جھارکھنڈ میں عیسائی مشنری اور چرچ ،ریاستی حکومت کے رویے پر لگاتار سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ واقعات کو مرکز میں رکھکر بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی بھی مشنری اداروں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے۔
کیا جھارکھنڈ میں عیسائی مشنریوں کے خلاف بی جے پی کی حکومت متعصب ہوکر ظالمانہ اور مکمل جانبداری کا رویہ اپنا رہی ہے۔ کیا واقعی میں عیسائیوں کو ان کے عقیدےکو لےکر نشانے پر لیا جا رہا ہے۔ ریجنل بشپ کاؤنسل اور رومن کیتھولک چرچ کے بشپوں نے حال ہی میں یہ سوال اٹھائے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سوال ریاست میں سیاسی اور سماجی حالات کو بیاں کر رہا ہیں ۔ گزشتہ 6 اگست کو فیلکس ٹوپو نے رانچی کے چوتھے آرچ بشپ کا عہدہ سنبھالا ہے۔ فیلکس ٹوپو جھارکھنڈ اور انڈمان ریجنل بشپس کاؤنسل (جھان) کے صدر بھی ہیں۔
اسی عہدے سے انہوں نے بیان جاری کرتے ہوئے اور کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جھارکھنڈ میں عیسائی مشنریوں کے متعلق حکومت کا رویہ ظالمانہ ہے۔ آرچ بِشپ کے ان بیانات کے معنی نکالے جانے لگے ہیں۔ جان کار بتاتے ہیں کہ رانچی میں واقع سنت ماریا گرجاگھر میں محبت، امن اور انصاف کا پیغام لےکر جوش و امنگ، اور مبارکباد کا دور اور دعائیہ نغموں کی گونجکے درمیان جب فیلکس ٹوپو آرچ بِشپ کی حیثیت سے عہدہ سنبھال رہے تھے، تب اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا تھا کہ پیدا شدہ حالات پر ان کی نظریں ہیں اور وہ جلد ہی سوالوں اور صفائی کے ساتھ سامنے آئیںگے۔
دراصل ریاست میں سی آئی ڈی پولیس ان دنوں Foreign Contribution (Regulation) Act (ایف سی آر اے) کے تحت مختص فنڈ اور اس کے ذریعے کئے گئے کام کو لےکر عیسائیوں سے جڑی غیر سرکاری اداروں کی جانچکر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں پچھلے 9 اگست کو ایک ساتھ 37 اداروں پر چھاپے مارے گئے تھے۔ انہی کارروائی کے مدنظر آرچ بِشپ نے اور بھی کئی سوال اٹھائے ہیں۔ ویسے ریجنل بشپس کاؤنسل کے رد عمل آنے سے ٹھیک پہلے رومن کیتھولک چرچ کے بشپس نے بھی گورنر دروپدی مرمو سے ملکر اپنی بے چینی ظاہر کی تھی۔ بشپس نے گورنر سے کہا ہے کہ جھارکھنڈ میں عیسائیوں کو ان کے عقیدےکو لےکر نشانے پر لیا جا رہا ہے۔
تب یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر یہ حالات کیسے پیدا ہوئے ۔ ا س کے مرکز میں تین واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان واقعات نے عیسائی اداروں اور چرچ کے مذہبی رہنماؤں کو سقطے میں ڈالا ہے، تو بی جے پی اور آر ایس ایس-وہپ کے رہنما اور اہلکار کھلکر نشانے سادھنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہےہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی اس مانگ پر بھی زور دے رہی ہے کہ جو آدیواسی مذہب بدلکر عیسائی بنے ان کو ملنے والے ایس ٹی کے ریزرویشن کو ختم کیا جائے۔ لہذا اس مانگ پر الگ ہی بحث چھڑی ہے۔
تب حزب مخالف جماعتوں کے رہنما اور عیسائیوں کی کئی تنظیم یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ ان مانگوں اور واقعات کے برعکس بی جے پی اور اس کی حکومت انتخابی آہٹ کے ساتھ اپنا سیاسی ایجنڈہ طے کر رہی ہے۔
وہ تین واقعات
کھونٹی کے کوچانگ گاؤں میں پانچ سماجی کارکنوں کے ساتھ گینگ ریپ کے معاملے میں اسکول کے فادر الفانسو آئیند گرفتار
