اپنے اس مضمون میں ماسٹراسٹروک پروگرام کے اینکررہے پنیہ پرسون باجپئی ان واقعات کے بارے میں تفصیل سے بتا رہے ہیں جن کی وجہ سےاے بی پی نیوز چینل کے منیجمنٹ نے مودی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ آپ وزیر اعظم نریندر مودی کا نام نہ لیں۔ آپ چاہیں تو ان کے وزرا کا نام لے لیجئے۔ حکومت کی پالیسیوں میں جو بھی گڑبڑی دکھانا چاہتے ہیں، دکھا سکتے ہیں۔ وزارت کے حساب سے وزیر کا نام لیجئے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا ذکر کہیں نا کیجئے۔لیکن جب وزیر اعظم مودی خودہی ہر اسکیم کا اعلان کرتے ہیں۔ ہر وزارت کے کام کاج سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں اور ان کے وزیر بھی جب ان کا ہی نام لےکر اسکیم یا سرکاری پالیسیوں کا ذکر کر رہے ہیں تو آپ کیسے مودی کا نام ہی نہیں لیںگے۔
ارے چھوڑ دیجئے کچھ دنوں تک دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ویسے آپ ٹھیک کر رہے ہیں لیکن ابھی چھوڑ دیجئے۔ہندوستان کے آنندبازار پتریکا گروپ کے نیشنل نیوز چینل اے بی پی نیوز کے پروپرائٹر جو ایڈیٹر ان چیف بھی ہیں ان کے ساتھ یہ مکالمہ 14 جولائی کو ہوا۔یوں تو اس ہدایت کو دینے سے پہلے خاصی لمبی بات چیت خبروں کو دکھانے، اس کے اثر اور چینل کو لےکر بدلتے نظریات کے ساتھ ہو رہے فائدے پر بھی ہوئی۔
ایڈیٹر ان چیف نے مانا کہ ‘ماسٹراسٹروک ‘پروگرام نے چینل کی ساکھ بڑھا دی ہے۔ خود ان کے الفاظ میں کہیں تو، ‘ماسٹراسٹروک میں جس طرح کی ریسرچ ہوتی ہے جس طرح خبروں کو لےکر گراؤنڈ زیرو سے رپورٹنگ ہوتی ہے۔رپورٹ کے ذریعے حکومت کی پالیسیوں کا پورا خاکہ رکھا جاتا ہے۔ گرافکس اور اسکرپٹ جس طرح لکھی جاتی ہے، وہ چینل کی تاریخ میں پہلی بار انہوں نے بھی دیکھا۔ ‘
تو چینل کی بدلتی شکل یا خبروں کو پیش کرنے کے انداز نے پروپرائٹر اور ایڈیٹر ان چیف کو پرجوش تو کیا پر خبروں کو دکھانے اور بتانے کے انداز کی تعریف کرتے ہوئے بھی لگاتار وہ یہ کہہ بھی رہے تھے اور بتا بھی رہے تھے کہ کیا سب کچھ چلتا رہے اور وزیر اعظم مودی کا نام نا ہو تو کیسا رہےگا؟
خیر، ایک لمبی گفتگو کے بعد سامنے ہدایت یہی آئی کہ وزیر اعظم مودی کا نام اب چینل کی اسکرین پر لینا ہی نہیں ہے۔
تمام سیاسی خبروں کے درمیان یا کہیں حکومت کی ہر اسکیم کے مدنظر یہ بےحد مشکل کام تھا کہ ہندوستان کی بےروزگاری کا ذکر کرتے ہوئے کوئی رپورٹ تیار کی جا رہی ہو اور اس میں حکومت کے روزگار پیدا کرنے کے دعوے جو کوشل وکاس یوجنایامدرا اسکیم سے جڑی ہو، ان اسکیموں کی زمینی حقیقت کو بتانے کے باوجود یہ نہ لکھ پائیں کہ وزیر اعظم مودی نے اسکیموں کی کامیابی کو لےکر جو دعویٰ کیا وہ ہے کیا؟
یعنی ایک طرف وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کوشل وکاس یوجنا کے ذریعے جو اسکل ڈیولپمنٹ شروع کیا گیا اس میں 2022 تک کا ٹارگیٹ تو 40 کروڑ نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کا رکھا گیا ہے۔ پر 2018 میں ان کی تعداد دو کروڑ بھی چھو نہیں پائی ہے۔اور گراؤنڈ رپورٹ بتاتی ہے کہ جتنی جگہوں پرکوشل وکاس یوجنا کے تحت مرکز کھولے گئے ان میں سے ہر دس مرکز میں سے 8 مرکز پر کچھ نہیں ہوتا۔ تو گراؤنڈ رپورٹ دکھاتے ہوئے کیوں وزیر اعظم کا نام آنا ہی نہیں چاہیے؟
