فکر و نظر

خاص رپورٹ : گورکھپور  یونیورسٹی میں دلت اور پچھڑوں کے لئے ریزرو سیٹوں پر جنرل امید واروں کی تقرری

خاص رپورٹ: گورکھپور  یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام ہے کہ اساتذہ کی تقرری کے دوران جنرل  میں بھی ایک خاص ذات کو ترجیح دی گئی۔  سلیکشن پروسس کو لےکر سوال اٹھ رہے ہیں۔

گورکھپوریونیورسٹی میں مظاہرہ ۔  (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

گورکھپوریونیورسٹی میں مظاہرہ ۔  (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

یوگی آدتیہ ناتھ کے پارلیامانی حلقہ گورکھپور کی دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی میں استاتذہ کی  تقرری کو لےکر ان دنوں کافی تنازعہ چل رہا ہے۔  الزام ہے کہ انتخابی عمل کے دوران ریزرویشن کےاصولوں پرعمل نہیں کیا گیا اور ایک خاص ذات کے امید وار وں کو تقرری میں ترجیح دی گئی۔اتناہی نہیں ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں جہاں پر امید واروں نے جنرل یعنی کہ غیر اَن ریزروڈ زمرے  میں انٹرویو دیا لیکن اس کی تقرری ایس سی میں اور ایک دوسرے  کی تقرری او بی سی کے زمرہ میں کی گئی۔  اتناہی نہیں ان گڑبڑیوں کے ثبوت مٹانے کی کوشش کا بھی الزام یونیورسٹی انتظامیہ پر لگا ہے۔

دی وائر کے پاس استاتذہ تقرری کے انٹرویو کے لئے بلائے گئے طالب علموں کی فہرست ہے، جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ شعبہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لئے ممتا چودھری نام کی ایک امیدوار کا انٹرویو جنرل  میں ہوا تھا لیکن ان کی تقرری درج فہرست ذات میں کی گئی ہے۔دی وائر کے پاس ممتا چودھری کے درخواست کی کاپی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جنرل زمرے میں نوکری کے لئے درخواست کی تھی اور 1500 روپےجمع کیے تھے۔  لیکن درخواست فارم میں جہاں پر ‘ جنرل ‘ لکھا ہے اس کو کاٹ‌کر بعد میں قلم سے ‘ ایس سی ‘ لکھ دیا گیا ہے۔

اسی طرح جہاں پر 1500 روپے جمع رقم لکھی ہے اس کو کاٹ‌کر 1000 روپے کر دیا گیا ہے کیونکہ ایس سی طبقہ کے لئے درخواست فیس 1000 روپے تھی۔  ممتا چودھری کے درخواست فارم میں جن جگہوں پر تبدیلی کی گئی ہے وہاں پر نہ تو کسی بھی متعلقہ آدمی کا دستخط ہے اور نہ ہی یونیورسٹی کا اسٹامپ لگا ہوا ہے۔19 ستمبر 2017 کو گورکھپور یونیورسٹی میں کل 214 عہدوں کے لئے اشتہار نکالا گیا تھا۔  اس میں سے پروفیسر کے لئے 30 عہدے، ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لئے 44 عہدے اور اسسٹنٹ پروفیسر کے  140 عہدوں کے لئے درخواست منگائے گئے تھے۔

اسی طرح شعبہ قانون (لا ڈپارٹمنٹ)میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کے لئے وندنا سنگھ نام کی ایک امیدوار کا انٹرویوجنرل میں ہوا تھا لیکن ان کا انتخاب دیگر پچھڑا طبقہ میں ہوا ہے۔  دی وائر کے پاس وندنا سنگھ کے بھی درخواست فارم کی کاپی ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انہوں نے جنرل میں درخواست دی تھی۔اس پر جب گورکھپور  یونیورسٹی کے رجسٹرار شتروہن ویشیہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے صاف صاف کوئی جواب دینے سے منع کر دیا اور بات چیت ختم ہونے سے پہلے ہی  بیچ میں فون کاٹ دیا۔انہوں نے صرف اتنا کہا،اگر اس کی شکایت ہوتی ہے تو جانچ کرائی جائے‌گی اور متعلق آدمیوں پر کارروائی ہوگی۔  ‘حالانکہ رجسٹرار کی نگرانی میں ہی تقرری ہوتی ہیں اور رجسٹرار ہی ان معاملوں کے متعلق جوابدہ ہوتا ہے۔

