سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو یاد کر رہے ہیں سینئر صحافی ونود دوا۔
ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔ ہمارے یہاں ایک بہت بڑی ریاکاری ہوتی ہے، دکھاوا ہوتا ہے کہ جو ہمارے درمیان سے چلا جائے، جس کی وفات ہو جائے، اس کو اچانک سے مہاپُرش بنا دیاجاتا ہے اور پھر جس طرح سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ دس از پالیٹکلی کریکٹ، ٹوپریز اے پرسن آفٹر ہی از گان۔
مجھے یاد ہے ہمارے بزرگ دوست تھے سردارخشونت سنگھ۔ پورا ہندوستان ان کو جانتا ہے۔ 99 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تھا۔انہوں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ جب کسی کا وفاتیہ لکھا جاتا ہے تو جتنا دکھاوا ہمارے ملک میں ہوتا ہے، اس سے زیادہ دکھاوا کہیں اور نہیں ہوتا، جبکہوفاتیہ ایک دستاویز ہوتا ہے۔ اس شخص کا آخری دستاویز، جس کا انتقال ہو گیا ہے، جو چلا گیا ہے۔
اس آخری دستاویز کو ایمانداری سے لکھنا چاہیے۔ اس شخص کی اچھائیاں کیا تھیں، اس کی برائیاں کیا تھیں۔ ایک کرٹیکل اپریزل ہونی چاہیے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ نے تعریفوں کے پل باندھ دئے کیونکہ اس کو پالیٹکلی کریکٹ مانا جاتا ہے۔ بالکل وہی ہو رہا ہے اس وقت۔
اٹل بہاری واجپائی ہمارے وزیر اعظم تھے۔ ان کو لےکر جو خراج عقیدت پیش کئے جا رہے ہیں مجھے خشونت سنگھ صاحب کی یاد آئی، تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ جو شخص چلا گیا ہے کہ اس کو سچی خراج عقیدت یہی ہے کہ جو اچھائیاں تھیں وہ بھی گنائی جائے اور ان کے ہاتھوں سے جو کام صحیح نہیں ہوئے، جن کا اثر سماج پر پڑا، وہ بھی بتایا جائے۔
ان کا وقت پورا ہوا۔ اس زمین پر، جو ان کا رول تھا، جو ان کا کردار تھا، پورا ہوا۔ وہ کردار کیسا تھا۔ ایک کرٹیکل اپریزل ہونی چاہیے۔
میں ان سے زیادہ نہیں ملا تھا کل چار بار ملنا ہوا تھا۔ ہم کوشش کریںگے کہ اٹل بہاری واجپائی کی ان یادوں کو بھی تازہ کریں کہ صحیح معنوں میں ان کی مدت کیسی رہی، سیاسی زندگی کیسی رہی، اس کی جتنی بھی ہو سکتی ہے ایک معروضی تصویر آپ کے سامنے پیش کریں۔
اٹل بہاری واجپائی25دسمبر 1924 کو گوالیار میں پیدا ہوئے تھے اور دس بار وہ لوک سبھا کے ممبر بنے، چار الگ الگ ریاستوں سے اور دو دفعہ راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے۔اپنی پوری سیاسی زندگی میں یہ بھارتیہ جن سنگھ جو 1951 میں بنی تھی جس کو ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے بنایا تھا، کے بانی ممبر تھے۔ اٹل بہاری واجپائی 1968میں دین دیال اپادھیائے کے پراسرار قتل کے بعد پارٹی کے صدر بنے۔
ان کے بارے میں جو شکایتں لوگوں کی رہیں پہلے وہ بتا دیتا ہوں، پھر جو ان کی اچھائیاں رہی ہیں میں آپ کو وہ بتاؤںگا۔ایک شکایت یہ رہی ہے کہ ایسا ایک وقت تھا جب ایک بالکل اصولی فیصلہ لینا چاہیے تھا، ایک ڈاکٹرین (اصول) ہمارے پاس ہونا چاہیے تھا جیسے اسرائیل کا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے کسی بھی قیمت پر نیگوشئیٹ (سمجھوتہ) نہیں کریںگے لیکن انہوں نے (واجپائی) کیا۔
بات 1999 میں ہوائی جہاز ہائی جیک (آئی سی 814) کی کر رہا ہوں، جس کے بدلے میں ہمیں مسعود اظہر جیسے دہشت گرد کو چھوڑنا پڑا تھا۔ ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ خود گئے تھے ان دہشت گردوں کو لےکر کندھار۔ جسونت سنگھ، بیچارے خود کوما میں ہیں ان کی بھی طبیعت خراب ہے۔
