عوام کہتی ہے ہماری مانگ ہے مہنگائی بند ہو، منافع خوری بند ہو، تنخواہ بڑھے، استحصال بند ہو، تب ہم اس سے کہتے ہیں کہ نہیں، تمہاری بنیادی مانگ گئورکشا ہے۔ یہ آندولن عوام کو الجھائے رکھنے کے لئے ہے۔
[آج جب گائے کو لےکر خوب ہو ہلا ہو رہا ہے، ایسے میں مشہور طنز و مزاح نگار ہری شنکر پرسائی یاد آتے ہیں۔ ‘ ایک گئوبھکت سے بھینٹ ‘ کے عنوان سے لکھے اپنے طنزیہ مضمون میں انہوں نے انتخابی گئوبھکتوں کی خوب خبر لی ہے۔ ]
ایک شام ریلوے اسٹیشن پر ایک سوامی جی سے ملاقات ہو گئی۔ اونچے، گورے اور تگڑے سادھو تھے۔ چہرہ لال۔ گیروے ریشمی کپڑے پہنے تھے۔ پاؤں میں کھڑاؤں۔ ہاتھ میں سنہری موٹھ کی چھڑی۔ ساتھ میں ایک چھوٹے سائز کا نوجوان سنیاسی تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹرانزسٹر تھا اور وہ گرو کو رفیع کے گانے سنوا رہا تھا۔
میں نے پوچھا -سوامی جی، کہاں جانا ہو رہا ہے؟
سوامی جی بولے- دہلی جا رہے ہیں، بچہ!
میں نے کہا- سوامی جی، میری کافی عمر ہے، آپ مجھے ‘ بچہ ‘ کیوں کہتے ہیں؟
سوامی جی ہنسے۔ بولے؛ بچہ، تم دنیاوی لوگ ہوٹل میں ساٹھ سال کے بوڑھے بیرے کو ‘ چھوکرا ‘ کہتے ہو نہ! اسی طرح ہم تم دنیاوی لوگوں کو بچہ کہتے ہیں۔ یہ دنیا ایک بڑا باورچی خانہ ہے جس میں ہم کھانے والے ہیں اور تم پروسنے والے ہو۔ اسی لئے ہم تم کو بچہ کہتے ہیں۔ برا مت مانو۔ خطاب محض ہے۔ سوامی جی بات سے دلچسپ لگے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ بھی بنچ پر پالتھی مارکر بیٹھ گئے۔ خادم کو گانا بند کرنے کے لئے کہا۔
کہنے لگے -بچہ، مذہبی جنگ چھڑ گئی۔ گئورکشا آندولن تیز ہو گیا ہے۔ دہلی میں پارلیامنٹ کے سامنے ستیہ گرہ کریںگے۔ میں نے کہا- سوامی جی، یہ آندولن کس لیے چلایا جا رہا ہے؟
سوامی جی نے کہا تم بیوقوف معلوم ہوتے ہو، بچہ! ارے گائے کی حفاظت کرنی ہے۔ گائے ہماری ماتا ہے۔ اس کا قتل ہو رہا ہے۔
میں نے پوچھا- قتل کون کر رہا ہے؟
وہ بولے -ملحد قصائی۔
میں نے کہا -ان کو قتل کرنے کے لئے گائے کون بیچتے ہیں؟ وہ آپ کے مذہبی گئوبھکت ہی ہیں نہ؟
سوامی جی نے کہا- سو تو ہے۔ پر وہ کیا کریں؟ ایک تو گائے بےکار کھاتی ہے، دوسرے بیچنے سے پیسے مل جاتے ہیں۔
میں نے کہا- یعنی پیسے کے لئے ماتا کا جو قتل کرا دے، وہی سچا گئوپجاری ہوا!
