راجواردھن راتھوڑے کی تصویر کی حقیقت وہ نہیں ہے جو سوشل میڈیا میں عام کی جا رہی ہے اور جس کے تعلق سے میڈیا پورٹلوں پر جھوٹے مضامین لکھے جا رہے ہیں۔
کیرالہ سیلاب کے بعد جھوٹی خبروں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے بھی بدستور جاری رہا۔ ان خبروں میں اکثر کا تعلق کیرالہ کو دی جانے والی امداد سے ہے۔ سوشل میڈیا میں عام کی جانے والی کئی تصویروں میں ایک تصویر وہ بھی تھی جس میں بی جے پی کے سیاسی رہنماؤں کو 25کروڑ روپے کا ایک بینک چیک کیرالہ کے چیف منسٹر کو پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان رہنماؤں میں مرکزی حکومت کے منسٹر بھی موجود ہیں۔
اس تصویر کو سوشل میڈیا میں یہ کہہ کر عام کیا گیا کہ کیرالہ میں سیلاب سے متاثر لوگوں کی مدد کے لئے بی جے پی کے رہنماؤں نے کیرالہ کے چیف منسٹر کو25 کروڑ کا چیک پیش کیا ہے! فیس بک پر شرے کمار شرےدھرن نائر نے تصور شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ:
بی جے پی منسٹروں اور پارلیامانی ممبروں نے کیرالہ کے لئے25 کروڑ روپے دئے ہیں، اب یہ نہ کہنا کہ آپ کو کچھ ملا ہی نہیں ہے !
تصویر میں کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بی جے پی کے ایم پی وی۔ مرلی دھرن اور منسٹر آف اسٹیٹ الفونس کنن تھانم موجود ہیں اور25 کروڑ روپے کا بینک چیک وزیر اعلیٰ کو پیش کر رہے ہیں۔
الٹ نیوز نے اس معاملےمیں انکشاف کیا اور پایا کہ سوشل میڈیا پر عام کی گئی تصویر بیشک صحیح ہیں، وہ فوٹو شاپ کی تصویر نہیں ہے لیکن اس تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے غلط ہیں۔ یہ تصویر21 اگست کی تصویر ہے اور بی جے پی کے رہنما اپنی جیب یا پارٹی فنڈ سے 25 کروڑ روپے کی مدد نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ امداد سرکاری پٹرولیم کمپنی ہندوستان پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ کمپنی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس تصویر کو ٹوئٹ کیا تھا اور اس بات کو درج بھی کیا تھا کہ یہ چیک جناب الفونس نے کمپنی کی جانب سے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کو پیش کیا ہے۔
بی جے پی کے ایم پی وی مرلی دھرن نے بھی اپنے ٹوئٹ میں یہی لکھا تھا کہ25 کروڑ روپے کا یہ چیک ہندوستان پٹرولیم کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ حالانکہ مرلی دھرن نے اپنے سیاسی غرض کی وجہ سے ٹوئٹ میں سب سے پہلے نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ منافع پرست سرکاری کمپنیاں اپنےروز مرہ کے معاملات میں سرکار کی پابند نہیں ہوتی ہیں اور اپنے انتظامی دائرے میں بہت حد تک خود مختار ہوتی ہیں!
لہذا بی جے پی کی طرف سے 25 کروڑ روپے کی مدد والی تصویر جھوٹی تھی۔
2018 کے ایشین گیمز انڈونیشیا میں ہو رہے ہیں۔18 اگست کو افتتاحی تقریب کے بعد آج2 ستمبر کو اختتام پر پہنچنے والا یہ کھیل تقریباً14 دن چلا۔ہندوستانی کھلاڑیوں نے اپنے کیا جوہر دکھائے، اس بات کا ذکر ہم اپنے اسپورٹس راؤنڈ اپ میں کر چکے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا کاروبار کیرالہ سیلاب کی طرح ایشین گیمز کا بھی سیاسی منافع اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے جکارتہ انڈونیشیا میں موجود ہندوستان کے اسپورٹس منسٹر راجوردھن سنگھ راٹھور کی تصویر سوشل میڈیا میں بہت عام ہوئی جس میں راٹھور کے ہاتھوں میں ایک ٹرے موجود ہے۔ ٹرے میں کچھ برتن رکھے ہوئے ہیں اور ٹرے لیکر راٹھور کھلاڑیوں کے پاس کھڑے ہیں۔تصویر کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ اس تصویر میں جو شخص ہندوستانی کھلاڑیوں کی خدمت کر رہا ہے وہ ہندوستان کے اسپورٹس منسٹر ہیں !
اس تصویر کو اتنی مقبولیت ملی کہ فیک نیوز ویب سائٹ پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی مہیش ہیگڈے سے لیکر NDTV تک نے اس تصویر کو سچ مان لیا ! ان کے علاوہ The Frustrated Indian، تلنگانہ بی جے پی کے صدر ڈاکٹر کے لَشمَن ، بی جے پی کرناٹک ایم ایل اے رگھوپتی بھٹ، ایم ایل اے کپل مشرا نے بھی اسی تصویر کو اسی دعوے کے ساتھ شئیر کیا!میڈیا کے حالات پر ایک نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ NDTV کے علاوہ DNA، دینک جاگرن، انڈیا ٹی وی اور ری پبلیک ٹی وی نے اس پر مضامین شائع کئے اور خبریں نشر کیں! ABP نے اپنے خصوصی پروگرام وائرل سچ میں اس تصویر کی تفتیش کی لیکن افسوس انہوں نے بھی اس تصویر کو صحیح ٹھہرایا !