دمکا میں مذہب تبدیل کرانے کی کوششوں کے الزام میں عیسائیوں کے 16 مبلغ گرفتار
رانچی میں واقع مشنریز آف چیرٹی پر بچہ بیچنے کا الزام، ایک خاتون کارکن اور ایک سسٹر گرفتار
ان تینوں واقعات میں قانونی کارروائی جاری ہے۔ گینگ ریپ کے واقعہ میں فادر کے علاوہ دیگر چار ملزمین کو بھی گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے۔ حالانکہ گینگ ریپ کے معاملے میں گرفتار فادر پر الزام ہے کہ انہوں نے واقعہ کی جانکاری پولیس کو نہیں دی اور لڑکیوں کو اغوا کئے جانے میں سازش کی۔ اس بیچ رانچی میں واقع مشنریز آف چیرٹی سے بچہ بیچے جانے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مختلف سطح پر تفتیش کی گئی ہے۔ اور ضلع انتظامیہ نے ان دونوں اداروں کا رجسٹریشن رد کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔
اس سے پہلے چیرٹی کے دونوں اداروں سے خواتین اور لڑکیوں اور بچوں سے خالی کراتے ہوئے دوسرے شیلٹر ہوم میں شفٹ کیا گیا ہے۔ چیرٹی پر لگے الزامات کے بعد عیسائیوں سے منسلک دوسرے اداروں کو بھی جانچکے گھیرے میں لیا گیا ہے۔ مشنری اداروں پر براہ راست طور پر یہ الزام بھی لگائے جاتے رہے ہیں کہ پتھل گڑی آندولن کو ہوا دینے میں ان کا رول رہا ہے۔
طرح طرح کے الزامات اور موجودہ حالات کی مخالفت میں پچھلے مہینےنیشنل عیسائی فیڈریشن کے بینر تلے راجدھانی رانچی میں بھاری بارش کے درمیان مسیحی کمیونٹی کے لوگوں نے مظاہرہ کیا تھا۔ اس مظاہرہ میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پرامن طریقے سے وہ ان موضوعات پر آگے بھی عدم اطمینان ظاہر کرتے رہیںگے۔
غور طلب ہے کہ مشنریز آف چیرٹی پر لگے الزامات اور پولیس کی کارروائی کے بعد Ministry of Women and Child Welfare Development، حکومت ہند نے بھی اس معاملےکو سنجیدگی سے لیا ہے اور ریاست کے چیف سکریٹری کو ایک خط بھیجکر ریاست میں چل رہے چیرٹی کے تمام اداروں اور بال گریہہ سے متعلق مشنریوں کی تفتیش کراکر ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے۔ اسی وزارت نے یہ بھی تاکید کی ہے کہ ریاستی حکومت ان اداروں میں جوینائل جسٹس ایکٹ کی تعمیل پر نظر رکھے۔ یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد National Child Protection Commission کی ٹیم بھی حالات کا جائزہ لینے رانچی پہنچی تھی۔
اس بیچ ہوم ڈپارٹمنٹ، حکومت ہند نے جھارکھنڈ پولیس سے کہا ہے کہ عیسائیوں سے جڑی غیر سرکاری مشنریوں کی جانچکی رپورٹ بھیجی جائے۔ لہذا ایف سی آر اے کے تحت ملنے والے فنڈ اور اس کے استعمال کو لےکر جانچ کی ذمہ داری سی آئی ڈی کو دی گئی ہے۔ حال ہی میں سی آئی ڈی نے ایک ساتھ 37 عیسائی مشنریوں پر چھاپے مارے تھے اور آپریٹرز سے ایف سی آر اے سے متعلق معاملوں میں کئی قسم کی جانکاریاں مانگی ہے۔
عیسائی مشنریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سوال ہیں کہ صرف مشنری اداروں کو جانچکے دائرے میں کیوں لیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں آرچ بِشپ ٹوپو نے بیان جاری کر کے کہا ہے کہ کرنسی کنٹرول لاء کو لےکر جواب دینے کے لئے جس طرح کے دباؤ بنائے جا رہے ہیں اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں وہ تعصب آمیزہیں۔ جبکہ آڈیٹڈ ایف سی آر اکاؤنٹ حکومت ہند کو دیے جا چکے ہیں۔ بشپ نے یہ بھی کہا ہے کہ غیر سرکاری مشنریوں نے انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ معصوم آدیواسیوں کے مذہب تبدیل کرانے کے جو الزام لگائے جاتے رہے ہیں اس سے متعلق پختہ جانکاری اور فیکٹس دستیاب کرائے جائیں، تاکہ ملزم فریق اپنی صفائی دے سکے۔ لیکن انتظامیہ نے اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی ہے۔
