وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے شروعاتی اصولوں میں امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کو مشہور ادارے کا ٹیگ نہیں مل پاتا۔ یہاں تک کہ وزارت خزانہ نے بھی خبردار کیا تھا کہ جس ادارے کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے اس کو’ انسٹی ٹیوٹ آف ایمننس ‘ کا درجہ دینا دلیلوں کے خلاف ہے۔
مذکورہ تناظر میں چوکیدار کون ہے، نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورنہ چھاپے پڑ جائیںگے اور ٹوئٹر پر ٹرولر کہنے لگیںگے کہ قانون میں اعتماد ہے تو مقدمہ جیتکر دکھائیے۔ جیسے ہندوستان میں فرضی مقدمہ ہی نہیں بنتا ہے اور انصاف جھٹ سے مل جاتا ہے۔ آپ لوگ بھی باخبر ہو جائیں۔ آپ کے خلاف کچھ بھی الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو اتنا تو کر دیجیے کہ ہندی اخبار لینا بند کر دیں یا پھر ایسا نہیں کر سکتے تو ہر مہینے الگ الگ ہندی اخبار لیں، تبھی پتا چلےگا کہ کیسے یہ ہندی اخبار حکومت کی تھمائی پرچی کو چھاپکر ہی آپ سے مہینے کا500-400 لوٹ رہے ہیں۔
ہندی چینلوں کا تو آپ حال جانتے ہیں۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اس کے لئے آپ کو 28 اور 29 اگست کے انڈین ایکسپریس میں ریتکا چوپڑا کی خبر پڑھنی ہوگی۔ آپ سب اتنا تو سمجھ ہی سکتے ہیں کہ اس طرح کی خبر آپ نے اپنے من پسند ہندی اخبار میں کب دیکھی تھی۔ انڈین ایکسپریس کی ریتکا چوپڑا دو دنوں سے لمبی لمبی رپورٹ فائل کر رہی ہیں کہ کس طرح امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کے لئے پی ایم او کے کہنے پر اصولوں کو تبدیل کیا گیا۔ ریتکا نے آر ٹی آئی کے ذریعے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور پی ایم او کے درمیان خط وکتابت حاصل کر کے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔
وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے شروع میں جو اصول بنائے تھے اس کے مطابق امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کو مشہور ادارے کا ٹیگ نہیں مل سکتا تھا۔ یہاں تک کہ وزارت خزانہ نے بھی خبردار کیا تھا کہ جس ادارے کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے اس کو انسٹی ٹیوٹ آف ایمننس کا درجہ دینا دلیلوں کے خلاف ہے۔ اس سے ہندوستان میں ایجوکیشن سسٹم کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس کے بعد بھی امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے مجبور کیا گیا۔
وزارت خزانہ کے ڈپارٹمنت آف ایکسپینڈیچر نے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کو لکھا تھا کہ اس طرح سے ایک ایسے ادارے کو آگے کرنا جو ابھی تک قائم نہیں ہوا ہے، ان اداروں کے مقابلے میں اس کے برانڈ ویلیو کو بڑھانا ہوگا جنہوں نے اپنے ادارے کو قائم کر لیا ہے۔ اس سے ان کا جوش کم ہوگا۔ صرف منشا کی بنیاد پر کہ مستقبل میں کچھ ایسا کریںگے، کسی ادارے کو انسٹی ٹیوٹ آف ایمننس کا درجہ دینا دلیلوں کے خلاف ہے۔ اس لئے جو نئے اصول بنائے گئے ہیں ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے ۔
وزارت خزانہ اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی رائے کے خلاف جاکر پی ایم او سے امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کو درجہ دلوانے کی خبر آپ انڈین ایکسپریس میں پڑھ سکتے ہیں۔ بھلےہی اس خبر میں یہ نہیں ہے کہ چوکیدار جی امبانی کے لئے اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں لیکن اس خبر کو پڑھتے ہی آپ کو یہی سمجھ آئےگا۔ دو دنوں سے خبر چھپ رہی ہے مگر کسی نے تردید نہیں کی ہے۔