Mamta-Chaudhary

کسی بھی یونیورسٹی کا رجسٹرار اس کا نگراں ہوتا ہے وہی آخری تقرری افسر ہوتا ہے۔رجسٹرار شتروہن ویشیہ یونیورسٹی ورک کونسل کے ممبر بھی ہیں۔  19 ستمبر 2017 کو پروفیسر،ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ  پروفیسرکے عہدوں کے لئے درخواست منگائے گئے تھے۔اساتذہ کے انتخاب کا دو مرحلہ پورا ہو چکا ہے جس میں ابھی تک کل 142 اساتذہ کی تقرری کی گئی ہے۔  اس میں سے 80 جنرل، 33 او بی سی اور 29 ایس سی زمرے سے ہیں۔

یونیورسٹی میں ہوئی اساتذہ کی تقرری کو لےکر جنرل  کے لوگوں میں بھی کافی غصہ ہے۔  الزام ہے کہ جنرل میں بھی ایک خاص ذات کو ترجیح دیتے ہوئے تقرری کی گئی ہے اور دیگر ذاتوں کے لائق امیدواروں کو درکنار کر دیا گیا۔اساتذہ کے انتخاب کے لئے ایک دن میں 80 سے 85 لوگوں کا انٹرویو کیا گیا۔  اس کو لےکر سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دن میں اتنے سارے لوگوں کا انٹرویو لیا جا سکے اور ان کی صلاحیت کا اچھے سے اندازہ کیا جا سکے۔

کئی سارے امید واروں کا یہ کہنا ہے کہ صرف پانچ سے سات منٹ تک ہی انٹرویو لیا گیا جس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کا بھی صحیح سے اندازہ کیا جا سکے۔دی وائر کے پاس انٹرویو دینے آئے امید واروں کی فہرست کی کاپی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایک دن میں تمام لوگوں کا انٹرویو لیا گیا ہے۔شعبہ تعلیم میں اسسٹنٹ  پروفیسر کے عہدے کے لئے 6 مئی کو 86 لوگوں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا تو 7 مئی کو 83 لوگوں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔  اسی طرح 8 مئی کو 84 لوگوں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیاتھا۔  انٹرویو کی ٹائمنگ صبح 9:30 بجے سے شام 5:00 بجے تک تھی۔

Vandana-Singh-1

گورکھپوریونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر بھاسکر چودھری کا کہنا ہے کہ یہ انٹرویو کیمپس کے انتظامیہ ہال میں ہونا چاہیے تھا لیکن سارے انٹرویو وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر لئے گئے۔  کیا انٹرویو کی ریکارڈنگ کی گئی تھی، اس کی بھی کوئی جانکاری نہیں ہے۔چودھری نے کہا، حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس دن منتخب امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی اسی دن زیادہ تر لوگوں نے اپنی جوائننگ لے لی جبکہ منتخب کئے گئے لوگ صرف گورکھپور  کے ہی نہیں بلکہ ریاست کی دوسری جگہوں سے آئے تھے۔  ایسی حالت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جوائننگ کے لئے اسی دن زیادہ تر لوگ گورکھپور  پہنچ گئے۔  کیا ان کو پہلے سے ہی اس کی جانکاری تھی کہ ان کا انتخاب ہو گیا ہے۔  ‘

یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) نے اساتذہ کی تقرری کے لئے ایک ہدایت جاری کی ہے جس کی بنیاد پر کل نمبر کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔  اس کو اے پی آئی ( اکیڈمک پرفارمینس انڈکیٹر) اسکور کہتے ہیں۔اس کے مطابق 80 فیصد نمبر امید وار کے اکیڈمک ریکارڈ، ریسرچ پرفارمینس، ٹیچنگ اسکلس، اور شائع ہوئے ریسرچ پیپر کی بنیاد پر دیا جائے‌گا۔  وہیں 20 فیصد نمبر کو انٹرویو کو لئے طے کیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ انٹرویو کے نمبر کو لےکر ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ کسی کو بھی انٹرویو میں 40 فیصد سے کم اور 80 فیصد سے زیادہ نمبر نہیں دیا جا سکتا ہے۔  اگر اس سے کم یا زیادہ نمبر دیا جاتا ہے تو اس کے لئے وجہ بتانی ہوگی۔اسی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم میں 30 نمبر کے انٹرویو میں 12 نمبر سے کم اور 24 نمبر سے زیادہ نہیں دیا جاتا ہے۔

