بی جے پی صدر امت شاہ کے علاوہ پارٹی کے کئی لیڈر آسام میں این آر سی کی آخری فہرست آنے سے پہلے ہی 40 لاکھ لوگوں کو گھس پیٹھیا بتا چکے ہیں۔
اپوزیشن چاہے جتنا شور شرابہ کرے، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آسام کے 40 لاکھ گھس پیٹھیوں میں سے ایک ایک کو باہر کرےگی۔ مرکزی حکومت گھس پیٹھیوں کے متعلق فیاضی برتنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
یہ بی جے پی صدر امت شاہ کے اس بیان کا حصہ ہے، جو انہوں نے 12 اگست کو اتر پردیش کے میرٹھ میں بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے اختتامی سیشن میں دیا۔امت شاہ یہی نہیں رکے انہوں نے آگے کہا کہ ملک میں جہاں جہاں گھس پیٹھئے ہیں، ان سب کو ملک سے باہر جانے کا راستہ بی جے پی کی حکومت دکھائےگی۔ ان کا اشارہ مغربی بنگال کی طرف تھا۔
اس کے بعد انہوں نے آسام میں جھگڑے کی جڑ بن رہے شہریت سے متعلق ترمیم بل 2016 پر تبصرہ کیا اور کہا کہ ہندو پناہ گزینوں کو ملک میں لایا جائےگا اور ان کو شہریت عطا کی جائےگی۔30 جولائی کو آسام میں این آر سی کا فائنل مسودہ جاری کیا گیا۔ اس میں شامل ہونے کے لئے 3.29 کروڑ لوگوں نے درخواست دی تھی، جن میں سے 2.89 کروڑ لوگوں کے نام اس مسودہ میں شامل ہوئے۔4007707لوگوں کے نام اس فہرست میں نہیں ہیں۔
این آر سی کا پہلا مسودہ 31 دسمبر اور ایک جنوری کو جاری کیا گیا تھا، جس میں 1.9 کروڑ لوگوں کے نام تھے۔ این آر سی کی آخری فہرست 31 دسمبر 2018 کو جاری کی جانی ہے۔ تب تک آخری مسودہ میں چھوٹے افراد اپنے اعتراضات درج کروا سکتے ہیں۔این آر سی جاری ہونے کے بعد ان 40 لاکھ لوگوں کو لگاتار ‘ گھس پیٹھیا’یا’غیر قانونی بنگلہ دیشی’ بتایا جانے لگا، مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سے سوال کیا کہ وہ ان 40 لاکھ لوگوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے۔
حالانکہ ریاستی حکومت کا کہنا تھا کہ جن کے نام رجسٹر میں نہیں ہیں ان کو اپنی بات رکھنے کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا جائےگا۔آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے مسودہ جاری ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی واضح کیا کہ جن لوگوں کے نام اس ڈرافٹ میں نہیں ہوںگے، ان کو اپنی پہچان ثابت کرنے کے لئے کافی موقع دئے جائیںگے۔ نام نہ آنے کی حالت میں کسی کے حق یا خصوصی اختیارات کم نہیں ہوںگے، نہ ہی کسی کو حراست میں لیا جائےگا۔
فائنل ڈرافٹ آنے کے بعد میڈیا رپورٹس میں یہ بھی آیا کہ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کا نام 31 دسمبر کو جاری ہوئے ڈرافٹ میں تھا، پر اس مسودہ میں نہیں ہے۔اس پر حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ایسے لوگوں کو لیٹر آف انفارمیشن کے ذریعے مطلع کرکے ان کے لسٹ میں شامل نہ ہونے کی وجہ بتایا جائےگا، جس سے وہ اس غلطی کی اصلاح کرسکیں۔
یعنی واضح تھا کہ یہ تمام یقینی طور پر ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی’نہیں ہیں اور ان کو اپنی پہچان کو ثابت کرنے کے لئے دوبارہ موقع دیا جائےگا۔لیکن اس مسئلے پر سیاست مسودہ جاری ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی۔ لگاتاراپوزیشن کی طرف سے سوال کیا گیا کہ ان 40 لاکھ لوگوں کا مستقبل کاکیا ہوگا۔ 30 جولائی میں اسی مدعے پر ہنگامہ ہوا اور ایوان کی کاروائی ملتوی ہوئی۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ترمیم لانے کی مانگ کرتے ہوئے سوال کیا،’جن 40 لاکھ لوگوں کے نام ڈلیٹ کر دئے گئے ہیں وہ کہاں جائیںگے؟ کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے کوئی پروگرام ہے؟ آخر میں مغربی بنگال کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ یہ بی جے پی کی ووٹ پالٹکس ہے۔ ‘
