حکومت میں ہرکوئی دوسرا موضوع تلاش کرنے میں مصروف ہے جس پر بول سکیں تاکہ روپے اور پیٹرول پر بولنے کی نوبت نہ آئے۔ عوام بھی چپ ہے۔ یہ چپی شہریوں کے خوف کا ثبوت ہے۔
خطابت کے ماسٹر کہے جاتے ہیں وزیر اعظم نریندر مودی۔ 2013 کے سال میں جب وہ ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپے کے گرنے پر دہاڑ رہے تھے تب لوگ کہتے تھے کہ واہ مودی جی واہ۔یہ ہوئی تقریر۔ یہ تقریر نہیں ملک کا راشن ہے۔ ہمیں بولنے والا رہنما چاہیے۔ پیٹ کو راشن نہیں بھاشن چاہیے۔ یہ بات بھی ان تک پہنچی ہی ہوگی کہ پبلک میں بولنے والے رہنما کی ڈیمانڈ ہے۔ بس انہوں نے بھی بولنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
پیٹرول مہنگا ہوتا تھا، مودی جی بولتے تھے۔ روپیہ گرتا تھا، مودی جی بولتے تھے۔ ٹوئٹ پر ری ٹوئٹ۔ ڈبیٹ پر ڈبیٹ۔
2018 میں ہم اس موڑ پر پہنچے ہیں جہاں 2013 کا سال قومی فراڈ کا سال نظر آتا ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے سے فراڈ کر رہے تھے۔2014 آیا۔ اخباروں میں مودی جی کی تعریف لکھنا کام ہو گیا۔ جو تعریف نہیں لکھا، اس کا لکھنے کا کام بند ہو گیا۔ دو-دو اینکروں کی نوکری لے لی گئی۔ کچھ مدیران کنارے کر دئے گئے۔ میڈیا کو ختم کر دیا گیا۔
گودی میڈیا کے دور میں میدان صاف ہے مگر وزیر اعظم پیٹرول سے لےکر روپے پر بول نہیں رہے ہیں۔ نوٹ بندی پر بول نہیں رہے ہیں۔ ابھی تو موقع ہے۔ پہلے سے بھی زیادہ کچھ بھی بولنے کا۔ نوجوانوں کو نوکری ہی تو نہیں ملی، تقریر تو مل ہی سکتی ہے۔وشو گرو کا میڈیا بھانڈ ہو گیا۔ بے حیا ہو گیا۔ میڈیا کمزور کیا گیا تاکہ عوام کو کمزور کیا جا سکے۔ جب اینکر کو ہٹایا جا سکتا ہے تو سوال پوچھنے والے عوام تو دو لاٹھی میں سال بھر خاموش رہےگی۔یہی ہندوستان چاہیے تھا نہ، یہی ہندوستان ہے، یہاں آپ کی آنکھوں کے سامنے۔
کیا وزیر اعظم 2013 کی اپنی تقریروں سے پریشان ہیں؟یا پھر 2019 کے لئے اس سے بھی اچھی تقریر لکھنے میں لگے ہیں؟وزیر اعظم تب تک اتنا تو کر سکتے ہیں کہ پرانی تقریروں کو ہی ٹوئٹ کر دیں۔ بول دیں کہ جو تب بولا تھا، وہی آج صحیح ہے۔ بار بار کیا بولنا۔ آپ یہ مانکر سن لیں کہ یہ 2018 نہیں 2013 ہے۔مہانایک بار بار نہیں بولا کرتے ہیں۔ وہ تبھی بولتے ہیں جب ان کو سنانا ہوتا ہے۔ تب نہیں بولتے ہیں جب ان کو جواب دینا ہوتا ہے۔
