اندریش کماراور ان جیسوں کے رد عمل پر حیرت نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر جھوٹ گڑھ رہے ہیں اور ان کے ارد گرد بیٹھے مدرسوں کے فارغین عالم فاضل لوگ خاموش ہیں تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے۔
اندریش کمار آر ایس ایس کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ابھینو بھارت جیسی دہشت گرد تنظیم بنائی تھی تاکہ ملک میں انتشار پھیلا کر منتخب شدہ آئینی حکومت کا تختہ پلٹا جائے اور اس کی جگہ ہندوستان میں ہندو راشٹر قائم کیا جائے۔2008 میں جب کرنل پروہت اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر وغیرہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے تو ان کے دیگر ساتھیوں کے جو نام سامنے آئے ان میں ایک نام اندریش کمار کا بھی تھا۔وہی اندریش کمار مسلم راشٹریہ منچ کے روح رواں ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے وہ بیف یعنی گائے کے گوشت کو لے کر ایک جھوٹ پھیلانے میں لگے ہیں۔
ان کے تازہ ترین بیان میں ان کے روایتی جھوٹ کے علاوہ ایک دھمکی بھی شامل ہے۔24 جولائی کو رانچی میں ہندو جاگرن منچ کے ایک دفتر کا افتتاح کرتے ہوئےانہوں نے کہا ہے کہ اگر لوگ بیف کھانا چھوڑ دیں تو ماب لنچنگ جیسے واقعات ختم ہو سکتے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ “کوئی بھی مذہب گائے کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ چاہے وہ عیسائی مذہب ہو یا اسلام ۔عیسائی مذہب میں ‘مقدس گائے’ کی بات کہی گئی ہے اور اسلام کی بات کریں تو مکّہ اور مدینہ میں آج بھی گایوں کو مارنے پر پابندی عائد ہے۔”
Isaa (Jesus) dharti par gaushala mein aaye, isliye waha mother cow bolte hain. Mecca Madina mein gaye ka vadh apradh maante hain. Kya hum sankalp nahi kar sakte ki dhara,manavta ko is paap se muqt karaein.Agar muqt ho jaaye to aapki samasya(mob lynching) ka hal ho jaayega:I Kumar pic.twitter.com/AyrMKnLznO
— ANI (@ANI) July 24, 2018
پتہ نہیں کس بے خبر نے اُنھیں یہ خبر دی ہے۔مکہ اور مدینہ ہی نہیں پورے سعودی عرب میں ہر جگہ گائے ذبح ہوتی ہے اور اس کا گوشت کھلے عام بکتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہندوستان اور دیگر غریب ملک کے باشندے وہ گوشت کم ہی خریدتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ نہیں خریدتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ایسا وہ کسی کے ڈر سے نہیں بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی جیب اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔میں نے سعودی عرب میں سالوں گزارے ہیں۔مجھے یاد نہیں آتا ہے کہ میں نے یا میرے کسی ہندوستانی یا پاکستانی ساتھی نے کبھی وہاں گائے کا گوشت خریدا ہو۔ہاں ممبئی اور کراچی سے درآمد کیا ہوا “بیف” یا “مٹن” ضرور خریدا جاتا تھا۔مگر عام طور پر ایشیائی تارکین وطن کی پوری آبادی ‘چکن’ کی دیوانی تھی۔اس کی وجہ صرف اور صرف ایک تھی؛ان کی معاشی حالت۔چکن کے مقابلے میں گائے کا تازہ گوشت پانچ گنا مہنگا تھا۔یہ صورت حال آج بھی قائم ہے۔
میں نے اندریش کمار کا بیان پڑھنے کے بعد دبئی اور جدّہ میں آجکل کی قیمتیں معلوم کیں۔مقامی طور پر گائے کا گوشت اوسطاً پچاس ریال/درہم فی کلو ہے یعنی ہندوستانی 900روپے جبکہ فرانس اور آسٹریلیا وغیرہ سے درآمد کیا گیا فروزن چکن اوسطاً دس ریال/درہم فی کلو ہے [ہندوستانی 180 روپے]۔مقامی طور پر ذبح کی ہوئی مرغی خریدی جائے تو اوسطاً تیرہ ریال/درہم فی کلو [ہندوستانی 234 روپے]۔اسی طرح ہندوستان اور پاکستان سے درآمد کیا گیا فروزن یا چلڈ بیف اور مٹن پچیس سے تیس اور بعض جگہوں پر چالیس ریال/درہم فی کلو ملتا ہے۔
