دی بوائے ان دی اسٹرپڈ پاجاماز: کمال کی فلم ہے، جس کو ہم ہندوستانیوں کا دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے، کیونکہ آج ہم پر بھی اس وقت کے نازی سماج کی طرح سوچنے کا دباؤ ہے۔
پورے جرمنی میں جب نسلی تشدد کا طوفان تھا، نازی کیمپوں میں لوگ مکئی کے دانوں کی طرح بھنے جا رہے تھے، تب ایک پورا نازی سماج تھا، جو خاموش تھا۔ جیسے اس وقت ہمارے ملک میں گئو کشی کی افواہ میں کوئی بھیڑ کسی آدمی کو مار ڈالتی ہے اور ڈھیر سارے لوگ سوشل میڈیا پر اس قتل کے حق میں دلیلیں شیئر کرتے ہیں۔ ہماری حکومت چونکہ ایسا چاہتی ہے، اس لئے وہ خاموش رہتی ہے۔ بلکہ جینت سنہا جیسے رہنما تو مالا پہناکر قاتلوں کا استقبال بھی کرنے لگے ہیں۔ ہٹلر نے باضابطہ کیمپ بنوائے تھے، جس میں یہودیوں کو پہلے قید کیا جاتا تھا، پھر ان کا قتل عام کیا جاتا تھا۔
ان دنوں جرمنی میں ایسی کتابیں آگئی تھیں، جو چیخ چیخ کر لوگوں کو اور بچوں کو بتا رہی تھی کہ یہودیوں کی وجہ سے ملک میں غریبی ہے اوربدامنی ہے۔ یہ بھی کہ یہودی ایک جابر کمیونٹی ہے۔ جیسے اس وقت مسلمانوں کے بارے میں یہ گھٹی پلائی جا رہی ہے کہ وہ پیدائشی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ فاشزم کی ایسی زمین تیار کی جا رہی ہے، جس کا مستقبل بہت خوفناک دکھتا ہے۔ ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہٹلر کا کیا ہواتھا، جس نے ایسی شرم جرمن شہریوں کو تحفے میں دی کہ آج تک لوگ اس سے باہر نہیں آپائے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کی زمین پر اتر آئے بربریت کے بادل کا سایہ اب تک محفوظ ہے تاکہ حال کو ہمیشہ یاد رہے کہ ماضی کا خنجر واپس نہیں نکالنا ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں ہیں، ڈھیر ساری فلمیں ہیں۔ ڈھیر ساری کتابوں پر بنی ڈھیر ساری فلمیں ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم ہے، دی بوائے ان دی اسٹرپڈ پاجاماز۔ دھاری دار پاجاموں والا لڑکا۔ اسی نام سے جان بائنے کی کتاب ہے، جس پر بنی یہ فلم 2008 میں ریلیز ہوئی تھی۔ شنڈلرس لسٹ کے پندرہ سال بعد بنی اس فلم میں کیمپ کے باہر کی ویرانی ہے، جلتے ہوئے مردوں سے اٹھتے دھوئیں کی بو ہے اور نازی فوجی کی فیملی ہے اور حال پر فخر کرنے والی دلیلیں ہیں۔
یہ آٹھ سال کے اس بچہ برنی کی کہانی ہے، جس کی دوستی کیمپ کے باڑ پر اسی کی عمر کے ایک یہودی بچہ سیموئل کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے چھپکر ملنے جاتا ہے، اس کے لئے کھانا اور کھلونے لےکر جاتا ہے۔ سرحد کی طرح بنی باڑ کے دونوں طرف سے ڈھیر سارے معصوم سوال ہیں اور ڈھیر سارے خوفناک جواب ہیں۔ کمال کی فلم ہے، جس کو ہم ہندوستانیوں کا دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے، کیونکہ آج ہم پر بھی اس وقت کے نازی سماج کی طرح سوچنے کا دباؤ ہے۔
ابھی ہمارے وزیر اعظم روانڈا گئے تھے۔ وہی روانڈا، جہاں کی حکومت نے 1994 میں اکثریتی ہوتو شہریوں سے التجا کی تھی کہ تمام اقلیتی تتسی شہریوں کا قتل کر دو۔ اس کے اگلے تین مہینوں میں تقریباً آٹھ لاکھ لوگ مار دئے گئے تھے۔ ہٹلر نے تو کیمپ بنائے تھے اور دنیا بھر میں یہ مشتہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان کیمپ میں تمام طرح کی خوشی اور سہولیات ہیں۔ ایسی ہی ایک پروپگینڈہ فلم دی بوائے ان دی اسٹرپڈ پاجاماز کے کچھ حصے میں دکھائے گئے ہیں، جس کو چھپکر برنی بھی دیکھتا ہے۔ لیکن سیموئل کے حالات جب ایک دم سے الگ دیکھتا ہے، تو کچھ سمجھ نہیں پاتا۔
ہندی کے نو جوان افسانہ نگار چندن پانڈے نے فیس بک پر یوگانڈا میں سنہ 94 کے قتل عام پر لکھی ایک کتاب Machete Season (کلہاڑیوں کا موسم) سے ایک ہوتو قاتل ایلی کا بیان اخذ کیا ہے، جو بتاتا ہے کہ اگر آج ہم زہر بوئیں گے، تو کل نہیں تو پرسوں اس کا اثر ہونا ہی ہے۔
میرے خیال سے 1994 والے قتل عام کا خیال 1959 میں پیدا ہوا، جب ہم نے بڑی تعداد میں تتسیوں کا قتل کیا۔ اس کے بعد کبھی ہم نے اپنی خواہش کو نہیں دبایا۔ کئی بار ہم آپس میں بتیاتے تھے کہ تتسی لوگ راستے کی پریشانی ہیں، لیکن یہ چوبیسو ںگھنٹے چلنے والا خیال نہیں تھا۔ ہم اس کے بارے میں باتیں کرتے تھے، پھر اس کو بھول بھی جاتے تھے۔ ہم نے انتظار کیا۔ جو قتل ہم نے کئے، اس کی کوئی مخالفت ہمیں کبھی نہ دکھائی دی، نہ سنائی پڑی۔ پھر تو جیسا کہ فصلوں کے ساتھ ہوتا ہے، ہم نے صحیح موسم کا انتظار کیا۔
ویڈیو: فلم کا خلاصہ
ایسے بیان اور دی بوائے ان دی اسٹرپڈ پاجاماز جیسی فلموں کو ہندوستان جیسے ممالک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلانا چاہیے تاکہ حکومت اور فرقہ وارانہ طاقتوں کی طرف سے چھوڑی جانے والی بدبودار افواہیں جلکر راکھ ہو سکیں۔