تو سوال تھا ماسٹراسٹروک کی پوری ٹیم کی قلم پر سے وزیر اعظم نریندر مودی لفظ غائب ہو جانا چاہیے پر اگلا سوال تو یہ بھی تھا کہ معاملہ کسی اخبار کا نہیں بلکہ نیوز چینل کا تھا۔یعنی اسکرپٹ لکھتے وقت قلم چاہے وزیر اعظم نریندر مودی نہ لکھے لیکن جب حکومت کا مطلب ہی گزشتہ چار سال میں صرف نریندر مودی ہے تو پھر حکومت کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹنگ مشین ہی نہیں بلکہ لائبریری میں بھی صرف وزیر اعظم مودی کے ہی ویڈیو ہوںگے۔اور 26 مئی 2014 سے لےکر 26 جولائی 2018 تک کسی بھی ایڈیٹنگ مشین پر مودی حکومت ہی نہیں بلکہ مودی حکومت کی کسی بھی اسکیم کو لکھتے ہی جو وڈیڈیو یا تصویروں کا کچا چٹھا ابھرتا اس میں 80 فیصدی وزیر اعظم مودی ہی تھے۔
یعنی کسی بھی ایڈیٹر کے سامنے جو تصویر اسکرپٹ کے مطابق لگانے کی ضرورت ہوتی اس میں بنا مودی کے کوئی ویڈیو یا کوئی تصویر ابھرتی ہی نہیں۔اور ہر منٹ جب کام ایڈیٹر کر رہا ہے تو اس کے سامنے اسکرپٹ میں لکھے، موجودہ حکومت لفظ آتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہی تصویر ابھرتی اور آن ایئر ‘ ماسٹراسٹروک ‘ میں چاہے کہیں بھی وزیر اعظم مودی لفظ بولا سنا نہ جا رہا ہو پر اسکرین پر وزیر اعظم مودی کی تصویر آ ہی جاتی۔
تو ‘ ماسٹراسٹروک ‘ میں وزیر اعظم مودی کی تصویر بھی نہیں جانی چاہیے اس کا فرمان بھی 100 گھنٹے گزرنے سے پہلے آ جائےگا یہ سوچا تو نہیں گیا پر سامنے آ ہی گیا۔ اور اس بار ایڈیٹر ان چیف کے ساتھ جو گفتگو شروع ہوئی وہ اس بات سے ہوئی کہ کیا واقعی حکومت کا مطلب وزیر اعظم مودی ہی ہے۔یعنی ہم کیسے وزیر اعظم مودی کی تصویر دکھائے بنا کوئی بھی رپورٹ دکھا سکتے ہیں۔ اس پر ہمارا سوال تھا کہ مودی حکومت نے چار سال کے دوران 106 اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ اتفاق سے ہر اسکیم کا اعلان خود وزیر اعظم نے ہی کیا ہے۔
ہر اسکیم کی تشہیرو توسیع کی ذمہ داری چاہے الگ الگ وزارت پر ہو۔ الگ الگ وزیر پر ہو۔ لیکن جب ہر اسکیم کی تشہیرو توسیع میں ہرطرف سے ذکر وزیر اعظم مودی کا ہی ہو رہا ہے تو اسکیم کی کامیابی اور ناکامیابی پر گراؤنڈ رپورٹ میں بھی ذکر وزیر اعظم کا چاہے نامہ نگار اور اینکر نہ لیں لیکن اسکیم سے متاثر لوگوں کی زبان پر نام تو وزیر اعظم مودی کا ہی ہوگا اور لگاتار ہے بھی۔
چاہے کسان ہو یا حاملہ خاتون، بےروزگار ہو یا کاروباری۔ جب ان سے فصل بیمہ پر پوچھے یاوندنا اسکیم یا جی ایس ٹی پر پوچھے یا کرنسی اسکیم پر پوچھے یا تو اسکیموں کے دائرے میں آنے والا ہرکوئی وزیر اعظم مودی کا نام ضرور لیتا۔ کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے یہ کہتا تو ان کی باتوں کو کیسے ایڈٹ کیا جائے۔
تو جواب یہی ملا کہ کچھ بھی ہو پر ‘وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر اور ویڈیو بھی ماسٹراسٹروک میں دکھائی نہیں دینی چاہیے۔ ‘
ویسے یہ سوال اب بھی مبہم سا تھا کہ آخر وزیر اعظم مودی کی تصویر یا ان کا نام بھی زبان پر نا آئے تو اس سے ہوگا کیا؟ کیونکہ جب 2014 میں اقتدار میں آئی بی جے پی کے لئے حکومت کا مطلب نریندر مودی ہے۔ بی جے پی کے اسٹار پرچارک کے طور پر وزیر اعظم مودی ہی ہیں۔سنگھ کے چہرے کے طور پر بھی پرچارک رہے نریندر مودی ہیں۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی غیرملکی پالیسی کے برانڈ ایمبیسڈر نریندر مودی ہیں۔ ملک کی ہر پالیسی کے مرکز میں نریندر مودی ہیں تو پھر درجن بھر ہندی نیشنل نیوز چینلوں کی بھیڑ میں پانچویں اور چھٹے نمبر کے نیشنل نیوز چینل اے بی پی کے پرائم ٹائم میں صرف گھنٹہ بھر کے پروگرام ‘ ماسٹراسٹروک ‘ کو لےکر حکومت کے اندر اتنے سوال کیوں ہیں؟