کیا ان کی تقریر ان کو ستا رہی ہے؟ کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ شری شری روی شنکر تو ایک ڈالر 40 روپے کا کروا رہے تھے۔ پتہ نہیں وہ اپنے شاگردوں اور چیلوں کا مقابلہ کیسے کرتے ہوںگے۔رام دیو تو نوجوانوں کو 35 روپے لیٹر پیٹرول دلوا رہے تھے۔ اب وہ بھی خاموش ہیں۔ ان کا وشو گرو ہندوستان خاموش ہے۔ اسی بزدل انڈیا کے لئے رام دیو نوجوانوں کو 35 روپے لیٹر پیٹرول بھروا رہے تھے۔ اب 86 روپے فی لیٹر پر کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو کیا-کیا اچانک یاد آ جاتا ہوگا۔ اچانک یاد آ جاتا ہوگا کہ ارے گجرات انتخاب میں سابرمتی میں پانی میں اترنے والا جہاز اتارا تھا، وہ دوبارہ کیوں نہیں اترا۔ کوئی عزت تو نہیں رہی ہے۔ چکوٹی کاٹنے لگتے ہوںگے۔یار ذرا پتا کرو، پوچھنے والے سارے اینکر ہٹا دئے گئے نہ۔ کوئی بچا ہے تو اس کو بھی نکلوا دو۔ کروڑوں بےروزگار ہیں اس ملک میں۔ نوکری دے نہیں سکا تو کیا ہوا، نوکری لے تو سکتا ہی ہوں۔ باقی آئی ٹی سیل سپورٹ میں دلیل تیار کر دے۔ ان کو اربن نکسل وادی بنوا دو۔
حکومت میں ہرکوئی دوسرا ٹاپک کھوجنے میں لگا ہے جس پر بول سکیں تاکہ روپے اور پیٹرول پر بولنے کی نوبت نہ آئے۔ عوام بھی خاموش ہے۔ یہ خاموشی ڈری ہوئی عوام کا ثبوت ہے۔ اس لئے اور بھی خطرناک ہے۔وہ کمنٹ بکس میں لکھنے لائق نہیں رہی۔سو ان بکس میں لکھ رہی ہے کہ ہماری کمائی پیٹرول پمپ پر اڑ رہی ہے۔ کیا عوام کو بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ پیٹرول 86 کے پار چلا گیا ہے؟ روپیہ 71 کے پار چلا گیا ہے۔
جب انہی سوالوں پر 2013 میں وزیر اعظم سے پوچھا جاتا تھا تب 2018 میں کیوں نہیں پوچھا جا رہا ہے؟ایسا کیا ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم روپے کی تاریخی گراوٹ پر بول نہیں پا رہے ہیں؟ رافیل ڈیل پر بول نہیں پا رہے ہیں؟وزیر دفاع بولنے والی تھیں، مگر ان کو خاموش کرا دیا گیا۔ وزیر خزانہ بلاگ لکھ رہے ہیں۔ پتا چلا کہ رافیل پوسٹل محکمہ میں شامل ہو گیا اور روی شنکر پرساد اس پر ڈاک ٹکٹ لگا رہے ہیں۔
ڈر۔ ڈر کا سوشلائزیشن ہوا ہے۔ یہ عمل پورا ہو گیا ہے۔ ڈر ہی ہے کہ کہیں کوئی سوال نہیں ہے۔ جواب کے بدلے ڈر ہے۔ آمدنی محصول کا داروغہ، تھانے کا داروغہ آپ کے گھروں میں گھس جائےگا۔ ٹی وی پر نکسل -نکسل چل جائےگا۔ اس لئے سب خاموش ہیں۔کیا سب کو خاموش رہنے کے لئے، ڈرے ہوئے رہنے کے لئے بولنے والا رہنما چاہیے تھا؟ پھر بولنے والے رہنما کو کس بات کا ڈر ہے۔ کیا ان کو بھی اب بولنے سے ڈر لگتا ہے؟ ہوتا ہے۔ کئی بار ڈراتے-ڈراتے ڈر خود کے اندر بھی بیٹھ جاتا ہے۔ جو ڈرتا ہے، وہی ڈراتا ہے۔ جو ڈراتا ہے، وہی ڈرتا ہے۔
یہ بزدل انڈیا ہے، جہاں سوال بند ہے۔ جہاں جواب بند ہے۔ ٹی وی پر جنوری سے 2019 میں مودی کے سامنے کون کا پروپگینڈا چل رہا ہے۔ عوام کے 2018 کے سوال غائب کر دئے گئے ہیں۔ عوام بھی غائب ہو چکی ہے۔ وہ بھکت بن گئی ہے یا حامی بن گئی ہے یا پتا نہیں کیا بن گئی ہے۔
