ریاست میں ہرکوئی مراٹھا ریزرویشن کی بات کر رہا ہے۔ فڈنویس حکومت نے مراٹھا ریزرویشن پر صلاح مشورہ کرنے کے لئے کئی کمیٹیاں قائم کی ہیں۔ لیکن کسی بھی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کو دئےریزرویشن کی بات نہیں کی ۔ یہاں تک کہ 2015 میں مسلم ریزرویشن کو لےکر مارچ کا انعقاد کرنے والے امتیاز جلیل بھی اس بار اپنی مانگ قانون ساز مجلس کی میز پر پوری طاقت کے ساتھ نہیں رکھ پائے۔
گزشتہ سال مہاراشٹر میں مراٹھا مورچہ کے تحت سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی مانگ کی گئی۔ جگہ جگہ ہوتے آندولن میں مسلمانوں نے مراٹھا ریزرویشن کی حمایت کرکے ریزرویشن کو سپورٹ کیا۔ کوپرڈی واقعہ سے دکھی ہوکر مسلم کمیونٹی ملزموں کے خلاف کھڑی رہی۔معاملہ یہیں تک محدود نہیں تھا، بلکہ مہاراشٹرین مسلمان مراٹھوں کی عزت کرتے ہوئے اپنی حفاظت کے لئے ان کے سایے تلے کھڑا رہا۔ گزشتہ چند سالوں سے ہندوستانی مسلمان بی جے پی اور ان کی معاون تنظیم کی نفرت بھرے رویے سے پریشان ہیں، کئی جگہ اس پر حملے کئے گئے، اس کو جان سے مارا گیا، پھر بھی وہ عدم تشدد کے راستے پر قائم رہے۔
لو جہاد، گھرواپسی، ماب لچنگ سے دکھی مسلم کمیونٹی مراٹھو ں کے ساتھ جڑکر اپنے آپ کو محفوظ محسوسکر رہا تھا۔ مراٹھا ریزرویشن کی مانگ کو سپورٹ کر کےکورٹ کے ذریعے دئے گئے 5 فصدی ریزرویشن کے لئے اتفاق اور پریشر گروپ بنانا یہ بھی ایک مقصد تھا۔ مراٹھا مورچہ کے ساتھ ہی مسلم کمیونٹی نے ریاستی سطح پر ریزرویشن کو لےکر بڑے بڑے مارچ نکالے۔پر وہ کسی مذہبی تنظیم کے ذریعے ہائی جیک کرکے انہوں نے اپنے ایجنڈے کی سیاہی پوت دی۔ ریزرویشن کی مانگ کے ساتھ کئی مذہبی تنظیمیں اپنے ایجنڈوں کے ساتھ راستے پر تھے۔
خیر…ان دنوں مراٹھا کرانتی مورچہ کی وجہ سے قانون ساز مجلس میں مراٹھا ریزوویشن کو لےکر بحث چلتی رہی، تمام مراٹھا کمیونٹی کے اسمبلی ممبروں نے ریزرویشن کی مانگ کو الگ الگ طرح سے پیش کیا، لیکن مسلم ایم ایل اے کو چھوڑ دیں تو کسی نے بھی مسلم ریزرویشن پر اپنی بات نہیں رکھی۔ممبئی ہائی کورٹ کے ذریعے دیا گیا مسلم ریزرویشن بی جے پی حکومت نے ختم کر دیا۔ مراٹھوں کو اپنا ریزرویشن سرکلر کے ذریعے مل چکا تھا، وہ مسلمانوں کے متعلق سوتیلے رویے پر خاموش رہے۔کسی نے بھی ہائی کورٹ کے ذریعے دیے گئے مسلم ریزرویشن کے بارے میں اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا، مسلم ایم ایل اے نے کچھ حد تک اپنی بات رکھی، پر وہ بھی ناکام رہے۔
سال بھر بعد پھر ایک بار مراٹھا ریزروویشن کو لےکر آندولن اور سیاست تیز ہو گئی ہے، مہاراشٹر میں جگہ جگہ پر مراٹھا کمیونٹی کے جوان اپنی مانگوں کو لےکر مشتعل آندولن کر رہے ہیں۔ حکومت ریزرویشن دینے پر راضی ہے۔ پر اس بار بھی کسی نے مسلم ریزرویشن کو لےکر کوئی مدعا نہیں اٹھایا ہے۔ اس بات مسلم تنظیمیں خفا ہیں۔ مسلم ریزروویشن کو لےکر مہاراشٹر میں کئی سالوں سے پر سکون طریقے سے آندولن چل رہے ہیں۔ کسی بھی تنظیم نے مشتعل آندولن نہیں کیا ہے، کیونکہ ان کو پتاہے کہ وہ اگر تشدد آمیز آندولن کرتے ہیں تو بے گناہ ہوکر بھی سالوں سال جیل میں سڑتے رہیںگے کوئی حزب مخالف یا مسلمانو ں کا حمایتی ان کو چھڑانے نہیں آئے گا ۔