سوامی جی میری طرف دیکھنے لگے۔ بولے دلیل تو اچھی دے لیتے ہو، بچہ! پر یہ دلیل کی نہیں، جذبات کی بات ہے۔ اس وقت جو ہزاروں گئو بھکت آندولن کر رہے ہیں، ان میں شاید ہی کوئی گائے پالتا ہو پر آندولن کر رہے ہیں۔ یہ جذبات کی بات ہے۔
سوامی جی سے بات چیت کا راستہ کھل چکا تھا۔ ان سے جم کر باتیں ہوئیں، جس میں تتوا منتھن ہوا۔ جو تتو پریمی ہیں، ان کے لیے مفید گفتگو نیچے دے رہا ہوں۔
سوامی جی اور بچہ کی بات چیت
سوامی جی، آپ تو گائے کا دودھ ہی پیتے ہوںگے؟
نہیں بچہ، ہم بھینس کے دودھ کا استعمال کرتے ہیں۔ گائے کم دودھ دیتی ہے اور وہ پتلا ہوتا ہے۔بھینس کے دودھ کی بہترین گاڑھی ملائی اور ربڑی بنتی ہے۔
تو کیا سبھی گئو بھکت بھینس کا دودھ پیتے ہیں؟
ہاں، بچہ، تقریباً سبھی ۔
تب تو بھینس کی حفاظت کے لئے آندولن کرنا چاہیے۔ بھینس کا دودھ پیتے ہیں، مگر ماتا گائے کو کہتے ہیں۔ جس کا دودھ پیا جاتا ہے، وہی تو ماتا کہلاےگی۔
یعنی بھینس کو ہم ماتا…نہیں بچہ، دلیل ٹھیک ہے، پر جذبات دوسری چیز ہے۔
سوامی جی، ہر انتخاب سے پہلے گئوبھکتی کیوں زور پکڑتی ہے؟ اس موسم میں کوئی خاص بات ہے کیا؟
بچہ، جب انتخاب آتا ہے، تب ہمارے رہنماؤں کو گئوماتا خواب میں دکھائی دیتی ہے۔ کہتی ہے بیٹا انتخاب آ رہا ہے۔ اب میری حفاظت کا آندولن کرو۔ ملک کی عوام ابھی بیوقوف ہے۔ میری حفاظت کا آندولن کرکے ووٹ لے لو۔ بچہ، کچھ سیاسی جماعتوں کو گئوماتا ووٹ دلاتی ہے، جیسے ایک جماعت کو بیل ووٹ دلاتے ہیں۔ تو یہ رہنما ایک دم آندولن چھیڑ دیتے ہیں اور ہم سادھوؤں کو اس میں شامل کر لیتے ہیں۔ ہمیں بھی سیاست میں مزہ آتا ہے۔ بچہ، تم ہم سے ہی پوچھ رہے ہو۔ تم تو کچھ بتاؤ، تم کہاں جا رہے ہو؟
سوامی جی میں ‘ انسان کے تحفظ کے آندولن ‘ میں جا رہا ہوں۔
یہ کیا ہوتا ہے، بچہ؟
سوامی جی، جیسے گائے کے بارے میں، میں بیوقوف ہوں، ویسے ہی انسان کے بارے میں آپ ہیں۔
پر انسان کو کون مار رہا ہے؟
اس ملک کے انسان کو سوکھا مار رہا ہے، قحط مار رہا ہے، مہنگائی مار رہی ہے۔ انسان کو منافع خور مار رہا ہے، کالا بازاری مار رہی ہے۔ کرپٹ حکومتی نظام مار رہا ہے۔ حکومت بھی پولیس کی گولی سے چاہے جہاں انسان کو مار رہی ہے۔ بہار کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔
بہار؟ بہار شہر کہاں ہے بچہ؟
بہار ایک صوبہ ہے، ریاست ہے۔
اپنے جمبودیپ میں ہے نہ؟
سوامی جی، اسی ملک میں ہے، ہندوستان میں۔
یعنی آریا ورت میں؟
جی ہاں، ایسا ہی سمجھ لیجیے۔ سوامی جی، آپ بھی انسانی تحفظ کے آندولن میں شامل ہو جائیے نہ!
نہیں بچہ، ہم سَنت آدمی ہیں۔ ہم سے یہ نہیں ہوگا۔ ایک تو انسان ہماری نظر میں بہت ناچیز ہے۔ وہ لوگ ہی تو ہیں، جو کہتے ہیں، مندروں اور مٹھ میں لگی جائیداد کو حکومت لے لے۔ بچہ، تم انسان کو مرنے دو۔ گائے کی حفاظت کرو۔ کوئی بھی جانور انسان سے بہتر ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے ہو، گئورکشا کے جلوس میں جب جھگڑا ہوتا ہے، تب انسان ہی مارے جاتے ہیں۔ ایک بات اور ہے، بچہ! تمہاری بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حفاظت کے لئے منافع خور اور کالابازاری سے برائی لینی پڑےگی۔ یہ ہم سے نہیں ہوگا۔ یہی لوگ تو گئورکشا آندولن کے لئے رقم دیتے ہیں۔ ہمارا منھ مذہب نے بند کر دیا ہے۔
خیر، چھوڑئیے انسان کو۔ گئورکشا کے بارے میں میرے علم میں اضافہ کیجئے۔ ایک بات بتائیے، فرض کر لیجئے کہ آپ کے برآمدے میں گیہوں سوکھ رہا ہے ۔ تبھی ایک گئوماتا آکر گیہوں کھانے لگتی ہے۔ آپ کیا کریںگے؟
بچہ؟ ہم اس کو ڈنڈا مارکر بھگا دیںگے۔
پر سوامی جی، وہ گئوماتا ہیں نا۔ پوجا کرنے لائق ہیں ۔ بیٹے کا گیہوں کھانے آئی ہیں۔ آپ ہاتھ جوڑکر استقبال کیوں نہیں کرتے کہ آ ماتا، میں احسان مند رہوں گا۔ سب گیہوں کھا جا۔
بچہ، تم ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو؟
نہیں، میں آپ کو گئوبھکت سمجھتا تھا۔
سو تو ہم ہیں، پر اتنے بیوقوف بھی نہیں ہیں کہ گائے کو گیہوں کھا جانے دیں۔
پر سوامی جی، یہ کیسی پوجا ہے کہ گائے ہڈی کا ڈھانچہ لئے ہوئے محلے میں کاغذ اور کپڑے کھاتی پھرتی ہے اور جگہ جگہ پٹتی ہے!
