گراؤنڈ رپورٹ

اکبر کے گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ : ’میٹ ہی بیچنا ہوتا تو اکبر 60 ہزار کی گائے نہیں خریدتا ‘

اکبر کا نام ‘ رکبر ‘ نہیں، اکبر ہی ہے۔ جب وہ اپنا آدھار بنوانے گئے تھے، تو بنانے والا میواتی سمجھ نہیں  پایا اور ان کا نام ‘ رکبر ‘ لکھ دیا۔ چچا زاد بھائی نے بتایا کہ اس کو آدھار میں نام ٹھیک  کروانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ 7 بچّوں کا پیٹ پالنے والے آدمی نے سسٹم کا دیا نام قبول کر لیا۔

اکبر خان (فوٹو : جیوتی یادو)

اکبر خان (فوٹو : جیوتی یادو)

‘ اس کے دونوں پیروں کی ہڈیاں تین تین جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں، اس کے ہاتھ بھی کئی جگہ توڑے گئے تھے۔ سینہ کی ہر پسلی ٹوٹی ہوئی تھی اور گردن اس حد تک ٹوٹ چکی تھی کہ اس کا پورا سر گول گول گھوم جا رہا تھا۔ ‘ گزشتہ ہفتہ الور کے رام گڑھ میں مبینہ گئورکشکوں کی بھیڑ کا شکار اکبر خان کے چچا زاد بھائی ہارون یہ بتاتے ہیں۔ جب اکبر کے مرنے کی خبر ملی تو ان کے گاؤں کول گاؤں سے تقریباً 20 لوگ دو گاڑیوں میں وہاں پہنچے۔ ان سبھی کو صرف اس بات کا افسوس تھا کہ اکبر نے ایک فون کال کیا ہوتا تو مدد کے لئے فوراً سب پہنچ جاتے، وہ زیادہ دور بھی نہیں تھا۔

پر تبھی پیچھے سے کسی نے کہا کہ گولی چل جانے کے بعد اس کی کال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ہوگی۔ یہی اکبر کے ساتھ چل رہے اسلم کے ساتھ ہوا۔ کپاس کے کھیتوں میں چھپ‌کر جان بچانے والے اسلم بولنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ اسلم کی حالت دیکھ‌کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اپنی زندگی میں شاید ہی اب وہ اس صدمے سے باہر آ پائے اور نارمل ہو پائے۔ لنچنگ کا یہ واقعہ بھلےہی راجستھان میں ہوا ہو، پر اکبر کا گھر اور فیملی ہریانہ کے کول گاؤں کا ہے۔ دہلی سے گڑگاؤں، سوہنا کے راستے فیروزپور جھرکا پہنچ‌کر کئی لوگوں سے کول گاؤں کا راستہ پوچھا۔ سارے لوگ فوراً سمجھ گئے کہ کس واقعہ کی بات ہو رہی ہے۔ سب نے یہی کہا کہ بہت ہی برا ہوا ہے یہ، اس کے بعد ہمارا ایمان کانپ گیا ہے۔

فیروزپور سے کول گاؤں کی دوری 16 کلو میٹرہے۔ ٹیکسی ڈرائیور سعید نے بتایا کہ اکبر کے گاؤں سے 3 کلومیٹر دور ،ان کے گاؤں میں جس دن لنچنگ کی یہ خبر آئی، اس دن گاؤں میں بھی کوئی کھانا تک نہیں کھا سکا۔ اس علاقے میں زیادہ تر لوگ کھیتوں میں ہی گھر بناکر رہتے ہیں۔ پاس میں ہی اراولی کی پہاڑیاں ہیں۔ ان گاؤوں میں دیکھنے سے سب نارمل  لگ رہا تھا۔ بچے  کھیل رہے تھے۔

 کول گاؤں میں اکبر کی گلی میں آدھا گاؤں اکٹھا تھا۔ گلی میں گاڑیوں کی لائن ہے، کسی پر ضلع کاؤنسلر لکھا ہوا ہے تو کسی پر ترنگا ٹنگا ہوا ہے۔ آگے بڑھنے پر کچھ صحافی بنا پوچھے ہی اکبر کے گھر کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ اکبر کا نام رکبر نہیں، اکبر ہی ہے۔ جب اکبر اپنا آدھار بنوانے گئے تھے، تو بنانے والا میواتی بات نہیں سمجھ پایا اور ان کا نام رکبر لکھ دیا۔ گھر والے اکبر ہی بلاتے ہیں۔

اکبر کی بیوی اسمینہ (فوٹو : جیوتی یادو)

اکبر کی بیوی اسمینہ (فوٹو : جیوتی یادو)