UGC

اس کو لےکر  الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ نہیں بتایا کہ جتنے لوگ انٹرویو کے لئے آئے تھے اور جن کا انتخاب کیا گیا ہے، ان تمام لوگوں کا اے پی آئی اسکور کتنا ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کے لئے درخواست کرنے والے آدتیہ نارائن کہتے ہیں، زیادہ تر جگہوں پر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ انٹرویو اور تحریری امتحان میں کس کو کتنا نمبر ملا ہے۔  لیکن یہاں پر کچھ بھی ایسا نہیں بتایا گیا ہے۔یہ انتخابی عمل بالکل بھی شفاف نہیں ہے۔  جن لوگوں کو ویٹنگ لسٹ میں رکھا گیا ہے، ان کی بھی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے۔  ‘

گورکھپوریونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی اس کی جانکاری نہیں دی گئی ہے کہ کس کو کتنے نمبر ملے ہیں۔  صرف منتخب کئے گئے امید وار کی لسٹ جاری کی گئی ہے۔یونیورسٹی ورک کونسل کے ایک ممبر پروفیسر اجے کمار گپتا نے اساتذہ کےانتخابی عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنی مخالفت درج کرائی تھی۔ورک کونسل کے اجلاس میں انہوں نے اپناخط (لیٹر آف ڈیسنٹ)دیا تھا۔ اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر کارروائی کرتے ہوئے ان کو ای ڈی پی سیل کے صدر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ای ڈی پی یعنی الیکٹرانک ڈیٹا پروسیسنگ سیل میں امتحان کے نمبرات کا کمپیوٹر ڈاٹا تیار کیا جاتا ہے۔  اسی سیل سے پوری یونیورسٹی امتحان کا نتیجہ جاری کیا جاتا ہے۔امتحان اور اس کے بعد نتیجہ جاری کرنے کا اہم اور خفیہ کام اس سیل کے تحت کیا جاتا ہے۔  یونیورسٹی کے رجسٹرار نے اس پر کچھ بھی بتانے سے صاف منع کر دیا اور کوئی رد عمل نہیں دیا۔دی وائر کے پاس ورک کونسل کے اجلاس کی منٹس کی کاپی اور پروفیسر گپتا کا مخالفتی خط ہے۔ اساتذہ کا انتخاب کرنے میں یونیورسٹی کے ورک کونسل کا اہم کردار ہوتا ہے۔

Gorakhpur

اصولوں کے مطابق ورک کونسل میں ایس سی اور او بی سی زمرہ کے ممبروں کا ہونا ضروری ہے۔  اجے کمار گپتا ورک کونسل کی ٹیم میں دیگر پچھڑے طبقہ  کے ممبر کے طور میں شامل ہیں۔گپتا گورکھپور  یونیورسٹی میں کامرس شعبہ میں پروفیسر کے عہدے پر ہیں۔ انہوں نے اپنے مخالفتی خط میں لکھا ہے کہ یہ تقرری1994 کے ریزرویشن اصولوں کے خلاف اور غیر آئینی ہے۔انہوں نے کہا کہ 100 پوائنٹ روسٹر اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ تقرری کی جا رہی ہیں۔  اتر پردیش ریزرویشن ایکٹ، 1994 کے تحت 50 فیصد سیٹیں ریزرو ہونی ضروری ہے لیکن انتخابی عمل میں اس کو نافذ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے اپنا مخالفتی خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ورک کونسل کی مانگ‌کے باوجود انٹرویو کے لئے آئے امید وار کی کل اکیڈمک کامیابیاں (80 فیصد) اور انٹرویو (20فیصد) کے نمبر عوامی نہیں کئے گئے۔  اس کی وجہ سے بھاری شک پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ دین دیال اپادھیائے گورکھپور  یونیورسٹی کے ذریعے ابھی تک چلایا جا رہا تقرری عمل اصول کے خلاف اور غیر آئینی ہے جس کو فوراً روک‌کر اتر پردیش سول سروس ایکٹ، 1994 کے تناظر میں سپریم کورٹ اور یو جی سی کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔

اجے کمار گپتا کے علاوہ پروفیسر للن یادو ورک کونسل میں دیگر پچھڑے طبقہ  کے ممبر کے طور پر ہیں۔  وہیں پروفیسر شوبھا گوڑ اور پروفیسر چندرشیکھر درج فہرست ذات کے ممبر کے طور پر ہیں۔  دی وائر نے شوبھا گوڑ اور چندرشیکھر سے بھی اساتذہ کے انتخاب میں ہوئی بدانتظامی پر سوال کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔یونیورسٹی میں استاتذہ تقرری کے بعد اس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کئی ایسے لوگوں کی تقرری کی گئی ہے جو کہ صلاحیت کی بنیاد پر دیگر کے مقابلے  میں کم ہیں اور ان کی یونیورسٹی سے کسی نہ کسی طرح سے تعلق ہے۔

شعبہ تعلیم میں راجیش کمار سنگھ کی تقرری ہوئی ہے جو کہ پروفیسر رام دیو سنگھ کے بیٹے ہیں۔  رام دیو سنگھ شعبہ تعلیم کے ایچ او ڈی اور ڈین رہ چکے ہیں۔وہیں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر منتخب کئے گئے انوپم سنگھ پروفیسر سمترا سنگھ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ انوپم سنگھ اے بی وی پی کے بھی ممبر ہیں اور ان کے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ وہ اے بی وی پی میں یوا کارکن ہیں۔وہیں تقرری پائے درگیش پال پروفیسر شوبھا گوڑ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔  شوبھا گوڑ شعبہ تعلیم میں ہی پروفیسر ہیں۔  یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سابق میں شعبہ تعلیم کی ڈین اور ایچ او ڈی رہیں اسنیہ لتا شاہی کی ریسرچ اسکالر ممتا چودھری ہیں جن کا انتخاب شعبہ تعلیم میں ایس سی طبقہ  میں کیا گیا ہے، جبکہ انہوں نے جنرل  سے درخواست کیا تھا۔

یونیورسٹی میں اساتذہ کی تقرری کو لےکر  ہوئی بدانتظامی پر سوال اٹھانے والے لوگوں پر کارروائی ہو رہی ہے۔ پروفیسر اجے کمار گپتا کے بعد اترپردیش حکومت میں پرسنل سکریٹری امر سنگھ پٹیل پر کارروائی کے حکم دئے گئے ہیں۔ایک مقامی اخبار کے مطابق سنگھ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے گورکھپور  یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری میں ایک خاص ذات کے لوگوں کا انتخاب کرنے کو لےکر  وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیراعلی دنیش شرما پر سوال اٹھایا تھا۔امر سنگھ پٹیل نے اپنے ٹوئٹر پوسٹ میں لکھا تھا کہ اسسٹنٹ پروفیسر کے 71 عہدوں میں سے 52 عہدے پر ایک ہی ذات کا انتخاب کیا گیا ہے۔اس کو لےکر  وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دفتر سیکرٹریٹ انتظامیہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری مہیش گپتا کو ان کے خلاف شعبہ جاتی کاروائی کرنے کا حکم دئے ہیں۔

Gorakhpur

وہیں دوسری طرف اس مدعے کو لےکر  لوگ کھل‌کر بولنے میں ڈر رہے ہیں۔  کئی لوگوں نے دی وائر کو تقرری میں ہوئی بے ضابطگی کو لےکر  جانکاری دی لیکن کوئی بھی اس بات کو لےکر  تیار نہیں ہوا کہ ان کو عام کیا جائے۔دراصل درخواست دینے والے کئی لوگ کسی نہ کسی جگہ سرکاری نوکری کر رہے ہیں۔  اس لئے ان کو ڈر ہے کہ اگر وہ کھل‌کر سامنے آ جائیں‌گے تو ان پر شعبہ جاتی کارروائی ہو سکتی ہے یا پھر ان کی نوکری جا سکتی ہے۔

الزام ہے کہ یونیورسٹی میں ریزرویشن اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تقرری کی گئی ہے جس کی وجہ سے ایس سی اور او بی سی زمرہ کے اساتذہ کی تعداد میں بھاری کمی آئی ہے۔اصول کے حساب سے کل تقرری کئے گئے اساتذہ میں سے 50 فیصد لوگ ریزرو طبقہ  کا ہونا چاہیے۔  لیکن گزشتہ 2 جولائی کو آئے نتیجوں کے مطابق دو پروفیسروں کی تقرری ہوئی ہے جس میں سے ایک بھی ریزرو طبقہ  کا نہیں ہے۔