ممتا یہیں نہیں رکیں، انہوں نے پھر حکومت کے خلاف مورچہ کھولا اور کہا کہ آسام میں این آر سی میں 40 لاکھ لوگوں کو شامل نہیں کئے جانے سے ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ مودی حکومت سیاسی فائدے کے لئے لاکھوں لوگوں کو ریاست سے باہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ 30 جولائی کو ایوان میں ہی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے واضح کیا کہ اس میں ان کی حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔
لوک سبھا میں بولتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ اس میں مرکز کا کوئی رول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں اپوزیشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس میں مرکز کا کیا رول ہے؟ یہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا ہے۔ ایسے حساس مدعوں پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ ‘
انہوں نے یہ بھی صاف کیا کہ یہ مسودہ پوری طرح ‘غیر جانبدارانہ ‘ہے اور جن کا نام اس میں شامل نہیں ہے ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کو ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کا موقع ملےگا۔ایک طرف جہاں وزیر داخلہ حکومت کےکردار سے انکار کر رہے تھے، وہیں ان کی پارٹی کے قومی صدر اس پر اپنی پارٹی کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے۔
ایوان میں این آر سی کے مدعے پر بولتے ہوئے بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا کہ اس کو نافذ کرنے کی ہمت کانگریس میں نہیں تھی اس لئے یہ اسکیم اب تک زیر التوا رہی۔انہوں نے کہا کہ 1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے آسام سمجھوتہ کے تحت این آر سی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ این آر سی کو آسام سمجھوتہ کی روح بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘این آر سی کو عمل میں لانے کی کانگریس میں ہمت نہیں تھی، ہم میں ہمت ہے اس لئے ہم اس کو نافذ کرنے کے لئے نکلے ہیں۔ ‘
اس کےبعد 40 لاکھ لوگوں پر کئے جا رہے سوال پر انہوں نے کہا، ‘یہ 40 لاکھ لوگ کون ہیں؟ ان میں بنگلہ دیشی گھس پیٹھئے کتنے ہیں؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ ‘ان کے بیان سے واضح تھا کہ وہ مطمئن تھے کہ یہ 40 لاکھ لوگ گھس پیٹھئے تھے۔یہاں جان لیں کہ این آر سی کی جڑیں آسام کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں۔ 1979 سے 1985 کا وقت ریاست میں سیاسی عدم استحکام کا تھا۔ اس دوران لگاتار تحریک ہوئی، جنہوں نے کئی بار تشدد آمیز شکل بھی اختیارکی۔ نسلی تشدد انتہا پر رہی۔ اسی دوران اگست 1985 کو اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور تحریک کے رہنماؤں کے درمیان سمجھوتہ ہوا، جس کو آسام سمجھوتہ کے نام سے جانا گیا۔
لیکن اس کے بعد حکومت کی کئی کوششوں کے بعد بھی اس پر کوئی کام نہیں ہو سکا۔ 2013 میں آسام پبلک ورک کے نام کے این جی او کے علاوہ کئی دیگرتنظیم اس مدعے کو لےکر سپریم کورٹ پہنچی۔2017 تک سپریم کورٹ میں اس بارے میں کل 40 سماعتیں ہوئیں، جس کے بعد نومبر 2017 میں آسام حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ 31 دسمبر 2017 تک این آر سی کو اپ ڈیٹ کر دیا جائےگا۔
2015 میں سپریم کورٹ کی ہدایت اور نگرانی میں یہ شروع ہوا اور 2018 جولائی میں این آر سی کا رجسٹرار جنرل آف انڈیا کی طرف سے فائنل ڈرافٹ جاری کیا گیا۔اس مسودہ کے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے بھی صاف کہا ہے کہ جو لوگ این آر سی کے ڈرافٹ میں جگہ بنانے سے چھوٹ گئے ہیں، ان کے ذریعے داخل کئے جانے والے اعتراضات پر عمل پوری طرح سے غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ وہیں الیکشن کمیشن نے بھی واضح کیا کہ این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ووٹرلسٹ سے بھی یہ نام ہٹ جائیںگے۔