دوسرا،بابری مسجد کا متنازعہ ڈھانچہ جب گرا تو انہوں نے 5دسمبر 1992 کو ایک تقریر کی تھی جس میں کہاتھا، ‘ نکیلے پتھر کھڑے ہیں زمین سمتل کرنی ہوگی، جب زمین سمتل ہوگی تبھی نیا نرمان ہوگا۔ ‘یہ بہت ہی پوئیٹک یعنی شاعری کی زبان ہے۔ اس کا مطلب لیکن صاف ہے۔
تیسرا، ان پر الزام لگتا رہا کہ ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران انہوں نے ایک معافی نامہ یا قبولنامہ کہیں وہ دیا تھا کہ گوالیار میں آزادی کی لڑائی کے دوران ایک میٹنگ ہوئی تھی، اس میں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔ حالانکہ یہ الزام ہمیشہ شک کے دائرے میں رہا ہے۔چوتھا، پوکھرن-2 جب ہوا تھا ہمارا ایٹمی تجربہ۔ اچھی بات یہ تھی کہ ایک ریاکاری، ہمارا ایک دکھاوا ختم ہوا کہ ہم جوہری تجربہ نہیں کریںگے۔
حالانکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پارٹی کے اندر جو متشدد لوگ تھے ان کے دباؤ میں آکریہ تجربہ کیا۔ اب اس سے جو سوال پیدا ہوا اور اس کے جو نتیجے سامنے آئے، وہ یہ کہ پاکستان نے دو دن بعد چگائی میں اپنا جوہر ی تجربہ کر دیا۔ یعنی پاکستان کا جوہری پروگرام جو پوری طرح سے ناجائز، غیرقانونی، اسمگلڈ تھا اس کو جوازمل گیا۔ اور تب کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہمارے اس تجربے سے اب کشمیر مسئلہ میں ہمارے ہاتھ اور مضبوط ہوئے ہیں۔
اب اس جوہری تجربے کو کشمیر سے جوڑنا سیاناپن نہیں تھا۔ یہ سوال ابھی تک قائم ہے کہ جوہری تجربہ جو پوکھرن-2 کیا تھا، اس کے کرنے سے کیا ہم زیادہ محفوظ ہوئے ہیں۔ کیا ہم زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔اس کے بعد جب گجرات میں گودھرا میں جو ہوا، گودھرا کے بعد جو ہوا، موجودہ وزیر عظم جو تب گجرات کے وزیراعلی تھے تو واجپائی صاحب وہاں پر گئے تھے۔
تب ان سے امید کی گئی تھی کہ یہ سخت فیصلہ لیںگے اور وزیراعلیٰ کو ہٹا دیںگے لیکن انہوں نے صرف نصیحت تک ہی بات رکھی کہ وزیراعلیٰ کو اپنا راج دھرم نبھانا چاہیے۔ ساتھ میں موجودہ وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے کہا وہی تو کر رہے ہیں صاحب۔ ایک یہ بھی شکایت ان سے رہی۔
بہر حال شکایتں ہوتی ہیں لیکن اٹل بہاری واجپائی صاحب کے بارے میں جو ہم کہنے جا رہے ہیں، اس کو کہے بنا ان کی شخصیت کو جاننا، ان کو خراج عقیدت پیش کرنا پورا نہیں ہوگا۔ان کا تعلق بے شک ہندوتوا نظریہ سے تھا اور انہوں نے اپنی پہچان بھی اسی نظریے سے بنائی۔ آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جاتے تھے اور گاندھیائی سیکولرازم کے خلاف انہوں نے اپنی پہچان بنائی لیکن یہ ہندتوا کے اکلوتے ایسے رہنما تھے جو اعتدال پسند تھے۔ جو سب کو ساتھ میں لےکر چلنے میں یقین رکھتے تھے۔
انہوں نے جو اس دور کے رہنما تھے پنڈت جواہر لال نہرو۔ ان لوگوں کو دیکھا تھا کہ کس طرح سے شائستگی سے ایک دوسرے سے پیش آتے تھے اور ان کو بھی پنڈت نہرو نے جس طریقے سے سراہا، یہاں تک کہا کہ کسی وقت جاکر یہ ہندوستان کے وزیر اعظم بنیںگے، یہ اس لائق ہیں۔