بشپ نے اس معاملے پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وکاس بھارتی جیسی غیر سرکاری تنظیم پر کوئی تفتیش کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔ یہ رویہ جانبدارانہ ہے، جبکہ یہ ادارہ بھی مختلف ذرائع سے اقتصادی مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ غیر سرکاری تنظیم وکاس بھارتی کے حکومت اور بی جے پی سے قریبی تعلقات کی بات کہی جاتی رہی ہے ۔
اس سے پہلے رومن کیتھولک چرچ کے بشپ میں تھیوڈور ماسکرینہاس، تیلسفور بیلنگ، فادر جوزف مریانس کوجر، بشپ ونئے کنڈولنا وغیرہ نے گورنر سے ملکر یہ یقینی بنانے کی گزارش کی تھی کہ جھارکھنڈ ریاست میں مسیحی بنا کسی پریشانی، خدمت کا کام کر سکیں۔ تب بشپ ماسکرینہاس نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھائے تھے کہ صرف عیسائیوں سے جڑی غیر سرکاری مشنریوں کے خلاف سختی کیوں برتی جا جا رہی ہے اور جانچکے نام پر طرح طرح کے سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں۔ ان کارروائیوں کے ذریعے پوری عیسائی کمیونٹی کا نام خراب کیا جا رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی معاملے میں انسانی بھول کی گنجائش ہے۔ اسی بہانے مشنریوں کے تمام اداروں کے کام کاج پر سوال نہیں اٹھائے جانے چاہیے اور نہ ہی بدنام کرنے کی کوششیں ہونی چاہیے ۔ مشنری ادارے امن اور انصاف پسند ہیں۔ ان کو پریشان نہیں کیا جانا چاہیے ۔ ان واقعات کے درمیان ہندو جاگرن منچ، آر ایس ایس، وی ایچ پی کی سیدھی نظر بھی مشنری اداروں پر لگے الزامات اور جاری کارروائی پر ہے۔
ہندو جاگرن منچ کی علاقائی تنظیم کے وزیر اور آر ایس ایس کے سینئر کیمپینر سمن کمار نے گزشتہ دنوں رانچی دورے کے سلسلے میں مشنریز آف چیرٹی پر لگے الزامات کے تناظر میں کہا بھی تھا کہ خدمت کی آڑ میں مشنریوں کے کارنامے اجاگر ہونے لگے ہیں۔ سمن کمار نے چرچ کے کردار پر بھی سوال کھڑے کرتے ہوئے حکومت کی سخت کارروائیوں کو ضروری بتایا تھا۔
اس بیچ دو اگست کو رانچی میں ہی وی ایچ پی کے اکھل بھارتیہ دھرم پرسار کے چیف جگل کشور نے میڈیا سے بات چیت میں واضح طور پر کہا کہ حکومت چرچوں کی مبینہ ملک مخالف سرگرمیوں کی جانچ کرائے۔ مشنریز آف چیرٹی پر لگے الزامات کے تناظر میں عیسائی مشنریوں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈ کا حساب بھی لیا جانا چاہیے۔ جگل کشور کے ساتھ موجود وی ایچ پی کے دوسرے رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگائے کہ پتھل گڑی آندولن کو ہوا دینے میں چرچ کا رول رہا ہے۔
غور طلب ہے کہ پتھل گڑی آندولن کو لےکر پیدا ہوئے تصادم کے درمیان جھارکھنڈ ریاست میں بی جے پی کے کئی رہنما بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ حکومت کے کام کاج اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لحاظ سے پتھل گڑی آندولن کو ہوا دینے میں مشنریاں ملوث رہی ہیں۔ جبکہ مشنری ادارے ان الزامات پر سیدھا جواب دینے سے بچتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں حکومت کو عوام کے کسی سوال پر مخالفت کا سامنا کرنا ہوتا ہے، تو عیسائیوں پر آسانی سے الزام لگا دئے جاتے ہیں۔