یا کہیں وہ کون سی مشکل ہے جس کو لےکر اے بی پی نیوز چینل کے مالکوں پر دباؤ بنایا جا رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم مودی کا نام نہ لیں یا پھر تصویر بھی نہ دکھائے۔
دراصل مودی حکومت میں چار سال تک جس طرح صرف اور صرف وزیر اعظم مودی کو ہی مرکز میں رکھا گیا اور ہندوستان جیسے ملک میں ٹی وی نیوز چینلوں نے جس طرح صرف اور صرف ان کو ہی دکھایا اور آہستہ آہستہ وزیر اعظم مودی کی تصویر، ان کا ویڈیو، ان کی تقریر کسی نشے کی طرح نیوز چینلوں کو دیکھنے والے کے اندر سماتا گیا۔اس کا اثر یہ ہوا کہ وزیر اعظم مودی ہی چینلوں کی ٹی آر پی کی ضرورت بن گئے اور وزیر اعظم کے چہرے کا ساتھ سب کچھ اچھا ہے یا کہیں اچھے دن کی ہی سمت میں ملک بڑھ رہا ہے، یہ بتایا جانے لگا تو چینلوں کے لئے بھی یہ نشہ بن گیا اور یہ نشہ نہ اترے اس کے لئے باقاعدہ مودی حکومت کی وزارت اطلاعات نے 200 لوگوں کی ایک مانیٹرنگ ٹیم کو لگا دیا گیا۔
باقاعدہ پورا کام وزارت اطلاعات کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے ماتحت ہونے لگا۔ جو سیدھی رپورٹ وزیر اطلاعات و نشریات کو دیتے۔ اور جو 200 لوگ ملک کے تمام نیشنل نیوز چینلوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں وہ تین سطح پر ہوتی ہیں۔150 لوگوں کی ٹیم صرف مانیٹرنگ کرتی ہے، 25 مانٹیرنگ کی گئی رپورٹ کو حکومت کے موافق ایک شکل دیتی ہے اور باقی 25 فائنل مانٹیرنگ کے مواد کا تجزیہ کرتے ہیں۔
ان کی اس رپورٹ پر وزارت اطلاعات و نشریات کے تین ڈپٹی سکریٹری سطح کے افسر رپورٹ تیار کرتے اور فائنل رپورٹ وزیر اطلاعات و نشریات کے پاس بھیجی جاتی۔ جن کے ذریعے پی ایم او یعنی وزیر اعظم دفتر کے افسر فعال ہوتے اور خبر چینلوں کے مدیروں کو انضباطی ہدایات دیتے رہتے کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے۔اور کوئی مدیر جب صرف خبروں کے لحاظ سے چینل کو چلانے کی بات کہتا تو چینل کے پروپرائٹر سے وزارت اطلاعات و نشریات یا پی ایم او کے افسر مکالمہ قائم کرتے ۔
دباؤبنانے کے لئے مانیٹرنگ کی رپورٹ کو نتھی کر کےفائل بھیجتے اور فائل میں اس کا ذکر ہوتا کہ آخر کیسے وزیر اعظم مودی کے 2014 میں کئے گئے انتخابی وعدے سے لےکر نوٹ بندی یا سرجیکل اسٹرائک یا جی ایس ٹی کو نافذ کرتے وقت دعووں بھرے بیانات کو دوبارہ دکھایا جا سکتا ہے۔یا پھر کیسے موجودہ دور کی کسی اسکیم پر ہونے والی رپورٹ میں وزیر اعظم کے پرانے دعویٰ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
دراصل مودی اقتدار کی کامیابی کا نظریہ ہی ہر طریقے سے رکھا جاتا رہا ہے۔ اس کے لئے خاص طور سے وزارت اطلاعات و نشریات سے لےکر پی ایم او کے درجن بھر افسر پہلی سطح پر کام کرتے ہیں۔دوسری سطح پر وزیر اطلاعات و نشریات کا مشورہ ہوتا ہے، جو ایک طرح کی ہدایت ہوتی ہے اور تیسری سطح پر بی جے پی کا لہجہ، جو کئی سطح پر کام کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی چینل صرف مودی اقتدار کی اچھائی کو نہیں دکھاتا ہے یا کبھی کبھی منفی خبر دیتا ہے یا پھر حقیقتوں کی بنیاد پر مودی حکومت کے سچ کو جھوٹ قرار دیتا ہے تو پھر بی جے پی کےترجمان کو چینل میں بھیجنے پر پابندی لگ جاتی ہے۔