وہیں چھ ایسوسی ایٹ پروفیسروں کی تقرری میں پانچ جنرل سے اور صرف ایک ایس سی کیٹیگری کے ہیں۔  اس میں ایک بھی شخص او بی سی کیٹیگری سے نہیں تقرری کی گئی ہے۔اسی طرح 76 اسسٹنٹ پروفیسروں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں سے 44 جنرل، 17 او بی سی اور 15 ایس سی کیٹیگری سے ہیں۔اس حساب سے کل ملاکر  84 اساتذہ کی تقرری کی گئی جس میں سے 51 جنرل، 17 او بی سی اور 16 ایس سی کیٹیگری سے ہیں۔

اصول کے مطابق ریزرو طبقہ  سے 42 لوگوں کی تقرری کی جانی چاہیے تھی لیکن صرف 33 لوگوں کو ہی منتخب کیا گیا اور باقی کی سیٹیں غیر محفوظ زمرہ کے لوگوں کو دی گئی ہیں۔اس سے پہلے گزشتہ 29 اپریل کو بھی منتخب کئے گئے اساتذہ کی ایک لسٹ جاری کی گئی تھی جس میں سے چار پروفیسر اور چار ایسوسی ایٹ پروفیسر کا انتخاب ہوا تھا۔یہ آٹھوں لوگ جنرل کیٹیگری سے ہیں۔اس میں ایک بھی ریزرو کیٹیگری کا امیدوار نہیں منتخب کیا گیا۔  وہیں 50 اسسٹنٹ  پروفیسر کی بھی تقرری ہوئی تھی جس میں سے 21 جنرل، 16 او بی سی اور 13 ایس سی کیٹیگری کے ہیں۔

اتر پردیش میں درج فہرست ذات / درج فہرست قبائل اور دیگر پچھڑے طبقہ  کے لئے 1994 میں ایک ایکٹ پاس ہوا تھا۔ اس کو اتر پردیش سول سروس (درج فہرست ذات / درج فہرست قبائل اور دیگر پچھڑے طبقہ  کے لئے ریزرویشن) قانون 1994 کہتے ہیں۔اس کے آرٹیکل 3 (1) میں لکھا ہے کہ ریاست میں جو تقرری ہوں‌گی اس میں سے 21 فیصد درج فہرست ذات، 27 فیصد او بی سی اور 2 فیصد درج فہرست قبائل کے لوگوں کے لئے ریزرو ہوگا۔  وہیں ایکٹ کے آرٹیکل 3 (5) میں لکھا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت تقرری کیسے کی جائیں‌گی۔

ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ تقرری کرانے کے لئے ریاستی حکومت ایکٹ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت ایک روسٹر جاری کرے‌گا جو کہ مسلسل طور پر نافذ رہے‌گا۔  اسی سال ریاستی حکومت نے 100 پوائنٹ کا ایک روسٹر جاری کیا تھا جس کے تحت تمام تقرری کی جانی تھی۔بتا دیں کہ اگر کہیں صرف ایک عہدے کے لئے تقرری ہوتی ہے تو وہاں پر ریزرویشن نافذ نہیں ہوتا ہے۔  سپریم کورٹ نے ‘ اندرا ساہنی ‘ معاملے میں یہ فیصلہ دیا تھا۔

ریاستی حکومت نے 1994 میں ریزرویشن نافذ کرنے کے لئے ایک 100 پوائنٹ کا روسٹر جاری کیا تھا جس کے حساب سے یہ سسٹم بنایا گیا تھا کہ اگر کہیں پر 100 عہدہ یا اس سے کم کے لئے تقرری ہوتی ہے تو وہاں کس بنیاد پر تقرری کی جائے‌گی۔اس کے حساب سے اگر کہیں پر پانچ عہدے کے لئے تقرری آتی ہے تو پہلا عہدہ درج فہرست ذات کے لئے ہوگا، دوسرا عہدہ غیر محفوظ یعنی جنرل کیٹیگری کے لئے ہوگا، تیسرا عہدہ دیگر پچھڑا طبقہ (او بی سی) کے لئے، چوتھا غیر محفوظ جنرل اور پانچویں درج فہرست ذات کے لئے ہوگا۔