گزشتہ 4 سال سے مسلم تنظیم ریزرویشن کو لےکر آندولن کر رہے ہیں۔ لیکن ان تنظیموں کی مخالفت حکومت کے رویے کے خلاف نعروں تک ہی محدود رہی، آئینی معاملے کو آگے لےکر کسی نے بھی بات نہیں کہی، جو بھی ایم ایل اے یا پھر تنظیم ،مسلم ریزرویشن کو لےکر بات کرتے تھے، وہ مسلم کمیونٹی کو گمراہ کر رہے تھے۔ وہ تنظیم اور نمائندے بس اپنی اپنی قیادت کی سیاست چمکا رہے ہیں۔ لیکن ایک بات اس بڑے پیمانے پر آندولن سے ثابت ہوئی ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں میں ریزرویشن اور اپنے حقوق کے متعلق مستعدی بڑھی ہیں۔ اور جگہ جگہ حقوق اور اختیارات کو لےکر لوگ کھڑے ہوتے رہے۔
1995 میں مہاراشٹر میں مسلم او بی سی آندولن چل نکلا۔ اس آندولن کے پیچھے دانشور اصغرعلی انجینئر ، پرپھل بڈوئی، فخرالدین بینور جیسے لوگ تھے۔ اس آندولن نے پورے ہندوستان میں پس ماندہ مسلمانوں کے سوالوں کو نشان زد کیا۔ اس آندولن سے پہلی دفعہ مسلمانوں کے ذات پر مبنی حقوق کی مانگ سامنے آئی۔ جس کو لےکر ملک بھر میں کافی ہنگامہ ہوا۔ دی ہندو سے لےکر ایکسپریس، ٹائمس میں اس موضوع کو لےکر مضمون لکھے گئے۔ مراٹھی میں بھی فخرالدین بینور نے اس موضوع کو لےکر خوب لکھا۔ کچھ وقت کے بعد اس آندولن میں ولاس سوناونے، شبیر انصاری جیسے لوگ جڑے۔ کچھ ہی وقت میں مسلم او بی سی تحریک نے سیاسی حلقے میں ہلچل مچا دی۔ ریاستی حکومتوں پر دباؤ بڑھا، جس کی وجہ سے حکومت نے آندولن میں پھوٹ ڈالی۔
نوے کی دہائی میں شمال میں پسماندہ مسلمانو ں کی تحریک چل رہی تھی، جس کے مفروضہ سے مہاراشٹر میں مسلم او بی سی تحریک چل نکلی۔ بڑھتے دباؤ کی وجہ سے مہاراشٹر حکومت نے کچھ مانگیں قبولکر لی۔ نوے کی دہائی سے مسلمانوں کے حقوق کو لےکر کئی جگہوں پرتحریک ہوتی رہی۔ واجپئی کی بی جے پی دورحکومت میں متوسط طبقہ کے مسلمان بھی اپنے حقوق کو لےکر محتاط رہے۔ نتیجے کے طور پر لوگ راستو ں پر آتے رہے، 2005 میں یو پی اے حکومت اقتدار میں آئی، مسلمانوں کے سماجی صورت حال کا مطالعہ کرنے کا کام حکومت نے ہاتھ میں لیا۔حکومت نے اقلیتی کمیونٹی کے لئے 15 نکاتی پروگرام کااعلان کیا۔ صدر جمہوریہ نے بھی پارلیامنٹ کے جوائنٹ سیشن کو خطاب کرتے ہوئے اقلیتی فلاح و بہبود کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے سچر کمیٹی کی تشکیل کی۔ اس کمیٹی نے مہاراشٹر میں او بی سی تحریک کی سفارشیں اپنی رپورٹ میں درج کرائی۔ 2006 میں سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ کمیٹی نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات کہی تھی۔ اس رپورٹ کو لےکر پورے ملک میں سیاست تیز ہو گئی، بی جے پی نے کانگریس پر مسلم اپیزمنٹ کا الزام لگایا، جس سے ڈرکر حکومت نے رپورٹ کو ٹھنڈے بکسے کے حوالے کر دیا۔