یعنی نیوز چینل پر ہونے والی سیاسی گفتگو میں بی جے پی کے ترجمان نہیں آتے ہیں۔ اے بی پی پر اس کا آغاز جون کے آخری ہفتہ سے ہی شروع ہو گیا۔ یعنی بی جے پی ترجمان نے پروگرام میں آنا بند کر دیا۔دو دن بعد سے بی جے پی رہنماؤں نے چینل کو بائیٹ دینا بند کر دیا اور جس دن وزیر اعظم مودی کی من کی بات کا سچ ماسٹراسٹروک میں دکھایا گیا اس کے بعد سے بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس سے جڑے ان کے مفکروں کو بھی اے بی پی نیوز چینل پر آنے سے روک دیا گیا۔
تو من کی بات کے سچ اور اس کے بعد کے واقعات کو سمجھیں اس سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ مودی اقتدار پر کیسے بی جے پی کی پیرینٹ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھی منحصر ہو چلی ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال 9 جولائی 2018 کو تب نظر آئی جب شام چار بجے کی بحث کے ایک پروگرام کے درمیان میں ہی سنگھ کے مفکر کے طور پر بیٹھے ایک پروفیسر کا موبائل بجا اور ادھر سے کہا گیا کہ وہ فوراً اسٹوڈیو سے باہر نکل آئیں اور وہ شخص آن ایئر پروگرام کے درمیان ہی اٹھکر چل پڑا۔
فون آنے کے بعد اس کے چہرے کا تاثر ایسا تھا گویا اس سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہوا ہے یا کہیں بےحد ڈرے ہوئے شخص کا جو چہرہ ہو سکتا ہے وہ اس وقت میں نظر آ گیا۔پر بات اس سے بھی بنی نہیں کیونکہ اس سے پہلے جو لگاتار خبریں چینل پر دکھائی جا رہی تھیں اس کا اثر دیکھنے والوں پر کیا ہو رہا ہے اور بی جے پی کے ترجمان چاہے چینل پر نہ آ رہے ہوں پر خبروں کو لےکر چینل کی ٹی آر پی بڑھنے لگی۔ اور اس دور میں ٹی آر پی کی جو رپورٹ 5 اور 12 جولائی کو آئی اس میں اے بی پی نیوز ملک کے دوسرے نمبر کا چینل بن گیا۔
اور خاص بات تو یہ بھی ہے کہ اس دور میں ‘ ماسٹراسٹروک ‘ میں ایکسکلوسیو رپورٹ جھارکھنڈ کے گوڈا میں لگنے والے تھرمل پاور پروجیکٹ پر کی گئی۔ چونکہ یہ تھرمل پاور تمام اصول اور قاعدوں کو طاق پر رکھکر ہی نہیں بن رہا ہے بلکہ یہ اڈانی گروپ کا ہے اور پہلی بار ان کسانوں کا درد اس رپورٹ کے ذریعے پیش کیاگیا کہ اڈانی کیسے وزیر اعظم مودی کے قریب ہے تو جھارکھنڈ حکومت نے اصول بدل دئے اور کسانوں کو دھمکی دی جانے لگی کہ اگر انہوں نے اپنی زمین تھرمل پاور کے لئے نہیں دی تو ان کا قتل کر دیا جائےگا۔
ایک کسان نے باقاعدہ کیمرے پر کہا، ‘اڈانی گروپ کے افسر نے دھمکی دی ہے زمین نہیں دوگے تو زمین میں گاڑ دیںگے۔پولیس کو شکایت کئے تو پولیس بولی بےکار ہے شکایت کرنا۔ یہ بڑے لوگ ہیں۔ وزیر اعظم کے قریبی ہیں۔ ‘اس دن کے پروگرام کی ٹی آر پی باقی کے اوسط ماسٹراسٹروک سے پانچ پوائنٹ زیادہ تھی۔ یعنی اے بی پی کے پرائم ٹائم (رات 9-10 بجے) میں چلنے والا ماسٹراسٹروک کی اوسط ٹی آر پی جو 12 تھی اس اڈانی والے پروگرام والے دن 17 ہو گئی۔
یعنی تین اگست کو جب پارلیامنٹ میں اپوزیشن کے رہنما ملکارجن کھڑگے نے میڈیا پر بندش اور اے بی پی نیوز کو دھمکانے اور صحافیوں کو نوکری سے نکلوانے کا ذکر کیا تو وزیر اطلاعات و نشریات نے کہہ دیا،’چینل کی ٹی آر پی ہی ماسٹراسٹروک پروگرام سے نہیں آ رہی تھی اور اس کو کوئی دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا تو چینل نے اس کو بند کر دیا۔ ‘تو اصل حالات یہیں سے نکلتے ہیں کیوں کہ اے بی پی کی ٹی آر پی اگر بڑھ رہی تھی۔ اس کا پروگرام ماسٹراسٹروک مقبول عام بھی ہو رہا تھا اور پہلے کے مقابلے میں ٹی آر پی بھی اچھی خاصی شروعاتی چار مہینوں میں ہی دینے لگا تھا (ماسٹراسٹروک سے پہلے ‘ جن گن من ‘ پروگرام چلا کرتا تھا جس کی اوسط ٹی آر پی 7 تھی، ماسٹراسٹروک کی اوسط ٹی آر پی 12 ہو گئی)۔