اس بیچ بی جے پی کے کئی رہنماؤں کے علاوہ کچھ سرنا آدیواسی تنظیم اس مانگ پر زور دیتی دکھائی دے رہی ہیں کہ عیسائی مذہب اپنانے والے آدیواسیوں کو ایس ٹی کمیونٹی کو ملنے والے ریزرویشن کا فائدہ نہیں دیا جائے۔ اسی سلسلے میں پچھلے 9 اگست کو گوڈا سے بی جے پی کے رکن پارلیامان نشی کانت دوبے نے لوک سبھا میں بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ 10 اگست کو انہوں نے اپنی وال پر اس کا ویڈیو بھی جاری کیا ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ جھارکھنڈ سمیت کئی ریاستوں میں آدیواسی سماج میں عیسائی مذہب کا کنورژن (تبدیلی مذہب)بڑھا ہے۔ تعلیم، صحت کے نام پر یہ کام کرائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مشنریز آف چیرٹی کی سرگرمیوں پر بھی سخت الزام لگائے ہیں۔ ساتھ ہی مانگ کی ہے کہ آدیواسیوں کو علاقے کے نام پر جب ریزرویشن نہیں ملتا ہے، تو مذہب کی بنیاد پر بھی ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے ۔ اس سے پہلے کھونٹی میں فادر کی گرفتاری اور فوراً بعد مشنریز آف چیرٹی پر لگے الزامات کو مرکز میں رکھتے ہوئے بی جے پی کے رکن پارلیامان سمیر ارانو اور ایم ایل اے رام کمار پاہن کے ذریعے جاری اس بیان کی بات چیت بھی بامعنی ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے کہا تھا کہ کئی معاملوں کو لےکر چرچ اور مشنری اداروں کا کردار تو شک کے گھیرے میں ہے ہی اب ان کی پول بھی کھلنے لگی ہے۔
جبکہ گزشتہ سال ریاستی حکومت نے جھارکھنڈ میں Religious Freedom Bill نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے نافذ کئے جانے کے خلاف مسیحی کمیونٹی اور آل چرچیز ایسوسی ایشن، سینگیل مہم جیسی تنظیم جگہ جگہ مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین کے بانی صدر اور جھارکھنڈ آندولن کے اہم رہنما رہے پربھاکر تیرکی ابھی عیسائی فیڈریشن کے قومی صدر ہیں۔ پربھاکر یترکی کہتے ہیں کہ مشنریوں کے خلاف بی جے پی اور اس کی حکومت جس طرح ڈر کا ماحول بنا رہی ہے اس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
دراصل جھارکھنڈ میں زمین کی حفاظت اور آئینی حقوق کو لےکر آدیواسی لگاتار حکومت کی پالیسی اور کارروائی کے خلاف آندولن کرتے رہے ہیں۔ تو اس آندولن کو کمزور کرنے اور مذہب کے نام پر آدیواسیوں کو بانٹنے کی سیاست میں حکومت مشنری کو بدنام کرنے میں جٹی ہے۔ پربھاکر کہتے ہیں کہ گرفتاری، جگہ جگہ چھاپے، پوچھ تاچھ اور تفتیش کا سلسلہ اس لئے تیز ہوا ہے کہ مشنری ادارے اور عیسائی کمیونٹی کو جھارکھنڈی سماج میں ذلیل کیا جا سکے۔ جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کی بھی غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہیے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الگ ریاست کی تشکیل کے بعد اس طرح کا ماحول پہلی دفعہ بنایا جا رہا ہے۔
تیزی سے بدلتے ان حالات کے درمیان جھارکھنڈ کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں میں سابق وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی، سابق وزیر بندھو تیرکی، سابق رکن پارلیامان پردیپ بلموچو، سابق مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے سمیت کئی عوامی مشنریوں کے سماجی کارکن بھی لگاتار اپنا رد عمل ظاہر کرتے رہے ہیں۔سبودھ کانت سہائے کا کہنا ہے کہ حکومت اور بی جے پی کا رخ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہ راستہ جھارکھنڈ وہ اپنا سیاسی ایجیڈہ طے کر رہے ہیں۔ کسی معاملے میں قانون جب کام کر رہا ہے، تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ کیوں اتنی بے قراری دکھاتے ہیں۔
