میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔
نئی دہلی: سوموار کو نیوز ایجنسی رائٹرس کے 2 صحافیوں کو میانمار میں 7 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ دونوں صحافیوں کو روہنگیا پر رپورٹنگ کے دوران پرائیویسی کو نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ واضح ہو کہ صحافی وا لون (32)اور کیو سو او(28)کو دسمبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تب سے ہی دونوں کو ینگون کی انسین جیل میں رکھا گیا تھا۔ یہ کارروائی آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
خبر کے مطابق انھوں نے پرائیویسی لاء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ دستاویز حاصل کیے تھے۔ یہ معاملہ گزشتہ سال مسلم اقلیتی روہنگیا پر رخائن ریاست میں میانمار سکیورٹی فورس کے ذریعے کی گئی کارروائی کے بعد کی گئی رپورٹنگ سے سامنے آیا تھا۔ وہیں دونوں صحافیوں نے خود پر لگے الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ستمبر میں رخائن گاؤں میں 10 مسلم روہنگیا کے قتل کے معاملے کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔ معاملے کی شنوائی کر رہے جج یے لوین نے عدالت میں دیے اپنے فیصلے میں کہا ،’ چونکہ انھوں نے پرائیویسی لاء کے تحت جرم کیا ہے ، دونوں کو 7-7 سال کی سزا سنائی جا رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ سنیچر کو ہی 100 سے زیادہ صحافیوں اور کارکنوں نے ینگون میں ملزم صحافیوں کی حمایت میں مارچ نکالا تھا۔ ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق ؛ عدالت کے فیصلے پر میانمار میں برٹش سفیر ڈین چگ نے مایوسی ظاہر کی ہے۔ یو این اور یوروپین یونین جیسے عالمی اداروں کے علاوہ امریکا ، کناڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے بھی دونوں صحافیوں کو رہا کرنے کی بات کہی ہے۔ ادھر رائٹرس کے ایڈیٹر اسٹیفن جے ایڈلر نے کہا،’ یہ میانمار ،رائٹرس کے صحافی والون اور کیو سواو اور پریس کے لیے ایک برا دن ہے۔ ‘
وہیں، عدالت سے سزا پانے وا لوں نے کہا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور ان کو کسی طرح کا ڈر نہیں ہے ۔ لون نے کہا ،’ میں انصاف ، آزادی اور جمہوریت میں یقین کرتا ہوں۔ ‘شنوائی کے دوران دونوں صحافیوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ دوسرے افسروں کے ذریعے گرفتار کیے جانے سے پہلے دو پولیس افسروں نے ایک ریستوراں میں ان کو یہ دستاویز سونپے تھے۔
اس پر ایک پولیس افسر نے کہا کہ ایسا صحافیوں کو پکڑنے کے لیے بنائے گئے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ افسر کے مطابق روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام سے جڑی رپورٹنگ روکنے کے لیے دونوں صحافیوں کے خلاف یہ جال بچھایا گیا تھا۔
Categories: خبریں