یعنی ماسٹر اسٹروک کی خبروں کا مزاج مودی حکومت کی ان اسکیموں یا کہیں دعووں کو ہی پرکھنے والا تھا جو ملک کے الگ الگ علاقوں سے نکلکر نامہ نگاروں کے ذریعے آتی تھی۔ اور لگاتار ماسٹراسٹروک کے ذریعے یہ بھی صاف ہو رہا تھا کہ حکومت کے دعووں کے اندر کتنا کھوکھلاپن ہے اور اس کے لئے باقاعدہ سرکاری اعداد و شمار کے داخلی انتشار کو ہی بنیاد بنایا جاتا تھا۔
تو حکومت کے سامنے یہ بحران بھی ابھرا کہ جب ان کے دعووں کو پرکھتے ہوئے ان کے خلاف ہو رہی رپورٹ کو بھی عوام پسند کرنے لگی ہے اور چینل کی ٹی آر پی بھی بڑھ رہی ہے تو پھر آنے والے وقت میں دوسرے چینل کیا کریںگے؟
کیونکہ ہندوستان میں نیوز چینلوں کے بزنس کی سب سے بڑی بنیاد اشتہار ہے اور اشتہار کو ماپنے کے لئے ادارہ بارک کی ٹی آر پی رپورٹ ہے۔ اور اگر ٹی آر پی یہ دکھلانے لگے کہ مودی حکومت کی کامیابی کو خارج کرتی رپورٹ عوام پسند کر رہی ہے تو پھر وہ نیوز چینل جو مودی حکومت کی تعریف میں کھوئے ہوئے ہیں ان کے سامنے ساکھ اور بزنس یعنی اشتہار دونوں کا بحران ہوگا۔
تو بےحد سمجھداری کے ساتھ چینل پر دباؤ بڑھانے کے لئے دو قدم حکمراں بی جے پی کے طرف سے اٹھے۔ پہلے ملک بھر میں اے بی پی نیوز کا بائیکاٹ ہوا اور دوسرا اے بی پی کا جو بھی سالانہ پروگرام ہوتا ہے جس سے چینل کی ساکھ بھی بڑھتی ہے اور اشتہار کے ذریعے کمائی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً اے بی پی نیوز چینل کی چوٹی کانفرنس پروگرام میں اقتدار اور اپوزیشن کے رہنما اور وزیر پہنچتے اور عوام کے سوالوں کا جواب دیتے تو اس پروگرام سے بی جے پی اور مودی حکومت دونوں نے ہاتھ پیچھے کر لئے۔ یعنی پروگرام میں کوئی وزیر نہیں جائےگا۔
ظاہر ہے جب اقتدار ہی نہیں ہوگا تو صرف حزب مخالف کی بنیاد پر کوئی پروگرام کیسے ہو سکتا ہے۔ یعنی ہر نیوز چینل کو صاف پیغام دے دیا گیا کہ مخالفت کریںگے تو چینل کے بزنس پر اثر پڑےگا۔
یعنی چاہے ان چاہے مودی حکومت نے صاف اشارہ دیا کہ اقتدار اپنے آپ میں بزنس ہے اور چینل بھی بنا بزنس زیادہ چل نہیں پائےگا۔ پر پہلی بار اے بی پی نیوز چینل پر اثر ڈالنے کے لئے یا کہیں کہیں سارے چینل مودی حکومت کی تعریف کو چھوڑکر گراؤنڈ زیرو سے خبریں دکھانے کی سمت میں بڑھ نہ جائیں۔ اس کے لئے شاید دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوریت کا دوست بنکر جمہوریت کا ہی گلا گھونٹنے کی کاروائی اقتدار نے شروع کی۔
یعنی ایمرجنسی تھی تب میڈیا کو احساس تھا کہ آئینی حق ختم ہے۔ پر یہاں تو جمہوریت کا راگ ہے اور 20 جون کو وزیر اعظم مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کسان مستفیدین سے کی۔اس بات چیت میں سب سے آگے چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع کے کنھارپری گاؤں میں رہنے والی چندرمنی کوشک تھیں۔ ان سے جب وزیر اعظم نے کمائی کے بارے میں پوچھا تو بےحد آسان طریقے سے چندرمنی نے بتایا کہ اس کی آمدنی کیسے دوگنی ہو گئی۔آمدنی دوگنی ہو جانے کی بات سنکر وزیر اعظم خوش ہو گئے، کھلکھلانے لگے، کیونکہ کسانوں کی آمدنی دوگنی ہونے کا ہدف وزیر اعظم مودی نے سال 2022 میں رکھا ہے۔
پرلائیو ٹیلی کاسٹ میں کوئی کسان کہے کہ اس کی آمدنی دوگنی ہو گئی تو وزیر اعظم کا خوش ہونا تو بنتا ہے۔ پر نامہ نگار اورمدیر کے نقطہ نظر سے ہمیں یہ سچ پچا نہیں کیونکہ چھتیس گڑھ یوں بھی ملک کے سب سے پچھڑے علاقوں میں سے ایک ہے پھر کانکیر ضلع، جس کے بارے میں سرکاری رپورٹ ہی کہتی ہے کہ جو اب بھی کانکیرکے بارے میں سرکاری ویب سائٹ پر درج ہے کہ یہ دنیا کا سب سے پچھڑا علاقہ یعنی افریقہ یا افغانستان کی طرح ہے۔