یہی سلسلہ پانچ سے زیادہ عہدوں کی تقرری کے لئے بھی نافذ ہوگا۔  چونکہ اتر پردیش میں درج فہرست قبائل کے لوگوں کی تعداد کافی کم ہے اس لئے ان کے لئے صرف دو فیصد سیٹیں ہی ریزرو ہیں۔  100 پوائنٹ کا روسٹر کے حساب سے اگر کہیں پر 47 سیٹوں کے لئے تقرری آتی ہیں تو ایک سیٹ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لئے ہوگی۔1994 کے بعد سے تقرری روسٹر کی بنیاد پر ہو رہی تھی۔  حالانکہ اس میں ایک بات کو لےکر  تنازعہ تھا کہ تقرری یونیورسٹی یا کالج کو بنیاد مان‌کر کی جانی چاہیےیا پھر ان کے شعبہ جات کو اکائی مانا جانا چاہیے۔  اس بات کو لےکر  ایکٹ میں وضاحت نہیں تھی۔اس معاملے کو لےکر  2008 میں درگا پرساد یادو اور دیگر بنام اتر پردیش ریاست اور دیگر مقدمہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ شعبہ کو اکائی مانتے ہوئے 100 پوائنٹ کاروسٹر کی بنیاد پر ریاست میں تقرری کی جائیں‌گی۔

گورکھپوریونیورسٹی (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

گورکھپوریونیورسٹی (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

گورکھپوریونیورسٹی میں پچھلی بار 2006 میں تقرریاں نکلی تھیں۔تبھی سے استاتذہ تقرری کو لےکر  تنازعہ چل رہا ہے۔یونیورسٹی میں اعزازیہ پر استاد رہے اور ‘ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی ریزرویشن بچاؤ ‘ تنظیم کے کنوینر درگا پرساد یادو کہتے ہیں کہ 2006 سے ہی یہاں پر اساتذہ کی تقرری میں من مانی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا، ‘ پہلے جب یونیورسٹی کو اکائی مانا جاتا تھا تو اس وقت کئی سارے موضوعات میں ریزرو طبقہ  کے لوگوں کے لئے تقرری ہی نہیں نکالی جاتی تھی۔  یونیورسٹی انتظامیہ کو کل ملاکر 50 فیصد کا ریزرویشن دکھانا ہوتا تھا، اس لئے وہ محض کچھ موضوعات کے لئے ریزرو لوگوں کا انتخاب کرکے مینیج کر لیتے تھے۔  ‘

درگا پرساد آگے کہتے ہیں،کئی بار ایسا کیا جاتا تھا کہ جن موضوعات کے لئے ریزرو طبقہ  کے استاد کے ملنے کے کم موقع ہوتے تھے تو وہاں پر بھاری تعداد میں ریزرو طبقہ  کی تقرری نکالی جاتی تھی۔  اس سے استاد نہ ملنے کی حالت میں اس کو این ایف ایس یعنی کہ ‘ کوئی استاد نہیں ملا ‘ کی کیٹیگری میں ڈال دیا جاتا تھا۔  اس کی وجہ سے ریزرو کوٹہ کی تقرری شروع کر دی جاتی تھی اور وہاں پر جنرل کیٹیگری کے لوگوں کی تقرری کر لی جاتی تھی۔  ‘اس کی وجہ سے شعبہ جات کو اکائی ماننے کی مانگ اٹھنے لگی تھی۔

وہیں 2010 میں کورٹ میں ایک معاملہ گیا کہ اگر او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ چار میں سے ایک سیٹ او بی سی کے لئے ہے، وہیں ایس سی کے لئے 21 فیصد ریزرویشن ہے تو ان کو پانچ میں سے ایک سیٹ ملے‌گی۔اس پر کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر درج فہرست ذات کے لئے ریاست میں 21 فیصد ریزرویشن نافذ ہے تو کہیں بھی اگر پانچ عہدوں کی تقرری نکلے‌گی تو ان میں سے ایک سیٹ ان کو ملے‌گی۔  اسی طرح اگر کہیں چار عہدے کی تقرری نکلی تو ایک عہدہ او بی سی کو دیا جائے‌گا۔