یعنی نہ ہی سپریم کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن ان 40 لاکھ لوگوں کو ‘ غیر قانونی شہری ‘ مان رہے تھے، لیکن بی جے پی کے رہنما لگاتار ان کو ‘گھس پیٹھئے’اور’بنگلہ دیشی’کے نام سے پکار رہے تھے۔ایک طرف تو مرکزی حکومت اس مدعے پر سیاست نہ کرنے کی بات کر رہی تھی، تو دوسری طرف پارٹی کے مختلف رہنما مختلف ریاستوں میں این آر سی کو لےکر الگ الگ راگ الاپ رہے تھے۔
31 جولائی کو راجیہ سبھا میں این آر سی جاری کرنے کی بی جے پی کی ہمت بتانے کے بعد بی جے پی صدر امت شاہ نے ایک پریس کانفرنس بلائی۔یہاں وہ بولے کہ مرکزی حکومت کسی کے ساتھ جانبداری نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ مجھے قپارلیامنٹ میں بولنے نہیں دیا گیا۔ میں عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ این آر سی سے کسی ہندوستانی کا نام نہیں کاٹا گیا ہے اور جن کا نام لسٹ میں نہیں ہے وہ گھس پیٹھیے ہیں۔ ‘
اس بات پر زور دیتے ہوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ اس لسٹ میں جن کا نام نہیں ہے وہ گھس پیٹھئے ہیں اور اس میں کسی ہندوستانی شہری کا نام نہیں کٹا ہے۔خود رجسٹرار جنرل آف انڈیا شیلیش بھی اس بات کو لےکر مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے مسودہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سلسلے میں لوگوں کو اعتراض جتانے کی مکمل اور کافی گنجائش دی جائےگی۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے رہنما ان شہریوں کے ‘گھس پیٹھئے’ہونے کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہیں۔ تلنگانہ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ٹی راجا سنگھ نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجروں کو واپس ان کے ملک نہیں لوٹنے پر گولی مار دینی چاہیے۔ حالانکہ راجا سنگھ نے اب پارٹی چھوڑ دی ہے۔
این آر سی مسودہ جاری ہونے کے بعد انہوں نے سوشل نیٹورکنگ ویب سائٹ پر ایک ویڈیوپوسٹ میں کہا، ‘اگر یہ لوگ، غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا شرافت سے نہیں لوٹتے ہیں تو ان کو ان کی زبان میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ان کو گولی مار دینی چاہیے تبھی ہندوستانی محفوظ رہ سکیںگے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ 1971 کی جنگ کے دوران بڑی تعداد میں بانگلادیشیوں نے آسام میں گھس پیٹھ کی، جہاں 40 لاکھ لوگ اب بھی غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں۔این آر سی کو ملک بھر میں نافذ کرنے کی مانگ بھی اٹھی اور یہ مانگ زیادہ تر بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے کی گئی۔ آسام میں شہریت سے متعلق اصول ملک بھر سے الگ ہیں، آسام سمجھوتہ کے چلتے وہاں این آر سی کی ضرورت سمجھی گئی، لیکن لگاتار اس کےپروسس پر سوال اٹھتے رہے۔
ملک کی مختلف ریاستوں میں اصل میں این آر سی کی ضرورت ہے یا نہیں، یہ کتنی اہم ہوگی، اس بارے میں کوئی واضح خیال نہ ہونے کے باوجود بی جے پی رہنما ‘ گھس پیٹھیوں’کو ملک سے نکال پھینکنے کی مانگ دوہرا رہے تھے۔بی جے پی رہنما نریش اگروال نے کہا کہ ملک کی تمام ریاستوں میں اس کی تقلید کی جانی چاہیے کیونکہ غیر قانونی بنگلہ دیشی پناہ گزین ملک کے کئی حصوں میں رہ رہے ہیں۔
نریش اگروال نے کہا، ‘یہ قومی حفاظت سے جڑا مدعا ہے۔ اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال اور دیگر ایسی ریاستیں ہیں جہاں آسام کی ہی طرح غیر قانونی بنگلہ دیشی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ ‘گزشتہ ایک اگست کو دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے بھی مانگ کی تھی کہ دہلی میں بھی این آر سی کی طرح سروے کروایا جانا چاہیے۔ تیواری نے مرکزی وزیر داخلہ کو خط لکھکر کہا کہ دہلی میں بھی بڑی تعداد میں روہنگیا اور غیر ملکی گھس پیٹھئے رہ رہے ہیں۔