ایسے میں یہاں کی کوئی خاتون کسان آمدنی دوگنی ہونے کی بات کہہ رہی ہے تو نامہ نگار کو خاص کر اسی رپورٹ کے لئے وہاں بھیجا گیا۔ 14 دن بعد 6 جولائی کو جب یہ رپورٹ دکھائی گئی کہ کیسے خاتون کو دہلی سے گئے حکام نے ٹریننگ دی کہ اس کو وزیر اعظم کے سامنے کیا بولنا ہے، کیسے بولنا ہے اور کیسے آمدنی دوگنی ہونے کی بات کہنی ہے۔اس رپورٹ کو دکھائے جانے کے بعد چھتیس گڑھ میں ہی یہ سوال ہونے لگے کہ کیسے انتخاب جیتنے کے لئے چھتیس گڑھ کی خاتون کو ٹریننگ دی گئی۔ (چھتیس گڑھ میں پانچ مہینے بعد اسمبلی انتخاب ہے) یعنی اس رپورٹ نے تین سوالوں کو جنم دے دیا۔
پہلا، کیا افسر وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔ دوسرا، کیا وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ صرف ان کی واہ واہی ہو تو جھوٹ بولنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ تیسرا، کیا تشہیرو توسیع کا یہی نظام ہی ہے جو انتخاب جیتا سکتا ہے۔ہو جو بھی پر اس رپورٹ سے مجروح مودی حکومت نے اے بی پی نیوز چینل پر سیدھا حملہ یہ کہہکر شروع کیا کہ جان بوجھ کر غلط اور جھوٹی رپورٹ دکھائی گئی۔ اور باقاعدہ وزیر اطلاعات و نشریات سمیت تین مرکزی وزرا نے ایک جیسے ٹوئٹ کئے اور چینل کی ساکھ پر ہی سوال اٹھا دئے۔ ظاہر ہے یہ دباؤ تھا۔ سب سمجھ رہے تھے۔
ایسے میں حقائق کے ساتھ دوبارہ رپورٹ فائل کرنے کے لئے جب نامہ نگار گیانیندر تیواری کو بھیجا گیا تو گاؤں کا منظر ہی کچھ الگ ہو گیا۔ مثلاً گاؤں میں پولیس پہنچ چکی تھی۔ ریاستی حکومت کے بڑے افسر اس بھروسے کے ساتھ بھیجے گئے تھے کہ نامہ نگار دوبارہ اس خاتون تک پہنچ نہ سکے۔پر نامہ نگار کی سرگرمی اور بد عنوانی کو چھپانے پہنچے افسر یا پولیس اہلکاروں میں اتنی اخلاقی طاقت نہ تھی یا وہ اتنے نظم وضبط میں رہنے والے نہیں تھے کہ رات تک مستعد رہتے۔ دن کے اجالے میں خانہ پری کرکے لوٹ آئے۔
تو شام ڈھلنے سے پہلے ہی گاؤں کے لوگوں نے اور دوگنی آمدنی کہنے والی خاتون سمیت ان کے ساتھ کام کرنے والی 12 خواتین کے گروپ نے خاموشی توڑتے ہوئے سچ بتا دیا کہ حالت تو اور خستہ ہو گئی ہے۔9 جولائی کو اس رپورٹ کا عنوان ‘ سچ ‘ کی نشریات کے بعد اقتدار اور حکومت کی خاموشی نے اشارہ تو دیا کہ وہ کچھ کرےگی اور اسی رات وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت کام کرنے والے نیوز چینل مانیٹرنگ کی ٹیم میں سے ایک شخص نے فون سے جانکاری دی کہ آپ کے ماسٹراسٹروک چلنے کے بعد سے حکومت میں زلزلہ آیاہوا ہے۔باقاعدہ اے ڈی جی کو وزیر اطلاعات و نشریات نے ہڑکایا ہے کہ کیا آپ کو اندیشہ نہیں تھا کہ اے بی پی ہمارے ٹوئٹ کے بعد بھی رپورٹ فائل کر دیتا ہے۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ہم پہلے ہی نوٹس بھیج دیتے جس سے رپورٹ کی نشریات سے پہلے ان کو ہمیں دکھانا پڑتا۔ظاہر ہے جب یہ ساری جانکاری 9 جولائی کو سرکاری مانیٹرنگ کرنے والے سینئر مانیٹرنگ کا عہدہ سنبھال رہے شخص نے دی تو مجھے پوچھنا پڑا کہ کیا آپ کو نوکری کا خطرہ نہیں ہے جو آپ ہمیں ساری جانکاری دے رہے ہیں۔