اس سے مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ اگر کہیں پر تین سیٹیں نکلتی تھیں تو وہاں پر ایک بھی ایس سی اور او بی سی کیٹیگری کے ممبر کی تقرری نہیں ہوتی تھی۔  چار یا پانچ سیٹیں نکلنے پر ہی ریزرو طبقہ  کے لوگوں کو موقع مل سکتا تھا۔اس کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔  سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیتے ہوئے معاملے کو ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا کہ وہ اس معاملے پر آخری فیصلہ دیں۔  یعنی کہ کل ملاکر ابھی یہ معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس معاملے میں ارچنا مشرا، ہیرالال اور وشوجیت نام کے تین لوگ درخواست گزار ہیں۔

آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اصول کے مطابق ریزرویشن ہمیشہ طےشدہ عہدے پر لگتا ہے نہ کہ خالی ہوئے عہدے پر۔  اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی شعبہ میں کسی عہدے کے لئے 20 پوسٹ طے کی گئی ہے تو وہاں پر 10 سیٹیں ریزرو طبقہ  کے لوگوں کے لئے ریزرو ہوں‌گی۔  اگر کبھی شعبہ میں تقرری کی جاتی ہے تو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ کل عہدہ ملاکر 10 عہدہ ریزرو طبقہ  کے لوگ ہونا چاہیے۔

حالانکہ اتر پردیش میں روسٹر کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن 19 فروری 2016 کو اس وقت کے اسپیشل سکریٹری بی بی سنگھ نے ایک  حکم نامہ منظور کیا جس میں انہوں نے کہا کہ اتر پردیش عوامی خدمت درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پچھڑا طبقہ کے لئے ریزرویشن قانون، 1994 کے مطابق درج فہرست ذات کو 21 فیصد ریزرویشن دینے کے لئے کم از کم پانچ عہدہ اور دیگر پچھڑے طبقہ  کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کے لئے کم سے کم چار عہدہ دینا ضروری ہے۔

گورکھپوریونیورسٹی (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

گورکھپوریونیورسٹی (فوٹو : دھیرج مشرا / دی وائر)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی شعبہ میں چار سے کم سیٹیں تقرری کے لئے نکلتی ہیں تو وہاں پر ریزرویشن نافذ نہیں ہوگا اور ایس سی یا او بی سی کو کوئی سیٹیں نہیں ملیں‌گی۔سکریٹری کا یہ آرڈر روسٹر اصول اور 1994 کے ایس سی / ایس ٹی ریزرویشن ایکٹ کی خلاف ورزی تھی۔  1994 میں پاس کئے گئے ایکٹ میں کہا کہ ہے کہ اس ایکٹ کے اہتماموں کو کوئی بھی  حکم نامہ یا آرڈر تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔  اگر اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کرنی ہوگی تو اس کو اسمبلی کے دونوں ایوانوں سے پاس کرانا ہوگا۔

اگر ریاستی حکومت کا سیشن نہیں چل رہا ہوگا تو اس ترمیم کو گورنر سے دستخط کراکر نافذ کروانا ہوگا۔  درگا پرساد کہتے ہیں کہ اس حکم کے ذریعے جن موضوعات میں ایس سی-او بی سی کے لئے جگہ تھی وہ جگہ ختم کر دی گئی۔بتا دیں کہ اس حکم سے پہلے ہی گورکھپور  سمیت ریاست کے کئی یونیورسٹیوں میں تقرری ہوئی تھی۔  اس وقت ایس سی اور او بی سی کے لئے سیٹوں کی تعداد زیادہ تھیں۔  لیکن سکریٹری بی بی سنگھ کے اس حکم کے بعد ریزرو زمرہ کے لوگوں کی سیٹیں بھاری تعداد میں ختم کر دی گئیں۔

درگا پرساد نے سکریٹری کے اس حکم کو کورٹ میں چیلنج دیا ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر آئینی حکم ہے اور 1994 کے ریزرویشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔  سکریٹری کا کوئی بھی ایسا حکم نہیں ہو سکتا ہے جو قانون کے اہتماموں کی خلاف ورزی ہو۔  ایس سی اور او بی سی کا حق چھیننے کے لئے یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا ہے۔