ان کی بیوی کہاں ہیں؟ پوچھنے پر ایک چھپر  کی طرف لے جایا گیا۔ ایک کمزور جسم کی عورت بےہوش پڑی ہوئی تھی اور پچاس سے زیادہ عورتیں اس کے آس پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ اسی ہجوم کے بیچ سے دو تین عورتیں اس کو بیجنے (ایک طرح کا پنکھا) سے ہوا دے رہی تھیں۔ ‘ ہوش میں آتے ہی یہ کپڑے پھاڑ دیتی ہے اور بھاگتی ہے۔ ابتک پانچ جوڑی کپڑے پھاڑ چکی ہے ‘، ایک عورت دوسری لڑکی کو پھاڑے ہوئے کپڑے لانے کا اشارہ کرتے ہوئے بتاتی ہے۔

اکبر کی بیوی اسمینہ 7 بچوں کی ماں ہے۔ خواتین بتاتی ہیں کہ جب سے ان کو یہ خبر ملی ہے، رو رو کر بےہوش ہو جا رہی ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ان کو ایک چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ ان کا منھ کھلا ہوا تھا، کبھی مکھیاں بھنبھناتی تو کوئی خاتون زور سے ہوا کر دیتی۔ عورتیں بتا رہی تھیں کہ اب تو آنسو بھی نہیں نکل رہےہیں۔ پتہ نہیں کیسے رو رہی ہے۔ ‘ فوٹو کھینچنی ہے؟ کل سے جو لوگ آ رہے ہیں، سب فوٹو لے جا رہے ہیں۔ ‘ ایک خاتون آئیں اور اسمینہ کے دوپٹے کو ہٹاتے ہوئے بولیں، ‘ لو آپ بھی کھینچ لو فوٹو۔ ‘

اکبر کی ماں اور ساس بھی یہی بیٹھی تھیں۔ ماں کا گلا روروکر بیٹھ چکا تھا، نہ انہوں نے کوئی جواب دیا، نہ ہی کوئی رد عمل۔ اکبر کی ساس کہتیں ہیں، ‘ ہمیں انصاف چاہیے، معاوضہ کی بھیک نہیں۔ ہمارا بچہ مرا ہے۔ پھانسی کی سزا ہو۔ ‘ گھر میں ایک طرف پانی کے چھوٹےسے حوض کے پاس ایک بچی کپڑے دھو رہی تھی، یہ اکبر کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ مقامی صحافیوں نے اکبر کے ساتوں بچوں کو پکڑ پکڑ کر ایک ساتھ کھڑا کر دیا تاکہ فوٹو لی جا سکے۔

14 سال کی سب سے بڑی بیٹی سب کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی، جو جہاں کہہ دیتا، باقی بھائی بہنوں کو لےکر کھڑی ہو جاتی۔ کبھی اپنی گایوں کو چارا کھلانے بڑھتی، پھر فوراً کسی کی آواز سن کرکھڑی رہ جاتی۔ کیمرے میں دیکھنا پڑتا۔ اکبر کا سب سے چھوٹا بیٹا چپس کھا رہا تھا۔ باقی بچوں کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ غصہ یا والد کے جانے کا غم یا سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہوئی بھیڑ کے لئے کوئی چڑ چڑاہٹ  کچھ بھی نہیں۔

اکبر کے بچے  (فوٹو : جیوتی یادو)

اکبر کے بچے  (فوٹو : جیوتی یادو)

اکبر کی ساس اب رو نہیں رہی تھیں، ان کی آواز میں غصہ آ گیا تھا، ‘ اگر یہ ایک دن مزدوری پر نہ جائے تو ایسا حال ہے کہ بچّوں کو چینی والی چائے بھی نہیں پلا سکتا تھا۔ غریب آدمی تھا، مزدوری سے کام چلاتا تھا، کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا۔ ‘ سب کے پاس اکبر کی یادوں کے طور پر ایک یہی جواب تھا۔ دوست، رشتہ دار، پڑوسی سب یہی کہہ رہے تھے۔ ایسا لگا جیسے ایک بار اور کسی نے کرید‌کر اکبر کے بارے میں پوچھ لیا تو ان کے چہرے بول پڑیں‌گے، ایک غریب آدمی کی کیا یادیں ہوں‌گی؟ ہمیں اپنی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے علاوہ یادیں بنانے کا تو موقع ہی نہیں ملتا۔ کیا یادیں بتائیں آپ کو؟