تو اس شخص نے صاف طور پر کہا کہ 200 لوگوں کی ٹیم ہے۔ جس کی بھرتی براڈکاسٹ انجینئرنگ کارپوریشن انڈیا لمیٹڈ کرتی ہے۔ 6 مہینے کے معاہدے پر رکھتی ہے چاہے آپ کو کتنے بھی سال سے کام کرتے ہوجائے ۔ چھٹی کی کوئی سہولت ہے نہیں۔ مانیٹرنگ کرنے والو کو 28635 روپے ملتے ہیں تو سینئر مانیٹرنگ کرنے والے کو 37350 روپے اور کنٹیٹ پر نظر رکھنے والوں کو 49500 روپے ملتے ہیں۔ اتنی تنخواہ کی نوکری جائے یا رہے فرق کیا پڑتا ہے۔پر سچ تو یہی ہے کہ پرائم ٹائم کے بلیٹن پر نظر رکھنے والوں کو یہی رپورٹ تیار کرنی ہوتی ہے کتنا وقت آپ نے وزیر اعظم مودی کو دکھایا۔ جو سب سے زیادہ دکھاتا ہے اس کو سب سے زیادہ اچھا مانا جاتا ہے۔
ہم ماسٹراسٹروک میں وزیر اعظم مودی کو تو خوب دکھاتے ہیں اس پر تقریباً ہنستے ہوئے اس شخص نے کہا آپ کے کنٹینٹ پر الگ سے ایک رپورٹ تیار ہوتی ہے اور آج جو آپ نے دکھایا ہے اس کے بعد تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس باخبر رہیےگا۔یہ کہہکر اس نے فون کاٹ دیا تو میں بھی اس بارے میں سوچنے لگا۔ اس کی گفتگو چینل کے اندر ہوئی بھی پر یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ حملہ تین سطح پر ہوگا اور ایسا حملہ ہوگا کہ جمہوریت ٹکر ٹکر دیکھتی رہ جائےگی کیونکہ جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کا گلا گھوٹا جائےگا۔اگلے ہی دن سے جیسے ہی رات کے 9بجے اے بی پی نیوز چینل کا سیٹیلائٹ لنک رکنے لگا اور 9 بجے سے لےکر رات 10بجے تک کچھ اس طرح سے سیٹیلائٹ کے ڈسٹربینس رہی کہ کوئی بھی ماسٹراسٹروک دیکھ ہی نہ پائے یا دیکھنے والا چینل بدل ہی لے اور دس بجتے ہی چینل پھر ٹھیک ہو جاتا۔
ظاہر ہے یہ چینل چلانے والوں کے لئے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ ایسے میں چینل کے پروپرائٹر اور ایڈیٹر ان چیف نے تمام جانکاروں کو لگایا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے۔ پر سیکنڈ بھر کے لئے کسی ٹیلیپورٹ سے اے بی پی سیٹیلائٹ لنک پر فائر ہوتا اور جب تک اے بی پی کے ٹیکنیشین اے بی پی کا ٹیلیپورٹ بند کر پاتے تب تک پتہ نہیں کہاں سے فائر ہو رہا ہے تب تک اس ٹیلیپورٹ کے موومینٹ ہوتے اور وہ پھر چند منٹ میں سیکنڈ بھر کے لئے دوبارہ ٹیلیپورٹ سے فائر کرتا۔یعنی اوسطاً 30 سے 40بار اے بی پی کی سیٹیلائٹ لنک پر ہی فائر کر کے ڈسٹربینس پیدا کی جاتی اور تیسرے دن اتفاق یہی بنا کہ ناظرین کو جانکاری دے دی جائے۔
19 جولائی کو صبح سے ہی چینل پر ضروری اطلاع کہہکر چلانا شروع کیا گیا، ‘ پچھلے کچھ دنوں سے آپ نے ہمارے پرائم ٹائم نشریات کے دوران سگنل کو لےکر کچھ رکاوٹیں دیکھی ہوںگی۔ ہم اچانک آئی ان دقتوں کا پتا لگا رہے ہیں اور ان کو دور کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ تب تک آپ اے بی پی نیوز سے جڑے رہیں۔ ‘یہ اطلاع انتظامیہ کے مشورہ سے آن ایئر ہوئی پر اس کو آن ایئر کرنے کے دو گھنٹے بعد ہی یعنی صبح 11 بجتے بجتے ہٹا لی گئی۔ ہٹانے کا فیصلہ بھی انتظامیہ کا ہی رہا۔یعنی دباؤ صرف یہ نہیں کہ چینل ڈسٹرب ہوگا بلکہ اس کی جانکاری بھی باہر نہیں جانی چاہیے یعنی انتظامیہ کہیں ساتھ کھڑا نہ ہو۔
اور اسی کے متوازی کچھ اشتہارات دینےوالوں نے اشتہار ہٹا لئے یا کہیں روک لئے۔ مثال کے طور پر، سب سے بڑا مشتہر جو بیرونی برانڈز کے نام سے مقامی برانڈ کے نام سے لڑتا ہے اور اپنے سامان کو بیچتا ہے اس کا اشتہار جھٹکے میں چینل کی اسکرین سے غائب ہو گیا۔پھر اگلی جانکاری یہ بھی آنے لگی کہ مشتہرین کو بھی پوشیدہ طاقتیں دھمکا رہی ہیں کہ وہ اشتہار دینا بند کر دیں۔ یعنی لگاتار 15 دن تک سیٹیلائٹ لنک میں دخل اور سیٹیلائٹ لنک میں ڈسٹربینس کا مطلب صرف اے بی پی کا نیشنل ہندی نیوز چینل بھر ہی نہیں بلکہ چار علاقائی زبانوں کے چینل بھی ڈسٹرب ہونے لگے اور رات نو سے دس بجے کوئی آپ کا چینل نہ دیکھ پائے تو مطلب ہے جس وقت سب سے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں اسی وقت آپ کو کوئی نہیں دیکھےگا۔
