مجھے یقین ہے کہ 21 ستمبر کو’منٹو‘کے پریمیئر پر لاہور کے قبرستان سے بھاگ کرمنٹو ممبئی پہنچ جائیں گے اور پھر نندتا اُن کو پوری دنیا میں لئے پھر ے گی!
میں نے دیکھا وہ سرحد پار سے آرہی تھی۔ ہم واگہا بارڈر پر ملے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ امرتسرکے کوچہ وکیلاں سے پیدل چلتی ہوئی آگئی ہے۔ منٹو کے محلے سے، ہم شاید منٹو کے گھر کے آس پاس رہتے تھے۔ بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں،منٹو کے بچپن کے گمنام دوست۔ میں اور نندتا داس۔ واگہا باڈر پر کھڑے اُس طرف دیکھ رہے تھے، جہاں 15 سال بشن سنگھ ایک ٹانگ پر کھڑا رہا اور ایک دن’نو مینز لینڈ ‘ میں گر کر مر گیا۔ نندتا نے کہا، فلم میں یہ سرحد بنانا بہت مشکل تھا۔
ہاں میں نے کہا، اِس سرحد پر تو لوگ ملتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں، اور کھو جاتے ہیں، جیسے سکینہ کھو گئی تھی، لاکھوں انسان قتل ہو گئے، عورتوں سے جنسی زیادتیاں ہوئیں، صرف سرحد ہی نہیں، منٹو پر فلم بنانا بہت مشکل ہے، مگر تم خار دار راستوں کی مسافر ہو، تم آسان راستوں پر نہیں چل سکتیں، منٹو، منٹو، منٹو، صبح شام، دن رات، منٹو کی باتیں، اُس کی کہانیوں کا ذکر، اُس کے کرداروں پر گفتگو، پچھلے کئی مہینوں سے منٹو ہمارے دل و دماغ اور اعصاب پر سوار تھا، منٹو جس سے ہم دونوں محبت کرتے تھے۔
محبت میں کچھ آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں، والہانہ جذبات اور منزل پر پہنچنے کا خواب کبھی بہت مشکل لگتا ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ کل صبح جب آنکھ کھلے گی تو فلم منٹو بن چکی ہوگی۔ منٹو کے اندر کبھی اُمید اور رجائیت پسندی ختم نہیں ہوتی، سچ ہمیشہ اُس کی زبان کی نوک پر اظہار کے لئے تیار رہتا ہے، مجھے یقین ہے کہ منٹو کی سچ بولنے کی جرأت اور ہمت نے نندتا کو پکارتے ہوئے کہا ہو گا، “تم مجھے کُچھ کُچھ سمجھنے لگی ہو” منٹو کا نام لو اور شروع کردو اپنا کام۔ نندتا نے قدم اُٹھایا اور سوچا کہ جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے وہ پتھر بن جاتا ہے۔
ہم واگہا باڈر سے لاہور کی طرف جا رہے تھے۔ نندتا چند مہینے پہلے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں شرکت کے لئے پاکستان آئی تھی، اُس نے کراچی جانا تھا، ایک دن لاہور میں منٹو کی بیٹیوں سے ملنے کے لئے رُک گئی، پہلی ملاقات ہوتی ہے اور نا آخری، میں تو شاید اُس کو بچپن سے جانتا تھا، ہم دونوں منٹو کو بچپن سے جانتے تھے، اُس کی تمام حرکتوں اور شرارتوں سے واقف تھے، اُس کے گھر، “سرخ کمرے” سے اُس کے ڈراما کلب اور شیراز ہوٹل تک، تمام واقعات کے جیسے چشم دید گواہ تھے۔ منٹو کا پہلا افسانہ شائع ہوا، “تماشا”- اُس پر منٹو کا نام نہیں تھا۔