اندریش کمار جیسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آنی چاہیے کہ جب انسان کا کام دس ریال یا تیرہ ریال میں چل جاتا ہو تو وہ تیس ریال یا پچاس ریال کیوں خرچ کرے گا۔انسان کی فوڈ ہیبٹ اشیا کی فراہمی اور اس کی قیمت سے جڑی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہندوستان کا ہے۔یہاں بھی مسلمانوں کی فوڈہیبٹ گزشتہ پچیس سالوں میں کافی حد تک بدل چکی ہے۔ پہلے مسلمان گھروں میں عام طور پر “بڑے” کا یعنی گائےیا بھینس کا گوشت کھایا جاتا تھا۔اب بہت حد تک چکن نے اس کی جگہ لے لی ہے۔شادیوں میں بھی زیادہ تر چکن سے ہی مہمانوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔جو پیسے والے ہیں وہ مٹن کا انتظام بھی کرتے ہیں۔
یہی نہیں، مسلمان محلوں میں چھوٹے سے چھوٹے ہوٹل میں بڑے کے سالن کے ساتھ چکن کی بنی ہوئی چیزیں تقریباً اسی قیمت پر مل جاتی ہیں جس میں بڑے کی چیزیں۔ بھلا ہو پولٹری فارمز کی روز افزوں پیداوار کا کہ اب بڑے کے گوشت اور مرغی کے گوشت کی قیمت برابر ہو چکی ہے۔ جب تک ہمارا انحصار صرف دیسی مرغی پر تھا مرغ کھانا ریاست کی نشانی ہوا کرتی تھی۔اب کسی کو مرغ کھلانا “خاطر” نہیں مانا جاتا ورنہ ایک زمانہ تھا کہ داماد گھر آئے تو اس کے لئے خاص طور پر مرغ منگوایا جاتا تھا۔
اندریش کمارجیسے لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان گائے یا بھینس کا گوشت کسی کی دل آزاری کے لئے نہیں بلکہ اپنی غریبی کی وجہ سے کھاتا ہے۔مجھے آج تک ایسا کوئی مسلمان نہیں ملا – نہ یہاں نہ سعودی عرب میں – جو پیسے والا ہو اور بڑے کا گوشت کھانے پر اصرار کرتا ہو سوائے اس کے کہ کباب جیسی کوئی مخصوص ڈش اس کے سامنے ہو۔
دراصل تمام بحث کی جڑ وہ مخصوص ذہنیت ہے جس کی نمائندگی اندریش کمار کرتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے، انہیں نفسیاتی طور پر دباؤ میں رکھنے اور گئو کشی کا الزام لگا کر ان کی جان تک لے لینے کا کوئی موقعہ آر ایس ایس کے لوگ نہیں گنواتے ہیں۔گزشتہ چار سالوں میں بھیڑ کو اکسا کر جتنے مسلمان مارے گئے ہیں اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ہے۔یہی نہیں اخلاق سے لے کر پہلو خان اور اب ہاپُڑ میں قاسم تک کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد انھیں گائے کا اسمگلر بتایا جاتا ہے اور ان کے خاندان والوں پر مقدمہ تھوپا جاتا ہے، اور تو اور ماب لنچنگ میں ملوث ان کے نامزد قاتلوں پر ہلکے دفعات لگا کر رہا کر دیا جاتا ہے۔
اندریش کمار نے اب ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ مسلمان گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیں تو ماب لینچنگ رک جائے گی۔ اس میں پوشیدہ دھمکی قابل غور ہے۔ان کا بیان 17 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند دن بعد ہی آیا ہے۔کورٹ نے بہت ہی سخت الفاظ میں ماب لینچنگ کے واقعات کا نوٹس لیا ہے۔اندریش کمار کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ جتنا خون بہہ چکا ہے وہ کافی نہیں ابھی مزید کے لئے تیار رہو۔
اندریش کمار جو کہ ان دنوں داڑھی والے مسلمانوں کے جھُرمٹ میں رہتے ہیں کافی دنوں سے بے سر پیر کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح کا بیان کافی دنوں سے دے رہے ہیں۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ انھیں ایسے مسلمانوں کا ساتھ بھی ملا ہوا ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔لکھنؤ سے وسیم رضوی نے ان کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلمانوں کو مشوره دیا ہے کہ وہ بیف کھانا چھوڑ دیں۔وسیم رضوی متنازعہ بیانات دے کر اہل اقتدار کو خوش کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ان کے اور ان جیسوں کے رد عمل پر حیرت نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اندریش کمار قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر جھوٹ گڑھ رہے ہیں اور ان کے ارد گرد بیٹھے مدرسوں کے فارغین عالم فاضل لوگ خاموش ہیں تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے۔
Categories: فکر و نظر