فیض آباد کی پرتما یادو کہتی ہیں،2014 میں گورکھپور  یونیورسٹی میں استاتذہ تقرری کے لئے جو درخواست نکلے تھے اس میں ہوم سائنس کے شعبہ میں دو عہدوں پر تقرری ہونی تھی۔  ایک عہدہ ایس سی کیٹیگری کے لئے اور ایک او بی سی کیٹیگری نکلا تھا۔  سکریٹری کے حکم کے بعد 2017 میں جب واپس تقرریاں نکالی گئیں تو ان دونوں عہدوں کو غیر محفوظ کیٹیگری میں ڈال دیا گیا اور ایس سی-او بی سی کے لئے موقع ختم ہو گیا۔  شعبہ کے لوگوں نے کہا کہ شعبہ میں تین عہدے ہیں اس لئے اس پر ریزرویشن نافذ نہیں ہوگا۔  ‘

جب یہ معاملہ کورٹ پہنچا تو جج نے کہا کہ چونکہ درخواست گزار امید وار نہیں ہے اس لئے ان کی عرضی منظور نہیں کی جائے‌گی اور اس کو خارج کر دیا گیا۔  اس کے بعد سیما یادو نام کی امید وار نے اس کے خلاف عرضی داخل کی۔  فی الحال یہ معاملہ اس وقت کورٹ میں ہے۔درگا پرساد کہتے ہیں،یوگی حکومت عوام کو دکھانے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو خط لکھتی ہے کہ آپ کے یہاں ایس سی / ایس ٹی کے لوگوں کو ریزرویشن کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔  جبکہ ان کو پتا ہے کہ یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے اور وہاں پر ریزرویشن نافذ نہیں ہے۔  لیکن جہاں پر ریزرویشن نافذ ہے وہاں پر ریزرو سیٹوں کو ختم کرکے جنرل کیٹیگری کے لوگوں کی تقرریاں کی جا رہی ہیں۔  ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘سرعام آئین اور اصولوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔  حکومت کو یہ نہیں دکھ رہا ہے کہ ریاست کی بہت ساری یونیورسٹیوں میں ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی کی سیٹیں ختم کی جا رہی ہیں بلکہ دکھاوا کرنے کے لئے یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نوٹس جاری کر رہی ہے۔  حکومت کو سکریٹری کے غیر آئینی حکم نامہ کو خارج کر کے تمام جگہوں پر 50 فیصد سیٹیں ریزرو طبقہ  کو دینی چاہیے۔  ‘اس وقت کے اسپیشل سیکریٹری بی بی سنگھ کے حکم نامہ کے بعد ریزرو سیٹوں پر کتنا زیادہ اثر پڑا ہے اس کا اندازہ 2014 اور 2017 میں استاتذہ تقرری کے لئے نکالے گئے اشتہارات سے لگایا جا سکتا ہے۔

15 ستمبر 2014 کو گورکھپور  یونیورسٹی میں پروفیسر کے لئے 27 عہدوں پر تقرری نکالی گئی جس میں سے سات سیٹیں درج فہرست ذات کے لئے ریزرو تھیں، لیکن کچھ وجہوں سے یہ تقرریاں اس وقت نہیں ہو پائیں۔جب اسی عہدے کے لئے 2017 میں اشتہار نکالا گیا، جس کی بنیاد پر ابھی تقرریاں ہو رہی ہیں تو اس میں ایس سی اور او بی سی کے لئے ایک بھی سیٹ نہیں دی گئی۔  اسی طرح 2014 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لئے ایس سی کو 16 اور او بی سی کی چار سیٹیں ریزرو تھیں۔

لیکن جب یہی اشتہار 2017 میں نکالا گیا تو ایس سی کے لئے چار اور او بی سی کی صرف ایک سیٹ ہی ریزرو تھی۔  وہیں اسسٹنٹ  پروفیسر کی پوسٹ کے لئے 2014 میں نکالے گئے اشتہار کی بنیاد پر ایس سی کے لئے 41 اور او بی سی کے لئے 35 سیٹیں ریزرو تھیں۔لیکن سکریٹری کے نئے حکم کے بعد جب 2017 میں تقرری کے لئے اشتہار نکالا گیا تو ایس سی کے لئے 31 اور او بی سی کے لئے 34 سیٹیں ہی ریزرو تھیں۔اس طرح سے دیکھا جائے تو تمام عہدوں کو ملاکر 2014 میں او بی سی کے لئے 39 اور ایس سی کے لئے 64 سیٹیں ریزرو تھیں لیکن 2017 میں او بی سی کو 35 اور ایس سی کو 35 سیٹیں ہی دی گئیں۔