فیک نیوز:گزشتہ ہفتے کچھ ایسی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جوقابل یقین نہ تھیں اور خوفزدہ کرنے والی تھیں۔یہ تصویریں نہ صرف ہندوستان میں شئیر کی گئیں بلکہ عالمی سطح پر فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارموں کا استعمال کرنے والے افراد نے بھی ان تصویروں کو حیرت کے ساتھ شئیر کیا۔
سیاست کا یہ پہلا اصول ہوتا ہے کہ اپنے مخالف لیڈر یا اس کی پارٹی کی خامیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور یہی اصول پارلیامانی جمہوری نظام کی اساس بھی ہے جہاں اپوزیشن پارٹیاں رولنگ پارٹی کی خامیوں پر بحث کرتی ہیں۔ اب تک یہ سب تنقید کے سہارے ادب کے دائرے میں ہوتا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا کی دستک، آن لائن ٹرولس اور سیاسی پارٹیوں کے آئی ٹی سیل وجود میں آجانے کے بعد تنقید کی جگہ تصادم نے لے لی ہے ! اب سیاسی رہنماؤں کی تنقید نہیں کی جا رہی ہے بلکہ ان کو ذلیل کیا جا رہا ہے !
ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب راہل گاندھی کی ایک تصویر فیس بک اور ٹوئٹر پر بہت زیادہ عام ہوئی ۔تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ راہل گاندھی لوگوں کے ہجوم کے درمیان کھڑے ہیں اور اپنے موبائل فون میں خاتون کی فحش تصویریں دیکھ رہے ہیں۔یہ تصویر راہل گاندھی کے کردار کو پامال کرنے کی کوشش تھی اور تصویر کے ساتھ لکھا تھا ، ‘تصویر کبھی جھوٹ نہیں بولتی، دیکھو راہل گاندھی کیا کر رہا ہے’۔سب سے پہلے یہ تصویر بروز پیر ایک فیس بک پیج پر عام کی گئی جس کا نام ‘Yogi Sarkar’ ہے۔ راہل گاندھی کی اس تصویر کو تقریباً5 ہزار لوگوں نے لائک کیا اور8 ہزار لوگوں نے شئیر کیا ! اس تصویر کو ‘یوگی سرکار’ نامی اس پیج سےاب ڈیلیٹ کر دیا گیا گیا ہے، جو یہاں آرکائیو میں دستیاب ہے۔
سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے انکشاف کیا کہ راہل گاندھی کی یہ تصویر جھوٹی ہے جس کو فوٹوشاپ سے بنایا گیا ہے۔ اصل تصویر میں راہل گاندھی کے ہاتھ میں ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ہیں۔یہ تصویر نومبر2016 کی ہے جب پرائم منسٹر نریندر مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا اور 5سو سے ہزار کے پرانے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ انہی دنوں میں راہل گاندھی بھی چند کرنسی نوٹ لیکر بینک کی لائن میں لگے تھے۔اصل تصویر گیٹی امیجز پر بھی موجود ہے۔فوٹوشاپ کی مدد سے اس تصویر میں کرنسی نوٹوں کی جگہ ایک خاتون کی نیم برہنہ تصویر لگا دی گئی تھی۔
گزشتہ ہفتے کچھ ایسی تصویریں سوشل میڈیا میں عام ہوئیں جوقابل یقین نہ تھیں اور خوفزدہ کرنے والی تھیں۔یہ تصویریں نہ صرف ہندوستان میں ہی شئیر کی گئیں تھی بلکہ عالمی سطح پر فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارموں کا استعمال کرنے والے افراد نے بھی ان تصویروں کو حیرت کے ساتھ شئیر کیا۔تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خنزیر نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جو انسانی بچے کی طرح ہے اور اس کی شکل خنزیر کی طرح ہے۔تصویر کے تعلق سے لوگوں نے مختلف رائے پیش کی۔بعض افراد نے اس کو خدا کی قدرت قرار دیا تو کچھ حضرات نے اسے شیطانی دخل بھی کہا ! لوگوں کا ایک طبقہ یہ بھی خیال رکھتا تھا کہ انسان نے اپنی تمام اخلاقی حدیں پار کر دی ہیں اور اس نے جانوروں اور خنزیروں کے ساتھ جسمانی تعلق بنانے شروع کر دئیے ہیں جس کا نتیجہ یہ مخلوق ہے جو انسان اور خنزیر کا مکسچر ہے ! لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تصویریں فوٹو شاپ کا کمال ہیں اور ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا !
سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے معاملے کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ وہ تصویریں بلا شبہ سچی تصویریں ہیں، ان کو فوٹو شاپ سے تیار نہیں کیا گیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سچی تصویروں میں جو مخلوق دکھائی گئی ہے، وہ دراصل نقلی ہے،مصنوعی ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ مخلوق سلیکن ربڑ سے بنی ہوئی ہے اور اطالوی فنکارہ لائیرا میگنکو نے اسے اپنے ہنر کی بدولت انجام دیا ہے۔لائیرا میگنکواپنے اس ہنر کے لئے فنکاروں کی دنیا میں کافی مشہور ہیں اور اپنی ان حیرت انگیز تخلیقات کو آن لائن فروخت کرتی ہیں۔موجودہ تصویر کو انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر بھی شئیر کیا تھا۔ اس طرح سوشل میڈیا میں عام کی گئی خنزیر کے بچے کی تصویر محض ایک فن کا مظاہرہ تھا، وہ حقیقی مخلوق نہیں تھی۔
کینیڈا کے فنکار ڈریک گراہم (Drake Graham) نے گزرے ماہ اپنا ایک میوزک ویڈیو جاری کیا تھا جو دنیا بھر میں مقبول ہوا۔اس ویڈیو کو عرف عام میں ‘کیکی چیلنج’ کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ماجرا یہ ہے کہ ویڈیو میں ڈریک ایک کار میں بیٹھے ہیں اور KeKe! Do You Love Me گاتے ہوئے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل جاتے ہیں اور کار کے ساتھ ساتھ سڑک پر رقص کرتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔چلتی ہوئی کار سے اچانک اتر جانا اور جسم کا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے رقص کرنا بڑی بات ہے۔ڈریک کے اسی فن کو ‘کی کی چیلنج’ کہا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں لوگ ان کی نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسی نقل کی وجہ سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جب وہ ایسا کرتے وقت زخمی ہو گئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا نے 30جولائی کو اسی کے تعلق سے ایک خبر اپنے پرنٹ اور آن لائن اخبار میں شائع کی۔انہوں نے لکھا کہ پنجاب کا پولیس محکمہ کی کی چیلنج کی وجہ سے فکرمند ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ایک ویڈیو کو اپنی ویب سائٹ پر اس خبر کے ساتھ شائع کیا تھا اور پرنٹ ایڈیشن میں اس ویڈیو کی تصویر شائع کی تھی۔ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک نوجوان لڑکا ڈریک کا وہ نغمہ گاتے ہوئے کار کے دروازے کی طرف آ رہا ہے، لیکن جیسے ہی کار کے نزدیک پہنچتا ہے، وہ زمین پر گر جاتا ہے.
بوم لائیوکے مطابق ٹائمز اف انڈیا نے جس ویڈیو کو اپنی نیوز کی تائید میں استعمال کیا ہے ، وہ جھوٹی ہے۔اصل ویڈیو میں کار موجود نہیں ہیں جبکہ اس جھوٹی ویڈیو میں کار کے دروازے کا جیکٹ یعنی سانچہ سافٹ ویئر کی مدد سے لگایا گیا ہے۔اور ویڈیو میں موجود نوجوان لڑکا شاہد علی ہے جو اپنی کامیڈی ویڈیو میں جان بوجھکر گرتا ہے۔جب لوگوں نے ٹائمز آف انڈیا کی خبر کو دیکھا تو انہوں نے آگاہ کیا کہ یہ ویڈیو جعلی ویڈیو ہے۔اصل ویڈیو (جس میں گالیاں موجود ہیں):
ہمارے آج کے فیک نیوز راؤنڈ اپ کی شروعات میں ہم نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کس طرح لیڈران کی شخصیت اور کردار کو پامال کیا جاتا ہے !اب اپنے راؤنڈ اپ کے اخیر میں ہم کو معلوم ہوگا کہ کس طرح کسی کے شخصی فضائل بیان کرکے کیسے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔
چنڈی گڑھ کانگریس نے اپنے ٹوئٹرپر ایک ویب سائٹ کی خبر شئیر کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو جاپان نےدنیا کا سب مضبوط پی ایم قرار دیا ہے، ان کو جاپان کے سب سے بلند شہری اقبال The Grand Cordon of the Order of the Paulownia Flowers سے نوازا ہے۔چنڈی گڑھ کانگریس کی طرح ہی فیس بک اور ٹوئٹر پر لوگوں نے اس خبر کو بہت شئیر کیا اور نریندر مودی کو مقابل رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایوارڈ مودی کو نہیں مل سکتا تھا۔
بوم لائیوے نے انکشاف کیا کہ :
- بیشک، جاپان حکومت نے منموہن سنگھ کو The Grand Cordon of the Order of the Paulownia Flowersسے نوازاہے لیکن ان کو یہ ایوارڈ2014 میں دیا گیا تھا، فی الحال ان کو ایسا کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا ہے۔
- منموہن سنگھ کو The Grand Cordon of the Order of the Paulownia Flowersاعزاز دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ جاپان نے منموہن کو سب سےطاقتور اور مضبوط پرائم منسٹر کہا ہے۔
لہٰذا منموہن سنگھ کے تعلق سے کیا گیا دعویٰ جھوٹا تھا۔ اور چنڈی گڑھ کانگریس کا یہ کارنامہ سیاست میں شخصیت پرستی کا ہی نمونہ قرار دیا جائیگا ! یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کو منموہن سنگھ خود بھی برداشت نہیں کریں گے۔
Categories: خبریں