اڈانی جی کی ایک کمپنی ہے، Adani Enterprises Ltd۔ یہ کمپنی سنگاپور کے ہائی کورٹ میں اپنا کیس ہار چکی ہے۔ ہندوستان کے ریونیو انٹلی جنس نے کئی خط جاری کرکے اس کمپنی کے بارے میں دنیا کے الگ الگ ممالک سے جواب مانگے ہیں۔ تو اس کے خلاف اڈانی جی ممبئی ہائی کورٹ گئے ہیں کہ ڈپارٹمنت آف ریونیو انٹلی جنس کے لیٹرس روگیٹری کو رد کر دیا جائے۔ جب آپ بیرونی ملک سے عدالتی مدد مانگتے ہیں تو اس ملک کو ‘ لیٹر آف روگیٹری ‘ جاری کرنا پڑتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ چوکیدار جی نے ممبئی کے ایک پروگرام میں ‘ ہمارے میہل بھائی ‘ کہہ دیا تھا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی ‘ ہمارے میہل بھائی ‘ نے عظیم ہندوستان کی شہریت چھوڑکر عظیم اینٹیگوا کی شہریت لے لی ہے۔ چوکیدار جیکے ‘ ہمارے میہل بھائی ‘ مسلسل ہندوستان کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان نہیں جائیںگے کیونکہ وہاں کی جیلوں کی حالت بہت خراب ہے۔
چوکیدار جیکے ‘ ہمارے میہل بھائی ‘ پر محض 13500 کروڑ کے غبن کے الزامات ہیں۔ حکومت چاہے تو ان کے لئے 1 کروڑ خرچ کرکے الگ سے جیل بنوا سکتی ہے یا کسی ہوٹل کے کمرے کو جیل میں بدل سکتی ہے۔ کم سے کم میہل بھائی کو وہاں رہنے میں تو دقت نہیں ہوگی۔ کہاں تو کالا دھن آنے والا تھا، کہاں کالا دھن والے ہی چلے گئے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے شری روی شنکر کا ایک ٹوئٹ گھومتا ہے کہ مودی جی وزیر اعظم بنیںگے تو ایک ڈالر 40 روپے کا ہو جائےگا۔
فی الحال یہ 70 روپے کا ہو گیا ہے اور ہندوستان کی تاریخ میں اتنا کمزور کبھی نہیں ہوا ہے۔ ویسے بھی آپ تک اس کی خبر نمایاں طور پر نہیں پہنچی ہوگی اور جن کے پاس پہنچی ہے ان کے لئے دلیل کے پیمانے بدلے جا رہے ہیں۔ نیتی آیوگ کے نائب صدر ہیں راجیو کمار۔ راجیو نے کہا ہے کہ ہمیں کرنسی کی بنیاد پر معیشت کو جج کرنے کی ذہنیت چھوڑنی ہی پڑےگی۔ مضبوط کرنسی میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
واقعی ایسے لوگوں کے اچھے دن ہیں۔ کچھ بھی دلیل دیتے ہیں اور بازار میں چل جاتی ہے۔ راجیو کمار کو پتہ نہیں ہے کہ ان کے چیئر مین چوکیدار جی بھی ہندوستانی روپے کی کمزوری کو دنیا میں ہندوستان کی گرتی ساکھ اور شہرت سے جوڑا کرتے تھے۔ سب سے پہلے ان کو جاکر یہ بات سمجھائیں۔ ویسے وہ سمجھ گئے ہوںگے۔ ویسے آپ کوئی بھی مضمون پڑھیںگے، اس میں یہی ہوگا کہ روپیہ کمزور ہوتا ہے تو اس کا اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ مالی نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2018 کے سال میں ہندوستانی روپیہ ہی دنیا بھر میں سب سے خراب مظاہرہ کر رہا ہے۔
ویسے بابا رام دیو نے بھی رجت شرما کی آپ کی عدالت میں کہا تھا کہ مودی جی آ جائیںگے تو پیٹرول 35 روپیہ فی لیٹر ملےگا۔ اس وقت تو کئی شہروں میں 86 اور 87 روپیے فی لیٹر مل رہا ہے۔ یہ سب سوال پوچھنا بند کر دیجئے ورنہ کوئی آئےگا فرضی کاغذ پر آپ کا نام لکھا ہوگا اور پھنساکر چلا جائےگا۔ جب ٹی وی اور اخباروں میں اتنا ڈر گھس جائے تبھی شاندار موقع ہوتا ہے کہ آپ اپنی محنت کی کمائی کا 1000 روپیہ بچا لیں۔ دونوں کو بند کر دیں۔ کچھ نہیں تو کم سے کم یہ کام تو کر ہی سکتے ہیں۔ ہمیشہ کے لئے نہیں بند کر سکتے، مگر ایک مہینے کے لئے تو بند کر ہی سکتے ہیں۔
(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک )
Categories: فکر و نظر