خبریں

کیا حکومت آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کر کے اس کو کمزور کرنے جا رہی ہے؟

مرکزی حکومت نے اس بات کو عام نہیں کیا ہے کہ وہ آخر آر ٹی آئی قانون میں کیا ترمیم کرنے جا رہی ہے۔  ترمیمی بل کے اہتماموں کو نہ تو عام کیا گیا ہے اور نہ ہی عوام کی رائے لی گئی ہے۔  جان کار اس کو لمبی جدو جہد کے بعد ملے اطلاعات کے حق پر حملہ بتا رہے ہیں۔

 (فوٹو : پی ٹی آئی / وکپیڈیا)

(فوٹو : پی ٹی آئی / وکپیڈیا)

نئی دہلی:اس بات کی اب پوری طرح سے تصدیق ہو گئی ہے کہ مودی حکومت آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔  12 جولائی کو مانسون سیشن کے لئے لوک سبھا کے ورکنگ ڈےکی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ آرٹی آئی قانون، 2005 میں ترمیم کرنے کے لئے بل ایوان میں پیش کیا جائے‌گا۔

حالانکہ بہت ساری سول سوسائٹی اور آر ٹی آئی قانون لانے میں اہم کردار نبھانے والے لوگ اس بل کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔  مخالفت کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے اس بات کو عام نہیں کیا ہے کہ وہ آخر آر ٹی آئی قانون میں کیا ترمیم کرنے جا رہی ہے۔  دراصل ترمیمی بل کے اہتماموں کو نہ تو عام کیا گیا ہے اور نہ ہی اس پر عوام کی رائے لی گئی ہے۔اصول کے مطابق اگر کوئی ترمیم یا بل حکومت لاتی ہے تو اس کو متعلقہ وزارت یا ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر عام کیا جاتا ہے اور اس پر عوام کی رائے مانگی جاتی ہے۔

کچھ معاملوں میں حکومت اخباروں میں بھی بل سے متعلق جانکاری شائع کرواتی ہے اور اس پر لوگوں کو مشورہ بھیجنے کے لئے کہا جاتا ہے۔  اس پورے عمل کو Pre legislative consultation policy پالیسی کہتے ہیں۔لیکن آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کے معاملے میں ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا ہے اور سارا معاملہ ابھی تک بےحد خفیہ ہے۔  کچھ دن پہلے ترمیم سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے ایک آر ٹی آئی فائل کی گئی تھی لیکن حکومت ہند کے ملازم اور تربیت محکمہ نے اس پر کوئی بھی جانکاری دینے سے منع کر دیا تھا۔

2009 سے 2012 تک مرکزی اطلاعاتی کمیشن میں اطلاعاتی کمشنر رہے شیلیش گاندھی کا کہنا ہے کہ عوام کو یہ جاننے کا پورا حق ہے، خاص کر آر ٹی آئی ایکٹ کے بارے میں، کہ آخر حکومت کیا ترمیم لانے جا رہی ہے۔  حکومت اس ترمیم کے ذریعے اطلاعاتی کمیشن کے قد کو چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔  اس کی وجہ سے حکم کو نافذ کرانے  میں کمی آئے‌گی۔انہوں نے کہا، سب سے بڑا ڈر اس بات کا ہے کہ حکومت اس ترمیم کے ذریعے آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کرنے کا راستہ کھول رہی ہے۔  ہمارے آر ٹی آئی قانون کا اہتمام دنیا کے بہترین قوانین میں سے ایک ہے، لیکن اس کو بہت بری طرح سے نافذ کیا جا رہا ہے۔  ‘

گاندھی نے آگے کہا، آر ٹی آئی قانون کی غلط طریقے سے وضاحت کرنے کی وجہ سے اس کو صحیح طرح سے نافذ نہیں کیا گیا۔  اطلاعاتی کمشنر کا بھی غیر مناسب انتخاب کیا گیا۔  زیادہ تر اطلاعاتی کمشنر کی شفافیت کی لڑائی سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ اگر آر ٹی آئی قانون کمزور کیا جاتا ہے تو یہ ملک کے عوام کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگا۔12 جولائی کو مانسون سیشن کے لئے لوک سبھا کے ورکنگ ڈے کی فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں یہ لکھا ہے کہ آر ٹی آئی قانون، 2005 میں ترمیم کرنے کے لئے بل ایوان میں پیش کیا جائے‌گا۔