سابق وزیر اور جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے رہنما بندھو تیرکی کا کہنا ہے کہ صحت، تعلیم اور انسانیت کے شعبہ میں کام کر رہے مشنری اداروں کو یقیناً ظلم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ البتہ سیاسی جماعتوں اور سماجی مشنریوں کے ذریعے کی جانے والی کسی بھی ریلی، جلسہ، مارچ اور مظاہرےکے پیچھے عیسائیوں کا ہاتھ قرار دینا افسوس ناک ہے۔ یہ آدیواسیوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی سوچی سمجھی چال ہو سکتی ہے۔
پردیپ بلموچو کے سوال ہیں کہ صرف عیسائیوں سے جڑی غیر سرکاری مشنریوں کی تفتیش کیوں۔ یہ کارروائی حکومت کا نظریہ ظاہر کرتی ہے۔ کارروائی کے نام پر اداروں کو ڈرایا بھی جاتا رہا ہے۔ ایسی حالت اس ریاست میں پہلے نہیں تھی۔ آگے ڈر اس کا ہے کہ انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ اس کو طول دیا جا سکتا ہے۔
ادھر بی جے پی کے ریاستی ترجمان پرتل شاہ دیو بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان معاملوں کو ایک نظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ آخر کن سچا ئیوں کے سامنے آنے سے عیسائی مذہبی رہنما اور تنظیم پریشان ہیں۔
مشنریز آف چیرٹی پر جو الزام لگے ہیں یا کھونٹی، دمکا میں فادر اور عیسائیوں کے کیمپینروں کی گرفتاری میں قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ البتہ دمکا میں تو آدیواسی گرام پردھان کی قیادت میں گاؤں والوں نے عیسائی مبلغوں کی مخالفت کی اور پولیس میں معاملہ درج کرایا۔ پرتل کہتے ہیں کہ عیسائی مشنریوں سے منسلک اداروں کی تفتیش مرکزی حکومت کی ہدایت پر کی جا رہی ہے۔ اس میں جھارکھنڈ بی جے پی کے کیا ہاتھ ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ عیسائی مذہبی رہنماؤں کو اپنے کام کے دائرے کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ان کے سوالوں اور رخ سے جانچ کے متاثر ہونے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ اگر عیسائی اداروں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، تو جانچ پر اعتراض کیوں۔ بی جے پی ان سوالوں کو مدعا بنا رہی ہے یہ الزام بے بنیاد ہے۔ پارٹی کا نظریہ واضح ہے : سب کا ساتھ سب کا وکاس۔
پرتل کا دعویٰ ہے کہ مرکز اور ریاست کی حکومت کسی مذہب کے ساتھ جانبداری نہیں کرتی۔ ہاں پارٹی اس بات کی ضرور وکالت کر رہی ہے کہ جو آدیواسی مذہب بدلکر عیسائی بنیں ،ان کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں دیا جانا چاہیے ۔ کیونکہ آدیواسیوں کی رسم و رواج، روایت ان سے الگ ہیں۔ اور یہ مانگ آدیواسیوں کے درمیان بھی ابھرتی رہی ہے۔ کسی آندولن یا ریلی، جلسے میں عیسائیوں کے رول کو لےکر بی جے پی اکثر سوال کھڑا کرتی ہے، اس معاملے میں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کی اطلاعات ہماری پارٹی اور حکومت کو ملتی رہی ہیں اس میں یہ سوال ایک حد تک جائز ہے۔
