علی گنج کے ایس ایچ او وشال پرتاپ سنگھ کی طرف سے یہاں کی 250 فیملیوں کو ‘ ریڈ کارڈ’ دیے گئے۔ یہ کارڈ ان کے لیے ایک وارننگ تھی کہ کانوڑ یاترا کے دوران کوئی شرارت نہیں ہونی چاہیے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے بریلی ضلع میں کھیلم گاؤں ہے۔ جمعرات کو یہاں سے کانوڑ یاترا نکلی تھی۔ بریلی ضلع کے مسلم اکثریتی اس گاؤں میں گزشتہ سال شیو راتری کے دن فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ ایک طرف جہاں شیو مندر کی طرف جانے والی لین میں کانوڑیاڈی جے کی تیز موسیقی پر ناچ رہے تھے وہیں علاقے میں سناٹا پسرا تھا۔ گزشتہ کچھ دنوں میں یہاں رہنے والے زیادہ تر مسلم فیملی اپنا گھر اور گاؤں چھوڑ کر نقل مکانی کر گئے ہیں۔ ان کو ڈر تھا کہ ہنگامہ ہونے پر پولیس ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔
یہ خوف اس وقت بڑھ گیا جب علی گنج کے ایس ایچ او وشال پرتاپ سنگھ کی طرف سے یہاں کی 250 فیملیوں کو ‘ ریڈ کارڈ’ دیے گئے۔ یہ کارڈ ان کے لیے ایک وارننگ تھی کہ کانوڑ یاترا کے دوران کوےئی شرارت نہیں ہونی چاہیے۔ این بی ٹی کے مطابق؛ جمعرات کی دوپہر تقریباً ساڑھے 12 بجے 150 کانوڑیوں کا ایک گروپ ادھر سے گزرا۔ ایک ٹریکٹر میں ڈی جے لگا تھا اور سبھی کانوڑیے تیز موسیقی پر ناچ گا رہے تھے۔ وہ گوری شنکر مندر پہنچے اور وہاں جل چڑھایا۔ اس دوران یہاں بھاری پولیس فورس تعینات رہی۔
پولیس فورس کانوڑیوں کے ساتھ شیو مندر تک گئی۔ کانوڑ یاترا نکلنے کے دوران سڑکوں پر صرف کچھ جانور اور بزرگوں کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آیا۔ ایس ایچ او ے نے کہاکہ ریڈ کارڈ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو دیے گئے تھے۔ یہ صرف اس لیے کیا گیا تاکہ علاقے میں امن بنا رہے۔ یہاں کے رہنے والے ایوب خان (70)نے بتایا کہ ان کی شیو مندر کے راستے میں ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ وہ برسوں سے اسی گاؤں میں رہ رہے ہیں ۔ صرف گزشتہ سال انھوں نے علاقے میں کانوڑ یاترا کے دوران تشدد دیکھا۔ اصل میں یہاں کے لوگ خود تشدد کو لے کر حیران تھے۔
ایوب نے کہا کہ گزشتہ سال جو تشدد ہوا وہ کچھ باہری شرارتی عناصر نے یہاں آ کر کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے 250 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ ان 250 لوگوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ لوگوں میں اس بار خوف تھا کہ اگر کچھ ہوا تو پولیس ان کے خلاف پھر سے کارروائی کرے گی اس لیے انھوں گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا ہی مناسب سمجھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق؛ پولیس کے ریڈ کارڈ کے علاوہ ضلع انتظامیہ نے 441 مقامی لوگوں کو ٹارگیٹ کیا تھا جو پریشانی پیدا کر سکتے تھے۔امن و سکون میں رکاوٹ ڈالنے کو لے کر ان سے 5 لاکھ روپے کا ایک ‘علامتی’بانڈ بنوایا گیاتھا ۔ اس سے گاؤں میں خوف کا ماحول تھا جس کی وجہ سے تقریباً 70 فیملی گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ سال کھیلم گاؤں میں کانوڑ یاترا کے وقت کانوڑیوں اور مسلم میں تصادم کا ایک معاملہ سامنے آیا تھا، جس میں دونوں کمیونٹی کے لوگوں نے گاؤں چھوڑا تھا اور 15 سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ 2 ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں سے ایک 29 مسلمانوں کے خلاف تھی اور دوسری 14 ہندوؤں کے خلاف۔
Categories: خبریں