فوج میں بھرتی ہونے والے عام انسان ہیں جنہیں وردی ایک خاص مقصد سے پہنائی جاتی ہے۔ان کی بے جا حرکتوں کو ’دیش ہِت ‘ میں نظر انداز کرنا دراصل دیش کے ساتھ غدّاری ہے۔
اس مہینے کے شروع میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنی مگر اس پر کوئی خاص ردعمل نہیں آیا جبکہ اس پر بات ہونی چاہئے کیونکہ اس کا تعلق فوج کی کارگردگی سے ہے اور فوجی افسروں اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کے رویہ سے ہے جو وہ عوام کے ساتھ روا رکھتے ہیں، خصوصاً کشمیر اور منی پور جیسی سرحدی ریاستوں کی عوام کے ساتھ۔ان کے اس رویہ کا اثر نہ صرف فوج کی اپنی ساکھ پر پڑتا ہے بلکہ اس سے ہندوستان کی سالمیت بھی خطرے میں پڑتی ہے۔اس خبر کا تعلق سی بی آئی یعنی سینٹرل بیورو آف اِنویسٹی گیشن سے بھی ہے جو ملک کا ایک اہم تفتیشی ادارہ ہے جس کے بارے میں یہ تاثر دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ایک خود مختار ادارہ مرکزی حکومت کے تابع ہو کر رہ گیا ہے۔
خبر یہ تھی کہ سی بی آئی نے ایک فوجی افسر میجر وجے سنگھ بلہارا کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔میجر بلہارا پر الزام ہے کہ 2009 میں جب وہ منی پور میں تعینات تھے تو ایک بارہ سالہ بچے کو اس کے گھر سے گھسیٹ کر اس کے والدین کی نظروں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور بعد میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک دہشت گرد تھا اور”مڈبھیڑ”میں مارا گیا۔ان کے علاوہ سات دیگر سیکورٹی اہلکار جو اس جرم میں شامل تھے اُن کے خلاف بھی مقدمے درج کے گئے ہیں۔
اس فرضی مڈبھیڑ کا بھید تو فوراً ہی کھل گیا تھا مگر اسے ثابت کئے جانے میں کئی سال لگ گئے۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔فوج، نیم فوجی دستہ آسام رائفلز اور پولیس پر صرف منی پور میں 1528 تصدیق شدہ معاملے سامنے آچکے ہیں جن میں اُن پر انسانی حقوق کی پامالی اور فرضی مڈبھیڑ کے سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں۔یہ انکشاف سپریم کورٹ کے ذریعہ قائم کردہ جسٹس سنتوش ہیگڑے انکوائری کمیشن نے کیا ہے۔منی پور کے علاوہ فوج پر شمال مشرق کی دیگر چھ ریاستوں میں اور کشمیر میں ایسے بے شمار الزامات ہیں جو ہم سب کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
کسی فوجی افسر کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا ایک بڑی خبر ہے۔بظاہر اس سے قانون کی بالادستی ثابت ہوتی ہے۔ہمیں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ہمیں یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں جمہوری نظام پوری مستعدی سے اپنا کام کر رہا ہے۔مگر جب ہم اس معاملے کے پس منظر میں جاتے ہیں تو ہمارے ایمان و یقین کو زبردست جھٹکا لگتا ہے۔ہمیں پتا چلتا ہے کہ سی بی آئی نے مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ اپنی آئینی ذمّہ داری نبھاتے ہوئے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے دباؤ میں آکر کیا ہے،اور یہ دباؤ بھی ایک دن میں نہیں بنا بلکہ عدالت عالیہ کے ذریعہ مسلسل یاد دہانی، ڈانٹ پھٹکار اور وارننگ کے بعد بنا ہے۔
دراصل سپریم کورٹ گزشتہ ایک سال سے منی پور میں فوج کے ذریعہ کی جانے والی غیر قانونی کارروائیوں کی شنوائی کر رہا ہے۔جولائی 2017 میں جسٹس مدن لوکوکر اور جسٹس یو یو للت کی دو رکنی بنچ نے حکومت سے ایک ایس آئی ٹی یعنی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنا کر منی پور میں جاری ماوراء عدالت قتل کی جانچ کا حکم دیا تھا۔حکومت نے یہ ذمہ داری سی بی آئی کو سونپی جس کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی کے حوالے 41 معاملے کئے جن میں سیکورٹی اہلکاروں کے ذریعہ86 موتیں ہوئی تھیں۔
ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سی بی آئی اپنی تفتیش مکمل نہیں کر پائی۔کورٹ کی ہر پیشی میں کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتی رہی۔دونوں جج ہر بار سخت سے سخت جملہ استعمال کرتے رہے جیسے “یہ قتل کا معاملہ ہے۔اس میں کسی بھی طرح کی تساہلی برداشت نہیں کی جائے گی”یا یہ کہ “اسے سانپ اور سیڑھی کا کھیل مت بنائیے”وغیرہ۔یہاں تک کہ 27 جولائی کی پیشی میں جسٹس لوکوکر اور جسٹس للت اس قدر برہم ہوئےکہ ایس آئی ٹی کی نمائندگی کر رہے سرکاری وکیل سے کہہ دیا کہ”اپنے لوگوں سے کہیے کہ وہ اگر یہ کام نہیں کر سکتے تو نوکری چھوڑ دیں۔”ساتھ ہی سی بی آئی کے ڈائریکٹر کو اگلی پیشی میں حاضر ہونے کا حکم بھی صادر کردیا۔
میجر وجے سنگھ بلہارا کے خلاف درج کیا جانے والا مقدمہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ کورٹ نے اگلی پیشی 20 اگست کو رکھی ہے۔ ابھی سی بی آئی کو مزید28 معاملوں کی تفتیش مکمل کر کے مقدمے قائم کرنے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بات نہ حکومت کے گلے سے اتر رہی ہے نہ ہی فوج کے گلے سے۔اس لئے سی بی آئی کو “ضابطے کی کارروائی” میں الجھا کر ہر ممکن تاخیر کی جا رہی ہے۔غور کیا جائے فوج کی زیادتیوں کا سارا معاملہAFSPA یعنی آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ سے جڑا ہے۔اس ایکٹ نے فوج کو ایسے لا محدود اختیارات دے دیے ہیں جس کے غلط استعمال سے سرحدی ریاستوں میں انتشار گھٹنے کی بجائے بڑھا ہے۔
منی پور کے حالات بڑی حد تک کشمیر کے مشابہ ہیں جہاں کی عوام مرکز سے نالاں ہے اور جس کی وجہ سے وہاں آزادی کے بعد سے اب تک شورش جاری ہے۔اس شورش پر قابو پانے کے لئے منی پور میں 1958 سے AFSPAنافذ ہے۔بعد میں دوسری شمال مشرقی ریاستوں آسام، تری پورہ، میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ کو بھی اس زمرے میں لایا گیا۔ جموں کشمیر میں اس قانون کا اطلاق 1989 میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی کیا گیا۔ پنچاب میں بھی تھوڑے عرصے کے لئے اس قانون کا استعمال ہوا۔
اس قانون کے تحت ایک فوجی کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت بغیر عدالتی اجازت کے گرفتار کر سکتا ہے، تلاشی لینے کے نام پر کسی بھی گھر میں کسی بھی وقت گھس سکتا ہے، جس کی چاہے جان لے سکتا ہے۔اور ان میں سے کسی بھی کارروائی کے لئے وہ جواب دہ نہیں ہے۔مقامی حکومت اس کے خلاف کوئی تعزیری کاروائی نہیں کرسکتی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں سیکورٹی اہلکار اس قانون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔منی پور اس کی بد ترین مثال ہے۔انسانی حقوق کی کارکن اروم شرمیلا نے 16 سال تک AFSPA کو ہٹائے جانے کی مانگ کو لے بھوک ہڑتال کی۔اس کے باوجود نہAFSPA ہٹا نہ فوج کی زیادتیوں میں کمی آئی۔
دریں اثنا فوج کی زیادتیوں کا بھانڈا خود ایک فوجی افسر نے کھولا ہے جس کی تفصیل 2 اگست کو میجر بلہارا کے خلاف مقدمے کی خبر کے اگلے روز ہی آئی ہے۔لیفٹننٹ کرنل دھرم ویر سنگھ جو کہ فوج میں پائے جانے والے کرپشن کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور جنہیں ان کے سینئرز نے اغوا کر لیا تھا نے رہا ہونے کے بعد منی پور ہائی کورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح فوجی افسروں نے حراست میں لی گئی ایک عورت کو ایک کروڑ روپیہ لے کر چھوڑ دیا۔ ایک اور انکشاف تین منی پوری نوجوانوں سے متعلق ہے جنہیں گرفتار کر نے کے بعد آرمی کینٹین کے پیچھے لے جا کر گولی ماری گئی اور پھر ان کی لاشوں کو جنگل میں پھینک دیا گیا۔
اتنا کچھ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کی پہل کا استقبال کیا جانا چاہیے۔قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔طاقت کا ناجائز استعمال کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا یہ بات ہماری سیاسی لیڈرشپ کو سمجھنی ہوگی خاص کر بی جے پی کو جو اس وقت منی پور میں برسر اقتدار ہے اور کشمیر بھی مرکز کے زیر انتظام ہے۔فوج میں بھرتی ہونے والے عام انسان ہیں جنہیں وردی ایک خاص مقصد سے پہنائی جاتی ہے۔ان کی بے جا حرکتوں کو “دیش ہِت” میں نظر انداز کرنا دراصل دیش کے ساتھ غدّاری ہے۔ عوام کا اعتماد سسٹم میں باقی رہے اس کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کو قانون کا پابند بنانا ہی ہوگا۔
Categories: فکر و نظر