ان کی زندگیوں میں صرف ایک ہی سچائی ہے کہ مزدوری کرتے ہیں اور کام چلاتے ہیں۔ فیملی کے البم کا نام  پر ان کے پاس صرف پاسپورٹ تصویریں ہیں۔ اکبر کی پہچان کے طور پر ان کا آدھار کارڈ ملا تھا، جس سے رکبر والی بات پتا چلی ۔ چچا زاد بھائی نے بتایا کہ اس کو آدھار میں نام ٹھیک کروانے  کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ 7 بچوں کا پیٹ پالنے والے آدمی نے سسٹم کا دیا نام بھی قبول  کر لیا۔ ‘ ان کا اصلی گھر کہاں ہے؟ ‘ ، پوچھنے پر جواب ملا، ‘ یہی گھر ہے۔ ‘ ادھر ادھر دیکھا لیکن گھر دکھائی نہیں دیا تو پھر پوچھا۔ پھر جواب ملا کہ یہی تو گھر ہے۔

دھیان  سے دیکھا تو صرف اینٹوں سے بنا ایک چھوٹا کمرہ، پاس میں بنا مٹی کا چولہا اور ایک ٹن کی چھت کا چھوٹاسا چھپرنما کمرہ دکھا۔

‘ کیا یہی گھر ہے؟ ‘ ، ‘ ہاں۔ ‘

‘ بچے  کہاں رہتے ہیں؟ ‘ ، ‘ یہیں۔ ‘

‘ باتھ روم؟ باورچی خانہ؟ ‘ ، ‘ سب یہی ہے۔ ‘

گھر کے درخت کے پاس ایک گائے بندھی تھی اور ساتھ میں اس کا بچھڑا۔ پاس ہی چھ سات دودھ کے کنستر رکھے تھے۔ ایک اور گائے بھی تھی، جو یہاں بھیڑ ہونے کی وجہ سے پڑوس کے گھر میں بندھی ہوئی تھی۔ یہاں بنے تین چار گھروں کی کوئی فصیل نہیں تھی، گھر کے لئے اتنی ہی زمین ہے کہ اگر فصیل بنائی گئی تو صرف فصیل ہی رہ پائے‌گی۔

اکبر کی گائے اور بچھڑا (فوٹو : شرتی جین / دی وائر)

اکبر کی گائے اور بچھڑا (فوٹو : شرتی جین / دی وائر)

گھر کے سامنے ایک ٹینٹ  لگا دیا گیا تھا، جہاں ضلع کے کاؤنسلر سے لےکر آس پاس کے نامی لوگ آ سکے۔ گاؤں کے لوگ بھی اسی  کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اس وقت سب کانگریس رہنما اشوک تنور کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ آئے اور دوسرے گاؤوں کے سرپنچ نے گئو تسکری  کے نام پر ہوئے قتل گنوائے۔ سوال کئے کہ کب تک ہم مریں‌گے؟ کیا ہم مسلمانوں کو گائے پالنے کا حق نہیں؟ ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت کو گائیں دی تھیں۔ یہ بتایا کہ میوات کے لوگوں نے تو وزیراعلیٰ کھٹر کی جیت پر گائے تحفہ  میں دی تھی ۔ یہ بھی کہا کہ ملک کے لئے میوات خون بہانے سے پیچھے نہیں رہا ہے۔

اشوک تنور نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو  نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اس مدعے  کو وقت وقت پر اٹھاتے رہے ہیں اور اب بھی اٹھائیں‌گے۔ مجرموں  کو سخت سے سخت سزا ہو۔ انہوں نے آخر میں یہ بھی کہاکہ خاموش نہیں بیٹھیں‌گے، یہ آخری موت ہے، ہم پارلیامنٹ  تک جائیں‌گے۔ ان کے جانے کے بعد ان کی بات سے سب راضی دکھے کہ ان کو معاوضہ کی بھیک نہیں چاہیے، مجرموں  کو سخت سے سخت سزا ہو۔

اکبر کا ایک کمرے کا گھر (فوٹو : جیوتی یادو)

اکبر کا ایک کمرے کا گھر (فوٹو : جیوتی یادو)

اتنےمیں سعید اور ایک دوسرے  ڈرائیور حاکم آ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ کول گاؤں سے کوئی بھی نہ فوج میں ہے، نہ پولیس، نہ ہی کسی اور سرکاری نوکری میں۔ ایک فیملی ہے جہاں دو لڑکے ٹیچر ہیں۔ کسی ایک دلت فیملی کا بیٹا کہیں ویجلنس  میں نوکری پا گیا  ہے۔ یعنی کل ملاکر مویشی پالنا  اور زراعت مزدوری کے علاوہ گاؤں کے لوگوں کے پاس روزگار کا کوئی دوسرا  ذریعہ نہیں ہے۔ گاؤں دیکھنے نکلنے پر پتا چلتا ہے کہ اس گاؤں کے ہر گھر میں گائیں  ہے۔ پورے گاؤں میں کم سے کم ہزاروں گائیں ہوں‌گی۔