بچہ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ہمارے یہاں جس کی پوجا کی جاتی ہے اس کی حالت بد تر کر ڈالتے ہیں۔ یہی سچی پوجا ہے۔ عورت کو بھی ہم نے پوجا کے لائق مانا اور اس کی جیسی بدتر حالت کی سو تم جانتے ہی ہو۔
سوامی جی، دوسرے ممالک میں لوگ گائے کی پوجا نہیں کرتے، پر اس کو اچھی طرح رکھتے ہیں اور وہ خوب دودھ دیتی ہے۔
بچہ، دوسرے ممالک کی بات چھوڑو۔ ہم ان سے بہت اونچے ہیں۔دیوتا اسی لئے صرف ہمارے یہاں اوتار لیتے ہیں۔دوسرے ممالک میں گائے دودھ کے استعمال کے لئے ہوتی ہے، ہمارے یہاں وہ فساد کرنے، آندولن کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ ہماری گائے اور گایوں سے الگ ہے۔
سوامی جی، اور سب مسئلہ چھوڑکر آپ لوگ اسی ایک کام میں کیوں لگ گئے ہیں؟ اسی سے سب ہو جائےگا، بچہ! اگر گئورکشا کا قانون بن جائے، تو یہ ملک اپنےآپ دولتمند ہو جائےگا۔ پھر بادل وقت پر پانی برسائیںگے، زمین خوب اناج دےگی اور کارخانے بنا چلے بھی پیداوار کریںگے۔ مذہب کی شان وشوکت کو تم نہیں جانتے۔ ابھی جو ملک کی بربادی ہے، وہ گائے کی بے عزتی کا نتیجہ ہے۔
سوامی جی، مغرب کے ممالک گائے کی پوجا نہیں کرتے، پھر بھی دولتمند ہیں؟
ان کا خدا دوسرا ہے بچہ۔ ان کا خدا اس بات کا خیال نہیں کرتا۔
اور روس جیسے اشتراکی ملک بھی گائے کو نہیں پوجتے، پر دولتمند ہے؟
ان کا تو خدا ہی نہیں بچہ۔ ان کو پاپ نہیں لگتا۔
یعنی خدا رکھنا بھی ایک جھنجھٹ ہی ہے۔ وہ ہر بات کی سزا دینے لگتا ہے۔
دلیل ٹھیک ہے، بچہ، پر جذبہ غلط ہے۔
سوامی جی، جہاں تک میں جانتا ہوں، عوام کے من میں اس وقت گئورکشا نہیں ہے، مہنگائی اور اقتصادی استحصال ہے۔ عوام مہنگائی کے خلاف آندولن کرتی ہے۔ وہ تنخواہ اور مہنگائی بھتہ بڑھوانے کے لئے ہڑتال کرتی ہے ۔ عوام اقتصادی انصاف کے لئے لڑ رہی ہے اور ادھر آپ گئورکشا آندولن لےکر بیٹھ گئے ہیں۔ اس میں تُک کیا ہے؟
بچہ، اس میں تک ہے۔ دیکھو، عوام جب اقتصادی انصاف کی مانگ کرتی ہے، تب اس کو کسی دوسری چیز میں الجھا دینا چاہیے، نہیں تو وہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ عوام کہتی ہے ہماری مانگ ہے مہنگائی بند ہو، منافع خوری بند ہو، تنخواہ بڑھے، استحصال بند ہو، تب ہم اس سے کہتے ہیں کہ نہیں، تمہاری بنیادی مانگ گئورکشا ہے۔بچہ، اقتصادی انقلاب کی طرف بڑھتی عوام کو ہم راستے میں ہی گائے کے کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔ یہ آندولن عوام کو الجھائے رکھنے کے لئے ہے۔
سوامی جی، کس کی طرف سے آپ عوام کو اس طرح الجھائے رکھتے ہیں؟