آر ٹی آئی کو لےکر کام کرنے والی باخبر سول سوسائٹی اور نیشنل کیمپن فار رائٹ ٹو انفارمیشن(این سی پی آر آئی)سے منسلک انجلی بھاردواج نے کہا، کچھ میڈیا رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ حکومت اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ طےکرنے کے اصولوں میں تبدیلی کرنے کے لئے آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔  ابھی تک انتخابی کمشنر کو جتنی تنخواہ ملتی ہے، اسی بنیاد پر اطلاعاتی کمیشن کی اطلاعاتی کمشنر کو بھی تنخواہ دی جاتی ہے۔  لیکن اس ترمیم کے بعد مرکز اور ریاستی حکومتوں کو یہ حق مل جائے‌گا کہ وہ اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ طے کریں۔اس کی وجہ سے اطلاعاتی کمیشن آزادانہ طورپر کام نہیں کر پائیں‌گے اور ان پر بہت برا اثر پڑے‌گا۔  اس ترمیم کے ذریعے حکومت اطلاعاتی کمیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔  ‘

آرٹی آئی قانون کے آرٹیکل 13 اور 15 میں یہ لکھا ہے کہ چیف اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ، بھتہ اور دیگر سہولیات چیف انتخابی کمشنر کی طرح دی جائیں‌گی۔  اسی طرح مرکزی اطلاعاتی کمیشن کے اطلاعاتی کمشنر اور ریاستی اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ انتخابی کمشنر کو دی جانے والی تنخواہ کی بنیاد پر دی جائے‌گی۔بتا دیں کہ چیف اور دیگر اطلاعاتی کمشنر کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے جو کہ قانون سازمجلس کے ذریعے طےشدہ ہے۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہوتی ہے۔

انجلی بھاردواج کا کہنا ہے کہ اب آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کے بعد اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر نہیں رہ جائے‌گی۔  ترمیم کے بعد ریاست اور مرکزی حکومت کو ان کی تنخواہ طے کرنے کا حق مل جائے‌گا جس کی وجہ سے اطلاعاتی کمیشن اور اطلاعاتی کمشنر کی آزادی خطرے میں پڑ جائے‌گی۔

آرٹی آئی قانون 15 جون 2005 کو پارلیامنٹ سے پاس کیا گیا تھا، لیکن اس سے پہلے اس ایکٹ کو قانون سازمجلس کی مستقل کمیٹی کے پاس صلاح مشورہ کے لئے بھیجا گیا تھا۔  شروع میں ایسی تشخیص کی گئی تھی کہ چیف اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ مرکزی حکومت کے سکریٹری کی تنخواہ کی طرز پر رکھی جائے‌گی اور اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ حکومت ہند کے جوائنٹ سکریٹری یا ایڈیشنل سکریٹری کے برابر رکھی جائے‌گی۔

لیکن مستقل کمیٹی کی رپورٹ دیکھ‌کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کمیٹی نے اطلاعاتی کمشنر کی تنخواہ کے مسائل کو کافی سنجیدگی سے لیا تھا۔  کمیٹی نے لکھا، اطلاعاتی کمیشن اس ایکٹ کے تحت ایک اہم حصہ ہے جو کہ قانون کی شرائط کو نافذ کرے‌گا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اطلاعاتی کمیشن انتہائی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام کرے ‘۔

اس لئے کمیٹی نے مشورہ دیا کہ اطلاعاتی کمیشن کی آزادی کو دھیان میں رکھتے ہوئے اطلاعاتی کمشنر کا قد چیف انتخابی کمشنر اور انتخابی کمشنر کے برابر ہونی چاہیے۔  مستقل کمیٹی کے اس مشورہ کو قانون سازمجلس نے منظور کیا تھا اور اس کو پاس کیا گیا۔اس مدعے پر دی وائر کی طرف سے متعلقہ محکمہ کو بھیجے ای میل کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔  اگر کوئی جواب آتا ہے تو اسٹوری میں اپ ڈیٹ کر دیا جائے‌گا۔بتا دیں کہ باخبر سول سوسائٹی  کی رپورٹ کے مطابق ہرسال تقریباً 60 سے 80 لاکھ لوگ اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے جانکاری کے لئے درخواست دیتے ہیں۔