دو بزرگوں نورالدین اور فخرالدین نے بتایا کہ بھینسوں کو پالنے میں خرچ زیادہ آتا ہے، اس کی خریداری بھی مہنگی ہے۔ ایک دودھارو بھینس ایک ڈیڑھ لاکھ سے کم میں نہیں ملتی۔ اس کے لئے بلونہ، دلیے  کا خرچ اٹھا پانا بھی مشکل ہے جبکہ گایوں کو پہاڑ اور کھیتوں میں چرنے چھوڑ دو تب بھی دودھ دیتی ہیں۔ گایوں کے رکھ رکھاؤ میں آنے والے کم خرچ کی وجہ سے ہی میوات کے علاقے میں گایوں کو پالنے کا چلن بہت سالوں سے ہے۔ یہاں نہ صرف الور کی طرف بلکہ ہریانہ کی ریواڑی مہیندرگڑھ کی طرف سے گائے بھینسوں کو خرید‌کر لایا جاتا ہے۔

گاؤں کے نمبر دار سے ملنے پر لنچنگ سے جڑے اور واقعات  تفصیل سے پتا چلتے  ہیں ۔ یہاں کے ہندومسلموں کے مطابق یہ پہلی موت نہیں ہے۔ ایسی لنچنگ ہوتی رہتی ہے، اتنے ہی بے رحم طریقے سے قتل ہوئے ہیں۔ لوگوں نے گزشتہ  کچھ دنوں میں ہوئے ایسے 5 اور واقعات کا بھی ذکر کیا۔ یہ واقعات مقامی اخباروں میں چھپے لیکن نیشنل  میڈیا میں سرخیاں نہیں بنا پائے۔ دو ہی واقعات ایسے رہے، پہلو خان اور اکبر خان کی موت، جن کو قومی میڈیا نے اٹھایا۔

گاؤں والوں کا الزام ہے کہ یہ سب پولیس کے تعاون  کے بغیر نہیں ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسی گاؤں کے ہی ایک مسلم نوجوان کے ساتھ بالکل ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ وہ جب الور سے گائے خرید‌کر لا رہا تھا، تو اس کے ساتھ مارپیٹ ہوئی، گائے چھین لی گئیں لیکن وہ جان بچانے میں کامیاب رہا۔ گاؤں والے بتاتے ہیں کہ جب معاملہ پولیس کے پاس گیا تو پولیس نے ملزمین کے خلاف کچھ کرنے کے بجائے نو جوان کو ہی گرفتار کرلیا۔ نو جوان پر ہی الٹا مقدمہ درج ہوا اور وہ 14 ہزار روپے  دےکر چھوٹا۔ اب بھی کیس  کی تاریخیں  چل رہی ہیں۔ہم اس نوجوان سے ملے، وہ ڈرا ہوا تھا۔ بات کرنے پر کہنے لگا کہ نہیں، کوئی بات نہیں ہے، سب ٹھیک ہے۔ سب لوگ ٹھیک ہیں، کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی، پر اب سب سلجھ گیا ہے۔

(فوٹو : جیوتی یادو)

(فوٹو : جیوتی یادو)

700 گھروں والے اس گاؤں میں زیادہ تر  آبادی مسلم ہے، لیکن گاؤں کا سرپنچ ہندو ہے۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ گاؤں میں ہندو مسلم بہت محبت سے رہتے ہیں۔ بار بار لوگ سرپنچ کو ہری رام کا بیٹا کہہ‌کر مخاطب  کر رہے تھے۔ گاؤں میں جگہ جگہ ان کا نام اور موبائل نمبر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ صرف مسلمانوں کو گائے لانے سے روکا گیا ایسا نہیں ہے۔ جب ہندو گھروں میں بات کرنی شروع کی تو ایک ہندو فیملی کا مکھیا دولت رام نے بتایا کہ ایک بار ان کو بھی رام گڑھ کے پاس گائے لاتے وقت روک لیا گیا تھا، لیکن ہندو پہچان ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ پر گدوایا اپنا نام بھی دکھایا، جس کی بدولت وہ اس روز بچ‌کے آ پائے تھے۔