اس کے برعکس تصویر کی حقیقت کچھ اور ہے۔ الٹ نیوز کی دلیلوں کے مطابق یہ تصویر کھلاڑیوں کو کھانا پروسنے کی نہیں ہے۔ راجوردھن سنگھ راتھوڑے کے ہاتھ میں جو ٹرے ہے اس میں وہ خود ہی کچھ کھا رہے ہیں اور اسی دوران وہ کھلاڑیوں سے بھی گفتگو کر رہے ہیں۔ الٹ نیوز کے انکشاف کی تائید جکارتہ میں موجود صحافی دگ وجے سنگھ دیو کے ٹوئٹ سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے دو ٹوئٹ اس طرح کئے:
#AsianGames2018: Did @Ra_THORe really serve tea and food to athletes? senior sports journalist @DiggySinghDeo posted the sequence of pictures…. https://t.co/Bzkrgtx5FJ
— LatestLY (@latestly) August 28, 2018
Wrong. He wasn't serving tea. Don't fall for propaganda. @DiggySinghDeo @Padmadeo what's the truth behind this picture?
— Mi'Laard (@ObjectionMilard) August 28, 2018
لہذا، راجواردھن راتھوڑے کی تصویر کی حقیقت وہ نہیں ہے جو سوشل میڈیا میں عام کی جا رہی ہے اور جس کے تعلق سے میڈیا پورٹلوں پر جھوٹے مضامین لکھے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد سے لوگوں کے درمیان سیاسی مباحثے اور لفظی تکرار میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اگست میں جب راہل گاندھی انڈین اوورسیز کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرنے لندن گئے تھے تو ان کے پروگرام کا ایک ویڈیو فیس بک اور ٹوئٹر پر وائرل ہو گیا تھا۔ اس ویڈیو میں خالصتانی تحریک سے وابستہ کچھ افراد کو لندن پولیس باہر لے کر جا رہی ہے۔ ویڈیو میں دو طرح کے نعروں کی آواز آرہی ہے:
- کانگریس پارٹی زندہ آباد، راہل گاندھی زندہ آباد!
- ہندوستان مردہ آباد، ہندوستان مردہ آباد !
جب انٹرنیٹ پر لوگوں نے ان نعروں کو سنا تو ویڈیو کے تعلق سے یہ عام کیا گیا کہ خالصتانی تحریک سے وابستہ افراد کو کانگریس کی میٹنگ میں دانستہ طور پر مدعو کیا گیا تھا جہاں انہوں نے کانگریس اور راہل گاندھی کی حمایت میں اور ہندوستان کے خلاف نعرے لگائے!پریتیگاندھی،جوخودکوبی جےپی مہیلامورچہ کی سوشل میڈیا ان-چارج کہتی ہیں، انہوں نے اپنے ویڈیو ٹوئٹ میں کہا کہ راہل گاندھی کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ ملک مخالف نعرے لگانے والے لوگ ان کے پروگرام میں کیوں مدعو کئے گئے تھے؟ انہوں نے لکھا:
ABSOLUTE SHOCKER!!!
At the Indian Overseas Congress meeting in London, anti-India, pro-Khalistani protesters are participating in the event. @RahulGandhi you owe a serious explanation for this dangerous, anti-national narrative being created against India. #RahulGandhiInLondon pic.twitter.com/Te70fQrq8f— Priti Gandhi (@MrsGandhi) August 26, 2018
بوم لائیو نے اپنے انکشاف میں واضح کیا کہ:
- جن لوگوں نے ہندوستان مخالف نعرے لگائےتھےوہ نیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن کےاعلیٰ ممبران تھے
- یہ لوگ راہل گاندھی کے اس بیان سے ناراض تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 1984 سکھ مخالف واردات میں کانگریس کا ہاتھ نہیں تھا اور اس پروگرام میں وہ راہل گاندھی کے خلاف احتجاج کے لئے آئے تھے۔
- انڈین اوورسیز کانگریس نے ان لوگوں کو دانستہ طور پر مدعو نہیں کیا تھا بلکہ یہ لوگ خود زبردستی کانگریس کی میٹنگ میں شامل ہوئے تھے۔ میٹنگ میں جب ان لوگوں کو ایک خاص پوشاک اور پگڑی میں دیکھا گیا تو متظمین نے ان لوگوں کو باہر کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے۔ بعد میں اس کام کے لئے پولیس کو بلایا گیا۔
- ان لوگوں نے ایک ای میل میں اس بات کو خود بھی پختہ کیا کہ ان کو کانگریس کی طرف سے کوئی دعوت نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ لوگ از خود وہاں گئے تھے۔ وہاں جاکر وہ لوگوں کے درمیان خاموشی سے بیٹھے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ کب راہل گاندھی آتے ہیں تاکہ وہ نعرے لگائیں۔
- جیسے ہی راہل گاندھی میٹنگ میں تشریف لائےتودوطرح کےنعروں کی آواز آئی ۔ جوہندوستان کےمخالف نعرےلگےتھےوہ خالصتانی تحریک سےجڑےلوگوں نےلگائےتھے لیکن جوکانگریس کی حمایت میں نعرےلگےتھےوہ میٹنگ میں موجود دوسرے لوگوں نے لگائےتھے !
ٹائمز آف انڈیا نے خالصتانیوں سے بات کی، جس کی رپورٹ میں سب کچھ واضح ہو جاتا ہے:
TOI speaks to the Khalistani intruders who gatecrashed Rahul's event https://t.co/Eq44dogy6C
— Naomi Canton (@naomi2009) August 27, 2018
Categories: خبریں