیر اعظم نریندر مودی کا الیکشن انچارج کے علاوہ کاشی علاقہ کی مہاسمپرک مہم کا ڈاٹا چیف بتایا ہے۔ جس کا ذکر ان کے فیس بک پیج پر بھی ملتا ہے۔
دی وائر نے جونپور کے اے بی وی پی کے ایک کارکن سے سنگھ کے بارے میں جاننا چاہا تو پتا چلا کہ وہ آر ایس ایس کے کل وقتی ممبر ہے اور جونپور کے ہی رہنے والے ہیں اور 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران نریندر مودی کی انتخابی مہم والی ٹیم کے ممبر تھے۔ یہ بھی جانکاری حاصل ہوئی ہے کہ سنگھ موجودہ وقت میں پارٹی کے ممبر ہیں اور وارانسی میں پارٹی کے لئے کام کرتے ہیں۔
سنگھ نے ایک دوسرے ٹوئٹ میں بجرنگی کے قتل پر کہا کہ بی جے پی کا مرکز اور اتر پردیش میں اقتدار میں آنے سے اس کا مرنا طے تھا۔انہوں نے ٹوئٹ کیا، مرکز اور ریاست میں مکمل اکثریت کی بی جے پی حکومت آنے پر منا بجرنگی کا مرنا تو طے تھا مگر پولیس انتظامیہ کو کب، کہاں اور کیسے کے غور وفکر میں اتنا وقت لگ گیا ورنہ یہ میٹر کبھی کا سلٹ گیا ہوتا کیونکہ اس مہم کے پیچھے اتر پردیش کے ایک مرکزی وزیر کی عزت جو پھنسی تھی۔ ‘
حالانکہ کس مرکزی وزیر کی عزت اس واقعہ سے جڑی تھی، اس کا انکشاف تو انہوں نے نہیں کیا، لیکن اپنے ایک ٹوئٹ میں سنگھ نے ‘ منوج سنہا کی جئے ‘ کہا ہے، جو موجودہ مودی حکومت میں وزیر ہیں۔
لیکن کیا آدتیہ سرکاری طور پر بی جے پی کا حصہ ہیں؟
بی جے پی ترجمان انیلا سنگھ نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے بتایا، ‘ مجھے نہیں پتا کہ یہ آدمی ہماری پارٹی میں ہےبھی یا نہیں۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ بی جے پی قانون اور عدالت میں اعتماد کرتی ہے اور اس معاملے کے لئے جانچکے حکم دئے ہیں۔ کسی کو سزا دینے کا حق صرف عدالت کو ہے۔ ‘
سوموار کو جب دی وائر کے ذریعے ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ کو فون کرکے ٹوئٹ کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی تب انہوں نے کہا، ‘ ہاں، میں نے ٹوئٹ کیا ہے اور یہ سب کے سامنے ہے۔ میں پارٹی سے جڑا ہوا ہوں۔ ‘
حالانکہ اس کے بعد جب ان سے مختار انصاری کے قتل کے منصوبے پر سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فون کاٹ دیا اور کئی بار فون کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
معلوم ہو کہ بجرنگی کے قتل سے کچھ دن پہلے 29 جون کو اس کی بیوی سیما سنگھ نے میڈیا سے بات چیت میں بتایا تھا کہ ان کے شوہر کی جان کو خطرہ ہے اور یوپی-ایس ٹی ایف اور پولیس ان کے شوہر کا فرضی انکاؤنٹر کر سکتی ہے۔اب منا بجرنگی کے قتل کے بعد سیما سنگھ نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے، جس میں وزیر منوج سنہا کے علاوہ بی جے پی کے ایم ایل سی سشیل سنگھ، پارٹی ایم ایل اے الکا رائے، سابق بی ایس پی رکن پارلیامان دھننجئے سنگھ، سبکدوش پولیس افسر جینت سنگھ اور ان کے بیٹے پردیپ کو ملزم بنایا ہے۔ سیما سنگھ کا الزام ہے کہ ان کے شوہر کے قتل کی سازش میں یہ سبھی لوگ شامل ہیں۔
سیما نے میڈیا سے بات چیت میں کہا، ‘ میں چاہتی ہوں کہ لوگوں کو بھی ان سیاستدانوں کے بارے میں پتا چلے جنہوں نے میرے شوہر کے قتل کی سازش کی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ پولیس میرے ان الزامات کی تفتیش کرےگی بھی یا نہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میرے شوہر سیاست میں اترنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان سے یہ تمام رہنما (جن پر انہوں نے الزام لگائے ہیں) ڈرے ہوئے تھے۔ ‘
منا بجرنگی قتل معاملے کی جانچکر رہے باغپت کے کھاکھیرہا تھانہ کے ایس ایچ او رجنیش کمار نے کہا، ‘سیما سنگھ نے شکایت درج کرائی ہے۔ ہم ان تینوں ناموں کی تفتیش کریںگے جن پر انہوں نے شک جتایا ہے۔ ‘وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے منا بجرنگی کے قتل کی جہاں عدالتی جانچکے حکم دئے ہیں، وہیں خود کو بی جے پی کے رہنما بتانے والے ڈاکٹر آدتیہ کمار سنگھ نے اس قتل کو اقتدار کی ہنک بتایا ہے۔