بہار بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیامان اشونی چوبے کا بیان بھی آیا۔ انہوں نے کہا، ‘ایسے گھس پیٹھئے چاہے بنگال میں ہوں، بہار میں ہوں یا دہلی میں ان کو نکالکر باہر کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر بنگلہ دیشی بہار میں ہیں، بنگال میں ہیں۔ یقینی طور پر جو آسام میں ہوا ہے وہ بہار میں بھی ہونا چاہیے۔ بہار ہو، بنگال ہو ہرجگہ کرنا چاہیے۔ ‘
وہیں بہار کے ہی ایک دیگر بی جے پی رہنما بھی این آر سی مسودہ جاری ہونے کے بعد گھس پیٹھیوں اور پناہ گزینوں میں فرق بتاتے نظر آئے۔ بہار حکومت میں پی ڈبلیو ڈی کے وزیر ونود نارائن جھا نے کہا کہ پناہ گزینوں اور گھس پیٹھیوں میں فرق ہوتا ہے۔ اپوزیشن کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ ملک ہندوستانیوں کے لئے ہے، گھس پیٹھیوں کے لئے نہیں۔حالانکہ اس دوران بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ این آر سی صرف آسام تک محدود رہےگا۔ این آر سی میں ‘ نیشنل ‘ لفظ استعمال کیا گیا ہے، لیکن اب تک یہ صرف آسام کے لئے ہی ہے۔
این آر سی کی سب سے زیادہ مخالفت مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کیا تھا، ان کی مخالفت کے بعد مغربی بنگال کےبی جے پی صدر دلیپ گھوش بھی پیچھے نہیں رہے۔گھوش نے مسودہ جاری ہونے کے بعد کہا، ‘اگر بی جے پی یہاں (بنگال میں)انتخاب جیتکر اقتدار میں آئی تو یہاں بھی این آر سی نافذ کیا جائےگا۔ یہاں رہنے والے تمام غیر قانونی شہریوں کو بنگلہ دیش بھیج دیا جائےگا۔ ساتھ ہی گھس پیٹھیوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی ملک سے باہر نکال دیا جائےگا۔
وہیں بی جے پی جنرل سکریٹری اور مغربی بنگال میں پارٹی کے صدر کیلاش وجئے ورگیہ نے بھی کہا کہ مغربی بنگال کا نوجوان چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش سے آئے گھس پیٹھیوں کی پہچان ہو، جس کی وجہ سے ان کو کافی دقتوں جیسے کہ بےروزگاری اور نظم و نسق کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی ان کی مانگوں کی حمایت کرتی ہے۔
2 اگست کو بی جے پی رکن پارلیامان نشی کانت دوے نے لوک سبھا میں مانگ اٹھائی کہ این آر سی پورے ملک میں نافذ ہونی چاہیے۔دوے نے کہا کہ این آر سی کا مدعا پورے ملک کے لئے اہم ہے۔ مشرقی بنگال سے مغربی بنگال میں لگاتار منتقلی ہوتی رہی۔ آسام میں گوپی ناتھ باردولوئی نے اس موضوع پر تحریک بھی چلائی تھی۔ آسام میں ایک لاکھ ایکڑ زمین پر ایسے لوگوں کو بسایا بھی گیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر، شمال مشرق کے علاوہ کئی علاقوں میں مردم شماری نہیں ہوئی ہے اور ایک خاص کمیونٹی کی آبادی کافی بڑھی ہے۔
اس دوران آسام کے گورنر پروفیسر جگدیش مکھی نے این آر سی کو کامیابی قرار دیا اور اس کو ملک میں گھس پیٹھ کا مسئلہ کا اثردار حل بتایا۔انہوں نے بھی ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کی پیروی کی اور کہا کہ جس طرح سے آسام نے اپنی این آر سی تیار کی ہے، ملک کے مفاد میں یہ بہتر ہوگا کہ ہر ریاست اپنی این آر سی تیار کرائے تاکہ ملک کی حکومت کو اور ریاست کی حکومت کو یہ مکمّل جانکاری رہے کہ ریاست اور ملک میں کون غیر ملکی رہ رہے ہیں اور جو غیر ملکی رہ رہے ہیں ان کو بھی یہ جانکاری ہو کہ وہ بطور غیر ملکی رہ رہے ہیں۔
بی جے پی رہنماؤں کے ان دعووں کے درمیان کئی بار آسام این آر سی کوآرڈنیٹر پرتیک ہجیلا کے ذریعے کہا گیا کہ شہریوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مسودہ کے بارے میں اعتراضات 7 اگست کے بعد درج کی جا سکیںگی، لیکن بی جے پی رہنماؤں کو شاید اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں پہنچے بی جے پی رہنما این آر سی ڈرافٹ کے پورے ہونے کی بات تو کہہ رہے تھے، لیکن ان شہریوں کو ‘ گھس پیٹھیا ‘ ہی کہہ رہے تھے۔