2007 میں آندھر حکومت نے مسلم کمیونٹی کی 15 پسماندہ برادریوں کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 4فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں مسلم اپیزمنٹ کی الزام تراشی چلتی رہی ۔ مہاراشٹر میں بھی مسلم ریزرویشن کو لےکر آندولن ہوتا رہا۔ مسلمانوں کی بڑھتی مانگو ں کے لےکر سیاسی ہلچل تیز ہوتی دیکھکر یو پی اے-2 حکومت نے 15 نکاتی پروگرام کی سفارش کو عمل میں لانے کا اعلان کر دیا۔2014 میں مہاراشٹر کی کانگریس اور این سی پی حکومت نے مسلمانوں کو 5 اور مراٹھوں کو 16 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس بار لگا کہ مراٹھوں کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن دیا تو ہندوؤں کی مخالفت نہیں ہوگی اور یہ ریزرویشن ٹک جائے گا ، مراٹھے اس کی حفاظت کریںگے۔ لیکن افسوس ایسا ہوا نہیں، ممبئی ہائی کورٹ نے ریزرویشن کی مخالفت کرنے والی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے اگلی سماعت تک حکومت کے اس فیصلے کے خلاف روک لگا دی۔
اس پر صرف مراٹھا ریزرویشن کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن مسلمانوں کے حقوق کو لےکر کسی مراٹھا یا غیرمراٹھا ایم ایل اے نے مسلم ریزرویشن کو لےکر اپنا رول نہیں رکھا۔ 2017 میں تلنگانہ میں پس ماندہ مسلمانوں کو 12 فیصد ریزرویشن دیا۔ اس کے ساتھ دوسری پس ماندہ ذاتوں کا ریزرویشن بھی بڑھایا، یہاں بی جے پی کے علاوہ کئی غیرمسلم ایم ایل اے نے مسلمانوں کے ریزروویشن کی حمایت کی۔جس کے بعد مہاراشٹر میں چھٹ پٹ طور پر مسلم ریزرویشن کی مانگیں بڑھتی رہی ہیں۔ سینئر کارکن فخرالدین بینور کی قیادت میں مہاراشٹر مسلم ریزروویشن تحریک نام کی ایک تنظیم بنی، جنہوں نے ریزرویشن کی مانگو ں کو لےکر ریاستی سطح پر عوامی جلسے کئے۔ 2015 میں ایم آئی ایم کے ایم ایل اے امتیاز جلیل کی قیادت میں بیڈ شہر میں مسلم ریزرویشن کو لےکر بڑا آندولن کیا گیا ۔ لیکن حکومت نے اس کو نظرانداز کیا۔ تب سے الگ الگ تنظیموں کے ذریعے مسلمانو ں کے ریزرویشن کو لےکر آندولن ہوتے رہے۔
2016 میں مہاراشٹر ‘ مراٹھا کرانتی مورچہ ‘ کے تحت مراٹھا کمیونٹی راستوں پر تھا۔ کوپرڈی معاملہ کے ریپسٹ کو کڑی سزا کے ساتھ دیگر مانگیں بھی ان مورچہ کے ذریعے کی جا رہی تھیں۔ ان مانگوں میں چھوٹے کسانوں کے مسئلہ کو اہم جگہ دی گئی تھی، کچھ وقت کے بعد سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی مانگ ان مانگوں کے ساتھ جوڈ دی گئی۔ سال بھر مورچہ کا بخار پورے مہاراشٹر میں بڑھتا گیا۔ مراٹھا کمیونٹی کا دباؤ کام آ گیا، حکومت نے کچھ مانگو ں کو مان لیا، جس کے نتیجے میں’ سارتھی ‘ نام کے ادارے کا جنم ہوا۔ اس سرکاری خود مختار ادارہ کے تحت مراٹھا کمیونٹی کے طلبہ کو الگ الگ سہولتیں عطا کی گئیں، اس کے علاوہ چھوٹے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لئے مائیکرو قرض سہولت دستیاب کرائی گئی۔ اس تحریک کو مسلمانوں کی بڑی حمایت حاصل تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ مراٹھے بھی مسلمانوں کے ریزرویشن کی مانگوں کی حمایت کریں ۔ لیکن یہ ہوا نہیں۔