ہندو فیملیوں سے بات چیت کے بعد سے یہ بات سامنے آئی کہ گائے دونوں مذہب کے لوگ خرید‌کر لاتے ہیں، لیکن چن چن‌کر مسلمانوں کو ہی مارا جا رہا ہے۔ اس کے لئے کئی گروپ فعال ہیں، جو ان غنڈوں  کو کب، کون مسلمان گائے خریدنے جا رہا ہے، یہ سب جانکاری دیتے ہیں۔گاؤں والے کہتے ہیں کہ قتل تو چھوٹا مدعا ہے، بڑا مدعا ہے روز کی زندگی۔ گائے بھی خریدنی ہیں، سامان بھی خریدنا ہے۔ یہاں سے الور ہی سب سے قریبی بڑا شہر ہے، جہاں لوگ خریداری کے لئے جاتے ہیں، لیکن 70 سال کے بزرگ سے لےکر 15 سال کے بچے  تک الور سے لےکر رام گڑھ کے راستے کا ذکر کچھ یوں کر رہے تھے مانو یہاں پنڈاری گروہ فعال رہتے ہیں۔

اکبر کے والد سلیمان (فوٹو : شرتی جین / دی وائر)

اکبر کے والد سلیمان (فوٹو : شرتی جین / دی وائر)

بات چیت کے دوران ایک نام بار بار اچھلتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اسی نام کو اس دہشت کی جڑ مانتے ہیں۔ یہ نام ہے رام گڑھ کے ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کا۔ کول گاؤں کے آس-پاس کے گاؤں کے بھی کئی لوگوں نے بتایا کہ جب جب آہوجہ کے پاس کرسی آتی ہے تب ایسی ہی وارداتیں  ہوتی ہیں۔ سب اس کے غنڈے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سالوں سے جئے پور میلا اور الور سے مویشی پروری کے لئے گائے خریدی جاتی رہی ہیں، لیکن جیسے ہی آہوجہ ایم ایل اے بنتا ہے، گئو تسکری کے نام پر قتل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب زبیر رام گڑھ سے ایم ایل اے تھے، تب یہ باتیں نہیں ہوئیں۔

لوگ دبی زبان میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت پیسہ ہے ان کے پاس۔ یہ آہوجہ وہی رہنما ہیں جنہوں نے جے این یو کے کنڈوم گنے تھے اور گائےکےپیشاب سے سونا نکالنے کی بات کی تھی اور اکثر اپنے بیانات کو لےکر تنازعہ  میں رہتے ہیں۔ لوگ مانتے ہیں کہ آہوجا جیسے رہنماؤں کی وجہ سے رام گڑھ کے غنڈے  موالی گئورکشا کی ڈھال اوڑھ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو حکومت سے غنڈہ گردی کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔

گاؤں والوں کا یہ الزام بھی ہے کہ آہوجہ غنڈہ کو پیمنٹ پر رکھتے ہیں، کوئی تو مخبری بھی کر رہا ہے ورنہ کھیت کے راستے رات کو آتے ہوئے کون کس کو دیکھنے جاتا ہے! گائے خریدنا جیسے جرم بن گیا ہے مسلموں کا۔ نکلتے ہوئے 75 سال کے نصیرالدین نے کہا، ‘ جب ہمیں گائے پالنے سے روکا جائے‌گا، ہماری روزگاری چھینی جائے‌گی تو میں ان کو کھلانے کے لئے کیا کروں‌گا؟ ہر چیز کروں‌گا، مانس بھی ماروں‌گا! ‘

وہ کہتے ہیں، ‘ جب ہمارے پاس کھانے کے لئے مرغے ہیں، بکرا ہے تو گائے کیوں کاٹیں‌گے؟ اور گائے کاٹنے والا چھپر میں رہتا ہے کیا؟ گائے کاٹنے والوں کے پاس محل ہے۔ ایک گائے کاٹ‌کے اکبر کتنا میٹ بیچ لیتا؟ ساٹھ ہزار کی گائے خرید‌کر وہ میٹ کیوں بیچے‌گا۔ کتنے کا بیچ لے‌گا؟ اگر میٹ بیچنا ہوتا تو گائے چھوڑ‌کر بھاگ جاتا۔ ساٹھ ہزار لگائے تھے اس لئے چھوڑ‌کر بھاگ نہیں پایا۔ سوچا ہوگا کہ غنڈوں  کو سمجھا لے‌گا، وہ سمجھا نہیں سکا۔ ‘

ان سب کے باوجود یہاں کے مقامی لوگ مانتے ہیں کہ میوات میں ہندو مسلم یکجہتی جیسی ہے، ویسی کہیں نہیں ملے‌گی۔ لوگ بس اسی کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو خراب کر دیں‌گے تو شاید ان کے دل کو چین  مل جائے‌گا۔

( جیوتی یادو آزاد صحافی ہیں۔ )