سنگھ کے فیس بک پروفائل کے مطابق وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور کئی بی جے پی ایم ایل اے اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوئٹر پر سنگھ کو مرکزی وزیر ریل پیوش گوئل کے دفتر کا ٹوئٹر ہینڈل اور سابق مرکزی وزیر اور پنجاب ریاستی صدر وجئے سانپلا بھی فالو کرتے ہیں۔
سنگھ کے فیس بک پروفائل پر ان کو آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے ساتھ اور سنگھ کے کئی پروگراموں میں حصہ لیتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی تصویروں میں سنگھ بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں اور وزرا کے ساتھ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
سنگھ کی ایک تصویر اوم ماتھر کے ساتھ ہے، جو بی جے پی اتر پردیش کے انچارج ہیں۔ اس کے علاوہ اتر پردیش کی تنظیم کے وزیر سنیل بنسل کے ساتھ بھی ان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے فیس بک پروفائل میں لگی ایک تصویر میں وہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ان کے بیٹے اور نوئیڈا سے ایم ایل اے پنکج سنگھ کے ساتھ بھی نظر آ رہے ہیں۔
سنگھ کی ایک تصویر اتر پردیش کے نقل وحمل کے وزیرسوتنتر دیو سنگھ کے ساتھ بھی ہے۔ اس تصویر میں گلے میں سنگھ نے جو آئی ڈی کارڈ پہنا ہے اس میں وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر شاہ کی تصویر ہے۔ معلوم ہو کہ اس طرح کا آئی ڈی کارڈ صرف پارٹی کے ممبروں کو ملتا ہے۔
منا بجرنگی قتل معاملےکو لےکر سنگھ کے ٹوئٹ کے بارے میں جانکاری لینے کے لئے سوموار کو کئے گئے کال کے بعد سے اب تک سنگھ فون نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعلقہ ٹوئٹ بھی ڈیلیٹ کر دیا ہے۔دی وائر کے ذریعے مرکزی وزیر پیوش گوئل اور پنجاب بی جے پی ریاستی صدر وجئے سانپلا سے ڈاکٹر آدتیہ کو ٹوئٹر پر فالو کرنے کو لےکر سوال پوچھے گئے ہیں، جن کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کا جواب آنے پر ان کو اس رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔
اس بیچ اگر کچھ میڈیا رپورٹس پر غور کریں تو منا بجرنگی کے قتل کے بعد بی ایس پی ایم ایل اے اور مافیا مختار انصاری سہمے ہوئے ہیں۔ پچھلے دو دنوں سے انہوں نے کسی سے ملاقات نہیں کی ہے۔زی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کی باندہ جیل میں بند مافیا ڈان مختار انصاری سوموار کو باغپت جیل میں اپنے قریبی منا بجرنگی کے قتل کے بعد دو دن سے اپنے بیرک سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ جیل انتظامیہ نے حالانکہ ان کی تھری لیئر سیکیورٹی کا انتظام کیا ہے۔
وہیں جن ستا کی رپورٹ کہتی ہے کہ مختار انصاری دو دن سے نہ بیرک سے باہر نکلے ہیں اور نہ ہی کسی سے ملاقات کی خواہش جتائی۔ وہ صحیح سے کھانا بھی نہیں کھا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، جیل میں انصاری کی حفاظت بڑھا دی گئی ہے۔ پولیس کے علاوہ پی اے سی کے جوان بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ شدید چھاپےماری بھی کی جا رہی ہے اور ملاقاتی پر بھی خاص نظر رکھی جا رہی ہے۔
معلوم ہو کہ منا بجرنگی کو تقریباً 10 گولیاں ماری گئی تھیں۔ جھانسی جیل میں بند منا بجرنگی کو گزشتہ 8جولائی کو سابق بی ایس پی ایم ایل اے لوکیش دیکشت سے رنگداری کے معاملے میں پیشی کے لئے باغپت جیل لایا گیا تھا۔منا بجرنگی کو تنہائی بیرک میں 10 دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اسی بیرک میں مافیا سنیل راٹھی اور وکی سنہیڑا بھی تھے۔9 جولائی کی صبح تقریباً 6:30 بجے ایک جھگڑے کے دوران اسی جیل میں بند سنیل راٹھی نے اس کو گولی مارکر قتل کر دیا۔ صبح صبح سنیل راٹھی سے ہوئے جھگڑے کے بعد اس بیرک میں ہتھیار کا دستیاب ہو جانا سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
Categories: خبریں