تنظیم کی ممبر امرتا جوہری کہتی ہیں،بی جے پی بد عنوانی سے آزاد ہندوستان کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئی تھی۔  لیکن پچھلے چار سالوں میں مودی حکومت اداروں اور شفافیت اور جوابدہی کے قانون پر لگاتار حملہ کرتی رہی ہے۔  جوہری کہتی ہیں،بد عنوانی اور بدانتظامی اجاگر کرنے کی وجہ سے آر ٹی آئی کارکنان اورو ہسل بلووروں پر لگاتار حملے ہو رہے ہیں نہ توو ہسل بلوور تحفظ قانون کو نافذ کیا گیا اور نہ ہی لوک پال کی تقرری کی گئی۔  وہیں دوسری طرف حکومت الیکٹورل بانڈ لےکر آئی ہے جو کہ عوام کے اس حق کوپامال کرتی ہے جس سے وہ جان سکیں کہ آخر کون سیاسی پارٹیوں کو پیسہ دے رہا ہے۔  “

وہیں دوسری طرف مودی حکومت مرکزی اطلاعاتی کمیشن میں اطلاعاتی کمشنر کی تقرری نہ کرنے کو لےکر بھی تنقیدوں کے گھیرے میں ہے۔  مرکزی اطلاعاتی کمیشن میں کل 11 عہدے ہیں لیکن ابھی بھی یہاں پر 4 عہدہےخالی ہیں اور 4 چار لوگ اسی سال ریٹائر ہو جائیں‌گے۔اس کو لےکر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی تھی جس پر کورٹ نے مرکز اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔  جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ‘یہ بےحد سنگین معاملہ ہے۔  ملک کے تمام اداروں کی یہی حالت ہے۔  ‘

آرٹی آئی  قانون کے تحت اطلاعاتی کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اور آخری ادارہ ہے، حالانکہ اطلاعاتی کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج دیاجا سکتا ہے۔  سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمہ کے عام اطلاعاتی افسر کے پاس درخواست کرتا ہے۔  اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار اعلیٰ اپیلی افسر کے  پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار مرکزی اطلاعاتی کمیشن یا ریاستی اطلاعاتی کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔  لیکن ملک بھر‌کے اطلاعاتی کمیشن کی حالات بےحد خراب ہے۔

عالم یہ ہے کہ اگر آج کے دن اطلاعاتی کمیشن میں اپیل ڈالی جاتی ہے تو کئی سالوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔  اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کمیشن میں کئی سارے عہدے خالی پڑے ہیں۔آندھر پردیش کے ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں ایک بھی اطلاعاتی کمشنر نہیں ہے۔  یہ ادارہ اس وقت پوری طرح سے غیر فعال ہے۔مہاراشٹر ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں اس وقت 40000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں لیکن یہاں پر ابھی بھی چار عہدے خالی پڑے ہیں۔کیرل ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں صرف ایک اطلاعاتی کمشنر ہے۔  یہاں پر 14000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔کرناٹک ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں اطلاعاتی کمشنر کے 6 عہدے خالی پڑے ہیں جبکہ یہاں پر 33000 اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔اڑیسہ اطلاعاتی کمیشن صرف تین اطلاعاتی کمشنر کے بھروسے چل رہا ہے جبکہ یہاں پر 10000 سےزیادہ  اپیل / شکایتں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کے اطلاعاتی کمیشن میں صرف 2 اطلاعاتی کمشنر ہیں اور یہاں پر 15000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

مغربی بنگال کی صورتحال بہت زیادہ خوفناک ہے۔  یہاں حالت یہ ہے کہ اگر آج وہاں پر کوئی اپیل فائل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت 10 سال بعد ہو پائے‌گی۔  یہاں پر صرف 2 اطلاعاتی کمشنر ہیں۔وہیں گجرات، مہاراشٹر اور ناگالینڈ جیسی جگہوں پر چیف اطلاعاتی کمشنر ہی نہیں ہیں۔  یہاں پر اطلاعاتی کمشنر چیف اطلاعاتی کمشنر کے بغیر کام کر رہے ہیں۔

بتا دیں کہ 25 مئی 2018 کو این سی پی آر آئی نے آر ٹی آئی ترمیم کو لےکر وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔  اس سے پہلے 5 جون 2017 کو وزیر اعظم کو خط لکھا گیا تھا کہ مختلف اطلاعاتی کمیشن میں کمشنر کی بھرتیاں کرنے کی سمت میں قدم اٹھائے۔اس آر ٹی آئی ترمیم کے خلاف ایک آن لائن عرضی بھی ڈالی گئی ہے جس کو ابھی تک 16000 سے زیادہ لوگوں نے سائن کیا ہے۔  حالانکہ اب اس معاملے میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کو جواب دینا ہے۔