سونیا وہار کیسا علاقہ ہے یہ عدالت نہیں جانتی لیکن حکومت کے کسی بھی منصوبے سے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہو یہ قابل قبول نہیں ہے ۔
نئی دہلی : سونیا وہار علاقے میں لینڈ فل بنائے جانے کی تجویز پر مقامی لوگوں کی مخالفت کے مد نظر سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کو پھٹکار لگائی ہے ۔ عدالت نے اپنے سخت تبصرے میں کہا ہے کہ عام لوگوں کے رہائشی علاقے کے بجائے حکومت، دہلی کے گورنر کے سرکاری رہائش کے آگے کوڑا کیو ں نہیں پھینک دیتی ۔
ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق ؛ دہلی میں لینڈ فل اور کچرا سے نپٹنے کے معاملے پر شنوائی کرتے ہوئے جسٹس مدن بی لوکور اور دیپک گپتا کی بنچ نے کہا کہ کوڑے سے نپٹنے کو لے کر دہلی کی حالت بگڑتی جارہی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ راجدھانی کی سڑکو ں پر کچرا نظر آتا ہے اور اس مسئلے سے نجات پانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ عدالت نے دہلی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے اڈیشنل سالیسٹر جنرل پنکی آنند سے پوچھا کہ کیا ان حالات میں دہلی رہنے لائق جگہ رہ جائے گی ۔
اس پر دہلی حکومت کی طرف سے پنکی آنند نے عدالت کو بتایا کہ اس مسئلے سے نجات پانے میں کچھ وقت لگے گا اور اس کو راتوں رات حل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ اور نارتھ میونسپل کارپوریشن کچرے سے بجلی بنانے کے نئے سسٹم لگانے کے لیے ایک پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں ۔ان کے آئندہ سال تک شروع ہوجانے کی امید ہے۔
سونیا وہار میں لینڈ فل کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ اس تجویز سے پہلے مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ 1975 کے ایمرجنسی والا زمانہ نہیں ہے جہاں عام شہری کی رائے کو نظر انداز کیا جائے ۔ سونیا وہار کیسا علاقہ ہے یہ عدالت نہیں جانتی لیکن حکومت کے کسی بھی منصوبے سے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہو یہ قابل قبول نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ججوں نے دہلی حکومت کو گھر گھر کی سطح پر ٹھوس اور دوبارہ استعمال میں لائے جانے والے کچرے کو الگ الگ طریقے سے جمع کیے جانے کے بارے میں بنے منصوبوں کی رپورٹ سونپنے کو کہا ہے۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے بھی دہلی میں کوڑے کو لے کر سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ایل جی سے اسٹیٹس رپورٹ مانگی تھی ۔اس وقت ایل جی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ویسٹ مینجمنٹ کے لیےبلدیاتی نظام ذمہ دار ہے۔ ہم اس پر مسلسل میٹنگ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے اس کے لیے آرٹیکل 239 اے اے کا حوالہ دیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ اس سے مطمئن نہیں دکھا۔ عدالت نے کہا کہ آپ بیٹھک کرتے ہیں یا 50 کپ چائے پیتے ہیں،اس سے ہمیں مطلب نہیں ہے۔
Categories: خبریں