عوام کی مانگ کا جن پر اثر پڑےگا، اس کی طرف سے۔ یہی مذہب ہے۔ ایک مثال دیتے ہیں۔ ایک دن ہزاروں بھوکے لوگ کاروباری کے گودام میں بھرے اناج کو لوٹنے کے لئے نکل پڑے۔ کاروباری ہمارے پاس آیا۔ کہنے لگا سوامی جی، کچھ کیجئے۔ یہ لوگ تو میرا سارا جمع سرمایہ لوٹ لیںگے۔ آپ ہی بچا سکتے ہیں۔ آپ جو کہیںگے، خدمت کریںگے۔
بس بچہ، ہم اٹھے، ہاتھ میں ایک ہڈی لی اور مندر کے چبوترہ پر کھڑے ہو گئے۔ جب وہ ہزاروں بھوکے گودام لوٹنے کا نعرہ لگاتے آئے، تو میں نے ان کو ہڈی دکھائی اور زور سے کہا کسی نے بھگوان کے مندر کو ناپاک کر دیا۔ وہ ہڈی کسی پاپی نے مندر میں ڈال دی۔ ملحد ہمارے مندر کو ناپاک کرتے ہیں۔ ، ہمارے مذہب کو تباہ کرتے ہیں۔ ہمیں شرم آنی چاہیے۔ میں اسی لمحہ سے یہاں بھوک ہڑتال کرتا ہوں۔ یہ تبھی ٹوٹےگا، جب مندر کی پھر سے پتائی ہوگی اور ہون کرکے اس کو دوبارہ پاک کیا جائےگا۔
بس بچہ، وہ عوام آپس میں ہی لڑنے لگی۔ میں نے ان کا نعرہ بدل دیا۔ جب وہ لڑ چکے، تب میں نے کہا قابل تعریف ہے اس ملک کی مذہبی عوام! قابل تعریف ہے اناج کے کاروباری سیٹھ امک جی! انہوں نے مندر کو پاک کرنے کا سارا خرچ دینے کو کہا ہے۔ بچہ جس کا گودام لوٹنے وہ بھوکے جا رہے تھے، اس کی جے بولنے لگے۔ بچہ، یہ ہے مذہب کی شان وشوکت۔ اگر اس عوام کو گئو رکشاآندولن میں نہ لگائیںگے تو یہ بینکوں کو نیشنلائز کرنے کا آندولن کرےگی، تنخواہ بڑھوانے کا آندولن کرےگی، منافع خوری کے خلاف آندولن کرےگی۔ اس کو بیچ میں الجھائے رکھنا مذہب ہے، بچہ۔
سوامی جی، آپ نے میرے علم میں بہت اضافہ کیا۔ ایک بات اور بتائیے۔ کئی ریاستوں میں گئورکشا کے لئے قانون ہے۔ باقی میں نافذ ہو جائےگا۔ تب یہ آندولن بھی ختم ہو جائےگا۔ آگے آپ کس بات پر آندولن کریںگے۔
ارے بچہ، آندولن کے لئے بہت موضوعات ہیں۔ شیر درگا کی سواری ہے۔ اس کو سرکس والے پنجرے میں بند کرکے رکھتے ہیں اور اس سے کھیل کراتے ہیں۔ یہ غیر مذہبی ہے۔ سب سرکس والوں کے خلاف آندولن کرکے، ملک کے سارے سرکس بند کروا دیںگے۔ پھر بھگوان کا ایک اوتار متسیاوتار (مچھلی) بھی ہے۔ مچھلی بھگوان کی علامت ہے۔ ہم ماہی گیروں کے خلاف آندولن چھیڑ دیںگے۔ حکومت کا مچھلی پالن محکمہ (فیشریز محکمہ) بند کروائیںگے۔
سوامی جی، الو لکشمی کی سواری ہے۔ اس کے لئے بھی تو کچھ کرنا چاہیے۔
یہ سب اسی کے لئے تو کر رہے ہیں، بچہ! اس ملک میں الو کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ وہ مزے میں ہے۔
اتنےمیں گاڑی آ گئی۔سوامی جی اس میں بیٹھکر چلے گئے۔ بچہ وہیں رہ گیا۔