اور جب ان کو یواین بھیجا گیا تب یہ بہت جوان تھے۔ تب پنڈت نہرو نے تاکید کی تھی، رزگوترا (مہاراجہ کرشن رزگوترا)صاحب ہمارے خارجہ سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ بہت ہی نوجوان افسر تھے۔ ان سے کہا تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کو جتنے زیادہ دنیا کے رہنماؤں سے آپ ملوا سکتے ہیں ملوائیے۔
تو یہ اس ماحول میں پختہ ہوئے۔ انہوں نے وہ دور دیکھا جب توتو میں میں نہیں ہوتی تھی، جب ایک دوسرے کی برائی نہیں ہوتی تھی، نقل نہیں اتاری جاتی تھی۔ ان کے دل میں نفرت نہیں تھی، سب کو ساتھ لےکر چلتے تھے۔
میری ان سے چار دفعہ ملاقات ہوئی۔ شروعاتی دور میں یہ بابری مسجد میں جو ہو رہا تھا تب یہ اس کے مخالف تھے۔ سنہ 1986 کی بات ہے۔ تو میری ایک دوست تھیں ان کے پروگرام میں آئے تھے۔ ان سے جب پوچھا کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے، تب راجیو گاندھی کی حکومت تھی۔
تب ان کا کہنا تھا، میرے بالکل بغل میں بیٹھے تھے، جین اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ ہو رہی تھی، تب انہوں نے کہا، ہاں کچھ کر رہے ہیں وہاں پر کھودا کھادی۔ تو ان کے لہجے سے، ان کے الفاظ سے واضح تھا کہ شروعاتی دور میں یہ اس کے حق میں نہیں تھے۔
کشمیر کو لےکر انہوں نے گولی کی زبان نہیں انسانیت کی زبان اختیار کی اور ان کا ذکر مکمل نہیں ہوگا یہ کہے بغیر کہ انہی کے زمانے میں کہ کشمیر میں، جموں و کشمیر میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہوئے تھے۔ پہلے بندوقوں کے سایے میں یہاں ہوتے رہے تھے، لیکن ان کےزمانے میں فری اور فیئر الیکشن ہوئے تھے۔
اور بادشاہ جو ہوتے ہیں، اسٹیٹس مین جو ہوتے ہیں اس کی مثال انہوں نے تب دکھائی جب یہ پاکستان کے دورے پر گئے اور مینارپاکستان (لاہور) جو پاکستان کا ایک ایسا ستون ہے جو وہاں کی پہچان کہلاتا ہے۔مینارپاکستان پر ہندوستان کا وزیر اعظم جاتا ہے اور وہاں بولتا ہے۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے وجود کو منظورکرنا۔ یہ اسٹیٹس مین شپ تھی۔ ان کی پوری کوشش رہی کہ پاکستان کے دھوکے کے باوجود اس سے جو رشتے ہیں وہ بہتر ہوں۔
جب بس سے سفر کرتےہوئے یہ لاہور گئے تھے تو میں دوردرشن کے اسٹوڈیو سے براہ راست کمینٹری کر رہا تھا۔ میرے ساتھ مرحوم جے این دکشت تھے جو خارجہ سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ یہ بات اور تھی کہ جب بس داخل ہورہی تھی واگھا بارڈر سے پاکستان میں۔ اس وقت پاکستانی درانداز کارگل میں داخل ہو رہے تھے۔
کارگل کو جس طرح سے انہوں نے اور برجیش مشرا (اس وقت کے قومی سلامتی مشیر)نے ہینڈل کیا، وہ بھی قابل تعریف ہے۔تو یہ سب باتیں یاد رکھی جائیںگی جب ان کو یاد کیا جائےگا، کیونکہ وفاتیہ جو ہوتا ہے وہ آخری دستاویز ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بارے میں لکھا نہیں جائےگا۔
یہ تاریخ ہو چکے ہیں، کتابوں میں درج ہو چکے ہیں اس لئے خراج عقیدت کا ایماندار ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم نے اپنی کوشش کی ہے کہ جن باتوں کے لئے ان کی تنقید کی جائےگی وہ باتیں بھی ہم نے بتائی ہیں، جن باتوں کے لئے ان کی تعریف کی جائےگی، ان کو یاد رکھا جائےگا۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کبھی بھی انہوں نے میں، میں، میں نہیں کیا۔ کبھی بھی ان کے زمانے میں گئورکشا یا لنچنگ نہیں ہوئی، لو جہاد نہیں ہوا، بھیڑتنتر نہیں ہوا۔ سب کو ساتھ لےکر چلنے والے تھے یہ۔ ہمارا خراج عقیدت۔