نندتا چپ نہیں رہ سکتی،وہ منہ پھٹ ہے،مگر منٹو کی طرح بد زبان نہیں۔ علی سردار جعفری نے لکھا تھا، “منٹو نے بد زبانی کو ادب اور فن کا درجہ دیا تھا”۔ نندتا نے کہا، منٹو صاحب آپ بہت بہادر بنتے ہیں اور اپنے پہلے افسانے پر اپنا نام لکھتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ منٹو بھڑک اٹھا، میں انگریزوں کی حکومت سے نہیں ڈرتا، میں بچپن سے ان کے خلاف افواہیں پھیلاتا رہا ہوں، میں ڈرتا ہوں اپنے باپ سے جو گھر میں بھی جج بن کر بیٹھا ہوا ہے اور جس نے میرے ڈراما کلب میں ہارمونیم، ستار اور طبلے توڑ دیئے ہیں۔
آئندہ کبھی مجھے طعنہ نہ دینا۔ نندتا نے اپنے ہونٹ سی لئے اور خاموشی سے فلم کے سکرپٹ پر کام کرنے لگی، وہ لکھتی جا رہی تھی، منٹو اُس کو بتانا چاہتا تھا، مگر نندتا کہہ دیتی منٹو صاحب آپ بہت عظیم افسانہ نگار ہیں، آپ نے 9 فلمیں لکھی ہیں،سب باکس آفس پر ناکام، اِس سے پہلے کے منٹو چیخ اٹھتا، نندتا فوراً جانی واکر کا ایک ڈبل بنا کر پیش کرتی، منٹو خوشی سے جھوم جاتا۔ منٹو کی کہانیوں اور اُن کے کرداروں نے سکرپٹ رائٹر نندتا داس کی رہنمائی کی اور اُس سے پہلے گجرات کے فسادات کے بعد کےحالات پر ایک کامیاب فلم “فراق” بنا چکی تھی۔ نندتا کا یہ خیال درست ہے کہ منٹو سمیت ہمارے بڑے ادیب فلم کے میڈیم کو اُس طرح سے نہیں سمجھتے، جس طرح ان کو اپنے قلم اور ادب پر عبور حاصل تھا۔
فلمستان میں ملازمت تو منشی پریم چند نے بھی کی تھی، کرشن چندر نے بھی”سرائے کے باہر” بنائی اور راجندر سنگھ بیدی نے “دستک” بنائی مگر ان کے افسانوں کے مقابلے میں فلمیں ناکام رہیں۔
نندتا داس ایک جنون کا نام ہے اور وہ بھی منٹو کا جنون جس کو انگریزوں کی عدالتیں روک نہ سکیں،اور نہ پاکستان کی عدالتوں سے وہ خوف زدہ تھا، ایک دن منٹو نے علی سردار جعفری کو کہا – “یار سردار” آج افسانہ لکھنے کا مزا نہیں آیا، نہ کسی نے گالیاں دیں اور نہ مقدمہ درج ہوا۔
منٹو کے سکرپٹ پر وہ دن رات کام کرتی رہی، تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے، اور منٹو کی تخلیقی صلاحیتوں سے مرعوب ہوتے ہوئے، وہ سکرپٹ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی، مگر منٹو اُس کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا، منٹو کو قابو کرنا واقعی مشکل تھا، تر قی پسندوں نے اُس کو فحش نگار کہا، “بو” پر مقدمہ درج ہوا تو اُس نے”دھواں” لکھا – تر قی پسندوں اور رجعت پرستوں نے منٹو کے خلاف محاذ کھول لیا، منٹو نے “کالی شلوار” لکھا مقدمہ درج ہوا۔
بمبئی شہر کی غریب بستیوں اور اُن میں آباد کھولیوں میں رہنے والی ویشاؤں، دلالوں، بدمعاشوں، جرائم پیشہ لوگوں کو منٹو نے گلے سے لگا لیا۔
نندتا نے نہ صرف یہ کہ منٹو کے ادب کو سمجھا، بلکہ منٹو کی شخصیت اور اُس کے ذاتی اوصاف پر بھی کڑی نظر رکھی،ترقی پسند اور ترقی کے دشمن دونوں منٹو پر الزام لگاتے رہے، اور بہت کم نقادوں نے اِس حقیقت کو جاننے کی کوشش کی کہ منٹو ایک مضبوط نظام اخلاق کا مالک تھا، اُس کا اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار پر بہت گہرا یقین تھا، فسادات کے دوران انسان حیوان بن رہے تھے مگر منٹو”ٹھنڈا گوشت” کے ایشر سنگھ میں انسانیت تلاش کرتا رہا۔