ریاست میں ہرکوئی مراٹھا ریزرویشن کی بات کر رہا ہے۔ فڈنویس حکومت نے مراٹھا ریزرویشن پر صلاح مشورہ کرنے کے لئے کئی کمیٹیاں قائم کی ہیں۔ مختلف کمیونٹی کے ایم ایل اے قانون ساز مجلس میں مراٹھا ریزرویشن دینے پر راضی ہوئے ہیں۔ لیکن کسی بھی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کو دئےریزرویشن کی بات نہیں کی ۔ یہاں تک کہ 2015 میں مسلم ریزرویشن کو لےکر مارچ کا انعقاد کرنے والے امتیاز جلیل بھی اس بار اپنی مانگ قانون ساز مجلس کی میز پر پوری طاقت کے ساتھ نہیں رکھ پائے۔اس بار کے مراٹھا آندولن میں شیوسینا نے الگ الگ بیان بازی کر کے میڈیا کو اپنی طرف کھینچے رکھا۔ اب سینا نے مسلم ریزروویشن کی حمایت کی ہے، سوموار کو شیوسینا صدر اودھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ‘ حکومت کو مراٹھا ہی نہیں دھن گر اور مسلم کمیونٹی کو بھی ریزرویشن دینے پر غور کرنا چاہیے۔ ‘ شیوسینا ایک ہندووادی پارٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ لیکن اب وہ مسلمانوں کو تعلیمی اداروں میں 5 فیصدی ریزرویشن دینے کی وکالت کر رہی ہے۔ حالانکہ ان کے منصوبے ابھی صاف طور پر باہر نہیں آ پائے ہیں۔
مسلمانوں کی مخالفت کر کے کئی سالوں سے ممبئی میں اقتدار میں بیٹھی شیوسینا اچانک مسلمانوں کی حمایتی کیسے بنی۔ ظاہر ہے شیوسینا نے بی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے یہ بیان دیا ہے۔ غور طلب ہے کہ 2014 میں شیوسینا کی ہی حکومت نے مسلم اور مراٹھا ریزرویشن کوختم کیا تھا۔ حزب مخالف الزام لگاتا ہے کہ ‘ حکومت نے جان بوجھ کر ریزرویشن کو لےکر ٹھیک طریقے سے کورٹ میں خط نہیں پیش کیا ‘ اب وہی اقتدار کی معاون پارٹی مسلم اور مراٹھا ریزرویشن دینے کی بات کر رہی ہے۔ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے مہاراشٹر میں مراٹھا ریزروویشن کو لےکر تحریک چل رہی ہے، لیکن افسوس ! کسی نے بھی مسلمانوں کے ریزروویشن کے بارے میں کچھ کہا نہیں ہے۔ مراٹھا کا مسلمانوں کے متعلق یہ رویہ دیکھ کر مراٹھا ریزرویشن کو حمایت دینے والی مسلم تنظیمیں سکتے میں آ گئ ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان 2014 میں لایا گیا ریزرویشن سرکلر جلدبازی میں لانے کی بات ذاتی طور پر قبولکر چکے ہیں۔ لیکن آج تک انہوں نے مسلم ریزرویشن پالیسی کو لےکر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا ہے۔
فڈنویس جب اپوزیشن میں تھے، تب انہوں نے کہا تھا، ‘ ہم اقتدار میں آتے ہی مراٹھا-مسلم کا این ران کر (ختم) دیںگے ‘۔ اقتدار میں آتے ہی فڈنویس حکومت نے مسلم ریزرویشن کو ختم کیا، لیکن مراٹھا کے دباؤ کی وجہ سے ان کے ریزرویشن کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ہائی کورٹ کے ذریعے دیا گیا مسلم ریزرویشن بی جے پی نے رد کیا، لیکن افسوس! ترقی پسند تحریک کا مورچہ تھامے اب کانگریس اور این سی پی چپ رہی، کیا یہی ہے ترقی پسند نظریہ؟ اور کہاں ہے ترقی پسندیت کا ڈھنڈورا پٹنے والے مراٹھا رہنما؟
Categories: فکر و نظر