آدیواسی موضوعات کے جانکار اور کئی مدعوں پر پینی نظر رکھتے رہے آدیواسی بدھی جیوی منچ کے صدر پریم چندر مرمو ،بی جے پی کی دلیلوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ پانچوےشیڈیول میں آئینی صدر کی حیثیت سے گورنر کو ان معاملوں میں مداخلت کرنی چاہیے ، ساتھ ہی حکومت کو بھی مساوات کا نظریہ اپنانا چاہیے۔ یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ چرچ کے بشپوں نے انہی خیالات سے گورنر کو اپنی فکر سےواقف کرایا ہے۔ مرمو کہتے ہیں اس قسم کا ماحول بناکر ریاست کے عوامی مسائل کو موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کئی رپورٹس کی گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ترقی اور کل-کارخانے کے سوال پر سب سے زیادہ خمیازہ آدیواسیوں نے بھگتا ہے۔
اب آدیواسی ان باتوں کو لےکر آندولن کریں، تو اس کو کمزور کرنے کے لئے کئی قسم کی کارروائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ رہی بات ریزرویشن کی، تو اچھالنے کے بجائے حکومتوں کو اس پر پالیسی واضح کرنی چاہیے کیونکہ یہ آئینی حق ہے۔ آدیواسی موضوعات پر لگاتار کام کر رہے نوجوان صحافی اورقلمکار کارنولیوس منج کہتے ہیں کہ مشنری ادارے تعلیم، صحت، انسانیت، بیداری کے شعبے میں دہائیوں سے ان علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
لیکن حال کے کچھ واقعات کو مرکز میں رکھتے ہوئے یہ الزام آسانی سے لگائے جانے لگے ہیں کہ مشنری ادارے خدمت کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیاں اور تبدیلی مذہب کو بڑھاوا دیتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان الزامات سے ادارہ اور مسیحی کمیونٹی دکھی ہیں۔ اس سے سماجی تانےبانے پر اثر اور خاص کر آدیواسیوں اور ان کے درمیان کے سوالوں پر خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
منج بتاتے ہیں کہ وہ خود بھی مسیحی کمیونٹی، مشنریوں ، بشپ سے بات چیت کرکے ان الزامات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تب ایک بات خاص طور پر نشان زد ہوتی رہی ہے کہ چرچ کے مذہبی رہنما، عیسائی تنظیم بھی یہ چاہتی ہے کہ جو الزام لگائے جاتے ہیں ان کی حقیقت اور ثبوت بھی سامنے لایا جانا چاہیے ۔
منج کہتے ہیں کہ وہ اکثر مشن کے ذریعے چلائے جا رہے اسکولوں اور کالجوں کے پروگرام کور کرتے ہیں۔ راجدھانی رانچی میں ہی دہائیوں سے دوسرے مذہب کے بچے سالوں تک ان اداروں میں پڑھتے رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں، لیکن کبھی ان لوگوں نے یہ احساس نہیں کیا ہوگا کہ تعلیمی ادارے میں تبدیلی مذہب کو لےکر کوئی شکایت یا بات سامنے آتی ہوگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ریاست میں آدیواسی زیادہ اہم ہے اور اب تو عیسائی بھی سرنا آدیواسیوں کے سرنا کوڈ کی مانگ کی حمایت کر رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں آدیواسی، مردم شماری میں الگ سے سرنا کوڈ کالم دینے کے لئے سالوں سے آندولن کرتے رہے ہیں تاکہ ان کی تعداد بھی سامنے آئے۔حالانکہ دمکا کے شکاری پاڑا میں بی جے پی رہنما اور آدیواسی نمائندہ، شیام مرانڈی کی شکایت ہے کہ سنتھال پرگنہ علاقے میں عیسائی مذہب کے مبینہ مبلغوں نے معصوم آدیواسیوں کو لالچ دےکر، خدمت کے نام پر سالوں سے مذہب تبدیل کراتے رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت مذہب تبدیلی کو لےکر جو قانون لائی ہے، وہ آدیواسیوں کے مفاد میں ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔ )
Categories: گراؤنڈ رپورٹ