ایک طرف ہندتوا کے علمبردارگائے کو بچانے کے نام پر کسی بھی حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر طرف بارہا بیف کو مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور گئوکشی کو جاری رکھنے کی حمایت میں کھل کر بیانات بھی دیتے ہیں۔
ایک کے بعد ایک ملک میں گائے کے نام پر اور گئو کشی کے شک یا جھوٹے الزام پر مسلمانوں کے مارے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ راجستھان کے الور میں ہوئے حالیہ واقعہ میں دودھ کے کاروبار سے وابستہ اکبر خان کا بہیمانہ قتل جس میں ہندو شدت پسند جماعتوں کے ساتھ مقامی پولیس کا رول بھی سامنے آیا ہے، ملک میں بڑھ رہی لاقانونیت کا غماز ہے۔
مگر اس کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ افراد نے اکبر کی موت پر اظہار افسوس کے بجائے اس رجحان کا یہ جواز پیش کیا کہ ‘جب تک مسلمان گائے کی تسکری یا گئو کشی بند نہیں کریں گے، یہ واقعات جاری رہیں گے’۔
چاہے آر ایس ایس کے لیڈر اندریش کا بیان ہو یا بی جے پی لیڈران ونئے کٹیار اور راجا سنگھ کا رد عمل، یہ صاف ظاہر ہے کہ بے قصور مسلمانوں کے قتل پر انکو کوئی غم نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہندو آبادی کو یہ میسیج دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان گئوکشی میں ملوث ہے اور بیف بھی کھاتا ہے، جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ویسے کسی بھی جرم کی سزا دینے کا حق بھیڑ یا ہندوتو کے زیر اثر پنپ رہے ان گروہوں کو نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آرایس ایس اور بی جے پی کے لیڈران کی سیاست بیف اور گائے کے نام پر نفرت پھیلا کر چل رہی ہے۔ ایک طرف وہ گائے کو بچانے کے نام پر کسی بھی حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر طرف بارہا بیف کو مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور گئوکشی کو جاری رکھنے کی حمایت میں کھل کر بیانات بھی دیتے ہیں۔یہ ایک حیرت انگیز تضاد ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بار بار گائے کا مدعا موضو ع بحث بنا ہے اور ہر بار آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈران نے ایسے بیانات دیے ہیں ۔ذیل میں ایسے ہی چند بیانات ہیں:
میں بیف کھاتا ہوں، میں اروناچل پردیش سے تعلق رکھتا ہوں، کون مجھے روک سکتا ہے؟– مرکزی وزیر کرن ری جیجو /May 27, 2015
بیف پر پورے ملک میں کوئی بین نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ ریاستی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ لوگوں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے فیصلے کریں-امت شاہ، بی جے پی صدر/ May 28, 2015
بیف کھانا آر ایس ایس میں شامل ہونے میں حارج نہیں ہو سکتا-منموہن ویدیہ، آر ایس ایس لیڈر/December 10, 2015
بیف کھانا کسی بھی شخص کا ذاتی فیصلہ ہے اور ‘گوا میں بیف کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائےگی- بی جے پی لیڈر منوہر پاریکر/October 12, 2015 & July 19, 2017
غریب اوسین بولٹ نے بیف کھا کر اولمپک میں میڈل جیتے—ادت راج، بی جے پی ایم پی/August 29, 2016
ہم چناؤ جیتنے پر عوام کو اچھی کوالٹی کا بیف مہیا کروائیں گے-این سری پرکاش، بی جے پی لیڈر، جنہوں نے کیرل کے ملپورم میں یہ اعلان کیا تھا۔/April 2, 2017
ہم بیف کھانے پر کبھی کوئی پابندی نہیں عائد کرینگے۔ لوگوں کے کھانے کی عادتوں میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی-لکشمی کانت پرسیکر، بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ گوا/March 21, 2015
اگر ہم اسمبلی الیکشن میں جیتے تو ہم بیف کو سستا کر دینگے-برنارڈ مراک، بی جی پی لیڈر، میگھالیہ جنہوں نے ‘بیف پارٹی’ منانے کا اعلان بعد میں کیا اور پھر پارٹی چھوڑ دی تھی۔/May 29, 2017
بی جے پی لیڈر وی مرلی دھرن نے صاف کہا تھا کہ لوگ بیف کھا سکتے ہیں۔ مرلی دھرن بی جے پی کی کیرل یونٹ کے صدر تھے۔/October 19, 2015
جہاں اکثریت بیف کھاتی ہے وہاں لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اسے بین نہیں کیا جا سکتا—بی جے پی لیڈر سنیل دیودھر، تریپورہ/March 14, 2018
حالاں کہ بی جے پی کے لیڈر مختار عباس نقوی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر کسی کو بیف کھانا ہے تو وہ پاکستان چلا جائے۔یہ صرف دس ایسے بیان ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گائے کو ماتا کہنے کے باوجود بھی ان لیڈران کو بیف سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ان کے لئے ہر طرح سے ووٹ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
شمال مشرق، گوا اور کیرل جیسے صوبوں میں بیف کو سستا بیچنے اور اچھی کوالٹی کا بیف بیچنے کا وعدہ بھی کر لیں گے۔ اور شمالی یا وسطی ہندوستان میں وہ مسلمان جو نہ بیف کھاتا ہے اور نہ ہی گئوکشی میں ملوث ہے، اس پر یہ الزام لگا دینے میں انہیں کوئی ہچک نہیں ہوتی کہ وہ گئو کشی میں شامل ہے اور اس کے قتل کو جائز تک ٹھہرا دیں گے کیوں کہ اس سے ‘پولرائزیشن’ ہوتا ہے جس سے پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔
ان لیڈران کے ایسے بیانات پر کوئی ہندوتو وادی نیتا چراغ پا نہیں ہوتا ۔ افسوس، مسلمان آج اس بے ضمیر سیاست کا شکار ہو کر بے یار و مدد گار کھڑا ہے۔گائے کے نام پر اس کی بلی چڑھائی جا رہی ہے۔ سب سے عبرت ناک بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اس دو منہ والی پالیسی پر اپوزیشن بھی کوئی طاقتور اسٹینڈ نہیں لے پاتیں ہیں اور نہ ہی وہ اس جھوٹی سیاست کو بے نقاب کر نے میں کامیاب ہیں۔
ماب لنچنگ کے ان واقعات نے نہ صرف ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیش بھکتی یا گئوبھکتی کی بات کرنے والے سیاست دانوں کا اصل چہرا کتنا کریہہ ہے۔ اپنے ہی ملک کے عوام کو دھوکا دے کر، ان میں نفرت پھیلا کر اور ان کے خون سے ہاتھ رنگنے والے لیڈران کا یہ کردار تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔
Categories: فکر و نظر