1948 میں اپنا محبوب شہر بمبئی چھوڑ کر منٹو لاہور آ گیا۔ یہاں وہ خوش نہیں تھا۔ احمد راہی نے کہا “منٹو صاحب نے اُس وقت مرنا شروع کردیا تھا جب وہ پاکستان آئے تھے”۔
ہم دونو واگہا بارڈر پر ملے۔ راستے میں گاڑی میں باتیں ہوتی رہیں۔ چائے کے کپ پر کُچھ دیر ہوٹل میں گفتگو ہوئی۔ موبائل پر وقت ضائع نہ ہو اُس نے میرا سیل فون ضبط کرلیا، اس دوران سحر اور عمار دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ نندتا نے انہیں بلایا تھا۔ وہ منٹو کی بیٹیوں نصرت، نزہت اور نکہت سے ملنے کو تڑ پ رہی تھی۔ وہ اُن سے ملنے کے لئے چلی گئی۔ میں اُس کا بہت شکر گزار ہوں کہ وہ میرے گھر پر آئی۔مریم نے اُس کے لئے لاہور کا اسپیشل فالودہ منگوایا۔ نصرت، عمار اور خاور باتیں کرتے رہے۔وہ میرے لئے ریختہ والوں کی خالی بوتل لائی تھی جس کو مجھے بھرنا پڑ گیا۔ وہ فالودہ کھاتی رہی اور میں باتیں کرتا رہا۔
جانے سے پہلے اُس نے مجھے کپڑے کا بنا ہوا ایک تھیلا دیا، اُس میں ریختہ ویب سائٹ والوں کا ایک سوونیر تھا، سرخ رنگ کی بوتل پر نوازالدین صدیقی کا سکیچ، جو مجھے بہت پسند آیا۔ ایک کتاب، چند سطروں میں لکھا گیا ایک خط ۔ آخر ملاقات ہو گئی، اور میں اُس کی طرف دیکھتا رہ گیا کہ وہ تو بھول گئی تھی کے ہم تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
وہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آئی، کُچھ دیر ٹھہری اور دل و دماغ کو معطر کر کے چلی گئی۔
ایک دن میں لکشمی مینشن میں منٹو کے گھر صفِیہ منٹو سے باتیں کررہا تھا، اتفاق سے باری علیگ کی بیگم بھی آگئیں اور ہم بہت دیر باتیں کرتے رہے۔ صفِیہ منٹو نے کہا کہ وہ اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ “میرے مرنے کے بعد بہت لوگ آئیں گے، تمہارے پاس، مجھے اتنی شہرت ملے گی، تم سنبھال نہیں سکو گی، صفِیہ میری بات یاد رکھنا۔”
منٹو صاحب شاید جانتے تھے کے ایک دن ممبئی سے ایک پتلی پتنگ لڑکی آئے گی اور بتائے گی کہ وہ “منٹو”پر فلم بنا رہی ہے۔ منٹو جانتا تھا کہ نندتا داس اپنی فلم “منٹو” کے ذر یعے فرانس سے، آسٹریلیا اور کینیڈا تک منٹو کو نئے لوگوں سے متعارف کرائے گی۔
نوازالدین صدیقی نے اپنی اداکاری کے فن کی طاقت سے منٹو کو اوڑھ لیا۔ میں اس کو محبت اور عقیدت کے پھول پیش کرتا ہوں۔ نندتا فلم مکینگ آرٹ اور کرافٹ کو خوب جانتی ہے، اور اسکی فلم منٹو دنیا بھر میں چھا جائیگی۔
منٹو مجھے یقین ہے کہ 21 ستمبر کو “منٹو”کے پریمیئر پر لاہور کے قبرستان سے بھاگ کر ممبئی پُہنچ جائیں گے اور پھر نندتا داس اُن کو پوری دنیا میں لئے پھر ے گی!
“او پڑ دی گڑ گڑ دے اینکس دی مونگ دی دال آف دی لالٹین-“!
(مضمون نگارلاہور میں مقیم آزاد صحافی ہیں اور انہوں نے دلیپ کمار(41فلموں کا تنقیدی جائزہ)کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔)
Categories: ادبستان