7 اگست کو نیوز 18 انڈیا کے ایک پروگرام میں امت شاہ نے کہا کہ جن کا نام این آر سی میں نہیں ہے، ان سے ووٹ دینے کا حق لے لینا چاہیے۔ یہ گھس پیٹھئے ہیں۔ لیکن جب تک این آر سی ڈرافٹ کا کام پورا نہیں ہو جاتا سبھی کو ایک موقع دیا جائےگا۔ ایسے لوگ اپنی شہریت کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔
اسی پروگرام میں بی جے پی رہنما رام مادھو اور سبرامنیم سوامی بھی اس بات پر راضی دکھے کہ ان لوگوں سے ووٹ دینے کا حق واپس لے لینا چاہیے۔لیکن چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت واضح کر چکے تھے کہ این آر سی سے نام ہٹنے پر رائےدہندگان فہرست سے خودبخود : نام کٹنے کا معنی نہیں نکالا جانا چاہیے۔
لیکن اس کے باوجود بی جے پی رہنماؤں کے ملک کی حفاظت کے لئے ‘ گھس پیٹھیوں ‘ کو باہر نکالنے کی دھمکی دھیمی نہیں پڑی۔11 اگست کو کھدی رام بوس کی برسی پر بی جے پی صدر امت شاہ کولکاتہ پہنچے اور ایک ریلی میں کہا کہ این آر سی کا مطلب گھس پیٹھیوں کو ملک سے بھگانا ہے۔ گھس پیٹھئے ٹی ایم سی کے ووٹر ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو نشانے پر لیتے ہوئے وہ یہ بھی بولے، ‘ممتا دی دی،این آر سی آپ کے روکنے سے نہیں رکےگی۔ ‘
اس کے بعد 13 اگست کو میرٹھ پہنچے شاہ نے کہا، ‘ ہم نے بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کو لےکر جرأت دکھایا تو کانگریس نے مشکل پیدا کرنا شروع کر دیا۔ ممتا بنرجی بھی ہائے توبہ مچا رہی ہیں۔ ہمارا صاف کہنا ہے کہ ہمارے رہنما نریندر مودی نے 56 انچ کا سینہ دکھایا ہے اور ایک بھی گھس پیٹھئے کو ہم ملک میں رہنے نہیں دیںگے۔ ‘
ان کے ساتھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی تھے۔ این آر سی کے مدعا پر بولنے سے وہ بھی نہیں چوکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو اتر پردیش میں بھی این آر سی نافذ کیا جائےگا۔ ملک میں ایک بھی گھس پیٹھیا منظور نہیں کرےگا۔اس دوران بی جے پی کے ایک دیگر رہنما بھی پیچھے نہیں رہے۔ بی جے پی کے قومی نائب صدر اوم ماتھر نے کہا ملک کو کسی بھی صورت میں دھرم شالہ نہیں بننے دیںگے اور 2019 میں اقتدار میں آنے کے بعد این آر سی کو پورے ملک میں نافذ کیا جائےگا۔
انہوں نے کانگریس صدر راہل گاندھی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فیملی کے متعلق بھی وفا دار نہیں ہے، کیونکہ این آر سی کی شروعات اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہی کی تھی لیکن کانگریس دس سال کی مدت میں این آر سی کو نافذ کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکی۔
حالانکہ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریوں کو یقین دلایا کہ کسی بھی ہندوستانی شہری کو ملک نہیں چھوڑنا پڑےگا۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے کہا، ‘میں عوام کو یقین دلا تا ہوں کہ کسی بھی ہندوستانی کو ملک نہیں چھوڑنا پڑےگا۔ لوگوں کو مناسب عمل کے تحت ممکنہ مواقع دئے جائیںگے۔ این آر سی ہمارا وعدہ تھا جو ہم نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں پورا کیا۔ یہ سیاست نہیں بلکہ عوام کے بارے میں ہے۔ اگر کوئی اس کے بارے میں سیاست کر رہا ہے، تو یہ انتہائی بد بختی ہے۔ ‘
وزیر اعظم نے تو یہ کہہ دیا، لیکن پارٹی کے الگ الگ رہنماؤں کے بیان اس معاملے پر ہو رہی سیاست میں آگ میں گھی کا ہی کام کر رہے ہیں۔ این آر سی کو لےکر بی جے پی کا ہی متفق الرائے نہ ہونا عوام سے جڑے اس حساس مدعا کو لےکر ان کی سنجیدگی پر سوال کھڑے کرتا ہے۔
Categories: فکر و نظر