یعنی ٹی آر پی کم ہوگی ہی۔ یعنی مودی حکومت کی تعریف کرنے والے چینلوں کے لئے راحت ہےکہ اگر وہ حکومت کے موافق خبروں میں کھوئے ہوئے ہیں تو ان کی ٹی آر پی بنی رہےگی اور عوام کے لئے اقتدار یہ میسیج دے دےگا کہ لوگ تو مودی کو مودی کے انداز میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔جو سوال کھڑا کرتے ہیں اس کو عوام دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ یعنی وزیر اطلاعات و نشریات کو بھی پتا ہے کہ کھیل کیا ہے تبھی تو قانون سازمجلس میں جواب دیتے وقت وہ ٹی آر پی کا ذکر کرنے سے چوکے پر اسکرین سیاہ ہونے سے پہلے ٹی آر پی کیوں بڑھ رہی تھی اس پر کچھ نہیں بولے۔
خیر یہ پورا عمل ہے جو چلتا رہا اور اس دور میں کئی بار یہ سوال بھی اٹھے کہ اے بی پی کو یہ تمام مدعا اٹھانا چاہیے۔ ماسٹراسٹروک کے وقت اگر سیٹیلائٹ لنک خراب کیا جاتا ہے تو پروگرام کو صبح یا رات میں ہی رپیٹ ٹیلی کاسٹ کرنا چاہیے۔پر ہر راستہ اسی سمت میں جا رہا تھا جہاں اقتدار سے ٹکرانا ہے یا نہیں اور خاموشی ہر سوال کا جواب خود بخود دے رہی تھی۔ تو پورے لمبے عمل کا خاتمہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے کیونکہ ایڈیٹر ان چیف یعنی پروپرائٹر یا کہیں انتظامیہ جب آپ کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑا ہو جائے کہ بتائیے کریں کیا؟
ان حالات میں آپ خود کیا کر سکتے ہیں چھٹی پر جا سکتے ہیں استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اور کمال تو یہ ہے کہ استعفیٰ دےکر نکلے نہیں کہ پتنجلی کا اشتہار لوٹ آیا۔
ماسٹراسٹروک میں بھی اشتہار بڑھ گیا۔ 15 منٹ کا اشتہار جو گھٹتےگھٹتے تین منٹ پر آ گیا تھا وہ بڑھکر 20 منٹ ہو گیا۔ دو اگست کو استعفیٰ ہوا اور دو اگست کی رات سیٹیلائٹ بھی صحیح ہو گیا۔ اور کام کرنے کے دور میں جس دن قانون سازمجلس کے سینٹرل ہال میں کچھ صحافیوں کے درمیان اے بی پی چینل کو مزہ چکھانے کی دھمکی دیتے ہوئے پنیہ پرسون خود کو کیا سمجھتا ہے کہا گیا۔اس سے دو دن پہلے کا سچ اور ایک دن بعد کا سچ یہ بھی ہے کہ رانچی اور پٹنہ میں بی جے پی کا سوشل میڈیا سنبھالنے والوں کو بی جے پی صدر ہدایت دےکر آئے تھے کہ پنیہ پرسون کو بخشنا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا سے نشانے پر رکھے اور یہی بات جئے پور میں بھی سوشل میڈیا سنبھالنے والوں کو کہی گئی۔
پر اقتدار کی مشکل یہ ہے کہ دھمکی، پیسے اور طاقت کی بدولت اقتدار سے لوگ جڑ تو جاتے ہیں پر حکمراں کے اس انداز میں خود کو ڈھال نہیں پاتے تو رانچی،پٹنہ،جئے پور سے بی جے پی کے سوشل میڈیا والی جانکاری دیتے رہے کہ آپ کے خلاف ابھی اور زور و شور سے حملہ ہوگا۔تو پھر آخری سوال جب کھلے طور پر اقتدار کا کھیل ہو رہا ہے تو پھر کس ایڈیٹر گلڈ کو لکھکر دیں یا کس صحافی تنظیم سے کہیں سنبھل جاؤ۔ حکومت کے موافق ہوکر مت کہو شکایت تو کرو پھر لڑیںگے۔ جیسے ایڈیٹر گلڈ نہیں بلکہ سیکریٹریٹ ہے اور سنبھالنے والے صحافی نہیں سرکاری بابو ہیں۔
تو درخواست یہی ہے، لڑو مت پر دکھائی دیتے ہوئے سچ کو دیکھتے وقت آنکھوں پر پٹی تو نہ باندھو۔
Categories: فکر و نظر