جس ہندوستان میں نوکریاں نہیں ہیں، لوگوں کی آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے اس ہندوستان میں 86 روپے فی لیٹر پیٹرول خریدنے کی صلاحیت کہاں سے آ گئی ہے۔ کیا عوام اب اس ہندو مسلم کھانچے سے باہر نہیں آ پا رہی ہے، کیا اس کو باہر آنے سے ڈر لگ رہا ہے؟بزنس اسٹینڈرڈ میں مہیش ویاس نے آج پھر بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اس سال کے پہلے سہ ماہی میں جی ڈی پی 8.2 فیصد ہو گئی۔ حکومت گدگد ہو گئی۔
لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ روزگار کتنا بڑھا ہے؟ اسی دوران روزگار میں 1 فیصد کی کمی آئی ہے۔ سہ ماہی کی جی ڈی پی آرگنائزڈسیکٹر کے مظاہرہ پر مبنی ہوتی ہے۔مہیش ویاس کا کہنا ہے کہ دوسری سہ ماہی میں بھی روزگار میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ جولائی 2017 سے جولائی 2018 کے درمیان کام کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 1.4 فیصد کی گراوٹ آ گئی ہے۔ اگست میں 1.2 فیصد کی گراوٹ ہے۔ نومبر 2017 سے ہی روزگار میں گراوٹ آتی جا رہی ہے، جبکہ لیبر فورس بڑھتی جا رہی ہے۔
یعنی کام کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگ دستیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد لیبر فورس سکڑ گیا تھا۔ لوگوں کو کام ملنے کی امید ہی نہیں رہی تھی اس لئے وہ لیبر مارکیٹ سے چلے گئے۔ اب پھر سے بےروزگار لیبر مارکیٹ میں لوٹ رہے ہیں۔ مگر کام نہیں مل رہا ہے۔پھر روزگار پر کوئی سوال نہیں ہے۔ نوجوان اپنا اپنا بینر لئے مظاہرہ کر رہا ہے۔ کہیں کوئی سماعت نہیں ہے۔ جب تک وہ ہندو مسلم کر رہا تھا، تب تک وہ اپنا تھا، جیسے ہی نوکری مانگنے لگا، پرایا ہو گیا۔ جیسے سیاست اس کو فسادی بنانا چاہتی ہو، کام نہیں دینا چاہتی ہے۔
بکواسوں کی سیلاب آئی ہے۔ نیتی آیوگ کے نائب صدر ہیں راجیو کمار۔ ٹھاٹ سے کہتے ہیں کہ ضرورت پڑی تو وہ نوٹ بندی پھر کریںگے۔ معیشت کو برباد کرنے کی ایسی ہیکڑی کبھی نہیں سنی۔اسی نیتی آیوگ کے صدر وزیر اعظم مودی ہیں۔ کیا یہ ان کی بھی رائے ہے؟ جینت سنہا کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز کا کرایہ آٹو سے سستا ہو گیا ہے۔ کیا صحیح میں ایسا ہوا ہے؟
کوئی کچھ بھی بول دیتا ہے مگر سوال کا جواب نہیں دیتا ہے۔ کچھ بھی بول دیتا ہے تاکہ بحث ہونے لگے۔ تاکہ مدعا سے دھیان ہٹ جائے۔ تاکہ آپ یہ نہ پوچھیں کہ روپیہ تاریخی طور پر نیچے کیوں ہے۔ پیٹرول کے دام 86 روپے فی لیٹر سے زیادہ کیوں ہیں؟
Categories: فکر و نظر